عفو کا معنیٰ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور بالکل بری الذّمہ ہو جائے مثلاً قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے، عفو یعنی معاف کرنا بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے جس کی اہمیت قرآن و حدیث میں ہونے کے ساتھ ساتھ صحابہ و تابعین اور اولیائے کرام کے کردار میں نمایاں نظر آتی ہے، چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے محبوب ﷺ کو قرآن پاک میں حکم دیا: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

ایک جگہ فرمایا: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

معاف کرنا ایک ایسا اعلیٰ ترین وصف ہے کہ قرآن کریم میں جس کو ہمت والے کام قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر ایسا ہے کہ نفس کے خلاف کوئی کام واقع ہو جائے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور صبر کرنا اسکے لئے مشکل ہو جاتا ہے تو ایسی حالت میں دوسروں کو معاف کرنا نفس پر گراں گزرتا ہے اسی لئے تو جس کام میں زحمت زیادہ ہو وہ افضل عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ معاف کرنا مشکل کام ہے مگر جب بندہ اس سے حاصل ہونے والی فضیلتوں کے بارے میں سنتا ہے تو صبر و استقامت کا دامن تھامتے ہوئے درگزر کرنے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اسی لئے علم دین میں اضافے کی نیت سے عفو و درگزر کی فضیلت کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں،

1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے، وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا: کس کے لئے اجر ہے ؟ وہ منادی (یعنی اعلان کرنے والا) کہے گا: ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلاحساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث: 1998)

2۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)

ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ کی کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

اب سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر معاف کتنی دفعہ کریں؟ تو اسکے متعلق بھی حدیث مبارکہ سے جانئے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہ سوال دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستر(70) بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث: 1956)

معلوم ہوا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً معاف کرتے رہنا چاہیے اور قرآن پاک کی آیات پر عمل کی نیت سے اور سنت مصطفیٰ ﷺ پر عمل کی نیت سے عفو و درگزر کی عادت اپنا لیجئے اور اللہ پاک کے نیک اور محبوب بندوں میں داخل ہو جائیے۔

اللہ سے دعا ہے کہ

تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم دیتا ہو واسطہ تجھے شاہ حجاز کا