حیا کی تعریف:علما ئے کرام فرماتے ہیں:حیا وہ وصف ہے جو قبیح(بری)چیزوں سے روکتا ہے۔ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ، حیا بھی ان میں سے ایک شاخ ہے۔حیا کا اسلام میں ایک اہم مقام ہے ۔حیا اور اسلام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔چنانچہ حضور اکرمﷺنے فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔(مستدرک،1/ 116،حدیث : 166)

خیال رہے کہ جہاد ایک مسلمان کو نرمی اور حکمت کے ساتھ امر بالمعروف سے باز نہیں رکھتی۔ میرے آقاﷺ حلیم طبیعت کے مالک تھے اور کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار تھے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبیِ کریمﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان ہی کو پسند کیا بشر طیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو! اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلوہوتا تو آپ اس سے اور دور ہو جاتے۔نبیِ اکرمﷺنے ارشاد فرمایا :سابقہ انبیا کے کلام میں سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں ایک یہ بات ہے کہ جب تمہیں حیا نہ آئے تو جو چاہو کرو۔( بخاری،3296)

اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہو کہ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان بُرائی اور غلطی کے ارتکاب سے باز رہتا ہے،اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔عام طور پر کسی جرم کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ باربارکسی جرم کاارتکاب کرتا ہے۔

رسول اللهﷺنے فرمایا : حیا جس چیز میں ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔اللہ پاک حضرت فاطمۃ الزہرارضی الله عنہا کے صدقے ہمیں بھی شرم و حیا عطا فرمائے۔اٰمین