حمزہ بنارس
(درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
غُصے
کی تعریف: مفسر شهیر حکیم الامت
حضرت مفتی احمد یار خان عليه رحمة الحنان فرماتے ہیں: غضب یعنی غصہ نفس کے اُس جوش
کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع (دور) کرنے پر ابھارے۔ (مرآۃ المناجیح
ج 2 ص 255ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور )
حضرت سیدنا
فقيه ابواللیث سمرقندی رَحْمَةُ اللهِ تَعَالَى عَلَيْهِ تَنبيه الغافلين میں نقل
کرتے ہیں : حضرت سید نا وہب بن منبه رضى الله تعالى عنہ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل
کے ایک بزرگ ایک بار کہیں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک موقع پر اچانک پتھر کی ایک
چٹان اوپر کی جانب سے سر کے قریب آپہنچی ، انہوں نے ذکر الله عز وجل شروع کر دیا
تو وہ دور ہٹ گئی۔ پھر خوفناک شیر اور درندے ظاہر ہونے لگے مگر وہ بزرگ نہ گھبرائے
اور
ذكر الله عز
وجل میں لگے رہے۔ جب وہ بزرگ نماز میں مشغول ہوئے تو ایک سانپ پاؤں سے لپٹ گیا، یہاں
تک کہ سارے بدن پر پھر تا ہوا سر تک پہنچ گیا، وہ بزرگ جب سجدہ کا ارادہ فرماتے وہ
چہرے سے لپٹ جاتا، سجدے کیلئے سر جھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سجدہ پر منہ
کھول دیتا۔ مگر وہ بزرگ اسے ہٹا کر سجدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ۔ جب نماز سے
فارغ ہوئے تو شیطان کھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا: یہ ساری حرکتیں میں نے ہی آپ
کے ساتھ کی ہیں، آپ بہت ہمت والے ہیں، میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں، لہٰذا اب میں
نے یہ طے کر لیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا، مہربانی فرما کر آپ مجھ سے دوستی
کر لیجئے۔
اس اسرائیلی
بزرگ نے شیطان کے اس وار کو بھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا: تو نے مجھے ڈرانے کی
کوشش کی لیکن الْحَمْدُ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ میں ڈرا نہیں، میں تجھ سے ہر گز
دوستی نہیں کروں گا۔ بولا : اچھا، اپنے اہل و عیال کا احوال مجھ سے دریافت کر لیجئےکہ
آپ کے بعد ان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا: مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان نے
کہا: پھر یہی پوچھ لیجئے کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایا : ہاں یہ
بتادے ۔ بولا، میرے تین جال ہیں : (1) محل (2) غصہ (3) نشہ ۔ اپنے تینوں جالوں کی
وضاحت کرتے ہوئے بولا ، جب کسی پر بجل “ کا جال پھینکتا ہوں تو وہ مال کے جال میں
الجھ کر رہ جاتا ہے اُس کا یہ ذہن بناتارہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بہت قلیل ہے (اس
طرح وہ محل میں مبتلا ہو کر) حقوق واجبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رہتا ہے اور
دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہو جاتا ہے۔ (اور یوں مال کے کسی جال میں پھنس
کر نیکیوں سے دور ہو کر گناہوں کے دلدل میں اتر جاتا ہے)
جب پر غصہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں
تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اچھالتے ہیں، میں اس غصیلے شخص کو شیاطین کی
جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں۔ غصیلا شخص علم و عمل کے کتنے ہی بڑے
مرتبے پر فائز ہو ، خواہ اپنی دعاؤں سے مردے تک زندہ کر سکتا ہو ، میں اس سے مایوس
نہیں ہوتا، مجھے اُمید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غصہ میں بے قابو ہو کر کوئی ایسا
جملہ بک دے گا جس سے اس کی آخرت تباہ ہو جائے گی۔ رہا نشہ “ تو میرے اس جال کا
شکار یعنی شرابی اس کو تو میں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس بُرائی کی طرف چاہوں لئے
لئے پھرتا ہوں۔ اس طرح شیطان نے یہ بتادیا، کہ جو شخص غصہ کرتا ہے وہ شیطان کے
ہاتھ میں ایسا ہے، جیسے بچوں کے ہاتھ میں گیند۔ اس لیے غصہ کرنے والے کو صبر کرنا
چاہیے ، تاکہ شیطان کا قیدی نہ بنے کہ کہیں عمل ہی ضائع نہ کر بیٹھے ۔ (تنبیہ
الغافلین صفحہ 110
حدیث پاک میں
آ تا ہے کہ شہنشاہِ خیر الانام صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ایک غلام کو کسی
کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضر ہوا تو حضور انور، مدینے کے تاجور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دست منور میں مسواک تھی فرمایا: ” اگر قیامت میں
انتقام نہ لیا جاتا تو میں تجھے اس مسواک سے مارتا۔ ( مسند ابو یعلی ج 6 ص 90 حدیث
2892دار الكتب العلمیة بیروت) دیکھا آپ نے ! ہمارے میٹھے بیٹھے آقا، شہنشاہ خیر
الانام صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم کبھی بھی اپنے نفس کی خاطر
انتقام نہیں لیتے تھے اور ایک آج کل کا مسلمان ہے کہ اگر نو کر کسی کام میں کو تاہی
کر دے تو گالیوں کی بوچھاڑ بلکہ مار دھاڑ پر اتر آتا ہے۔
بیٹھے بیٹھے
اسلامی بھائیو! جب کوئی ہم سے الجھے یا بُرا بھلا کہے اُس وقت خاموشی میں ہی ہمارے
لئے عافیت ہے اگرچہ شیطان لاکھ وسو سے ڈالے کہ تو بھی اس کو جواب دے ورنہ لوگ تجھے
بزدل کہیں گے ، میاں ! شرافت کا زمانہ نہیں ہے اس طرح تو لوگ تجھ کو جینے بھی نہیں
دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میں ایک حدیث مبارکہ بیان کرتا ہوں اس کو غور سے سماعت فرمائیے
، سن کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ دوسرے کے بُرا بھلا کہتے وقت خاموش رہنے والا رحمت
الہی عزو جل کے کس قدر نزدیک تر ہوتا ہے۔ چنانچہ مسند امام احمد میں ہے،
کسی شخص نے سرکار مدینہ صلى الله تَعَالَى
عَلَيْهِ وسلّم کی موجودگی میں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی
عَنْہ کو بُرا کہا تو جب اُس نے بہت زیادتی کی۔ تو انہوں نے اُس کی بعض باتوں کا
جواب دیا (حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی معصیت سے پاک تھی مگر ) سرکار نامدار صلی
اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم وہاں سے اُٹھ گئے ۔ سیدنا ابو بکر صدیق
رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْه حُضُورِ اکرم کے پیچھے پہنچے ، عرض کی، یا رسول الله ! صَلَّى
اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم) وہ مجھے برا کہتا رہا آپ تشریف فرما
رہے، جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ اُٹھ گئے، فرمایا: ”تیرے
ساتھ فرشتہ
تھا، جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تو نے خود اُسے جوابدینا شروع کیا، تو شیطان
درمیان میں آ کودا۔“ (مسند امام احمد بن حنبل ج3 ص 434 حدیث 9630)
جو چپ رہا اُس نے نجات پائی
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو! آپ کو بول کر بار ہا پچھتانا پڑا ہو گا مگر خاموش رہ کر کبھی ندامت
نہیں اُٹھائی ہو گی۔ ترمذی شریف میں ہے ، مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی جو چُپ رہا اُس نے نجات پائی ۔ “ (سنن الترمذی ج 4 ص
225حدیث 2509دار الفکر بیروت ) اور یہ محاورہ بھی خوب ہے ، ” ایک چپ سو کو ہرائے۔
غصہ کے سبب
بہت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں جو آخرت کیلئے تباہ کن ہیں مثلا : {1} حسد {2} غیبت
{3} چغلی {4} کینہ {5} قطع تعلق {6} جھوٹ {7} آبروریزی {8} دوسرے کو حقیر جاننا
{9} گالی گلوچ {10} تکبر {11} بے جامار دھاڑ {12} تمسخر (یعنی مذاق اُڑانا) {13}
قطع رحمی {14} بے مروتی {15} شماست یعنی کسی کے نقصان پر راضی ہونا {16} احسان
فراموشی وغیرہ۔ واقعی جس پر غصہ آجاتا ہے ، اُس کا اگر نقصان ہو جائے تو غصہ ہونے
والا خوشی محسوس کرتا ہے ، اگر اُس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ راضی ہوتا ہے ، اس
کے سارے احسانات بھول جاتا ہے ، تعلقات ختم کر دیتا ہے۔ بعضوں کا کا غصہ دل میں
چھپا رہتا ہے اور برسوں تک نہیں جاتا اسی غصہ کی وجہ سے وہ شادی غمی کے مواقع پر
شرکت اور اس سے تعلقات نہیں کرتا۔
بعض لوگ اگر
بظاہر نیک بھی ہوتے ہیں پھر بھی جس پر غصہ دل میں چھپا کر رکھتے ہیں، اس کا اظہار یوں
ہو جاتا ہے کہ اگر پہلے اس پر احسان کرتے تھے تو اب نہیں کرتے ، اب اُس کے ساتھ
حسن سلوک سے پیش نہیں آتے، نہ ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اگر اس نے کوئی اجتماع !
ذکر و نعت وغیرہ کا اہتمام کیا تو معاذ اللہ عَزَّ وَجَلَّ محض نفس کیلئے ہونے والی
ناراضگی اور غصہ کی و کی وجہ سے اس میں شرکت۔ اس میں شرکت سے اپنے آپ کو محروم کر
لیتے ہیں۔ بعض رشتے دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ آدمی لاکھ حُسن سلوک کرے
مگر وہ راہ پر آتے ہی نہیں ، مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ” جامع صغیر “ میں
ہے : ”جو تجھ سے رشتہ کاٹے تو اس سے جوڑ ۔ “ ( الجامع الصغیر للسیوطی ص 309حدیث
(5004)
بخاری شریف کی
حدیث پاک ہےمیں ہے : ” طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور
وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔“ (صحیح البخاری ج4ص 30حدیث 6114
دار الكتب العلمية بيروت )
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو! غصے کا عملی علاج اس طرح ہو سکتا ہے کہ غصہ پی جانے اور در گزر سے
کام لینے کے فضائل سے آگاہی حاصل کرے ، جب کبھی غصہ آئے ان فضائل پر غور و فکر کر
کے غصے کو پینے کی کوشش کرے۔ بخاری شریف میں ہے ، ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وسلم میں عرض کی، یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّى
اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّم مجھے وصیت فرمائیے۔ ارشاد فرمایا:
«غصہ مت کرو۔“ اس نے بار بار یہی سوال کیا۔ جواب یہی ملا : غصہ مت کرو۔“ (صحیح
البخاری ج 4ص 31 حدیث 6116)
اکثر لوگ غُصہ
کے سبب جہنم میں جائیں گے سیدنا حسن بصر ی رحْمَةُ الله تعالى عَلَيْهِ فرماتے ہیں
، اے آدمی! ا غصہ غصہ میں تو خوب اچھلتا . کہیں اب کی اچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال
دے۔ (احیاء العلوم ج 3ص205 دار صادر بیروت )
غصے کی وجہ سے
کہیں خرابیاں معاشرے میں جنم لے رہی ہیں معاشرے کو خوشحال بنانے کے لیے ہمیں غصے
پر قابو کرنا ہو گا اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین
صلی اللہ علیہ وسلم