حیا کے معنی :حیا کے معنی ہیں کہ عیب لگائے جانے کے خوف سے جھینپنا ۔اس سے مراد ہے کہ وہ خوبی جو ان کاموں سے روک دے جو اللہ پاک اور لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔

اس میں ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں سے شرمانے میں اللہ پاک کی نا فرمانی نہ ہو۔اللہ پاک سے حیا اس طرح ہونی چاہئے کہ اللہ پاک کا ڈر اور خوف اپنے دل میں بٹھایا جائے اور پھر اس کام سے بچنا چاہیے جسے کرنے سے اللہ پاک کی نا راضی کا خطرہ ہو۔ اسی طرح حضرت اسرافیل کی حیا جیسا کہ وارد ہے کہ وہ اللہ پاک سے حیا کی وجہ سے اپنے پروں سے خود کو چُھپائے ہوئے ہیں ۔

حیاکی اقسام :حیا کی دو اقسام ہیں :(1) لوگوں کے معاملے میں حیا اور(2) اللہ پاک سے حیا ۔

لوگوں کے بارے میں حیا کا مطلب یہ ہے کہ حرام کاموں سے اپنی نگاہوں کو بچایا جائے۔اگر کوئی حرام کاموں سے نہ بچے تو یہ اللہ پاک کی نا راضی کا سبب بھی ہے ۔اسی لیے ہر ایک کو چاہئے کہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے بچے۔ اللہ پاک ہمیں حرام مال کمانے اور اس کو کھانے سے بچائے ۔رزق حلال کمانا عبادت اور رزق حلال کھانا عبادت ہے۔

حرام کسے کہتے ہیں ؟حرام وہ ہے جس کا ثبوت یقینی شرعی دلیل سے ہو۔ اس کا چھوڑنا ضروری اور باعثِ ثواب ہے اور اسے ایک مرتبہ بھی جان بوجھ کر کرنے والا مسلمان فاسق و جہنمی اور گناہ ِکبیرہ کا مرتکب ہے۔ دوسری قسم کا مطلب ہے کہ انسان اللہ پاک کی نعمتوں کو پہچانے اور اللہ پاک کی نا فرمانی والے کام کرنے سے بچے یعنی نافرمانی والے کام کرنے سے حیا کرے۔

حدیث شریف :حدیث شریف میں ہے کہ حیا ایمان سے ہے ۔اب حیا ایمان سے کس طرح ہے؟اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جس طرح ایمان مومن کو کفر کرنے سے روکتا ہے ،اسی ایمان ہی کی بدولت ہم کفریات سے بچتی ہیں کہ کہیں ہم کفریات بول کر کافرہ نہ ہو جائیں۔اسی طرح با حیا کو حیا نا فرمانیوں سے بچاتی ہے۔اس کی مزید وضاحت حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے ۔

اسلام میں حیا کی اہمیت :اسلام میں حیا کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔حدیث شریف میں ہے:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیا ہے۔اس لیے کہ حیا ایک ایسا خلق ہے جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل،ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات میں سے ہیں۔

ایمان کی علامات :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقاﷺ نے فرمایا:ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کاایک شعبہ ہے۔ اس حدیث میں وارد ہے کہ ایمان کی سترسے زائد علامات ہیں اور ایمان کی علامت حیا ہے ۔

حدیثِ مبارک:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقاﷺ پردے میں بیٹھنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔جب کوئی نا پسند چیز دیکھتے تو اس کا اثر ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے ۔

معلوم ہوا کہ حیا جتنی بھی زیادہ ہو اتنی ہی زیادہ اچھی ہے۔ وہ حیا جو خوفِ خدا کی وجہ سے ہو یقیناً اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے ۔چنانچہ آقاﷺ کا فرمان ہے: حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔

آقا ﷺ کا فرمانِ با صفا ہے: جب تجھے حیا نہیں تو جو چاہے کر۔(ا بنِ حبَّان،2/3،حدیث:606) کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے شرم و حیا نہ آئے تو اپنے آپ کو چوپایوں میں شمار کر۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:حیا کی غایت (یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیا کرے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں خود سے بھی حیا کرنی چاہیے۔اللہ کرے کہ ان کے صدقے ہم بھی با حیا بن جائیں۔ آمین بجاہِ النبیِ الامین

سب سے بڑا با حیا امتی:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی حیا بھی اس قسم کی ہےکہ آپ کا فرمان ہے: میں بند کمرے میں غسل کرتا ہوں تو اللہ پاک سے حیا کی وجہ سے سمٹ جاتا ہوں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا:حیا ایمان سے ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ میری امت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں ۔ اللہ پاک عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے صدقے میں ہم سب کو بھی شرم و حیا کی پیکر بنادے ۔ آمین بجاہِ النبی الامین

یاالٰہی دے ہمیں بھی دولتِ شرم و حیا حضرت عثمانِ غنی با حیا کے واسطے