حضور ﷺ کی شرم و حیا از بنتِ
عبد الرحمن مدنیہ، فیضان آن لائن اکیڈمی ،بورے والا
حیا کی تعریف: حیا کے لغوی معنیٰ وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔یہ بے شرمی، فحاشی اوربے
حیائی کی ضد ہے۔ اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی برائی کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے
سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ حیا وہ خُلق ہے جس کے ذریعے انسان شریعت کی نظر میں
جو کام ناپسندیدہ اور برے ہوں ان سے بچتا ہے ۔کائنات میں سب سے زیادہ حیا فرمانے
والی شخصیت حضورﷺ کی حیا سے متعلق اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ
فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ (پ22،الاحزاب:53) ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ
تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔
حضورﷺ کی عفت و پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے صرف
اتنا بتادینا کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں چھوا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورﷺ
پردہ والی دوشیزہ سے بڑھ کرحیادار تھے۔ جب آپ کسی کام کو نہ پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہرہ مبارکہ
میں پہچان جاتے یعنی غایتِ حیا کے سبب آپ اپنی کراہت کا اظہار نہ فرماتے تھے بلکہ
ہم اس کے آثار چہرہ مبارکہ میں پاتے۔ ( سیرتِ رسولِ عربی، ص 371 تا 372)
اس لیے ہر برے قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے
عمربھر ہمیشہ آپ کا دامن پاک و صاف رہااور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ
سے کوئی عمل سرزد نہ ہوا۔
حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضورﷺ نہ فحش کلام
تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے
نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ میں
نے آپ کو کمال ِحیا کی وجہ سے کبھی برہنہ
نہیں دیکھا۔( سیرتِ مصطفےٰ، ص 614)
آپ کو کسی آدمی کے کسی عیب کی خبر پہنچتی تو حیا کی وجہ سے
اس کا نام لے کر یوں نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو
کیا ہوگیا ہے کہ وہ یوں اور یوں کہتے ہیں۔
چارچیزیں انبیا علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہیں:حیا کرنا،
عطرلگانا ، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔
آقاکریم ﷺ میں یہ صفت کمال درجے کی پائی جاتی تھی،یہاں تک
کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کبھی آپ کا ستر نہ دیکھا ۔اسی طرح حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بچپن میں اگر کبھی آپ کا ستر کھل جاتا ہے تو آپ بہت روتے
تھے۔