” حیا “ حیات سے ماخوذ ہے،کیونکہ حیات کے سبب سے علم حاصل ہوتا ہے۔جب انسان کو عیب لگنے  کے کاموں کا علم ہو تو وہ ان سےا جتناب کرتا ہے یہی حیا ہے۔

”حیا“ حیات،حس کی قوت اور لطف سے حاصل ہوتی ہے :حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جب انسان اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں اور اپنی تقصیر کو دیکھتا ہے تو اس سے جو حالت پیدا ہوتی ہے وہ حیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :الحیا شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِحیا ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔(ریاض الصالحین،ص245،حدیث:683)

قاضی عیاض اور دیگر حضرات رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں: حیا انسان کی ایک فطری صفت ہے جو اس کے اختیار میں نہیں۔اس کے باوجود اس کو ایمان کا جز کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات انسان دیگر نیک کاموں کی طرح حیا کا بھی اکتساب کرتا ہے اور اس کو اپنے قصدو اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔

حیا کے شعبوں میں سے حیا کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔تو انسان سوچے کہ حیا کی ایک شاخ کو حاصل کرنا اور اس پر مستقیم رہنا کس قدر مشکل ہے!تو اس کی تمام شاخوں پر عمل کرنا کس قدر مشکل ترین مرحلہ ہوگا!مگر حیا کو اگر حاصل کر لیا جائے تو وہ تمام شاخوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

حیا انسان کا وہ وصف ہے جو اس کو نیک کاموں پر ابھارتا ہے۔اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ملاحظہ ہو۔چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔(ریاض الصالحین،حدیث: 682) اورمسلم کی روایت میں ہےکہ حیا تمام کی تمام بھلائی ہے۔

حضور ﷺ کو اللہ کریم نے تمام اوصافِ کاملہ عطا فرمائے ہیں، کوئی بھی حضور ﷺ کے اوصاف کو شمار نہیں کرسکتا۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

آئیے!حضور ﷺ کے اوصافِ کاملہ میں سے شرم وحیا کے متعلق پڑھنے کی سعادت حاصل کرتیں ہیں۔ چنانچہ حضرت ام سلیم سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان کے پاس قیلولہ کرتے تھے۔وہ حضور ﷺ کے لئے چمڑے کا بستر بچھا دیتی تھیں،حضور ﷺ اس پر آرام فرمایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کو بہت پسینا آتا تھا تو وہ حضور ﷺ کا پسینا جمع فرما لیتی تھی۔ (مراۃ المناجیح،8/61 ،حدیث: 5534)

اس حدیث کی شرح میں ہے کہ حضور ﷺبہت حیا فرمانے والے تھے۔ جس کو شرم وحیا بہت ہو اسے پسینا بہت آتا ہے۔

ایک اور حدیثِ مبارک ملاحظہ ہو:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے، اس لئے کہ جب کوئی ایسی چیز آپ دیکھتے جو ناپسند ہوتی تو ہم اس کے آثار آپ کے چہرۂ انور سے پہچان لیتے۔

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بہت شرم وحیا فرمانے والے تھے۔بے شک!اللہ کریم نے حضور ﷺ کو تمام اوصاف میں کامل و اتم فرمایا ہے ۔جبھی تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہاتیری خِلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تیرے خالقِ حسن و ادا کی قسم

(حدائق بخشش،ص80)

حیا سے مراد شرمندہ ہونا ہے۔ حیا در اصل اس کیفیت کا نام ہے جو  کسی انسان میں عیب،برائی یا خوف کے وقت طاری ہو۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ بہترین حیا وہی ہے جو انسان کو اس چیز میں مبتلا ہونے سے روکے جس کو شریعت نے برا قرار دیا ہے۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔حضور اکرم ﷺ نے حیا کے بارے میں ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ ۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا واحد سبب شرم و حیا ہے۔ جب کسی میں شرم کا فقدان ہو جائے اور حیا باقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گا۔ جب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتا ہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے۔حضور ﷺ پردے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور ﷺ پردہ والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم لوگوں کو آپ کے چہرے سے معلوم ہو جاتی۔(بخاری،جلد 3،حدیث: 1055)

حضور ﷺ نے فرمایا :ایمان کے 70 یا 60 سے کچھ زائد شعبے ہیں۔افضل ترین شعبہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم ترین درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔حیابھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(بخاری اور مسلم نے اسے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

حیا ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔ بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے۔

حیا کی وجہ سے انسان کےقول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے۔لہٰذا باحیا انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگارِ عالم کے ہاں بھی مقبول ہو جاتا ہے،نیزقرآنِ مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم،ص 40، حدیث: 37)

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانہ رسالت سے دور ہوتی جا رہی ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔محرم نامحرم کا تصور اور شعور دے کر اسلام نے مرد وزن کے اختلاط پر جو بند باندھا تھاآج اس میں چھید(سوراخ )نمایاں ہیں۔

حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں:رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے:حیا اور ایمان دونوں ایسے ساتھی ہیں کہ جب ان میں سے ایک اٹھ جاتا ہے دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔صحابیِ رسول عمران بن حصین نے بتایا کہ ایک موقع پر نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے۔

نوجوان” جوانی دیوانی ہوتی ہے“کے مصداق بن کر اپنے مقصدِ حیات کو بھول جاتے ہیں اور زندگی کے ان قیمتی لمحات کو رضائے الٰہی والے کاموں میں گزارنے کے بجائے بے حیائی کے کاموں میں برباد کر دیتے ہیں۔ نوجوان نسل کو بے حیائی سے بچانے کے لیے بزرگانِ دین کی مثالی زندگی ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائے،اپنے احکام اور حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہِ النبی الامینﷺ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔جب آپ کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو ہم آپ ﷺ کی ناپسندیدگی کا اندازہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور (کے تاثرات) سے لگا لیا کرتے تھے۔ ( متفق علیہ )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبیِ کریم ﷺنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:اللہ پاک سے حیا کرو،جیساکہ حیا کا حق ہے۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے نبیﷺ!الحمدللہ!ہم اللہ پاک سے حیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو، بلکہ جو شخص اللہ پاک سے حیا کا حق ادا کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے،پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے،اس کی حفاظت کرے۔اسے چاہئے کہ موت اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے۔جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتاہے۔ پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ پاک سے حیا کی جس طرح حیا کا حق ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح)

اس حدیث نے انتہائی جامعیت کے ساتھ اللہ پاک کے رسول ﷺ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ اللہ پاک کے سامنے حیا کا مطلب تمام جسمانی اعضاء کو ظاہری و باطنی تمام گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہے۔ بنیادی طور پر تین باتوں کے بارے میں نبیِ اکرمﷺ نے نشاندہی فرمائی ہے۔سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے ،اس کی حفاظت کرے۔ سر کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپناسر اللہ پاک کے علاوہ کسی کے سامنے نہ جھکائے ،نہ عبادت کے طورپر اور نہ تعظیم کے طور پر۔ سر سے متعلق جتنے بھی گناہ ہیں،ان سے پرہیز کرے،اسی طرح سر کے ساتھ جو اعضاء منسلک ہیں مثلاً آنکھ، کان،زبان کی حفاظت کرے۔آنکھ کی حیا یہ ہے کہ اس سے بد نظری نہ کی جائے اور نگاہ ایسی جگہ نہ پڑے جہاں پر نگاہ ڈالنے سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔اسی طرح زبان کی حیا یہ ہے کہ زبان کے جتنے بھی گناہ ہیں ان سے بچا جائے مثلاً زبان کو غیبت سے محفوظ رکھے،چغل خوری سے محفوظ رکھے،جھوٹ سے محفوظ رکھے، بدگوئی سے محفوظ رکھے اورفحش گوئی سے محفوظ رکھے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔(متفق علیہ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جس کے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔

(متفق علیہ)

اسی طرح کان کی حیا یہ ہے کہ اپنے کانوں کو بُرائی کی باتیں اور گانے سننے سے محفوظ رکھے۔حدیث میں ہے: گانا دل میں اس طرح نفاق کو اُگاتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی پروان چڑھتی ہے۔(شعب الایمان)دوسری بات سرکارِ دو عالم ﷺنے یہ ارشاد فرمائی کہ پیٹ اورجو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے،اس کی حفاظت کرے۔ مطلب یہ ہے کہ پیٹ کو حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچائے اور حلال رزق استعمال کرے،نیزحرام سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتا۔اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)(پ18،المؤمنون:51)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ اور فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ۔ (پ2، البقرۃ:172)

حیا کی تعریف:علما ئے کرام فرماتے ہیں:حیا وہ وصف ہے جو قبیح(بری)چیزوں سے روکتا ہے۔ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ، حیا بھی ان میں سے ایک شاخ ہے۔حیا کا اسلام میں ایک اہم مقام ہے ۔حیا اور اسلام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔چنانچہ حضور اکرمﷺنے فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔(مستدرک،1/ 116،حدیث : 166)

خیال رہے کہ جہاد ایک مسلمان کو نرمی اور حکمت کے ساتھ امر بالمعروف سے باز نہیں رکھتی۔ میرے آقاﷺ حلیم طبیعت کے مالک تھے اور کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار تھے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبیِ کریمﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان ہی کو پسند کیا بشر طیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو! اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلوہوتا تو آپ اس سے اور دور ہو جاتے۔نبیِ اکرمﷺنے ارشاد فرمایا :سابقہ انبیا کے کلام میں سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں ایک یہ بات ہے کہ جب تمہیں حیا نہ آئے تو جو چاہو کرو۔( بخاری،3296)

اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہو کہ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان بُرائی اور غلطی کے ارتکاب سے باز رہتا ہے،اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔عام طور پر کسی جرم کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ باربارکسی جرم کاارتکاب کرتا ہے۔

رسول اللهﷺنے فرمایا : حیا جس چیز میں ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔اللہ پاک حضرت فاطمۃ الزہرارضی الله عنہا کے صدقے ہمیں بھی شرم و حیا عطا فرمائے۔اٰمین

شرم و حیا اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو۔وہ صفت جو انسان کو اس کام یا چیز سے بچائے جس سے اللہ پاک اور اس کی مخلوق ناپسند کرتی ہو ا سے شرم و حیا کہتے ہیں۔

شرم و حیا کی اہمیت پر احادیثِ مبارکہ

(1)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں،تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1/176،حدیث:66)

(2)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔(ابن ماجہ ، 4/461، حدیث: 4185)

پیکر شرم و حیا :ہمارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ کی شرم و حیا کا حال یہ تھا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ با حیا تھے۔(معجم کبیر، 18/206، حدیث: 508)

غور کیجیے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے!آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےحیا کی چادر کھینچ لی جائے کہ جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنی ہی وہ شرم و حیا والی ہوگی جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا شرم و حیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔

عثمانِ با حیا کی شرم و حیا :حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی شرم و حیا کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگر آپ رضی اللہ عنہ کسی کمرے میں ہوتے اور اس کا دروازہ بھی بند ہوتا تب بھی نہانے کے لیے کپڑے نہ اتارتے اور حیا کی وجہ سے کمر سیدھی نہ کرتے تھے۔(مسند امام احمد، 1/160، حدیث: 543)

اپنے زمانے کے مشہور ولی حضرت یونس بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ جوان تھے اور اکثر وقت مسجد میں ہی گزارتے تھے۔ایک مرتبہ مسجد سے گھر آتے ہوئے اچانک ایک عورت پر نظر پڑی اور دل اس طرف مائل ہوا، لیکن پھر فوراً ہی شرمندہ ہو کر تائب ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں یوں دعا کی:اے میرے پاک پروردگار! آنکھیں اگرچہ بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اب مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں یہ میری ہلاکت کا باعث نہ بن جائیں اور میں ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ میرے مالک!تو میری بینائی سلب کر لے۔ چنانچہ ان کی دعاقبول ہوئی اور وہ نابینا ہو گئے۔(عیون الحکایات، 165ملخصاً)

گناہوں سے بھرپور نامہ ہے میرا مجھے بخش دے کر کرم یا الٰہی

(وسائلِ بخشش( مرمم) ،ص110)

ہمیں چاہیے کہ شرم و حیا کو بڑھانے کے لیے شرم و حیا سے ہم اہنگ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ شرم و حیا ایسی صفت ہے جو صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے یہ جانوروں میں نہیں ہوتی اور انسان و جانور کا فرق شرم و حیا کے ذریعے ہوتا ہے۔لہٰذا اگر کسی سے شرم و حیا جاتی رہے تو اب اس میں اور جانور میں کچھ خاص فرق نہیں رہ جاتا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین نے شرم و حیا اپنانے کی بہت ترغیب دلائی ہے۔

حیا کے لغوی معنی:وقار ، سنجیدگی کے ہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پردے میں بیٹھنے والی لڑکی سے زیادہ شرمیلے(حیادار)تھے۔جب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو اس کا اثر ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے۔

نبیﷺ نے فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک ،1/176،حدیث 66)

شرم و حیا بڑھائیے۔نورِ ایمان جتنا زیادہ ہو گا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی ۔اسی لیے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلی ، 6/291،حدیث: 7463)

نبیﷺ نےفرمایا :ایمان کے 70 اور کچھ زیادہ شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔( مسلم،ص 35 )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا: جس چیز میں فحش ہو وہ اس چیز کو عیب دار کر دیتا ہے اور جس چیز میں حیا ہو وہ اسے سنوار دیتی ہے۔( الترغیب)

حیا ایسی خصلت ہے جسے اللہ پاک پسند فرماتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:تمہارے اندر دو عادتیں ایسی ہیں جسے اللہ پاک پسند فرماتا ہے، میں نے کہا:وہ کیا ہیں ؟ارشادفرمایا :برد باری اور حیا۔( الادب المفرد)

حیا جنت کی جانب رہنمائی کرتا ہے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے۔بد کلامی سنگ دلی ہے اور سنگ دلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔( ترمذی: 2009 ۔ابن ماجہ: 3392)

اللہ پاک سے شرم نہ کرنے والوں کی تنہائی !جب لوگ اللہ پاک سے شرم و حیا کو بھول جاتے ہیں تو پھر وہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں کو عام طور پر کرنے لگ جاتے ہیں۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن اللہ پاک ان کو اس غبار کی طرح کر دے گا جو اڑ جاتا ہے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! ان لوگوں کا حال ہم سے کھول کر بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی سے ان لوگوں میں نہ ہو جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: جان لو کہ وہ لوگ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے ہیں وہ رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو لیکن وہ لوگ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔(ابن ماجہ:3442)اللہ پاک مجھ گنہگار سمیت سب مسلمانوں کو حیا اور پاک دامنی کا خیال رکھنے اور بے پردگی سے بچنے کی سعادت نصیب فرماتے ہوئے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

حیا وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان بے شمار گناہوں کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجہ کی شرم و حیا تھی۔حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے!صرف اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ آپ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ تھے نہیں چھوا۔  پیارے آقا ﷺ نہایت ہی شرم و حیا کے پیکر تھے یہاں تک کہ آپ کی مجلس بھی شرم و حیا کی مجلس ہوا کرتی تھی۔حضور ﷺ کی شرم و حیا کے متعلق چند روایات ملاحظہ کیجیے:(1)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس سے بھی زیادہ شرم و حیا والے تھے جیسے کنواری لڑکی اپنے مایوں میں ہوتی ہے جب آپ کسی کام کو ناپسند فرماتے تو ہم اس کے آثار چہرۂ انور ﷺ میں پا لیتے۔(مشکاۃ المصابیح،2/563)

(2)حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔ آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ عطافرما دی ۔( بخاری،2/ 2247،رقم :5699)

(3)حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نہ تو فحش گو تھے نہ ہی لعنت کرنے والے تھے اور نہ ہی گالی دینے والے تھے ۔( دارمی ،8/ 48،رقم: 71)

ذکر کی گئی احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا ﷺ حد درجے کے شرم و حیا والے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان مضبوط ہوگا اتنی حیا زیادہ ہوگی۔ ہمیں بھی اپنے اوپر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے اندر کتنی شرم و حیا ہے! بدقسمتی کے ساتھ آج کل تو معاشرے سے حیا جیسے ختم ہی ہوتی چلی جارہی ہے !ہمیں بھی پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے شرم و حیا جیسی عظیم صفت کو اپنانا چاہئے۔اللہ پاک ہمیں گناہوں کے معاملہ میں بھی شرم و حیا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پیارے آقا ﷺکی شرم و حیا سے ایک قطرہ ہمیں بھی عطا فرمائے۔آمین

حیا کے معنی :حیا کے معنی ہیں کہ عیب لگائے جانے کے خوف سے جھینپنا ۔اس سے مراد ہے کہ وہ خوبی جو ان کاموں سے روک دے جو اللہ پاک اور لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔

اس میں ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں سے شرمانے میں اللہ پاک کی نا فرمانی نہ ہو۔اللہ پاک سے حیا اس طرح ہونی چاہئے کہ اللہ پاک کا ڈر اور خوف اپنے دل میں بٹھایا جائے اور پھر اس کام سے بچنا چاہیے جسے کرنے سے اللہ پاک کی نا راضی کا خطرہ ہو۔ اسی طرح حضرت اسرافیل کی حیا جیسا کہ وارد ہے کہ وہ اللہ پاک سے حیا کی وجہ سے اپنے پروں سے خود کو چُھپائے ہوئے ہیں ۔

حیاکی اقسام :حیا کی دو اقسام ہیں :(1) لوگوں کے معاملے میں حیا اور(2) اللہ پاک سے حیا ۔

لوگوں کے بارے میں حیا کا مطلب یہ ہے کہ حرام کاموں سے اپنی نگاہوں کو بچایا جائے۔اگر کوئی حرام کاموں سے نہ بچے تو یہ اللہ پاک کی نا راضی کا سبب بھی ہے ۔اسی لیے ہر ایک کو چاہئے کہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے بچے۔ اللہ پاک ہمیں حرام مال کمانے اور اس کو کھانے سے بچائے ۔رزق حلال کمانا عبادت اور رزق حلال کھانا عبادت ہے۔

حرام کسے کہتے ہیں ؟حرام وہ ہے جس کا ثبوت یقینی شرعی دلیل سے ہو۔ اس کا چھوڑنا ضروری اور باعثِ ثواب ہے اور اسے ایک مرتبہ بھی جان بوجھ کر کرنے والا مسلمان فاسق و جہنمی اور گناہ ِکبیرہ کا مرتکب ہے۔ دوسری قسم کا مطلب ہے کہ انسان اللہ پاک کی نعمتوں کو پہچانے اور اللہ پاک کی نا فرمانی والے کام کرنے سے بچے یعنی نافرمانی والے کام کرنے سے حیا کرے۔

حدیث شریف :حدیث شریف میں ہے کہ حیا ایمان سے ہے ۔اب حیا ایمان سے کس طرح ہے؟اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جس طرح ایمان مومن کو کفر کرنے سے روکتا ہے ،اسی ایمان ہی کی بدولت ہم کفریات سے بچتی ہیں کہ کہیں ہم کفریات بول کر کافرہ نہ ہو جائیں۔اسی طرح با حیا کو حیا نا فرمانیوں سے بچاتی ہے۔اس کی مزید وضاحت حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے ۔

اسلام میں حیا کی اہمیت :اسلام میں حیا کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔حدیث شریف میں ہے:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیا ہے۔اس لیے کہ حیا ایک ایسا خلق ہے جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل،ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات میں سے ہیں۔

ایمان کی علامات :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقاﷺ نے فرمایا:ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کاایک شعبہ ہے۔ اس حدیث میں وارد ہے کہ ایمان کی سترسے زائد علامات ہیں اور ایمان کی علامت حیا ہے ۔

حدیثِ مبارک:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقاﷺ پردے میں بیٹھنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔جب کوئی نا پسند چیز دیکھتے تو اس کا اثر ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے ۔

معلوم ہوا کہ حیا جتنی بھی زیادہ ہو اتنی ہی زیادہ اچھی ہے۔ وہ حیا جو خوفِ خدا کی وجہ سے ہو یقیناً اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے ۔چنانچہ آقاﷺ کا فرمان ہے: حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔

آقا ﷺ کا فرمانِ با صفا ہے: جب تجھے حیا نہیں تو جو چاہے کر۔(ا بنِ حبَّان،2/3،حدیث:606) کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے شرم و حیا نہ آئے تو اپنے آپ کو چوپایوں میں شمار کر۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:حیا کی غایت (یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیا کرے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں خود سے بھی حیا کرنی چاہیے۔اللہ کرے کہ ان کے صدقے ہم بھی با حیا بن جائیں۔ آمین بجاہِ النبیِ الامین

سب سے بڑا با حیا امتی:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی حیا بھی اس قسم کی ہےکہ آپ کا فرمان ہے: میں بند کمرے میں غسل کرتا ہوں تو اللہ پاک سے حیا کی وجہ سے سمٹ جاتا ہوں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا:حیا ایمان سے ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ میری امت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں ۔ اللہ پاک عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے صدقے میں ہم سب کو بھی شرم و حیا کی پیکر بنادے ۔ آمین بجاہِ النبی الامین

یاالٰہی دے ہمیں بھی دولتِ شرم و حیا حضرت عثمانِ غنی با حیا کے واسطے

حیا کی تعریف: حیا کے لغوی معنیٰ وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔ اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی برائی کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ حیا وہ خُلق ہے جس کے ذریعے انسان شریعت کی نظر میں جو کام ناپسندیدہ اور برے ہوں ان سے بچتا ہے ۔کائنات میں سب سے زیادہ حیا فرمانے والی شخصیت حضورﷺ کی حیا سے متعلق اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ (پ22،الاحزاب:53) ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔

حضورﷺ کی عفت و پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں چھوا۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورﷺ پردہ والی دوشیزہ سے بڑھ کرحیادار تھے۔ جب آپ کسی کام کو نہ پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہرہ مبارکہ میں پہچان جاتے یعنی غایتِ حیا کے سبب آپ اپنی کراہت کا اظہار نہ فرماتے تھے بلکہ ہم اس کے آثار چہرہ مبارکہ میں پاتے۔ ( سیرتِ رسولِ عربی، ص 371 تا 372)

اس لیے ہر برے قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمربھر ہمیشہ آپ کا دامن پاک و صاف رہااور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہ ہوا۔

حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضورﷺ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے آپ کو کمال ِحیا کی وجہ سے کبھی برہنہ نہیں دیکھا۔( سیرتِ مصطفےٰ، ص 614)

آپ کو کسی آدمی کے کسی عیب کی خبر پہنچتی تو حیا کی وجہ سے اس کا نام لے کر یوں نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یوں اور یوں کہتے ہیں۔

چارچیزیں انبیا علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہیں:حیا کرنا، عطرلگانا ، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔

آقاکریم ﷺ میں یہ صفت کمال درجے کی پائی جاتی تھی،یہاں تک کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کبھی آپ کا ستر نہ دیکھا ۔اسی طرح حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بچپن میں اگر کبھی آپ کا ستر کھل جاتا ہے تو آپ بہت روتے تھے۔


حیا انسان کا وہ وصف ہے جو اس کو برے اور گھٹیاکاموں سے روکتا ہے۔شرعی اعتبار سے حیا ایمان کا  وصف ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا :حیا ایمان کی نشانی ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ آئیے!حضور ﷺ کی شرم و حیا کا ذکر خیر سنتی ہیں۔

نبیِ کریم ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآن میں یہ فرمان سب سے بڑی دلیل ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ (پ22،الاحزاب:53) ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔

ایک مرتبہ ایک دعوتِ ولیمہ پر کھانا کھانے کے بعد سب لوگ چلے گئے مگر دو تین آدمی نبیِ کریم ﷺ کے گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ حضور کو ان کے بیٹھنے سے تکلیف ہوئی مگر ان سے حیا کی وجہ سے یہ نہ فرمایا کہ چلے جاؤ ۔

شفا شریف میں ہے کہ حضور ﷺکو جب کسی کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ کام کی خبر پہنچتی تو یوں نافرماتے کہ فلاں شخص یوں کہتا ہے بلکہ فرماتے کہ قوم کا کیا حال ہے کہ ایسا کرتے ہیں! اس کام سے منع کرتے تھے اور کرنے والے کا نام نہ لیتے ۔(الشفاء)اس سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے کے نام پر لوگوں کے سامنے رسوا کر دیتی ہیں۔

حدیثِ پاک میں ہے : حضور ﷺ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے۔

اس حدیث میں آپ کا مقامِ حیا بیان کیا گیا ہے کہ ایک پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ کنواری لڑکی میں شرم و حیا تبعاً موجود ہوتی ہے۔مگر جو لڑکی کنواری بھی ہو اور پردہ نشین بھی تو ظاہر ہے اس میں حیا بدرجہ اتم موجود ہوگی اور نبیِ کریم ﷺ اس سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ آپ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ کسی کے چہرے پر نظریں جما کر گفتگو نہ فرماتے تھے۔اگر اپنی مرضی اور خوشی کے خلاف کوئی بات کہنا چاہتے تو اشاروں میں کہتے۔نگاہیں جھکا کر چلتے۔

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پر لاکھوں سلام

قضائے حاجت کی ضرورت پیش آتی تو لوگوں سے دور کسی میدان وغیرہ میں چلے جاتے اور اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے جب تک زمین پر نہ بیٹھ جاتے ۔آپ کی مجلس علم،حیا اور امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ (شمائلِ نبوی،49/ 612 )

حضور انور ﷺ کبھی کسی مجلس میں کسی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے،نہ اولاد کی طرف،نہ ازواج ِ پاک کی طرف،نہ غلاموں اورخادموں کی طرف کہ اس عمل سے شاید ان کو تکلیف ہو کہ اس میں سامنے والے کی تحقیر ہوتی ہے ۔نیز یہ طریقہ متکبرین اور غرور والوں کا ہے۔دوسروں کی طرف پاؤں پھیلا کر بیٹھنا اپنی عزت اور اس کی حقارت ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔(مرآۃ المناجیح، 8/582)

ہر طرح کے برےقول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سےعمر بھر آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف رہا۔پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بےہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔(سیرتِ مصطفےٰ،ص614)

میرے آقا ﷺ حلیم طبیعت کے مالک تھے ۔لیکن آپ کی یہ حیا نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے میں کبھی آڑے نہیں آئی ،جب اللہ کی حدوں کو پامال کیا جاتا تو رسولِ مقبول ﷺ غضبناک ہوجاتے اور بدلہ لیتے تھے۔

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دور ہوتی جا رہی ہیں،شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔اگر ہم آقا ﷺ کی سیرت کو اپنالیں تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائے ۔اللہ پاک ہمیں پیکرِ حیا بنائے ۔آمین