حضور ﷺ کی شرم و حیا از بنتِ محمد
یونس،جامعۃ المدینہ العزیزیہ،سیالکوٹ
شرم و حیا اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے روک
دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو۔وہ صفت جو انسان کو اس کام
یا چیز سے بچائے جس سے اللہ پاک اور اس کی مخلوق ناپسند کرتی ہو ا سے شرم و حیا
کہتے ہیں۔
شرم و
حیا کی اہمیت پر احادیثِ مبارکہ
(1)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے
ہوئے ہیں،تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1/176،حدیث:66)
(2)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب
دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔(ابن ماجہ ، 4/461، حدیث:
4185)
پیکر شرم و حیا :ہمارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ کی شرم و حیا کا حال یہ تھا کہ حضرت عمران بن
حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ با
حیا تھے۔(معجم کبیر، 18/206، حدیث: 508)
غور کیجیے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے!آج اسلام
کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےحیا کی چادر کھینچ لی جائے کہ جب حیا
ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو
جائے گا یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنی ہی وہ شرم و حیا والی ہوگی جبکہ
جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا شرم و حیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔
عثمانِ با حیا کی شرم و حیا :حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی
اللہ عنہ کی شرم و حیا کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگر آپ رضی اللہ عنہ کسی
کمرے میں ہوتے اور اس کا دروازہ بھی بند ہوتا تب بھی نہانے کے لیے کپڑے نہ اتارتے
اور حیا کی وجہ سے کمر سیدھی نہ کرتے تھے۔(مسند امام احمد، 1/160، حدیث: 543)
اپنے زمانے کے مشہور ولی حضرت یونس بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ
جوان تھے اور اکثر وقت مسجد میں ہی گزارتے تھے۔ایک مرتبہ مسجد سے گھر آتے ہوئے
اچانک ایک عورت پر نظر پڑی اور دل اس طرف مائل ہوا، لیکن پھر فوراً ہی شرمندہ ہو
کر تائب ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں یوں دعا کی:اے میرے پاک پروردگار! آنکھیں
اگرچہ بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اب مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں یہ میری
ہلاکت کا باعث نہ بن جائیں اور میں ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ میرے
مالک!تو میری بینائی سلب کر لے۔ چنانچہ ان کی دعاقبول ہوئی اور وہ نابینا ہو گئے۔(عیون
الحکایات، 165ملخصاً)
گناہوں سے بھرپور
نامہ ہے میرا مجھے بخش
دے کر کرم یا الٰہی
(وسائلِ بخشش( مرمم) ،ص110)