حیا کی تعریف: حیا وہ خلق ہے جس کے ذریعے انسان قبائحِ شرعیہ کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ
کی ذاتِ اقدس میں غایت درجہ کی حیا تھی۔ حیا ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر
اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ فعل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہے۔اغضاء
وہ صفت ہے کہ جب انسان کسی ایسی چیز کو دیکھے جس کو اپنی طبیعت سے برا جانتا ہو،پھر
اس سے منہ پھیرے۔حضور ﷺ تمام اعلیٰ صفات کی طرح اس میں بھی سب سے بڑھ کر غضِ بصر
یعنی چشم پوشی کرنے والے تھے۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ کی حیا کے متعلق فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ
اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ- (پ22،الاحزاب: 53)ترجمہ
کنزالعرفان: اے ایمان والو!نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اجازت نہ ہو
جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے۔ یوں نہیں کہ خودہی اس کے پکنے کاانتظار کرتے رہو۔
تفسیر :یہ آیت
حضور ﷺ کی نعتِ پاک ہے۔اس آیت میں مسلمانوں کو اس دولت خانہ کا ادب و احترام
سکھایا گیا ہے جس میں وہ آفتابِ نبوت جلوہ گر تھے۔اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ
حضور ﷺ نے حضرتِ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور دعوتِ ولیمہ کے لوگ جماعت جماعت سے آتے تھے
اور کھاتے جاتے تھے۔لوگ کھا کر گئے مگر تین شخص کھانا کھا کر باتوں میں مشغول ہو
گئے اور باتوں کا سلسلہ اس قدر دراز ہو گیا کہ ان کا بیٹھنا حضور ﷺ پر بھاری ہوا۔حضور
ﷺ اس جگہ سے اس لیے اٹھے کہ یہ لوگ بھی ہمیں قیام فرما دیکھ کر اٹھ جائیں ، مگر وہ
حضرات نہ سمجھے۔مکان تنگ تھا اور گھر والوں کو بھی ان کی وجہ سے تکلیف ہوئی۔حضور ﷺ
وہاں سے اٹھ کر حجروں میں تشریف لے گئے۔دورہ فرما کر جو تشریف لائے تو ملاحظہ
فرمایا کہ وہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔حضور ﷺ یہ دیکھ کر پھر واپس ہو گئے۔ تب ان لوگوں
کو یہ خیال ہوا اور وہ اٹھ گئے۔اس پر یہ آیتِ کریمہ اتری۔اس آیت سے حضور ﷺ کا خلق،کمالِ
حیا اور شان معلوم ہوئی کہ آپ کو اگر کسی سے تکلیف پہنچتی تو خود نہیں فرماتے بلکہ
رب کریم ارشادفرماتا ۔
احادیثِ مبارکہ:
1۔ حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے!صرف
اتنا ہی بتادینا کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں
چھوا۔چنانچہ ایک جلیلُ القدر صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پردہ والی
دوشیزہ سے بڑھ کر حیا دار تھے۔ جب آپ کسی معاملے کو نا پسند فرماتے تو ہم اسے آپ
کے چہرے سے پہچان لیا کرتے یعنی غایتِ حیا کے سبب سے آپ اپنی کراہیت کی تصریح نہ
فرماتے تھے بلکہ ہم اس کے آثار چہرۂ انور پر پاتے۔(شمائل محمدیہ،ص 203،حدیث:341)
2۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ
بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔ آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ
عطا کردی ۔( دارمی،1/ 48،رقم:1)
3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ یہ
نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟وہ ایسا کہتا ہے! بلکہ آپ یہ فرماتے کہ فلاں قوم کیا کرتی ہے؟ یا فلاں قوم کیا کہتی
ہے؟ اس سے ان کو باز رہنے کی تلقین فرماتے اور ایسا کرنے والے کا نام نہ لیتے۔(
ابو داود،5/143)
4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوا کہ آپ نے اس
سے کچھ نہ فرمایا اور آپ کسی کی موجودگی میں ناگوار بات کی نسبت کلام نہ فرماتے تھے۔ جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:تم اس سے کہہ دیتے کہ اسے دھو ڈالے۔(ابوداود،5/143)(شمائل
محمدیہ، ص273)
5۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر نہ فرماتے
تھے اور کسی کی مکروہ بات کو اضطرارً کنایتاً فرما دیتے تھے۔ (ابن ماجہ،
ص68)
6۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ کی حیا اور تستر کی وجہ سے مجھے کبھی آپ کامحلِّ
شرم دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ (ابن ماجہ ،ص 662،1922)
وضاحت:ام
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور جانِ عالم ﷺ کی شرم و حیا کی وجہ سے آپ کے ستر کی طرف نظر نہیں کرتی تو خود حضور
ﷺ تو کیا دیکھتے! اصولی بات تو یہ ہے کہ شرمیلے انسان کے سامنے دوسرے کو مجبوراً
شرم کرنی پڑتی ہے اور ایک دوسری روایت میں بالتصریح اس کی نفی ہے ۔چنانچہ
7۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور جانِ
عالم ﷺ نے نہ کبھی میرے ستر کو دیکھا نہ میں نے کبھی حضور
ﷺکا ستر دیکھا۔ (شمائل محمدیہ، ص418)
8۔ حضرت ام سلمہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب حضور ﷺ صحبت فرماتے تو آنکھیں بند کر لیتے اور سر جھکا
لیتے۔(شمائل محمدیہ، ص418)