حضور ﷺ کی شرم و حیا از بنتِ محمد
عدنان مدنیہ،دارالحبیبیہ دھوراجی، کراچی
ان شاء اللہ الکریم اس مضمون میں ہم حضور ﷺ کی شرم و حیا کے
بارے میں جانیں گی مگر اس سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شرم و حیا کا مطلب
کیا ہے۔
شرم و
حیا کا مطلب:حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے
شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔
اصطلاح معنی:حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔حیا
وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔شرم و حیا ایک
ایسا وصف ہے کہ یہ صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے اور یہی وہ فرق ہے جو انسانوں
اور جانوروں میں ہے۔ کیونکہ غصہ،محبت وغیرہ تو انسانوں اور جانوروں دونوں میں ہی
ہوتے ہیں، لیکن حیا کی صفت صرف انسانوں میں ہی پائی جاتی ہے۔اگر حیا نہ ہو تو پھر
انسان بہت سارے نقصانات اٹھائے گا۔کیونکہ حدیثِ مبارک میں حیا کے بارے میں رسو ِل
خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔(بخاری،2/470
،حدیث3484)
حیا کی اہمیت کا اندازہ ان فرامینِ مصطفےٰ ﷺ سے لگائیے۔
الحیا ء شعبۃ من الایمان ۔( مشکوٰة)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے
ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہےتو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1/176 ،حدیث:66
)
اس عظیم ہستی کی
شرم و حیا کے بارے میں صحابی رسول حضرت
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی
زیادہ باحیا تھے۔ (معجم کبیر،/18/206،حدیث:508)
کیا کمالِ شرم و حیا کے پیکر تھے میرے مصطفےٰ ﷺ! آخری حدیثِ
مبارک کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے
ہیں:کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی ہے تو اسے گھر کے ایک گوشے میں بٹھادیا
جاتا ہے اسے اُردومیں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں لڑکی بہت ہی شرمیلی
ہوتی ہے ، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ،کسی سے کھل کی بات نہیں کرتی۔حضور ﷺ کی
شرم اس سے بھی زیادہ تھی۔حیا انسان کا خاص جوہر ہے۔جتنا ایمان قوی مضبوط ہوگا اتنی
حیابھی زیادہ ہوگی۔ (مراة المناجیح،8 /73)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضور ﷺ کی شرم و حیا کے بارے میں لکھتے ہیں:
نیچی آنکھوں کی
شرم و حیا پر درود اونچی
بینی کی ِرفعت پہ لاکھوں سلام
آقا ﷺ کی شرم و حیا کا اندازہ بخاری شریف کی اس حدیثِ مبارک
سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ
رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت اسماء رضی اللہ عنہانے نبیﷺ سے حیض کے غسل
کے بارے
میں پوچھا تو آپﷺنے اس کو بتایا کہ وہ کس طرح غسل کرے۔پھر(
آپ نے )غسل کا طریقہ بتانے کے بعدفرمایا: کستوری لگا ہوا ایک کپڑا لے اور اس سے
طہارت کرلے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس نے کہا میں اس سےکیسے پاکیزگی
حاصل کروں ؟آپﷺنے فرمایا: اس سے پاکیزگی حاصل کرلے، وہ کہنے لگی کیسے پاکیزگی حاصل
کروں؟آپ نے تعجب سے فر مایا:سبحان اللہ!پاکیزگی حاصل کر۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں:میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو سمجھا دیا کہ خون
کے مقام یعنی شر مگاہ پر اس کو لگا دیں۔
یہ تھی پیارے رسول ﷺ کی شرم و حیا! اب اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو
افسوس!آج کل ہمارا معاشرے میں شرم و حیا کا گویا تصور ہی مٹتا جا رہا ہے۔ ہمارا
معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ حیا صرف نام کی باقی رہی رہ گئی ہے ۔میڈیا کے پروگرامز
نے حیا سوزی میں اپنا بھیانک کردار ادا کیا ہی ہے،لیکن ساتھ ساتھ اب ہاتھوں میں
موبائل نے رہی کسر بھی پوری کر دی۔افسوس! بے حیائی اتنی عام ہو چکی ہے کہ کسی شاعر
نے سچ ہی کہا ہے کہ
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا
پوچھا جواُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں: وہ عقل پہ مَردوں کی پڑ
گیا
عورتین بجائے پردے کے ایسے لباس پہنتی ہیں کہ جس سے بے
حیائی کو فروغ ملتا ہے اور حیرت ہے کہ مردوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا؟ کہاں گئی ان
کی غیرت؟اپنی خواتین کو بے حیائی سے کیوں نہیں روکتے؟ایسا مرد جو باوجودِ قدرت
اپنی عورت کو بے حیائی سے نہ روکے ،بے پردگی سے منع نہ کرے وہ دیوث ہے۔یہ دیوث کا
ٹائٹل میں نے نہیں دیا ،بلکہ حدیثِ مبارک رسول
اللہ ﷺفرماتے ہیں:ثلثۃ لاید خلون الجنّۃ العاق لوالدیہ والدیوث
ورجلۃ النسآء۔(مستدرک،بیہقی)تین لوگ جنت میں نہ جائیں گے : ماں باپ کا
نافرمان،دیّوث اور مردوں کی صورت بنانے والی عورت۔