حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ
اکرم ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔جب آپ کوئی ناپسندیدہ بات
دیکھتے تو ہم آپ ﷺ کی ناپسندیدگی کا اندازہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور (کے تاثرات) سے لگا
لیا کرتے تھے۔ ( متفق علیہ )
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبیِ
کریم ﷺنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:اللہ پاک سے حیا کرو،جیساکہ حیا کا
حق ہے۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے نبیﷺ!الحمدللہ!ہم اللہ پاک
سے حیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو، بلکہ جو شخص
اللہ پاک سے حیا کا حق ادا کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ
ہے، اس کی حفاظت کرے،پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے،اس کی حفاظت کرے۔اسے چاہئے کہ
موت اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے۔جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا
ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتاہے۔ پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ
پاک سے حیا کی جس طرح حیا کا حق ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح)
اس حدیث نے انتہائی جامعیت کے ساتھ اللہ پاک کے رسول ﷺ نے
ہم سب کو بتا دیا ہے کہ اللہ پاک کے سامنے حیا کا مطلب تمام جسمانی اعضاء کو ظاہری
و باطنی تمام گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہے۔ بنیادی طور پر تین باتوں کے بارے
میں نبیِ اکرمﷺ نے نشاندہی فرمائی ہے۔سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ مسلمان کو
چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے ،اس کی حفاظت کرے۔ سر کی حفاظت کا مطلب یہ
ہے کہ مسلمان اپناسر اللہ پاک کے علاوہ کسی کے سامنے نہ جھکائے ،نہ عبادت کے طورپر
اور نہ تعظیم کے طور پر۔ سر سے متعلق جتنے بھی گناہ ہیں،ان سے پرہیز کرے،اسی طرح
سر کے ساتھ جو اعضاء منسلک ہیں مثلاً آنکھ، کان،زبان کی حفاظت کرے۔آنکھ کی حیا
یہ ہے کہ اس سے بد نظری نہ کی جائے اور نگاہ ایسی جگہ نہ پڑے جہاں پر نگاہ ڈالنے
سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔اسی طرح زبان کی حیا یہ ہے کہ زبان کے جتنے بھی گناہ
ہیں ان سے بچا جائے مثلاً زبان کو غیبت سے محفوظ رکھے،چغل خوری سے محفوظ رکھے،جھوٹ
سے محفوظ رکھے، بدگوئی سے محفوظ رکھے اورفحش گوئی سے محفوظ رکھے۔رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا:حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔(متفق
علیہ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:بے
شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جس کے سبب جہنم کی
آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ
مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔
(متفق علیہ)