حیا انسان کا وہ وصف ہے جو اس کو برے اور گھٹیاکاموں سے روکتا ہے۔شرعی اعتبار سے حیا ایمان کا  وصف ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا :حیا ایمان کی نشانی ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ آئیے!حضور ﷺ کی شرم و حیا کا ذکر خیر سنتی ہیں۔

نبیِ کریم ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآن میں یہ فرمان سب سے بڑی دلیل ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ (پ22،الاحزاب:53) ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔

ایک مرتبہ ایک دعوتِ ولیمہ پر کھانا کھانے کے بعد سب لوگ چلے گئے مگر دو تین آدمی نبیِ کریم ﷺ کے گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ حضور کو ان کے بیٹھنے سے تکلیف ہوئی مگر ان سے حیا کی وجہ سے یہ نہ فرمایا کہ چلے جاؤ ۔

شفا شریف میں ہے کہ حضور ﷺکو جب کسی کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ کام کی خبر پہنچتی تو یوں نافرماتے کہ فلاں شخص یوں کہتا ہے بلکہ فرماتے کہ قوم کا کیا حال ہے کہ ایسا کرتے ہیں! اس کام سے منع کرتے تھے اور کرنے والے کا نام نہ لیتے ۔(الشفاء)اس سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے کے نام پر لوگوں کے سامنے رسوا کر دیتی ہیں۔

حدیثِ پاک میں ہے : حضور ﷺ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے۔

اس حدیث میں آپ کا مقامِ حیا بیان کیا گیا ہے کہ ایک پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ کنواری لڑکی میں شرم و حیا تبعاً موجود ہوتی ہے۔مگر جو لڑکی کنواری بھی ہو اور پردہ نشین بھی تو ظاہر ہے اس میں حیا بدرجہ اتم موجود ہوگی اور نبیِ کریم ﷺ اس سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ آپ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ کسی کے چہرے پر نظریں جما کر گفتگو نہ فرماتے تھے۔اگر اپنی مرضی اور خوشی کے خلاف کوئی بات کہنا چاہتے تو اشاروں میں کہتے۔نگاہیں جھکا کر چلتے۔

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پر لاکھوں سلام

قضائے حاجت کی ضرورت پیش آتی تو لوگوں سے دور کسی میدان وغیرہ میں چلے جاتے اور اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے جب تک زمین پر نہ بیٹھ جاتے ۔آپ کی مجلس علم،حیا اور امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ (شمائلِ نبوی،49/ 612 )

حضور انور ﷺ کبھی کسی مجلس میں کسی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے،نہ اولاد کی طرف،نہ ازواج ِ پاک کی طرف،نہ غلاموں اورخادموں کی طرف کہ اس عمل سے شاید ان کو تکلیف ہو کہ اس میں سامنے والے کی تحقیر ہوتی ہے ۔نیز یہ طریقہ متکبرین اور غرور والوں کا ہے۔دوسروں کی طرف پاؤں پھیلا کر بیٹھنا اپنی عزت اور اس کی حقارت ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔(مرآۃ المناجیح، 8/582)

ہر طرح کے برےقول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سےعمر بھر آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف رہا۔پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بےہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔(سیرتِ مصطفےٰ،ص614)

میرے آقا ﷺ حلیم طبیعت کے مالک تھے ۔لیکن آپ کی یہ حیا نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے میں کبھی آڑے نہیں آئی ،جب اللہ کی حدوں کو پامال کیا جاتا تو رسولِ مقبول ﷺ غضبناک ہوجاتے اور بدلہ لیتے تھے۔

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دور ہوتی جا رہی ہیں،شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔اگر ہم آقا ﷺ کی سیرت کو اپنالیں تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائے ۔اللہ پاک ہمیں پیکرِ حیا بنائے ۔آمین