"غصےکی مذمت" غصہ کسی خلاف طبیعت بات کا نفس پہ گراں گزرنا نفس کا جوش مارنا غصہ کہلاتا ہے غصہ کے اسباب بیرونی بھی ہوتے ہیں جیسے کسی سے اختلاف رائے ہوجائے اور داخلی اسباب بھی غصے کو ابھار سکتے ہیں جیسے بے چینی بے سکونی وغیرہ غصہ ایک فطری جذبہ ہے رب کائنات نے انسان کو مختلف احساسات و جذبات کے ساتھ پیدا فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی برے جذبوں سے بچنے کی صلاحیت بھی عنایات فرمائی ہے بس چاہیے کہ غصے سے بچا جائے کیونکہ غصے میں انسان شیطان کہ مکر و فریب میں آکر ناجائز افعال کا مرتکب ہوسکتا ہے یہاں تک کہ وہ قتل و غارت جیسے کبیرہ گناہ کا مرتکب بھی ہو سکتا ہے!

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے : "الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِوَالضَّرَّآءِوَالْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: "وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب" (پارہ4,آل عمران آیت 134)

{غصّے کی مذمّت پہ فرامینِ مصطفیٰ }

سیدعالمنے ارشاد فرمایا: ’’اےمُعاوِیَہ بِن حَیْدَہ! ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ)غصہ نہ کیاکرو کیونکہ غصہ ایمان کو اس طرح خراب کردیتاہے جیسے اَیلوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس) شہد کو خراب کردیتاہے۔‘‘ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال,2/209، حدیث:7709، الجزء الثالث)

تاجدار رسالت نے فرمایا: ’’بے شک! جہنم میں ایک ایسا دروازہ ہے جس سے وہی داخل ہوگا جس کا غصہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی پر ہی ٹھنڈا ہوتاہے۔‘‘ (کنزالعمال،کتاب الاخلاق، قسم الاقوال،2/208، حدیث:7696،الجزء الثالث)

{غصہ نہ کرنے کی وصیت} حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نَبِیِّ اکرم کی خدمت میں عرض کی :’’مجھے وصیت فرمائیے! ‘‘ آپ نےفرمایا :’’غصہ مت کرو۔‘‘ اس نے کئی بار یہی سوال دُہرایا آپنےہر بار یہی فرمایا کہ’’ غصہ مت کیا کرو۔‘‘ (فیضان ریاض الصالحین جلد:1,حدیث نمبر:48)

غصہ نہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ عَلَّامَہ اِبْنِ حَجَرعَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں: :’’علامہ خطابی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھَادِیْ نے فرمایا :’’لَاتَغْضَبْ‘‘ کے معنی ہیں کہ غصے کے اسباب سے بچ اور غصے کی وجہ سے جو کیفیت ہوتی ہے اسے اپنے اوپر عارض مت کر ، یہاں پر نفسِ غُصّہ سے منع نہیں کیاگیا کیونکہ وہ تو طبعی چیز ہے جو کہ انسان کی فطرت میں موجود ہوتا ہے۔

غصّے کو کس طرح ختم کیا جائے؟ حضرت عطیہ ابن عروہ سعدی سےروایت ہے فرماتے ہیں رسول الله نےفرمایا "کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وہ وضو کرے"

یہاں غصہ سے مراد شیطانی نفسانی غصہ ہے،ایمانی رحمانی غصہ مراد نہیں۔مسلمان غازی کو کافروں پر جو غصہ آوے وہ غصہ عبادت ہے جس پر ثواب ہے مگر اکثر شیطانی اور رحمانی غصہ میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے،ہم غلطی سے شیطانی غصہ کو رحمانی سمجھ لیتے ہیں۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6,حدیث نمبر:5113)

حضرتِ سَیِّدُنا سلیمان بن صُرَدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ میں شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن،اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْن کے پاس بیٹھا تھا کہ دو آدمی باہم گالی گلوچ کرنے لگے، ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اسکی رَگیں پھول گئیں۔ نبیِّ اکرم ،نورِ مُجَسَّم فرمایا : مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے اگر یہ اُسے پڑھ لے تو اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گااگر یہ’’ اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھ لے تو اس کی یہ کیفیت ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ، صحابۂ کرام عَلَیْہم الرِّضْوَان نے اسے بتایا کہ نبیِّ کریم فرماتے ہیں :’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھ لو! (فیضان ریاض الصالحین جلد:1,حدیث نمبر:46)

ایک بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا اے بیٹے! غصے کے وقت عقل ٹھکانے نہیں رہتی جس طرح جلتے تنور میں زندہ آدمی کی روح قائم نہیں رہتی۔ لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہی ہے جسے سب سے کم غصہ آتا پھر اگر وہ ایسا دنیا کے لیے کرتا ہے تو اس کا مکر و حیلہ ہے اور اگر آخرت کے لیے کرتا ہے تو یہ علم و حکمت ہے کہا گیا ہے غصہ عقل کا دشمن اور اس کی ہلاکت ہے امیر المومنین حضرت سید ناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ خطبہ میں فرمایا کرتے تھے، جو شخص غصہ سے بچ گیا اور وہ فلاح پا گیا منقول ہے : جو غصہ کی اطاعت کرے گا تو یہ اسے جہنم میں کی طرف لے جائیں گی۔ لہذا ہمیں غصہ کرنے سے بچنا چا ہے۔

1= غصہ نہ کرنا حضرت سیدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنھما فرماتے ہیں۔ کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی : مجھے کوئی مختصر بات بتا یے تاکہ میں اسے سمجھ سکوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا، غصہ نہ کیا کرو میں نے پھر یہی سوال کیا لیکن آپ نے دوبارہ یہی فرمایا غصہ نہ کیا کرو ۔ (المسند امام احمد بن حنبل, احادیث رجال من اصحاب النبی 50/9,حدیث 23198)

2= *جنت میں لے جانے والا عمل . حضرت سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یارسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ ( المعجم الاوسط، 20/2 حدیث 2353)

3= اللہ کے غضب سےبچنے والی چیز : ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی، کون ہیں۔ کونسی چیز زیادہ سخت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا غضب عرض کی مجھے اللہ عزوجل نے غصہ سے کیا چیز بچا سکتی ہے؟ فرمایا : غصہ نہ کیا کرو (مساوی الاخلاق للخریطی باب ماجاء فی فضل الحلم ,.......الخ ص162,حدیث 342)

4= غصے پر قابو کرنے والا پہلوان. حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ ہم نے ہم سے پوچھا تم پہلوان کسے سمجھتے ہو؟ ہم نے عرض کی جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، وہ پہلوان نہیں بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصے کے وقت خود کو قابو میں رکھے (مسلم ، کتاب البر و الادب، باب قبح الکذب...... الخ حدیث :2608,ص1406)

5= غصہ ایمان کو خراب کر دیتا ہے ؟ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غصہ ایمان کو یوں خراب کر دیتا ہے جیسے ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس)شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان, بافی حسن الخلق ب 6 / 311, حدیث : 8294)


غُصے کی تعریف: مفسر شهیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان عليه رحمة الحنان فرماتے ہیں: غضب یعنی غصہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع (دور) کرنے پر ابھارے۔ (مرآۃ المناجیح ج 2 ص 255ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور )

حضرت سیدنا فقيه ابواللیث سمرقندی رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْهِ تَنبيه الغافلين میں نقل کرتے ہیں : حضرت سید نا وہب بن منبه رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل کے ایک بزرگ ایک بار کہیں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک موقع پر اچانک پتھر کی ایک چٹان اوپر کی جانب سے سر کے قریب آپہنچی ، انہوں نے ذکر الله عز وجل شروع کر دیا تو وہ دور ہٹ گئی۔ پھر خوفناک شیر اور درندے ظاہر ہونے لگے مگر وہ بزرگ نہ گھبرائے اور

ذكر الله عز وجل میں لگے رہے۔ جب وہ بزرگ نماز میں مشغول ہوئے تو ایک سانپ پاؤں سے لپٹ گیا، یہاں تک کہ سارے بدن پر پھر تا ہوا سر تک پہنچ گیا، وہ بزرگ جب سجدہ کا ارادہ فرماتے وہ چہرے سے لپٹ جاتا، سجدے کیلئے سر جھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سجدہ پر منہ کھول دیتا۔ مگر وہ بزرگ اسے ہٹا کر سجدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو شیطان کھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا: یہ ساری حرکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں، آپ بہت ہمت والے ہیں، میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں، لہٰذا اب میں نے یہ طے کر لیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا، مہربانی فرما کر آپ مجھ سے دوستی کر لیجئے۔

اس اسرائیلی بزرگ نے شیطان کے اس وار کو بھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا: تو نے مجھے ڈرانے کی کوشش کی لیکن الْحَمْدُ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ میں ڈرا نہیں، میں تجھ سے ہر گز دوستی نہیں کروں گا۔ بولا : اچھا، اپنے اہل و عیال کا احوال مجھ سے دریافت کر لیجئےکہ آپ کے بعد ان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا: مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان نے کہا: پھر یہی پوچھ لیجئے کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایا : ہاں یہ بتادے ۔ بولا، میرے تین جال ہیں : (1) محل (2) غصہ (3) نشہ ۔ اپنے تینوں جالوں کی وضاحت کرتے ہوئے بولا ، جب کسی پر بجل “ کا جال پھینکتا ہوں تو وہ مال کے جال میں الجھ کر رہ جاتا ہے اُس کا یہ ذہن بناتارہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بہت قلیل ہے (اس طرح وہ محل میں مبتلا ہو کر) حقوق واجبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہو جاتا ہے۔ (اور یوں مال کے کسی جال میں پھنس کر نیکیوں سے دور ہو کر گناہوں کے دلدل میں اتر جاتا ہے)

جب پر غصہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اچھالتے ہیں، میں اس غصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں۔ غصیلا شخص علم و عمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو ، خواہ اپنی دعاؤں سے مردے تک زندہ کر سکتا ہو ، میں اس سے مایوس نہیں ہوتا، مجھے اُمید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غصہ میں بے قابو ہو کر کوئی ایسا جملہ بک دے گا جس سے اس کی آخرت تباہ ہو جائے گی۔ رہا نشہ “ تو میرے اس جال کا شکار یعنی شرابی اس کو تو میں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس بُرائی کی طرف چاہوں لئے لئے پھرتا ہوں۔ اس طرح شیطان نے یہ بتادیا، کہ جو شخص غصہ کرتا ہے وہ شیطان کے ہاتھ میں ایسا ہے، جیسے بچوں کے ہاتھ میں گیند۔ اس لیے غصہ کرنے والے کو صبر کرنا چاہیے ، تاکہ شیطان کا قیدی نہ بنے کہ کہیں عمل ہی ضائع نہ کر بیٹھے ۔ (تنبیہ الغافلین صفحہ 110

حدیث پاک میں آ تا ہے کہ شہنشاہِ خیر الانام صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک غلام کو کسی کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضر ہوا تو حضور انور، مدینے کے تاجور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دست منور میں مسواک تھی فرمایا: ” اگر قیامت میں انتقام نہ لیا جاتا تو میں تجھے اس مسواک سے مارتا۔ ( مسند ابو یعلی ج 6 ص 90 حدیث 2892دار الكتب العلمیة بیروت) دیکھا آپ نے ! ہمارے میٹھے بیٹھے آقا، شہنشاہ خیر الانام صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کبھی بھی اپنے نفس کی خاطر انتقام نہیں لیتے تھے اور ایک آج کل کا مسلمان ہے کہ اگر نو کر کسی کام میں کو تاہی کر دے تو گالیوں کی بوچھاڑ بلکہ مار دھاڑ پر اتر آتا ہے۔

بیٹھے بیٹھے اسلامی بھائیو! جب کوئی ہم سے الجھے یا بُرا بھلا کہے اُس وقت خاموشی میں ہی ہمارے لئے عافیت ہے اگرچہ شیطان لاکھ وسو سے ڈالے کہ تو بھی اس کو جواب دے ورنہ لوگ تجھے بزدل کہیں گے ، میاں ! شرافت کا زمانہ نہیں ہے اس طرح تو لوگ تجھ کو جینے بھی نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میں ایک حدیث مبارکہ بیان کرتا ہوں اس کو غور سے سماعت فرمائیے ، سن کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ دوسرے کے بُرا بھلا کہتے وقت خاموش رہنے والا رحمت الہی عزو جل کے کس قدر نزدیک تر ہوتا ہے۔ چنانچہ مسند امام احمد میں ہے،

کسی شخص نے سرکار مدینہ صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وسلّم کی موجودگی میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْہ کو بُرا کہا تو جب اُس نے بہت زیادتی کی۔ تو انہوں نے اُس کی بعض باتوں کا جواب دیا (حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی معصیت سے پاک تھی مگر ) سرکار نامدار صلی اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم وہاں سے اُٹھ گئے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْه حُضُورِ اکرم کے پیچھے پہنچے ، عرض کی، یا رسول الله ! صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم) وہ مجھے برا کہتا رہا آپ تشریف فرما رہے، جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ اُٹھ گئے، فرمایا: ”تیرے

ساتھ فرشتہ تھا، جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تو نے خود اُسے جوابدینا شروع کیا، تو شیطان درمیان میں آ کودا۔“ (مسند امام احمد بن حنبل ج3 ص 434 حدیث 9630)

جو چپ رہا اُس نے نجات پائی

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ کو بول کر بار ہا پچھتانا پڑا ہو گا مگر خاموش رہ کر کبھی ندامت نہیں اُٹھائی ہو گی۔ ترمذی شریف میں ہے ، مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی جو چُپ رہا اُس نے نجات پائی ۔ “ (سنن الترمذی ج 4 ص 225حدیث 2509دار الفکر بیروت ) اور یہ محاورہ بھی خوب ہے ، ” ایک چپ سو کو ہرائے۔

غصہ کے سبب بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں جو آخرت کیلئے تباہ کن ہیں مثلا : {1} حسد {2} غیبت {3} چغلی {4} کینہ {5} قطع تعلق {6} جھوٹ {7} آبروریزی {8} دوسرے کو حقیر جاننا {9} گالی گلوچ {10} تکبر {11} بے جامار دھاڑ {12} تمسخر (یعنی مذاق اُڑانا) {13} قطع رحمی {14} بے مروتی {15} شماست یعنی کسی کے نقصان پر راضی ہونا {16} احسان فراموشی وغیرہ۔ واقعی جس پر غصہ آجاتا ہے ، اُس کا اگر نقصان ہو جائے تو غصہ ہونے والا خوشی محسوس کرتا ہے ، اگر اُس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ راضی ہوتا ہے ، اس کے سارے احسانات بھول جاتا ہے ، تعلقات ختم کر دیتا ہے۔ بعضوں کا کا غصہ دل میں چھپا رہتا ہے اور برسوں تک نہیں جاتا اسی غصہ کی وجہ سے وہ شادی غمی کے مواقع پر شرکت اور اس سے تعلقات نہیں کرتا۔

بعض لوگ اگر بظاہر نیک بھی ہوتے ہیں پھر بھی جس پر غصہ دل میں چھپا کر رکھتے ہیں، اس کا اظہار یوں ہو جاتا ہے کہ اگر پہلے اس پر احسان کرتے تھے تو اب نہیں کرتے ، اب اُس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نہیں آتے، نہ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اگر اس نے کوئی اجتماع ! ذکر و نعت وغیرہ کا اہتمام کیا تو معاذ اللہ عَزَّ وَجَلَّ محض نفس کیلئے ہونے والی ناراضگی اور غصہ کی و کی وجہ سے اس میں شرکت۔ اس میں شرکت سے اپنے آپ کو محروم کر لیتے ہیں۔ بعض رشتے دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ آدمی لاکھ حُسن سلوک کرے مگر وہ راہ پر آتے ہی نہیں ، مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ” جامع صغیر “ میں ہے : ”جو تجھ سے رشتہ کاٹے تو اس سے جوڑ ۔ “ ( الجامع الصغیر للسیوطی ص 309حدیث (5004)

بخاری شریف کی حدیث پاک ہےمیں ہے : ” طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔“ (صحیح البخاری ج4ص 30حدیث 6114 دار الكتب العلمية بيروت )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غصے کا عملی علاج اس طرح ہو سکتا ہے کہ غصہ پی جانے اور در گزر سے کام لینے کے فضائل سے آگاہی حاصل کرے ، جب کبھی غصہ آئے ان فضائل پر غور و فکر کر کے غصے کو پینے کی کوشش کرے۔ بخاری شریف میں ہے ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وسلم میں عرض کی، یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم مجھے وصیت فرمائیے۔ ارشاد فرمایا: «غصہ مت کرو۔“ اس نے بار بار یہی سوال کیا۔ جواب یہی ملا : غصہ مت کرو۔“ (صحیح البخاری ج 4ص 31 حدیث 6116)

اکثر لوگ غُصہ کے سبب جہنم میں جائیں گے سیدنا حسن بصر ی رحْمَةُ الله تعالى عَلَيْهِ فرماتے ہیں ، اے آدمی! ا غصہ غصہ میں تو خوب اچھلتا . کہیں اب کی اچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے۔ (احیاء العلوم ج 3ص205 دار صادر بیروت )

غصے کی وجہ سے کہیں خرابیاں معاشرے میں جنم لے رہی ہیں معاشرے کو خوشحال بنانے کے لیے ہمیں غصے پر قابو کرنا ہو گا اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اللہ تعالیٰ نے انسان کو احساسات اور جذبات دے کر پیدا کیا ہے -یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے رویوں سے ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی خوشی پر خوش ہوتا ہے، وہیں اگر ناپسندیدہ اور اپنی توقعات سے مختلف امور دیکھ لے تو اس کے اندر غصہ بھی پیدا ہو جاتا ہے غصہ ایک منفی جذبہ ہے جس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو ہم اکثر دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔

اسی وجہ سے اللہ پاک اور ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں غصہ آنے پر صبر اور دوسروں کو معاف کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں غصے کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ۔ قارئین کرام آئیے! چند احادیث کریمہ غصے کی مذمت پر ملاحظہ کرتے ہیں۔

1۔ جہنم کا دروازہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جہنم کا ایک دروازہ ہے جس سے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، ج6، ص320، حدیث8331)

2۔ ایمان میں بگاڑ: حضرت بہز ابن حکیم سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی فرماتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غصہ ایمان کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا(تمہ)شہد کو۔ (شعب الایمان، ج6، ص311، حدیث8294)

3۔ غصہ تمام بُرائیوں کو اکھٹا کرتاہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے نصیحت فرمائیے آپ نے فرمایا: غصہ نہ کرو، اس آدمی نے کہا: میں نے سوچا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا وہ فرمایا، تو غصہ تمام برائیوں کو اکٹھا کر دیتا ہے۔ (المصنف عبد الرزاق، باب الغضب والغیظ وما جاء فیہ، ج10، ص238، حدیث21358)

4۔ غصہ نہ کرو: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی یار سول الله صلى الله علیہ واله وسلم مجھے کوئی مختصر عمل بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "لا تغضَب یعنی غصہ نہ کیا کرو۔ اس نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: لا تغضَب یعنی غصہ نہ کیا کرو۔(صحیح بخاری کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، ج5، ص2267، حدیث5764)

5۔ پہلوان کون: حضرت سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے پوچھا تم پہلوان کسے سمجھتے ہو؟ ہم نے عرض کی: جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ پہلوان نہیں بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔ (مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب قبح الكذب .... الخ، ص1402، حدیث2608)

غصہ ختم کرنے کا ایک طریقہ: یا درہے کہ غصہ آنے کا ایک سبب شیطان کاوسوسہ ڈالنا ہے اورجب کسی انسان کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ ’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ ‘‘پڑھ لے ،اس سے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ غصہ ختم ہو جائے گا،جیساکہ حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دو شخصوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا تو ان میں سے ایک کو شدید غصہ آ گیا اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں، اگر وہ اسے پڑھ لیتا تو ضرور اس کا غصہ چلا جاتا(وہ کلمہ یہ ہے)’’اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ ‘‘ا س شخص نے عرض کی:کیا آپ مجھے مجنون گمان کرتے ہیں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگرتجھے شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگ۔ بیشک وہی سننے والا، جاننے والا ہے۔(مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ حم السجدۃ، عمل دفع الغضب عن الغضبان، ج3، ص230، الحدیث: 3701)

اللہ پاک ہمیں غصہ کرنے سے بچنے اور غصہ آ جانے کی صورت میں اسے دور کرنے کے اِقدامات کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔


میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں غصہ انسانی طبیعت کا جذبہ ہے اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی ہوتا ہے اچھا غصہ وہ ہے جو اللہ کے لیے ہو اور غیر شرعی کاموں کو دیکھ کر پیدا ہو برا غصہ وہ ہے جو دنیا کی خاطر اور انتقام لینے کے لیے ہو آج کل اکثر غصہ دنیا کی خاطر اور انتقام لینے کے لیے ہوتا ہے اور غصے کی صورت میں شیطان انسان پر مسلط ہو جاتا ہے عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور حق و باطل میں امتیاز کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے گناہوں ( مثلاً قتل وغارت حرب و ضرب اور طلاق و شقاق وغیرہ ) کا ارتکاب انسان غصے کی حالت میں کرتا ہے تو میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں میں آپ کو غصے کی مذمّت کے بارے میں احادیث پیش کرتا ہوں

حدیث نمبر 1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ( ان الغضب من الشیطان) ترجمہ بے شک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ۔ ( بخاری: کتاب الادب: باب نمبر 4 حدیث نمبر 4784 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 773 پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی ہے مکتبہ فیض رضا پبلی کیشینز)

حدیث نمبر 2 : مسند احمد کی روایت میں ہے کہ جس آدمی کو آپ نے یہ نصیحت کی تھی وہ کہتا ہے کہ میں غور وفکر کرتا رہا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ نصیحت کیوں کی ؟ آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ غصہ تمام شرائر کو جامع ہے ۔( مسند احمد: احادیث رجال من اصحاب النبی حدیث نمبر 23171 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 773 پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام علامہ محمد دین سیالوی ہے اور مکتبہ فیض رضا پبلی کیشینز ہے)

حدیث نمبر 3 : حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غصہ ایمان کو ایسا برباد کر دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے ۔ ( شعب الایمان ،، للبیہقی ، الحدیث 8294 جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 311 اور یہ حدیث انوار الحدیث کے صفحہ نمبر 404 پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی اور مطبوعہ مدینہ العلمیہ ( دعوت اسلامی) شعبہ درسی کتب)

حدیث نمبر 4 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ، صحیح البخاری ، کتاب الادب ، باب الحذر من الغضب ، الحدیث 1614 جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 13 اور یہ حدیث انوار الحدیث کے صفحہ نمبر 404 پر موجود ہے اور کتاب کے مصنف کا نام حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی ہے اور مطبوعہ مدینہ العلمیہ ( دعوت اسلامی) ( شعبہ درسی کتب)

حدیث نمبر 5 : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے بار گاہ رسالت میں عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجیے ارشاد فرمایا غصہ نہ کرو اس نے کہی مرتبہ یہی سوال کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کرو ، ( بخاری کتاب الادب ، باب الحذر من الغضب ، 4/ 131 ، حدیث نمبر 6116 اور یہ حدیث فیضان ریاض الصالحین کی جلد نمبر 5 کے صفحہ نمبر 535 پر موجود ہے اور مطبوعہ مدینہ العلمیہ ( دعوت اسلامی) شعبہ فیضان حدیث)

حدیث نمبر 6 : ایک شخص بار گاہ رسالت میں عرض کی: کون سی شے سب سے زیادہ سخت ہے ؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا غضب آس نے عرض کی مجھے اللہ عزوجل کے غضب سے کیا چیز بچا سکتی ہے ؟ ارشاد فرمایا غصہ نہ کر ، ( مساوی الاخلاق الخرائطی ، باب ما جاء فی فضل العلم۔ الخ صفحہ نمبر 162 حدیث نمبر 342 اور یہ حدیث دین و دنیا کی انوکھی باتیں جلد اول کے صفحہ نمبر 451 پر موجود ہے اور مؤلف: امام بہاء الدین محمد بن احمد مصری شافعی اور مطبوعہ مدینہ العلمیہ ( دعوت اسلامی) شعبہ تراجم کتب)


شدت جذبات کے اظہار کا نام غصہ ہے غصہ ایک غیر اختیاری امر ہے اور انسان میں قدرتی طور پر موجود ہے عوام میں یہ جو مشہور ہے غصہ حرام ہے یہ بات بالکل غلط ہے بعض صورتوں میں غصہ ضروری بھی ہے مثلا جہاد کرتے وقت اگر غصہ نہیں ائے گا تو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے کس طرح لڑیں گے بہرحال بے ضرورت غصہ انا یہ انتہائی خطرناک ہے اکثر انسان غصے میں آکر بنے ہوئے کاموں کو بگاڑ دیتا ہے اور بعض اوقات غصے کی حالت میں تو خدا کی ناشکری اور کفر کے کلمات تک کہنے لگ جاتا ہے اور اپنے ایمان کو تباہ کر دیتا ہے

اللہ پاک نے قران پاک میں ارشاد فرمایا:الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(پارہ4سورہ آل عمران آیت134) ترجمۂ کنز العرفان: وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیک لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔

قران پاک کے علاوہ احادیث میں غصے کا کثیر جگہ پر تذکرہ ملتا ہے ائیے ان میں سے چند احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں

(1) غصہ اور ایمان: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا غصہ ایمان کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے شہد کو ایلوا ( کیمیائے سعادت مترجم ص390)

(2) غصے کو پینا: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ طاقت کے باوجود غصّہ کو پی جانے والا قیامت کے دن اللہ تعالی کی رضا خوب حاصل کرے گا اور فرمایا کہ دوزخ کا ایک دروازہ ہے جس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جنہوں نے خلاف شرع غصّہ نکالا (کیمیائے سعادت مترجم ص390)

(3) غصہ شیطان کی طرف سے ہے: حضرت عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کو پانی کی ذریعے ہی بجھایا جاتا جا سکتا ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہیے۔ ( ابو داؤد؛ کتاب الادب باب ما یقال عندالغضب 4 /327/الحدیث 4784)

(4) غصہ کرنے غصہ کرنے والا جہنم کے کنارے پر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَاغَضِبَ اِلَّا اَشفٰی عَلٰی جَھَنّم.ترجمہ: جو شخص غصّہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے. (لباب الاحیاء ترجمہ بنام ا حیاء العلوم کا خلاصہ مکتبۃ المدینہ ص248)

(5) زیادہ سخت چیز: ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ کون سی چیز زیادہ سخت ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی کا غضب عرض کی مجھے اللہ عزوجل کے غضب سے کیا چیز بچا سکتی ہے فرمایا غصہ نہ کیا کرو( مساوی الاخلاق باب ما جا فی فضل الحلم ص162حدیث342

پیارے پیارے اسلام بھائیو ہمیں چاہیے کہ جتنا بھی ہو سکے اپنے غصے پہ کنٹرول کریں حکما فرماتے ہیں کہ زیادہ غصہ کرنے والے کی عمر کم ہوتی ہے ہمیں جب بھی کسی پر غصہ ائے تو اپنے اپ کو اس طرح سمجھائیں کہ مجھے دوسروں پر تو قدرت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ عزوجل مجھ پر قادر ہے اگر میں نے غصے میں ا کر کسی حق تلفی وغیرہ کر دی تو قیامت کے دن اللہ عزوجل سے غضب سے کس طرح محفوظ رہ سکوں گا غصے کے وقت اگر ہم مذکورہ احادیث میں وارد مذمت کو ذہن نشین رکھیں گے تو انشاءاللہ عزوجل غصہ کم ہو سکتا ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے غصے پر کنٹرول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسرے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے


ابھی ہم انشاء اللہ الکریم غصہ کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کرئے گئے آج کے دور میں غصہ کی وباء بہت زیادہ پھیل رہی ہے اور اسی غصہ کی وجہ سے ہم اپنے پیارے اور قریبی رشتے داروں سے اختلافات کرتے رہتے ہے اور اسی وجہ سے رشتے ختم کر دیتے ہیں. ہم اپنے دوستوں سے دوستی کو ختم کر دیتے ہیں۔ جبکہ بڑی شان والے و مولی اے آقا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جہنم کا ایک دروازہ ہے جس سے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے(شعب الایمان ج 6 ص 360 حدیث (133)

اب ہم دیکھے تو ہمارا بھی یہی حال ہے کہ جب تک ہم اپنے غصہ کی وجہ سے اللہ پاک کی نافرمانی نہ کر لیں تو ہمارا غصہ بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا اب یہ قطع تعلقی ہو یا کوئی اور نافرمانی اللہ پاک۔

ٹھنڈا ہو جس کا غصہ ہمیشہ گناہ سے

دوزخ میں جا پڑے گا وہ مخصوص راہ سے.

حضرت سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائے جو مجھے جنت میں داخل کر دے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا تَغصبُ وَلَكَ الْجَنَّة " یعنی غصہ نہ کیا کرو تو تمہارے لیے جنت ہے.( معجم اوسط ج 2 ص 20 حدیث2353)

ہمیں اس حدیث پاک پہ بھی توجہ کرنی چاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں جانے کا طریقہ ارشاد فرما دیا ہے کہ غصہ نہ کروں تو تم جنت میں جاو گے اور ہم سب بھی یہی چاہتے ہے کہ جنت میں جائے گو ضروری ہے کہ ہم بھی اپنا غصہ ختم کر دیں اسی طرح جام کوثر پلانے والے شفاعت فرمانے والے پیارے پیارے آقا کا پیارا پیارا ارشاد " بخاری شریف" میں ہے. طاقت ور وہ نہیں ہے جو پہلوان ہوں دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے. بخاری ج4 کے ص 130 حدیث کے 4144)

اسی طرح ایک اور مقام پہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ارشاد فرمایا: جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک(یعنی عذاب ) ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک (یعنی عذاب) نہ کروں گا ۔ الفردوس ج 3 ص 129 حديث 4448)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ کم سب کو اس وباء سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے


اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم الحمدللہ دین اسلام کی خوبصورتی اور اس کی تحسین میں جو چیزیں شامل ہیں ان میں ایک چیز یہ بھی ہے کے ہمارے مذہب اسلام نے ہمیں ان تمام چیزوں سے منع کیا اور سختی کے ساتھ روکا ہے جو معاشرے کا سکون برباد کرتیں اور اور آپس میں رنجش و نفرتیں پیدا کرتی ہیں ان میں سے ایک بڑی چیز غصّہ بھی ہے۔ پیارے اسلامی بھائیو! یہ بات نہایت ہی قابل غور ہے کہ غصہ ایک ایسی بیماری ہے جو آپس کی محبتوں کا قتل کر دیتی ہے۔ غصہ ہی وہ خطرناک وبا ہے جو ایک شخص کی پر سکون شادی شدہ زندگی کو طلاق کے دہلیز تک لے آتی ہے اور وہ شخص پھر عمر بھر اس پر پچھتاتا رہتا ہے ۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں غصے کی وبا سے اپنی اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں رکھے۔(آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم)

غُصّے کی تعریف : مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: غَضَب یعنی غُصّہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پر اُبھارے۔(مرأۃ المناجیح)

کسی نے کیا خوب لکھا ہے :

سن لو نقصان ہی ہوتا ہے بِالآخِر ان کو

نفس کے واسِطے غُصّہ جو کیا کرتے ہیں

غصے کی مذمت پر 4 احادیث طیبہ ملاحظہ ہوں :

( 1 ) پٹائی کا کَفّارہ: مسلم شریف میں ہے ، حضرتِ سیِّدُنا ابو مسعود انصا ری رَضِیَ اﷲُتَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :میں اپنے غلام کی پِٹائی کر رہا تھا کہ میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ،’ ’ اے ابو مسعود! تمہیں علم ہونا چاہیے کہ تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ہو اللہ عَزَّوَجل سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ہے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھاتو وہ رسولُ اﷲ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تھے۔ میں نے عرض کی:یارسولَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ھُوَ حُرٌّ لِوَجْہِ اللہِ یعنی یہ اللہ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:اگر تم یہ نہ کرتے توتمہیں دوزخ کی آگ جلاتی یا فرمایا کہ تمہیں دوزخ کی آگ چھوتی ۔ (صحیح مسلم ص 905 حدیث نمبر 35 دار ابن حزم بیروت)

( 2 ) شہنشاہِ خیرالانام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایک غلام کو کسی کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضِر ہوا توحُضُورِ انور، مدینے کے تاجور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دستِ منوّر میں مِسواک تھی فرمایا:’’اگر قِیامت میں انتِقام نہ لیا جاتا تو میں تجھے اِس مِسواک سے مارتا۔‘‘ ( مُسنَدِ ابو یَعلٰی ج۶ ص۹۰ حدیث ۶۸۹۲دار الکتب العلمیۃ بیروت)

( 3 ) حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: جہنم کا ایک دروازہ ہے جس سے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ (شعب الایمان ج 6 ص 320 حدیث نمبر 8331)

( 4 ) حضرت سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ عنہ کا غصے کی مذمت پر فرمان ہے کہ : اے آدمی تو غصے میں خوب اچھلتا ہے کہیں اب کی اچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے ۔ (احیاء العلوم ج 3 ص 205)

اے عاشقان رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ان احادیث طیبہ میں ہمارے لیے واضح سبق ہے کہ ہمیں غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے کہ تھوڑے سے وقت کا کیا ہوا غصہ اور اس غصے پر کیا ہوا عمل بسا اوقات زندگی بھر کا پچھتاوا بن جاتا ہے ۔غصے سے بچنے کے حوالے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے بہترین مثال ہے ۔

مزید غصے سے بچنے کے لیے امیر اہلسنت شیر اہلسنت رہنماء اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ کے رسالے ( غصے کا علاج ) کا مطالعہ لازمی فرمائیں اللہ پاک ہمیں دونوں جہانوں کی بھلائیاں نصیب فرمائے آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم 


اپنےآپ کو تکلیف سے دور کرنےیا تکلیف کے ملنے کے بعد اس کابدلہ لینےکےلیےخون کاجوش مارنا”غصہ وغضب“کہلاتاہے۔ غصہ ایک باطنی مرض ہے جسے قابو میں رکھنا انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ غصے کو قابو میں رکھنے سے انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے، اس کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، اور معاشرے میں امن و امان قائم رہتا ہے۔

غصہ پرقابوپانااللہ کےغضب سےبچاتاہے:حضرت سیِّدُنا ابن عَمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے غضب سے مجھے کیا چیز بچاسکتی ہے؟ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا:غصہ نہ کیاکرو۔(مسندامام احمدبن حنبل،ج6،ص194،حدیث6634،دارالحدیث)

اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں ہے: ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: کون سی چیز زیادہ سخت ہے؟ آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا:اللہ عَزَّ وَجَلَّکا غضب ۔عرض کی:مجھے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے غضب سے کیا چیز بچاسکتی ہے؟ فرمایا: غصہ نہ کیاکرو۔( مساویٔ الاخلاق للخرائطی ، باب ماجاء فی فضل الحلم...الخ ، ص۱۶۲،حدیث328،مکتبۃالسوادی للتوزیع)

غصہ نہ کیاکرو: حضرت ابوھریرہ رِضَیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ روایت ہےکہ ایک شخص نے رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے کوئی مختصر عمل بتائيے؟آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:لَا تَغْضَبْ یعنی غصہ نہ کیا کرو۔ اس نے دوبارہ یہی سوال کیاتو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: لَا تَغْضَب یعنی غصہ نہ کیا کرو۔(صحیح بخاری ،کتاب الادب،باب الحذر عن الغضب،ج5،ص2267،حدیث 5765،دارابن کثیر)

غصہ ایمان کو خراب کردیتاہے: حضرت بھز بن حکیم اپنےوالد اور وہ اپنےوالد(یعنی حضرت بھز بن حکیم کےدادا ) رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَسےروایت کرتےہیں نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:غصہ ایمان کو یوں خراب کردیتاہے جیسے ایلوا(ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس )شہد کو خراب کردیتاہے۔(شعب الایمان،حسن الخلق،فصل فی ترک الغضب ۔۔الخ،ج6،ص311،حدیث8294،دارالکتب العلمیہ)

غصہ شیطان کی طرف سے ہے: حضرت زیدبن اسلم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتےہیں نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور غصہ سے ابن آدم کے دل میں دو وار ہوتے ہیں ،کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح اپنی رگیں بکھیرتا ہے (راوی کہتےہیں میراگمان ہے انہوں یہ بھی کہا تھاکہ)اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ (شعب الایمان،حسن الخلق،فصل فی ترک الغضبالخ،ج6،ص311، حدیث 8292، دارالکتب العلمیہ)

غصہ پرقابوپانا عیب چھپانےکاذریعہ ہے: نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:جو شخص اپنے غصے پر قابو پاتا ہےاللہ عَزَّوَجَلَّاس کا عیب چھپاتا ہے۔(المعجم الکبیر،ج12،ص353،حدیث13646،مکتبہ قاہرہ)

پہلوان وہ ہےجو غصہ میں اپنے آپ کو قابو میں رکھے:حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سےروایت ہیں کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں:حضورنبیّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےہم سےپوچھا تم پہلوان کسے سمجھتے ہو؟ ہم نے عرض کی : جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:وہ پہلوان نہیں بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پرقابو رکھے۔(صحیح مسلم، کتاب البروالصلة والآداب، باب قبح الکذبالخ،ج8،ص30، حدیث: 2608،دارالطباعۃالعامرہ)

غصہ پینےوالےاللہ عزوجل کےمحبوب بندےہیں: اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشادفرماتاہے:﴿الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِوَالضَّرَّآءِوَالْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔(پارہ4،سورہ آلِ عمران،آیت نمبر 134)

اس سے معلوم ہوا کہ غصہ پرقابو پانے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہیں۔ہمیں بھی چاہئےکہ جب غصہ آئے تواسے قابومیں رکھیں اورہر اس کام سے اجتناب کریں جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں رسوائی کا سبب ہو۔اللہ عزوجل ہمیں غصہ پرقابوپانےکی توفیق عطافرمائے۔اوراپنےمحبوب بندوں میں شامل فرمائے۔(آمین)

بعض کُفریہ کلمات غصے میں ادا ہو جاتے ہیں ذرا محتاط رہیے ۔

اے عاشقانِ رسول! شیطان نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ غصےوالا انسان شیطان کے ہاتھ میں اس طرح ہوتاہے جیسے بچّوں کے ہاتھ میں گیند (Ball) ۔ لہٰذا غصے کا علاج کرنا ضروری ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غصے کے سبب شیطان کفر بکوا کر سارے اعمال برباد کروا ڈالے ۔ ’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے : ’’کسی سے کہا کہ گناہ نہ کر ورنہ خدا تجھے جہنَّم میں ڈالے گا ۔ ‘‘ اُس نے کہا: میں جہنَّم سے نہیں ڈرتا یا کہا: خدا کے عذاب کی کچھ پروا نہیں ۔ یا ایک نے دوسرے سے کہا :’’تو خداسے نہیں ڈرتا ؟‘‘ اُس نے غصے میں کہا: نہیں ۔ یا کہا: خدا کیا کر سکتا ہے ؟اِس کے سواکیا کرسکتا ہے کہ دوزَخ میں ڈا ل دے یا کہا: ’’خدا سے ڈر ۔ ‘‘ اُس نے کہا: خدا کہاں ہے ؟یہ سب کلماتِ کفر ہیں ۔ (بہارِشریعت ج۲ص۴۶۲ بحوالہ عالمگیری ج ۲ص۲۶۰، ۲۶۲)

غُصّے کا علاج کرنا فرض ہے: حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’غصے کا علاج اور اس معاملے میں محنت و مشقت برداشت کرنا (کئی صورتوں میں ) فرض ہے ، کیونکہ اکثر لوگ غصے ہی کے باعث جہنَّم میں جائیں گے ۔ ‘‘ (کیمیائے سعادت ج ۲ ص ۶۰۱ )

کہیں اب کی اُچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے ! حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اے آدمی!تو غصےمیں خوب اُچھلتا ہے ، کہیں اب کی اُچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے ۔ (احیاء العلوم ج۳ص۲۰۵)

اے پیارے بھائی!غصے ‘‘ کی عادت نکال دے ’’غصّہ‘‘ کہیں نہ نار میں تجھ کو اُچھال دے

غُصّے کی تعریف: غضب یعنی غصّے کے معنٰی ہیں : ثَوَرَانُ دَمِ الْقَلْبِ اِرَادَۃَ الْاِنْتِقَام ۔ یعنی ’’بدلہ لینے کے اِرادے کے سبب دل کے خون کا جوش مارنا ۔ ‘‘(المفردات للراغب ص۶۰۸) مفسرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’غضب یعنی غصہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پر اُبھارے ۔ ‘‘ (مراٰۃ المناجیح ج۶ ص۶۵۵)

پانچ 05فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

غصے پر قابو پانے کے متعلق پانچ 05 فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

01جنَّت کی بشارت: حضرتِ سیِّدُناابو الدَّرداء رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی: یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے ؟ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’لَا تَغْضَبْ وَلَکَ الْجَنَّـۃُ‘‘یعنی غصہ نہ کیا کرو، تو تمہارے لئے جنت ہے ۔(معجم اوسط ج۲ص۲۰ حدیث: ۲۳۵۳)

02طاقت وَر کون؟: جامِ کوثر پلانے والے ، شفاعت فرمانے والے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پیارا پیارا ارشاد ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے : ’’طاقت وَر وہ نہیں جو پہلوان ہو، دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت وَر وہ ہے جوغصےکے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے ۔ ‘‘(بخاری ج۴ص۱۳۰حدیث ۶۱۱۴)

03غصّہ روکنے سے کیا ملے گا!! فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:اللہ پاک فرماتا ہے :’’جو اپنے غصےمیں مجھے یاد رکھے گا میں اُسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک (یعنی عذاب )ہونے والوں کے ساتھ اُسے ہلاک(یعنی عذاب ) نہ کروں گا ۔ ‘‘ (اَلْفِرْدَوْس ج۳ص۱۶۹حدیث۴۴۴۸)

04غُصّہ پینے کی فضیلت: سرکارِ مدینۂ منوَّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظّم ہے : جوغصہ نکالنے پر قدرت ہونے کے باوجود پی جائے ، تو اللہپاک قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی خوش نودی سے معمور (یعنی بھر پور) فرمادے گا ۔ (جَمْعُ الْجَوامِع ج ۷ ص ۲۶۹ حدیث ۲۲۹۹)

05غُصّہ پینے والے کیلئے جنّتی حُور: اللہ پاک کے پیارے حبیب، اپنی امت کو بخشوانے والے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:جس نے غصےکوروک لیا حالانکہ وہ اسے جاری( یعنی نافذ) کر نے پر قدرت رکھتا تھا، تواللہ پاک قیامت کے دن اُس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائے گااور اِختیار دے گا کہ جس حور کو چاہے لے لے ۔ ( ابو داوٗد ج۴ ص۳۲۵ حدیث۴۷۷۷)

خدا کی پناہ کے نو حروف کی نسبت سے غصّے کے متعلق/09/انمول مدنی پھول

{۱}بعضوں کا مزاج ماچس کی تیلی کی طرح ہوتا ہے کہ ذراسی رگڑ پر بھڑک اُٹھتے ہیں {۲}بعضوں کا غصہ حماقت سے شروع ہوکر ندامت پر ختم ہوتا ہے {۳}غصے کے وقت انسان جذبات میں آ کر صحیح و غلط کی تمیز (یعنی فرق) بھول جاتا ہے ٭غصے کی حالت میں فیصلوں سے پرہیز کیجئے کیونکہ اُبلتے پانی میں اپنا عکس(یعنی سایہ) دکھائی نہیں دیتا {۴} خود کو’’ اپ سیٹ‘‘ کرنے والے جملوں سے پرہیز کیجئے مثلاًیہ کہ میں ہرگز برداشت نہیں کرسکتا، میں بہت غصّے والا ہوں ، میرا غصہ بہت خراب ہے {۵}دوسرے کو یہ مت کہا کریں کہ تم جلالی ہو تم کوغصہ بہت آتا ہے ، تم چڑچڑے ہو وغیرہ کہ اس طرح نفسیاتی طور پر ہو سکتا ہے وہ غصےلا(یعنی غصّے والا ) بن جائے {۶}جب غصےکی کیفیت طاری ہو تو زور زور سے سانس لینے کے بجائے دھیمے انداز میں سانس لیں ، اِنْ شَاءَ اللہ اس سے پٹھوں (Muscles) کو آرام ملے گا اور جسم ایسے کیمیکلزخارج نہیں کرے گا جو آپ کو بے قابو کرکے سزا دینے یا بدلہ لینے پر اُکسانے کا سبب بنیں {۷}غصے کی حالت میں کسی پرسُکون مقام مثلاً مکّے مدینے ، خانۂ کعبہ یا سبز سبز گنبد شریف کا تصوُّر کیجئے ، یہ تصوُّر جتنا بڑھے گا ، اِنْ شَاءَ اللہ آپ کا غصہ اُتنا ہی کم ہوتاچلا جائے گا {۸}غور کیجئے کہ کیا چیز آپ کو غصے کی حالت میں بے قابو کردیتی ہے ، اُس سے جان چھڑانے کا طریقہ طے کر لیجئے ، جب کبھی غصہ آتا محسوس ہو فوراً اس طریقے پر عمل شروع کردیجئے {۹} غصہ کرنا ہی ہے تو اللہ پاک کے مومن بندوں پر نہیں ، نفس و شیطان پر کیجئے جو گناہوں پر اُبھارتے رہتے ہیں ۔

تم نہ بندوں پہ ’’غصّہ‘‘ برادر کرو

نفس و شیطان پہ ’’غصّہ‘‘ برابر کرو

(’’برابر ‘‘کے ایک معنٰی ’’ ہمیشہ‘‘ بھی ہے )


اللہ تعالی نے انسان کو احساسات اور جذبات دے کر پیدا کیا ہے یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے رویوں سے ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی خوشی پر خوش ہوتا ہے وہی اگر نہ پسندیدہ اور اپنے توقعات سے مختلف امور دیکھ لے تو اس کے اندر غصہ بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ اگر غصہ پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو انسان دوسرے کے نقصان کے ساتھ ساتھ اپنا بھی نقصان کر بیٹھتا ہے اس لیے اسلام غصے کو ضبط کرنے کا حکم دیتا ہے اور ہمیں غصہ کرنا بھی ہے تو صرف اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کے لیے کرنا ہے انسان غصے میں اپنے اچھے دوستوں سے اور رشتے داروں سے بھی دور ہو جاتا ہے اور وہ اس انسان کو اچھا بھی نہیں سمجھتے ۔ اب میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں

، (حدیث ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نصیحت فرمائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کیا کرو اس نے بار بار یہی سوال کیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بار بار یہی فرمایا۔ ( بخاری شریف ج 4 ص 131 حدیث 6116 )

( حدیث ) آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا طاقتور اور بہادر وہ نہیں جو کشتی لڑنے سے غالب آئے بلکہ طاقتور اور بہادر وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے اپ پر قابو پائے ( بخاری شریف حدیث 6114 ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غصہ پر قابو پا لینے والا انسان ہی سب سے بڑا طاقتور اور بہادر ہے آپ کی بارگاہ میں ایک اور حدیث بیان کرتا ہوں

( حدیث) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو کشتی کر رہے تھے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہو رہا ہے انہوں نے کہا فلاں آدمی جس سے بھی کشتی کرتا ہے اس سے بچھڑ دیتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں اس سے زیادہ طاقت والا آدمی نہ بتاؤں وہ آدمی جس سے کسی نے غصہ دلانے والی بات کی تو وہ اپنے غصے کو پی گیا پس اس پر وہ غالب آ گیا اپنے شیطان پر غالب آ گیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر غالب آ گیا ۔ ( رواہ البزار وبسند حسن فتح الباری 10 کتاب الآداب باب 76

حدیث حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے پاس دو آدمیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو گالی دی۔ ان میں سے ایک کا چہرہ غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا۔ رسول اللہ نے اس آدمی کی طرف دیکھ کر فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر وہ اسے کہہ لے تو اس سے (غصہ کی حالت) جاتی رہے گی (وہ کلمہ یہ ہے) اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم۔ (بخاری) (مسلم ،کتاب البر والصلۃ)

حضرت عطیہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: غصہ شیطان (کے اثر) سے ہوتا ہے۔ شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرلے۔ (ابوداوُ د) (سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب الادب :4784)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا بندہ (کسی چیز کا) ایسا کوئی گھونٹ نہیں پیتا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پینے سے بہتر ہو جس کو وہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پی جائے۔(مسند احمد)

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جو شخص غصہ کو پی جائے جبکہ اس میں غصہ کے تقاضا کو پورا کرنے کی طاقت بھی ہو (لیکن اس کے باوجود جس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہ دے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ساری مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اس کو اختیار دیں گے کہ جنت کی حوروں میں سے جس حور کو چاہے اپنے لئے پسند کرلے۔(ابوداوُد) (جامع ترمذی ،جلد اول باب البر والصلۃ :2021)


غصہ کا معنیٰ : غضب یعنی غصّے کے معنٰی ہیں : ثَوَرَانُ دَمِ الْقَلْبِ اِرَادَۃَ الْاِنْتِقَام ۔ یعنی ’’بدلہ لینے کے اِرادے کے سبب دل کے خون کا جوش مارنا۔ ‘‘(المفردات للراغب ص608) مفسرشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’غضب یعنی غصہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پراُبھارے ۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح ج6 ص655)

مذکورہ بالا سطور سے ہمیں غصے کی تعریف سمجھ آئ۔ اب آئیے غصے کی مذمت کے حوالے سے احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں۔

(1)- اللہ کے آخری نبی محمد عربی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : جہنَّم کا ایک دروازہ ہے ، جس سے وہی لوگ داخِل ہوں گے جن کا غصّہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے ۔ (شعب الایمان ج6ص 320حدیث8331)

ٹھنڈا ہو جس کا غصہ ہمیشہ گناہ سے

دوزخ میں جا پڑے گا وہ مخصوص راہ سے

(2)-ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی مختصر عمل بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا تغضب یعنی غصہ نہ کیا کرو"- اس نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "لا تغضب یعنی غصہ نہ کیا کرو"۔(بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، 4/131، حدیث : 6116)

(3)- حضرت سیدنا ابن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: اللہ عزوجل کے غضب سے مجھے کیا چیز بچا سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔(مسند امام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمرو، 587/2، حدیث: 6646)

(4)-حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ہم سے پوچھا تم پہلوان کسے سمجھتے ہو؟ ہم نے عرض کی: جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں- آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ پہلوان نہیں بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔(مسلم، کتاب البر و الصلۃ والآداب حدیث: 2608)

(5)-فرمایا:کسی کو پچھاڑ دینے والا بہادر نہیں ہوتا بلکہ بہادر تو وہ ہوتا ہے جو غصے کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، 4/130، حدیث: 6114)

(6)-فرمایا: جو شخص اپنے غصے پر قابو پاتا ہے اللہ عزوجل اس کا عیب چھپاتا ہے۔(المعجم الکبیر، 12/347، حدیث: 13646)

(7)-حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔ (المعجم الاوسط، 2/20، حدیث:2353)

(8)-غصہ ایمان کو یوں خراب کردیتا ہے جیسے ایلوا(ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کردیتا ہے ۔

(شعب الایمان،باب حسن الخلق، 6/311، حدیث: 8294)

(9)- جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے۔(شعب الایمان،باب حسن الخلق، 320/6، حدیث: 8331 ملخصا )

(10)- ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: کون سی چیز زیادہ سخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل کا غضب ، عرض کی؛ مجھے اللہ عزوجل کے غضب سے کیا چیز بچا سکتی ہے؟ فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔ (مساوئ الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی فضل الحلم۔۔۔الخ ، حدیث: 342)

غصے کے علاج: جب غصہ آجائے تو ان میں سے کوئی بھی ایک یاضرورتاً سارے علاج کرلیجئے : {1} اَعُوْذُ بِ اللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیم پڑھئے۔ {2}لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِ اللہ پڑھئے۔ {3}چپ ہوجائیے ۔ {4} وُضو کرلیجئے۔ {5}ناک میں پانی چڑھایئے۔ {6} کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے۔ {7}بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے ۔ (احیاء العلوم ج۳ ص۲۱۵) {8} جس پر غصہ آرہا ہے اُس کے سامنے سے ہٹ جایئے۔ {9}سوچئے کہ اگر میں غصہ کروں گا تو ہو سکتا ہے دوسرا بھی غصہ کرے اور بدلہ لے اور مجھے سامنے والے کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔ {10} اگر کسی کو غصےمیں جھاڑ وغیرہ دیا تو خصوصیَّت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اُس سے مُعافی مانگئے ، اِسطرح نفس ذلیل ہوگا اور آیندہ غصہ نافذ کرتے وقت اپنی ذِلت یاد آ ئے گی اور ہوسکتا ہے یوں کرنے سے غصے کی عادت سے خلاصی(یعنی چھٹکارا) مل جائے۔ {11} یہ غور کیجئے کہ آج بندے کی خطا پر مجھے غصہ چڑھا ہے اور میں مُعاف کرنے کیلئے تیّار نہیں حالانکہ میری بے شمار خطائیں ہیں اگر اللہ پاک ناراض ہوگیا اور اُس نے مجھے معافی نہ دی تو میرا کیا بنے گا ! {12}کوئی اگر زیادتی کرے یا خطا کر بیٹھے اور اس پر نفس کی خاطر غصہ آجائے اُس کو معاف کر دینا کارِثواب ہے تو

غصہ آنے پر ذہن بنایئے کہ کیوں نہ میں معاف کر کے ثواب کا حق دار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : ’’قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اَجر اللہ پاک کے ذِمّۂ کرم پر ہے ، وہ اُٹھے اورجنت میں داخل ہو جائے ۔ پوچھا جائے گا: کس کے لیے اَجر ہے ؟ وہ منادی (یعنی اعلان کرنے والا ) کہے گا: ’’ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں ۔ " تو ہزاروں آدَمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخِل ہوجائیں گے"۔ (معجم اوسط ج1ص542۔ حدیث1998مختصراً )

کیا غُصّہ حرام ہے ؟ عوام میں یہ غلط مشہور ہے کہ’’ غصہ حرام ہے ۔ ‘‘ غصہ ایک غیر اختیاری معاملہ ہے ، انسان کو آہی جاتا ہے ، اِس میں اس کاقصور نہیں ، ہاں غصے کا بےجا(یعنی غلط) استعمال برا ہے ۔

غصے کے حوالے سے مزید معلومات كیلئےامیر اھلسنت دامت برکاتہم العالیہ کا رسالہ "غصے کا علاج" اور احیاء العلوم جلد 3 سے "غصے کی مذمت کا بیان" کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

اللہ پاک ہمیں جہنم میں لے جانے والے اعمال بشمول غصے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔