اج کے دور کے
اندر ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ لڑائی جھگڑے پر اتر اتے ہیں چھوٹی چھوٹی باتوں
پر لڑائی جھگڑے کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ غصے کا انا ہے غصے کا انا طبیعت کے
اندر ہوتا ہے غصے کانہ طبیعی طور پر ایسا ہوجتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس پر کنٹرول کیسے
کیا جائے ائیے ہم اس احادیث پاک سے سنتے ہیں
نبی محترم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص نے غصہ پی لیا باوجود اس کے
کہ وہ غصہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا ہے اللہ پاک اس کے دل کو سکون و ایمان سے بھر
دے گا۔جا مع صغیر ص 541 حدیث 8997
اللہ پاک کے پیارے
حبیب اپنی امت کو بخشوانے والے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے غصے
کو روک لیا حالانکہ کے وہ اسے جاری یعنی نافذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللہ پاک
قیامت کے دن اس کو تمام مخلوق کے سامنے لائے گا اور اختیار دے گا جس حور کو چاہے
لے لے۔ابو داؤد ج4 ص325 حدیث 4777
حضرت سیدنا
ابو الدردا رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوئی ایسا
ارشاد فرمائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے
ارشاد فرمایا یعنی غصہ نہ کیا کرو تو تمہارے لیے جنت ہے
معجم اوسط ج 2
ص 20 حدیث 2353
بڑی شان والے
آقا سبز گنبد والے اقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں جہنم کا ایک دروازہ ہے
جس سے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا
ہے ۔شعب الایمان ج6 ص 320 حدیث 7331
حضرت عطیہ رضی
اللہ تعالی عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
غصہ شیطان کے اثر سے ہوتا ہے شیطان کی پیدائش اگ سے ہوئی ہے اور اگ پرانی سے بجائی
جاتی ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ ائے تو اس کو چاہیے کہ وہ وضو کر لے۔ابو
داؤد سننے ابی داؤد جلد سوئم کتاب الآداب 4784
حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہار روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا بندہ کسی چیز کا ایسا کوئی گھونٹ پینے سے بہتر ہو جس کو وہ محض اللہ تعالی
کی رضا کے لیے پی جائے۔ مسند احمد
حضرت معاذ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص غصہ
کو پی جائے جبکہ اس میں غصے کے تقاضے کو پورا کرنے کی طاقت بھی ہو لیکن اس کے
باوجود جس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہ دے اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو ساری
مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اس کو اختیار دیں گے جنت کی حوروں میں سے جس حور کو
چاہے اپنے لیے پسند کر لے۔ابو داؤد جامع ترمذی جلد اول باب البر والصلتہ 2021
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض
کیا کہ مجھے کوئی وصیحت فرما دیجئے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غصہ نہ
کیا کرو اس شخص نے اپنے وہی درخواست کی بار بار دہرائی اپ صلی وسلم نے ہر مرتبہ یہی
ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو ۔بخاری جامع ترمذی جلد اول باب البر والصلتہ 2020
حضرت سیدنا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے ہم سے پوچھا تم پہلوان کسے سمجھتے ہو ہم نے عرض کی جسے لوگ بچھاڑ نہ سکیں
اپ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ پہلوان نہیں بلکہ وہ پہلوان وہ شخص
ہے جو غصے کےوقت اپنے اپ پر قبول رکھے ۔مسلم کتاب البر والصلتہ والاداب باب قبح
الکذاب الخ حدیث 6208 ص 1406
غصہ کی تعریف: غصہ وہ
مضبوط جذبہ ہے جو آپ محسوس کرتے ہیں جب آپ کو لگتا ہے کہ کسی نے غیر منصفانہ،
ظالمانہ یا ناقابل قبول طریقے سے برتاؤ کیا ہے۔
غصہ کی مذمت
احادیث کی روشنی میں :
1: سیدنا
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کو غصہ اگیا تو آپ بیٹھ گئے اور پھر لیٹ گئے کسی
نے پوچھا یہ کیا ہے تو فرمایا کہ میں نے سرکار علیہ وسلم سے سنا ہے کہ " جسے
غصہ آجائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر غصہ ہھر بھی نہ جائے تو لیٹ جائے
"
( مسند احمد 152/5 )
2: ایک اور حدیث
میں آیا ہے کہ عروہ بن محمد رحمہ اللہ کو غصہ آگیا تو آپ اسی وقت وضو کرنے بیٹھ
گئے فرمایا کہ میں نے اپنے استادوں سے سنا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ " غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا یے اور شیطان آگ سے پیدا ہوا
ہے اور کو بجھانے والی چیز پانی ہے پس تم غصہ کے وقت وضو کرنے بیٹھ جایا کرو (
مسند احمد 226/4 ::ضعیف )
3:حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا بندہ (کسی چیز کا) ایسا کوئی
گھونٹ نہیں پیتا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کا گھونٹ پینے سے بہتر ہو جس کو وہ
محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے پی جائے۔ ( مسند احمد)
4: حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ طاقتور وہ نہیں جو اپنے مدمقابل کو بوچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ
کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پالے ۔( سننے ابی داؤد جلد سوئم کتاب الادب4779)
5: معاذ رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس
نے اپنا غصہ پی لیا حالانکہ وہ اسے نافذ کرنے پر قادر تھا تو قیامت کے دن اللہ
تعالیٰ اسے سب لوگوں کے سامنے بلائے گا یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اختیار دے گا
کہ وہ بڑی آنکھ والی حوروں میں سے جسے چاہے چن لے“۔( سنن ابی داؤد کتاب الآداب
4777)
علی رضا
عطاری (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
غصہ ایک چھپی
ہوئی آگ ہے جو دل میں ہوتی ہے۔ جس طرح راکھ کے نیچے چھپی ہوئی چنگاری ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ
نے قرآنِ کریم میں غصّہ کی مذمت بیان فرمائی ہے اور احادیث میں بھی اس کی مذمت بیان
فرمائی گئی ہے اور غصّہ پر قابو پانے والے کی فضیلت اور غصّہ کرنے والے کی سزا بھی
بیان فرمائی ہے اُنہی احادیث میں سے کچھ احادیث ملاحظہ کیجیے :-
(1)
غصّہ روکنے کی فضیلت :- وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ خَزَنَ لِسَانَهُ سَتَرَ اللهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ كَفَّ
غَضَبَهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ عَذَابَةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنِ اعْتَذَرَ
إِلَى اللَّهِ قَبِلَ اللَّهُ عُذْرَة
:-(مرآۃ المناجیح شرح مشكوة المصابیح )جلد(6) حدیث نمبر ( 5121)
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنی زبان
کی حفاظت کرے اللہ تعالٰی اس کے عیب چھپالے گا، اور جو اپنا غصہ روکے اللہ تعالی
اس سے قیامت کے دن اپنا عذاب روک لے گا اور جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں معذرت کرے
اللہ تعالٰی اس کے عذر قبول کرلے گا۔
(2)
پہلوان کون ہے :-قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَيْسَ الشَّدِيدُ
بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ :- (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد(6)
حدیث نمبر( 5105):-
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کُشتی
سے پہلوان نہیں ہوتا! پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے :-
(3)
مختصر سا عمل کیا ہے :- حضرت سیدنا
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مجھے کوئی مختصر سا عمل بتائیے آپ صلی اللہ تعالی علیہ آلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: "لا تغضب" غصہ نہ کرو۔ اس نے دوبارہ یہی سوال کیا
تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ آلہ وسلم نے فرمایا: "لا تغضب" غصہ نہ کروں۔ (صحیح
البخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، الحديث (6116) ص (516) :-
(4)
غصّہ کرنے والا جہنّم کے کنارے پر پہنچتا ہے :- حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
نبی مکرم نور مجسم شہنشاہ بنی آدم صلی اللہ تعالی علیہ آلہ سلم کا فرمان ذیشان ہے:
مَا غَضِبَ
أَحَدٌ إِلَّا أَشْفَى عَلَى جَهَنَّمَ . جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے۔ (شعب الایمان
للبیھقی، باب في حسن اخلاق، فصل فی ترک الغضب، حدیث (8331) جلد (6) ص (320) :-
محمد معین عطّاری
(درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو! غصہ کی وجہ سے انسان ناجانے کیا کیا کر بیٹھتا
ہے اسی طرح جب کوئی ہم سے اُلجھے یابُرا بھلا کہے اُس وَقت خاموشی میں ہی ہمارے
لئے عافیّت ہے اگر چِہ شیطان لاکھ وَسوَسے ڈالے کہ تو بھی اس کو جواب دے ورنہ لوگ
تجھے بُزدل کہیں گے، بھائی !شَرافت کا زمانہ نہیں ہے اِس طرح تو لوگ تجھ کو جینے
بھی نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ میں ایک حدیث مبارکہ بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا
ہوں اس کو غور سے سَماعت فرمائیے ، سن کر آپ کو اندازہ ہوگاکہ دوسرے کے بُرا بھلا
کہتے وَقت خاموش رہنےوالارحمتِ الہی عزوجل کے کس قَدَر نزدیک تر ہوتا ہے۔چُنانچِہ
مُسنَد امام احمدمیں ہے، کسی شخص نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی موجودَگی میں حضرت ِسیِّدُنا ابوبکر صدّیق رَضِیَ اﷲُ
تَعَالٰی عَنْہ کو بُرا کہا تو جب اُس نے بَہُت زِیادتی کی۔ توانہوں نے اُس کی بعض
باتوں کا جواب دیا (حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی معصیَّت سے پاک تھی مگر )
سرکارِ
نامدارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہاں سے اُٹھ گئے۔سیِّدُنا
ابوبکر صدّیق رَضِیَ اﷲُتَعَالٰی عَنْہ حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیچھے پہنچے، عرض کی، یارسولَ اﷲ! (عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) وہ مجھے بُرا کہتا رہا آپ تشریف فرما
رہے ،جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ اُٹھ گئے، فرمایا: ’’تیرے ساتھ فرشتہ
تھا ،جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تونے خود اُسے جواب دینا شروع کیا، تو شیطان
درمیان میں آکودا۔ ‘‘(مسند امام احمد بن حنبل ج۳ ص۴۳۴حدیث ۹۶۳۰)
میرے میٹھے
اور پیارے اسلامی بھائیوں مزکور حدیث مبارکہ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر آپ
کو کوئ برا بلا کہے اور آپ اس پہ کوئ جوابی کاروائ نہ کریں تو آپ اللہ پاک کی رحمت
میں ہوتے ہیں جب کے آپ کو برا بلا کہنے والے کو اللہ کے فرشتے جواب دے رہے ہوتے ہیں۔
میرے میٹھے
اسلامی بھائیوں چلیں کچھ اور احادیث غصے کی مذمت پر سنتے ہیں۔ حضرت عطیہ رضی اللہ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد
فرمایا: غصہ شیطان (کے اثر) سے ہوتا ہے۔ شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی
سے بجھائی جاتی ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرلے۔ (ابوداوُ
د)،(سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب الادب :4784)
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمادیجئے؟ آپ نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ اس شخص نے اپنی
(وہی) درخواست کئی بار دہرائی۔آپ نے ہر
مرتبہ یہی ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ (بخاری) (جامع ترمذی، جلد اول باب البر
والصلۃ :2020)
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے
ارشاد فرمایا طاقتور وہ نہیں ہے جو (اپنے مقابل کو) پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو
غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پالے۔ (سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب
:4779) (بخاری)
حضرت معاذ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے
ارشاد فرمایا جو شخص غصہ کو پی جائے جبکہ اس میں غصہ کے تقاضا کو پورا کرنے کی
طاقت بھی ہو (لیکن اس کے باوجود جس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہ دے) اللہ تعالیٰ قیامت
کے دن اس کو ساری مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اس کو اختیار دے گا کہ جنت کی حوروں
میں سے جس حور کو چاہے اپنے لئے پسند کرلے۔(ابوداوُد) (جامع ترمذی ،جلد اول باب
البر والصلۃ :2021)
حضرت سلیمان
بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم کے پاس 2 آدمیوں نے آپس میں ایک دوسرے کو گالی دی۔ ان میں سے ایک کا چہرہ
غصہ کی وجہ سے سرخ ہوگیا۔ رسول کریم نے اس
آدمی کی طرف دیکھ کر فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر وہ اسے کہہ لے تو اس
سے (غصہ کی حالت) جاتی رہے گی (وہ کلمہ یہ ہے)
اعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم۔ (بخاری) (مسلم ،کتاب البر والصلۃ)
اللہ پاک ہمیں
اس موزی مرض ( یعنی غصہ )سے نجات دے ۔ ( آمین)
زین العابدین (درجۂ رابعہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
دین اسلام
کامل واکمل اور سچا دین ہے دین اسلام جس طرح عبادات اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم کا درس دیتا ہے اسی طرح معاشرے کو پرامن بنانے اور بدامنی کو ختم کرنے کا درس
دیتا ہے ، معاشرے میں بدامنی پھیلانے والا ایک عمل غصہ کرنا " بھی ہے اس کی
مذمت قرآن و حدیث میں بہت ہے چند احاد یث ملاحظہ ہوں۔
حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی نصیحت
(1)حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک
شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی مجھے نصیحت کیجئے ارشاد فرمایا غصہ نہ کرو اس نے
کئی مرتبہ یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کرو۔ (بخاری ،
کتاب الادب باب الحذر من الغضب ج 4 ص 131 حدیث (6116)
(2)
ہلاکت سے نجات پانے والا عمل : حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی
فرماتا ہے جو اپنے غصہ میں مجھ کو یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں
گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا (فردوس الاخبار باب القاف ج 2ص
137 حدیث (4476)
ایمان
بگاڑنے والا عمل :(3) حضرت بهز این
حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روای فرماتے ہیں
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ ایمان کو بگاڑ دیتا ہے جیسے ایکو
(تمہ) شہد کو (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ج6 5118)
اصل
پہلوان کون ؟(4)حضرت ابو ھریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کو پچھاڑ دینے
والا پہلوان نہیں ہے بلکہ پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کا مالک ہو۔ (صحیح
مسلم کتاب :البرالخباب فضل من يملك نفسہ ص14061 2608 حدیث)
عذاب
الہی سے بیچنے کا سب :-(5) حدیث
پاک میں ہے جو شخص اپنے غصے کو روک لے گا الله عز وجل بروز قیامت
اس سے اپنا
عذاب روک لے گا (مشکوۃ) شریف)
اللہ تعالٰی
سے دعا ہے کہ اپنے فضل و کرم سے آپس میں پیار و محبت سے رہنے اور غصے سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین بجاہ النبین صلی اللہ علیہ وسلم )
فیضان عطّاری (درجۂ ثانیہ جامعۃ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
غصہ انسان کے
حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتا ہے غصے کی وجہ سے انسان نرمی اور شفقت اور محبت سے
محروم رہتا ہے غصہ ہی انسان کو بلندی پر جانے سے رکاوٹ بنتا ہے غصہ پینے والا شخص
اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں ہوتا ہے ائیے اس سے کی مذمت کے بارے میں فرمان
مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سنتے ہیں
(1) رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاکم
دو شخصوں کے درمیان غصے کی حالت میں فیصلہ نہ کریں
(مرآۃالمناجیح
جلد5 حدیث 3731 )
(2) فرمان
مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب تم میں سے کسی کو غصہ ائے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ
جائے اور پھر اگر غصہ دفع ہو جائے تو فبہا ورنہ لیٹ جائے (مرآۃالمناجیح جلد 6حدیث
نمبر 5114 )
(3)فرمان مصطفی
صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم غصہ ایمان کو ایسے بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو(
مرآۃ المناجیح جلد 6 حدیث نمبر 5118 )
(4)فرمان مصطفی
صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان اگ سے پیدا کیا گیا
ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو تم میں سے کسی کو جب غصہ ائے تو وہ وضو کریں
(مرآۃ المناجیح جلد 6حدیث 5113 )
(5) فرمان
مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جو شخص اپنے غصے پر قابو پاتا ہے اللہ اس کا
عیب چھپاتا ہے ۔(المعجم الکبیر جلد 12 صفحہ 347 حدیث نمبر 13646)
اللہ پاک ہم
سب کو غصہ کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین
محمد اسجد نوید (درجۂ ثالثہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ عزوجل
قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ کنز الایمان: جبکہ کافروں نے اپنے دل میں ضد
رکھی وہی زمانہ جاہلیت کی ضد تو اللہ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں
پر اتارا اور پرہیزگاری کا کلمہ ان پر لازم فرمایا اور وہ اس سے زیادہ سزاور اور
اس کے اہل تھے اللہ سب کچھ جانتا ہے (پ26 الفتح:26)
اس ایت مبارکہ
میں اللہ عزوجل نے کفار مکہ کی مذمت بیان کی انہوں نے باطل غصے کی بنیاد پر جاہلیت
کی غیرت کا مظاہرہ کیا جبکہ مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ
عزوجل نے ان پر سکون اور وقار اتارا قوت غضب کے درجات: قوت غضب میں لوگ فطرتا تین
درجوں پر ہیں :
1: تفریط: غصے
کا بلکل نا ہونا یا کم ہونا
2: افراط: غصہ
انسان پر اس قدر غالب ا جائے کہ وہ عقل و دین دونوں کو سوجھ بوجھ سے عاری ہو جائے
3:اعتدال:
قابل تعریف وہ غصہ ہے جو عقل اور دین کے تابع ہو یعنی جہاں غیرت کا معاملہ ہو وہاں
غصہ ائے اور جہاں بردباری کا موقع ہو وہاں غصہ نہ ہے .
غصے کی مذمت میں
احادیث مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم .
حدیث 1: حضرت
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ
والہ وسلم نے ہم سے پوچھا تم پہلوان کس کو سمجھتے ہو؟ ہم نے عرض کی جسے لوگ پچھاڑ
نہ سکیں اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا پہلوان وہ نہیں پہلوان
وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے اپ پر قابو رکھے. (احیاء العلوم جلد 3)
حدیث 2: حضور
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص غصہ کرتا ہے وہ جہنم کے کنارے پر
پہنچ جاتا ہے. (احیاء العلوم جلد 3).
حدیث 3: ایک
شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی کون سی چیز زیادہ سخت ہے ؟اپ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کا غضب عرض کی مجھے اللہ عزوجل غضب سے کیا چیز بچا سکتی
ہے؟ فرمایا غصہ نہ کرو.(احیاء العلوم جلد 3).
حدیث 4: حضور
صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے غصے پر قابو پاتا ہے اللہ
عزوجل اس کے عیب چھپاتا ہے. (احیاء العلوم جلد 3). حدیث 5: جانے والے مال حضور صلی
اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا غصہ ایمان کو یوں خراب کر دیتا ہے جیسے
ایک کڑوی درخت کا رس شہد کو خراب کر دیتا ہے. (احیاء العلوم جلد 3).
اللہ عز وجل ہمیں غصے جیسی بری عادت سے بچنے اور
تحمل مزاجی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین
محمد فیاض
( تخصص فی الفقہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
پیارے
بھائیو!بلا وجہ اور بلا ضرورت غصہ ایک بہت بڑی آفت اور مصیبت ہے جو کئی دنیوی اور
اخروی خرابیوں،تباہیوں اور نقصانات کا سبب بنتی ہے جس کا علاج کرنااور اس سے بچنا
بے حد ضروری ہے۔ غصہ کے بارے میں ہم ابتدائی معلومات حاصل کرتے ہیں اور پھر اس کی
مذمت پر احادیث اور اقوا ل ِعلماء و صوفیاء بیان کریں گے۔
غصہ
کی تعریف: المفردات للراغب میں ہے”ثَوْرَانُ دمِ القلبِ ارَادۃَ
الانتِقامِ“ یعنی:بدلہ لینے کے
ارادے کے سبب دل کے خون کا جوش مارنا۔ ( المفردات فی غریب القرآن،کتاب الغین،صفحہ 608،مطبوعہ دار القلم ،بیروت) شارح مشکوٰۃ،حکیم الامت مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ 1391ھ/ 1971ء)فرماتے ہیں:”غَضَب یعنی غصہ نفس کے اس جوش کا
نام ہے جو دوسروں سے بدلہ لینے یا اسے دفع کرنے پر ابھارے ۔“ (مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح،جلد6،صفحہ 509،مطبوعہ
نعیمی کتب خانہ،گجرات)
غصہ کی مذمت
میں احادیث:
1))جہنم کا ایک دروازہ: شعب الایمان میں ایک حدیث پاک ہے:” للنار باب لا يدخل منه إلا
من شفى غيظه بسخط اللہ عز وجل“
یعنی: سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم کا ایک دروازہ ہے جس
سے وہی لوگ داخِل ہوں گے جن کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا
ہے۔(شعب الایمان ،جلد 6،حسن الخلق،فصل فی ترک الغضب۔۔،صفحہ320،رقم8331،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
(2)ایمان کی خرابی: مشکوٰۃ
المصابیح میں حدیثِ رسول علیہ السلام ہے :”إِنَّ الْغَضَبَ لَيُفْسِدُ الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ
الصبرُ الْعَسَل“ یعنی:غصہ ایمان کو
اس طرح خراب کرتا ہے جیسے ایْلَوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رَس ۔)شہد
کو خراب کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،جلد3،باب الغضب والکِبر،صفحہ1416،رقم5118،مطبوعہ المکتب الاسلامی،بیروت)
(3) جہنم کے کنارے تک پہنچانے کا سبب: لباب الاحیاء میں ایک حدیث پاک منقول ہے:”ما غضب احد الا اشفی علی
جھنم“ یعنی:جو شخص غصہ کرتا ہے وہ
جہنم کے کنارے پر جا پہنچتا ہے۔( لباب الاحیاء،صفحہ 248،مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
(4)غصہ دل میں آگ کی چنگاری: سننِ ترمذی کی ایک طویل حدیثِ پاک کا کچھ حصہ یوں ہے:” أَلَا وَإِنَّ الغَضَبَ
جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ
أَوْدَاجِهِ، فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالأَرْضِ“ یعنی: سُن لو!غصہ انسان کے دل میں ٓگ کی
چنگاری ہے ،کیا تم نے اپنی ٓنکھوں کی سرخی اور رگوں کا پھُولنا نہ دیکھا؟تو جو
کوئی ایسی حالت محسوس کرے ،وہ زمین کے ساتھ چمٹ(لیٹ)جائے۔(سنن ترمذی،جلد4،ابواب
الفتن،باب ماجاء ما اخبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحابہ۔۔،صفحہ483،رقم2191، مطبوعہ مصطفی حلبی،مصر)
(5)غصہ
شیطان کی طرف سے ہے: مسند ِاحمد
میں حدیثِ رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم مذکور ہے:” إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ،
وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ، وَإِنَّمَا تُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ،
فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ“یعنی:غصہ شیطان کی طرف سے ہے (شیطان کا اثر ہے)اور شیطان کو آگ سے پیدا
کیا گیا اور آگ کو پانی کے ذریعے بُجھایا جاتا ہے ،لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ
آئے اس سے چاہیئے وضو کرلے۔( مسند احمد بن حنبل،جلد29،مسند شامیین،حدیث عطیۃ
السعدی،صفحہ505،رقم17985،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
(5)غصہ دِل کو ہلکا کردیتا ہے: احیاء العلوم میں اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت سلیمان بن
داؤد علیہ السلام کا فرمان منقول ہے:”اے بیٹے!زیادہ غصہ کرنے سے بچو کیونکہ زیادہ
غصہ بُردبار آدمی کے دل کو ہلکا کردیتا ہے۔“ (احیاء
العلوم ،جلد 3،صفحہ 504،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
(6)اکثر
لوگ غصہ کی وجہ سے جہنم میں: کیمیائے
سعادت میں ابو حامد امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 505ھ) فرماتے ہیں :غصے کا
علاج کرنا اور اس معاملے میں محنت و مشقت برداشت کرنا (کئی صورتوں میں)فرض ہے
کیونکہ اکثر لوگ غُصے کے باعث ہی جہنم میں جائیں گے۔( کیمیائے سعادت(مترجم)،صفحہ 486،مطبوعہ
پروگریسو بکس،لاہور)
(7)ہر
برائی کی چابی: التنویر شرح جامع
الصغیر میں حضرت سیدنا امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان موجود ہے :”
الغضب مفتاح كلِّ شرٍّ“ یعنی:غصہ ہر برائی کی چابی ہے۔( التنویر شرح جامع
الصغیر،جلد1،حرف الہمزۃ،صفحہ364،تحت الرقم 169،مطبوعہ دار السلام ،ریاض)
اللہ پاک ہمیں
بلاوجہ غصہ کرنے کی آفات سے بچائے اور او ر ان کے بارے میں علم حاصل کر کے ان کو
ختم کرنے اور مسلمانوں کو معاف کرنے کی بہترین خصوصیت عطا فرمائے۔
اللہ تعالی نے
انسان کو احساسات اور جذبات دے کر پیدا کیا ہے یہ جذبات ہی ہیں جن کا اظہار ہمارے
رویوں سے ہوتا ہے کہ جہاں انسان اپنی خوشی پر خوش ہوتا ہے وہی اگر نہ پسندیدہ اور
اپنے توقعات سے مختلف امور دیکھ لے تو اس کے اندر غصہ بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ اگر
غصہ پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو انسان دوسرے کے نقصان کے ساتھ ساتھ اپنا بھی
نقصان کر بیٹھتا ہے اس لیے اسلام غصے کو ضبط کرنے کا حکم دیتا ہے پیارے اسلامی
بھائیو ائیے ہم اپ کو ایک حدیث عرض کرتے ہیں
، (حدیث ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم مجھے نصیحت فرمائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ نہ کیا
کرو اس نے بار بار یہی سوال کیا حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بار بار یہی
فرمایا۔ ( بخاری شریف ج 4 ص 131 حدیث 6116 )
پیارے
اسلامی بھائیو ائیے ہم اپ کو ایک اور حدیث عرض کرتے ہیں
( حدیث ) اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے
ارشاد فرمایا طاقتور اور بہادر وہ نہیں جو کشتی لڑنے سے غالب ائے بلکہ طاقتور اور
بہادر وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے اپ پر قابو پائے ( بخاری شریف حدیث 6114 ) معلوم
ہوا کہ غصہ پر قابو پا لینے والا انسان ہی سب سے بڑا پہلوان ہے
( حدیث) ایک اور حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالی
عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو کشتی
کر رہے تھے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کیا ہو رہا ہے انہوں نے کہا
فلاں ادمی جس سے بھی کشتی کرتا ہے اس سے بچھڑ دیتا ہے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا میں تمہیں اس سے زیادہ طاقت والا ادمی نہ بتاؤں وہ ادمی جس سے کسی نے غصہ
دلانے والی بات کی تو وہ اپنے غصے کو پی گیا پس اس پر وہ غالب اگیا اپنے شیطان پر
غالب اگیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر غالب اگیا ( رواہ البزار وبسند حسن فتح
الباری 10 کتاب الآداب باب 76 )
پیارے اور
محترم اسلامی بھائیو پتہ چلا کہ کسی کو میدان میں بچھڑ دینے سے انسان پہلوان نہیں
بنتا بلکہ غصے پر قابو پانے والا ہی بڑا پہلوان ہے آئیے اپ کو ایک اور حدیث
مبارکہ عرض کرتے ہیں
( حدیث) حضرت عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ شیطان سے ہوتا ہے اور شیطان اگ سے پیدا
ہوا اگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہذا تم میں سے جب کسی کو غصہ ائے تو وضو کر لے (
سنن ابی داؤد جلد سوئم کتاب الادب 4784 )
( حدیث) ایک اور حدیث حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص غصہ کو پی جائے
جبکہ اس میں غصہ کے تقاضا کو پورا کرنے کی طاقت بھی ہو ( لیکن اس کے باوجود جس پر
غصہ ہے اس کو سزا نہ دے ) اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو ساری مخلوق کے سامنے بلائے
گا اور اس کو اختیار دے گا کہ جنت کی حوروں میں سے جس حور کو چاہو اپنے لیے پسند
کر لو
( غصے کا علاج) پیارے اسلامی بھائیو غصے کا علاج
کچھ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ جب انسان کو غصہ ائے تو اسے سوچنا چاہیے کہ میں اج
اس پر غصہ کر رہا ہوں تو قیامت کے دن اگر اللہ تعالی مجھ سے ناراض ہو گیا تو میرا
کیا بنے گا اسی طرح جب انسان کو غصہ ہے تو فورا وضو کر لے یا پھر اعوذ باللہ پڑھ
لے اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے بیٹھا ہے تو لیٹ جائے اس طرح اللہ کے حکم سے غصہ چلا
جائے گا۔
اللہ تعالی ہم
سب کو غصہ پینے کی توفیق عطا فرمائے اور شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ امین
سجاول زبیر
(درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ گجرات ،پاکستان)
غصہ:- کسی
خلاف طبیعت چیز یا بات پر نفس کا جوش مارنا ،اس کیفیت کا نام ’’غصہ ‘‘ ہے۔ غصہ ہر
انسان میں ہونا کمال انسانی کے لوازم میں سے ہے اور غصہ فی نفسہ اور بذات خود نہ
اچھا ہے نہ بُرااس کو ایک مثال سے یوں سمجیے کہ غصہ ایسا ہی ہے جیسے ’’استرہ
‘‘ظاہر ہے کہ اگر ’’استرہ ‘‘ سے حجامت بنائی جائے تو یہ بہت ہی اچھی چیز ہے اور
اگر استرہ سے ناک کاٹ لی جائے تو یہ بہت ہی بُری چیز ہے۔تو ’’استرہ ‘‘بذات خود نہ
اچھا ہے نہ برا بلکہ اگر اس سے اچھا کام لیا جائے تو یہ اچھا ہے اور اگر اس سے
بُرا کام لیا جائے تو یہ بُرا ہے ۔بس غصہ بھی بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر غصہ آنے پر
اس غصہ سے کوئی اچھا کام ہوا تو یہ غصہ اچھا ہے اور اگر اس غصہ سے کوئی بُرا کام
ہوا تو یہ غصہ بُرا ہے اور غصے کی احادیث بہت مذمت بیان کی گئی ہے آئیے اس میں سے
کچھ احادیث سنتے ہے
" غصے کا ایمان بگاڑنا " عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ
عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهٖ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"إِنَّ الْغَضَبَ
لَيُفْسِدُ الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الصَّبْرُ الْعَسَل ترجمہ :- حضرت بہز ابن حکیم اپنے والد سے وہ اپنے دادا
سے روایت کرتے ہے کہ راوی فرماتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
" کہ غصہ ایمان کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا یعنی تمہ شہد کو۔ حکیم الامت
مفتی احمد یار خاں فرماتے ہے کہ غصہ اکثر کمال ایمان کو بگاڑ دیتا ہے مگر کبھی اصل
ایمان کا ہی خاتمہ کر دیتا ہے۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:6 , حدیث
نمبر:5118
" جہنمی دروازہ " تاجدار رسالت ، محبوب رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’بے شک! جہنم میں ایک ایسا
دروازہ ہے جس سے وہی داخل ہوگا جس کا غصہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی پر ہی
ٹھنڈا ہوتاہے۔ ( کنزالعمال، کتاب الالخلاق، قسم الاقوال 2/208 حدیث نمبر 7696 )
" الله کا عذاب روک لینا " وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ
رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ خَزَنَ لِسَانَهٗ سَتَرَ
اللّٰهُ عَوْرَتَهٗ وَمَنْ كَفَّ غَضَبَهٗ كَفَّ اللّٰهُ عَنْهُ عَذَابَهٗ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ وَمَنِ اعْتَذَرَ إِلَى اللّٰهِ قَبِلَ اللّٰهُ عُذْرَهٗ ترجمہ :- روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنی زبان کی حفاظت کرے الله تعالٰی
اس کے عیب چھپالے گا اور جو اپنا غصہ روکے الله تعالٰی اس سے قیامت کے دن اپنا
عذاب روک لے گا اور جو الله تعالٰی کی بارگاہ میں معذرت کرےالله تعالٰی اس کے عذر
قبول کرلے گا , کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5121
" غصہ مت کرو " عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ: أَوْصِنِیْ قَالَ:’’ لَا تَغْضَبْ‘‘ فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ:’’ لَا تَغْضَبْ‘‘ ترجمہ :- حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نَبِیِّ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کی :’’مجھے وصیت فرمائیے! ‘‘
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :’’غصہ مت کرو۔‘‘
اس نے کئی بار یہی سوال دُہرایا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ہر بار یہی فرمایا کہ’’ غصہ مت کیا کرو۔‘‘ ( بخاری کتاب الادب ، باب
حذر من الغضب، 131/4، حدیث)6116
بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللہِ الغَنِیْ فرماتے ہیں :’’حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے سائل کو’’لَاتَغْضَبْ‘‘ اس لئے فرمایا کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کی طبیعتیں جانتے تھے اس لئے جس کی جیسی
طبیعت ہوتی اُسے ویسا ہی حکم ارشاد فرماتے ، شاید کہ وہ صاحب بہت غصے والے تھے اسی
لئے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں غصہ ترک کرنے
کی وصیت فرمائی ۔‘‘( عمدة القاری، کتاب الادب، باب حذر من الغضب، 255/15، تحت حدیث
6116
"غصہ کی کثرت راہِ حق سے ہٹا دیتی ہے"
حضرتِ سَیِّدُنا سیلمان بن داؤد
عَلَیْھِمَا السَّلَام نے فرمایا: زیادہ غصہ کرنے سے بچو کیونکہ غصے کی کثرت
بُرْدبار آدمی کے دل کو راہِ حق سے ہٹادیتی ہے۔ (احیاء العلوم 204/3
ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہم اللہُ الْمُبِیْن کے
سامنے جب غصہ دلانے والی باتیں کی جاتیں تو وہ غُصّہ نہ کرتے بلکہ ان کی تمام تر
توجہ اپنی آخرت کی طرف رہتی تھی اور شیطان کے اس وار کو ناکام بنا دیتے۔ آئیے اس
کو ایک حکایت سے سمجھتے ہے
منقول ہے کہ ایک
شخص نےاَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو برا بھلا کہا تو آپ نے فرمایا :’’جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھ سے
چھپا رکھا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔‘‘ گویا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف اور اس کی مزید معرفت کے حصول میں مشغول تھے اسی لئے آپ
نے اپنی عیب جوئی کرنے والے پر غصہ نہ کیا ۔
ایک عورت نے
حضرتِ سَیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار سے کہا:’’ اے ریا
کار !‘‘ آپ نے فرمایا: تیرے سوا کسی نے مجھے نہیں پہچانا۔گویا آپ اپنے آپ سے ریاکاری
کی آفت کو دور کرنے میں مشغول تھے اور جو کچھ شیطان کہتا تھا اس کا انکار فرماتے
تھے، لہٰذا جب آپ کو رِیا کار کہا گیا تو آپ نے غُصّہ نہ کیا ۔( احیاء العلوم
212/3)
امام غزالی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی ان واقعات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’
ان واقعات سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کو غُصّہ نہیں آتا تھا کیونکہ
ان کے دل اہم دینی اُمور میں مشغول ہوتے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گالی گلوچ
اُن کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہو لیکن یہ اس طرف توجہ ہی نہ کرتے ہوں کیونکہ وہ
اس بات میں مشغول ہوتے تھے جس کا اُن کے دلوں پر غلبہ تھا ، تو بعید نہیں کہ دل کا
بعض اَہم امور میں مشغول ہونا بعض پسندیدہ چیزوں کے چلے جانے پر غُصّہ آنے کو روک
دے اس وقت غصے کا مفقود ہونا متصور ہوگا۔‘‘ ( احیاء العلوم 212/3 )
" غصہ شیطان کی طرف سے ہے " وَعَنْ عَطِيَّةَ بْنِ
عُرْوَةَ السَّعْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ
مِنَ النَّارِ وَإِنَّمَا يُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ
فَلْيَتَوَضَّأْ» ترجمہ :-روایت ہے
حضرت عطیہ ابن عروہ سعدی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ
غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی
جاتی ہے تو تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وہ وضو کرے ۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5113
کاشف علی عطّاری
(درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
میرے محترم
اسلامی بھائیوں ابھی ان شاءاللہ غصہ کے متعلق پڑنے کی سعادت حاصل کریں گے غصہ ایک
ایسی چیز ہے کہ اس وجہ سے کئی گھر ہنستے و بستے اجڑ گئے یہ غصہ ہی تو ہے جس وجہ سے
بھائی، بھائی کا دشمن بن جاتا ہے ہمیں بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آ جاتا ہے اور
یہ غصہ ہم سے بڑے کے سامنے دل میں جبکہ ہم سے چھوٹے کے سامنے زبان سے اور ہاتھوں
سے لڑائی کر کے ہی ختم ہوتا ہے اور ہم ایسے ہی اسے ختم کرتے ہے جبکہ حضور صلی اللہ
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي
يَمْلِكُ نَفْسَهٗ عِنْدَ الْغَضَبِ
. (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) روایت ہے ابو ھریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی
الله علیہ والہ وسلم نے کہ کوئی شخص کشتی سے پہلوان نہیں ہوتا، پہلوان وہ ہے جو
غصہ کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے (مسلم،بخاری) کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5105
اب اس حدیث
پاک کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم خود پہ توجہ کرے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا غصہ کس
طرح ختم ہوتا ہےکیا واقعی بغیر پہلوانی کے ختم ہوتا ہے یا پھر پہلوانی کر کے ختم
ہوتا ہے۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہم جو بھی نیک کام کریں تو اس میں اللہ پاک کی
رضا شامل ہونی چاہیے تو جب ہمیں غصہ آتا ہے تو اس وقت ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ
ابھی بھی تو ہمیں اللہ پاک کی رضا حاصل کرنی چاہیے اور یہ غصہ کو ختم کر کے حاصل
ہوگئ اور اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَا تَجَرَّعَ عَبْدٌ أَفْضَلَ
عِنْدَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ جُرْعَةِ غَيْظٍ يَكْظِمُهَا ابْتِغَاءَ وَجْهِ
اللهِ تَعَالٰى».رَوَاهُ أَحْمَدُ روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم
نے کہ کسی بندے نے الله کے نزدیک کوئی گھونٹ اس غصہ کے گھونٹ سے بہتر نہ پیا جسے
بندہ الله کی رضا جوئی کے لیے پی لے ۱؎ (احمد) کتاب:مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5116
تشریح:
یعنی جوشخص مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ الله
تعالٰی کی رضا جوئی کے لیے اپنا غصہ پی لے اور قادر ہونے کے باوجود غصہ جاری نہ
کرے وہ الله کے نزدیک بڑے درجے والا ہے۔غصہ پینا ہے تو کڑوا مگر اس کا پھل بہت میٹھا
ہے۔غصہ کو گھونٹ فرمایا کیونکہ جیسے کڑوی چیز بمشکل تمام گھونٹ گھونٹ کرکے پی جاتی
ہے ایسے ہی غصہ پینا مشکل ہے۔
اسی طرح ہم
چاہتے ہیں کہ کوئی بھی ایسا کام ہم نہ کرے جو شیطان کرتا ہو بلکہ اگر کسی کو یہ
بول دیا جائے کہ تم شیطانی کام کرتے ہوں تو وہ اس سے بھی بعض دفعہ ناراض ہو جاتا
ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
وَعَنْ عَطِيَّةَ بْنِ عُرْوَةَ السَّعْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ
صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَإِنَّ
الشَّيْطَانَ خُلِقَ مِنَ النَّارِ وَإِنَّمَا يُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ
فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ۔ رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ روایت ہے حضرت عطیہ ابن عروہ سعدی سے فرماتے ہیں
فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ
سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے تو تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے
تو وہ وضو کرے(ابوداؤد) کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث
نمبر:5113
تو اب اس سے
پتہ چلا کہ جو غصہ ہے یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تو جس طرح ہم بقیہ شیطانی کام
کرنے سے گریز کرتے ہے ایسے ہی غصہ کرنے سے بھی گریز کریں اور اسی طرح ہم ان کاموں
سے بھی بچتے ہے جو ہمارے ایمان کو برباد کر دیں ہمارے ایمان کو بگاڑ کے رکھ دیں
جبکہ ایمان کو کیا چیز بگاڑتی ہے اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: وَعَنْ
بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهٖ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى
اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«إِنَّ الْغَضَبَ لَيُفْسِدُ
الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الصَّبْرُ الْعَسَلَ » روایت ہے حضرت بہز ابن حکیم سے وہ اپنے والد سے وہ
اپنے دادا سے راوی فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ غصہ ایمان
کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا(تمہ)شہد کو کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح
جلد:6 , حدیث نمبر:5118
تو میرے محترم
اسلامی بھائیوں اس حدیث پاک سے بھی پتہ چلا کہ غصہ جو ہے یہ انسان کے ایمان کو
بگاڑ دیتا ہے اگر ہم چاہتے ہے کہ ہمارے ایمان کو نہ بگاڑا جائے ، ہمارے رشتہ داریاں
قائم رہے ، ہماری دوسروں کے سامنے عزت ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم غصہ کرنا
چھوڑ دیں۔ کیونکہ غصہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بہت زیادہ مشکل میں ڈال دیتا ہے
اور ہماری عزت لوگوں میں ختم کر دیتا ہے ہمیں قطع تعلق کرنے پر مجبور کر دیتا یے
اور بھی بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو اس غصہ کی وجہ سے ہم پہ آتی ہے ۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس آفت سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاتمہ بلایمان
فرمائے۔ (آمین)
مزمل حسن
خان (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
حضرتِ سیِّدُنا
فقیہ ابواللَّیث سمرقندی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہ تَنبیہُ الغافِلین میں نقل
کرتے ہیں: حضرت ِ سیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہرضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: بنی
اسرائیل کے ایک بُزُرگ ایک بار کہیں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک موقع پر اچانک
پتّھر کی ایک چٹان اوپر کی جانب سے سرکے قریب آپہنچی ،اُنہوں نے ذکر اﷲ
عَزَّوَجَلَّ شروع کردیا تووہ دور ہٹ گئی۔ پھرخوفناک شَیر اور درِندے ظاہِر ہونے
لگے مگر وہ بُزُرگ نہ گھبرائے اور ذکر اﷲ عَزَّوَجَلَّ میں لگے رہے۔ جب وہ بُزُرگ
نَماز میں مشغول ہوئے تو ایک سانپ پاؤں سے لپٹ گیا ،یہاں تک کہ سارے بدن پر
پھرتاہوا سر تک پہنچ گیا،وہ بُزُرگ جب سجدہ کا ارادہ فرماتےوہ چہرے سے لپٹ جاتا،
سجدے کیلئے سرجُھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سَجدہ پر منہ کھول دیتا۔مگر وہ
بُزُرگ اسے ہٹا کرسَجدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ۔
جب نَماز سے فارِغ ہوئے توشیطان کُھل کر سامنے
آگیا اور کہنے لگا:یہ سار ی حَرَکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں، آپ بَہُت ہمت
والے ہیں، میں آپ سے بَہُت مُتأَثِّر ہواہوں،لہٰذااب میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ آپ
کو کبھی نہیں بہکاؤں گا،مہربانی فرماکر آپ مجھ سے دوستی کرلیجئے۔ اُس اسرائیلی
بُزُرگ نے شیطان کے اس وار کو بھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا: تونے مجھے ڈرانے کی
کوشِش کی لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میں ڈرا نہیں ، میں تجھ سے ہر گز
دوستی نہیں کروں گا۔بولا: اچّھا ،اپنے اَہل وعِیال کا اَحوال مجھ سے دریافت کرلیجئے
کہ آپ کے بعد ان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا:مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضَرورت نہیں۔ شیطان
نے کہا:پھر یِہی پوچھ لیجئے کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایا : ہاں یہ
بتادے ۔ بولا، میرے تین جال ہیں: (1)بُخل (2)غُصّہ(3) نَشہ۔ اپنے تینوں جالوں کی
وَضاحت کرتے ہوئے بولا، جب کسی پر ’’بُخْل ‘‘ کا جال پھینکتا ہوں تووہ مال کے جال
میں اُلجھ کر رَہ جاتاہے اُس کا یہ ذِہن بناتا رَہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بَہُت قلیل
ہے(اس طرح وہ بُخل میں مبتلا ہو کر)
حُقُوقِ
واجِبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رَہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل
ہوجاتاہے ۔ (اور یوں مال کے جال میں پھنس کرنیکیوں سے دُور ہوکر گناہوں کے دلدل میں
اترجاتا ہے) جب کسی پر غُصّہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند
کو پھینکتے اور اُچھالتے ہیں، میں اس غُصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح
پھینکتا اور اُچھالتا ہوں۔غُصیلا شخص علم وعمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز
ہو،خواہ اپنی دعاؤں سے مُرد ے تک زندہ کرسکتا ہو ،میں اس سے مایوس نہیں ہوتا، مجھے
اُمّید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غُصّہ میں بے قابو ہوکر کوئی ایساجُملہ بک دے
گا جس سے اس کی آخِرت تبا ہ ہوجائے گی۔رہا ’’نَشہ ‘‘تو میرے اس جال کا شکاریعنی
شرابی اس کو تومیں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس بُرائی کی طرف چاہوں لئے لئے پھرتا
ہوں۔ اِس طرح شیطان نے یہ بتادیا، کہ جو شخص غُصّہکرتا ہے وہ شیطان کے ہاتھ میں ایسا
ہے، جیسے بچّوں کے ہاتھ میں گیند۔ اس لیے غُصّہ کرنے والے کو صَبْر کرنا چاہیے ،
تاکہ شیطان کا قیدی نہ بنے کہ کہیں عمل ہی ضائع نہ کر بیٹھے ۔(تنبیہ الغافلین
ص110پشاور)
غُصّے
کی تعریف مُفَسّرِشہیر حکیمُ
الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: غَضَب یعنی
غُصّہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پر
اُبھارے۔(مرأۃ المناجیح ج6 ص655 ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)
غُصّے سے
جَنَم لینے والی16 بُرائیوں کی نشاندہی:
غُصّہ کے سبب
بَہُت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں جو آخِرت کیلئے تباہ کُن ہیں مَثَلًا :{1}حسد {2}
غیبت {3}چغلی {4}کینہ {5}قَطع تعلُّق {6} جھوٹ}7}آبروریزی {8}دوسرے کوحقیر
جاننا{9} گالی گلوچ {10} تکبُّر{11}بے جا مار دھاڑ {12} تَمسخُر(یعنی مذاق اُڑانا)
{13} قَطعِ رِحمی {14}بے مُرُوَّتی{15} شُماتَت یعنی کسی کے نقصان پر راضی ہونا
{16} اِحسان فراموشی وغیرہ۔ واقِعی جس پرغُصّہ آجاتا ہے ،اُس کا اگر نقصان ہوجائے
تو غُصّہ ہونے والا خوشی محسوس کرتاہے ،اگر اُس پرکوئی مصیبت آتی ہے تو یہ راضی
ہوتا ہے،اس کے سارے اِحسانات بھول جاتاہے اور ا س سے تعلُّقات ختم کردیتاہے۔ بعضوں
کا غُصّہ دل میں چُھپا رَہتا ہے اور برسوں تک نہیں جاتااسی غُصّہکی وجہ سے وہ شادی
غمی کے مواقِع پر شرکت نہیں کرتا۔بعض لوگ اگر بظاہر نیک بھی ہوتے ہیں پھر بھی جس
پرغُصّہ دل میں چُھپا کر رکھتے ہیں،اس کا اظہار یوں ہوجاتاہے کہ اگر پہلے اس پر
اِحسان کرتے تھے تو اب نہیں کرتے ، اب اُس کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش نہیں آتے،
نہ ہمدردی کامُظاہَرہ کرتے ہیں،اگر اس نے کوئی اجتِماعِ ذکرونعت وغیرہ کا اِہتِمام
کیاتو مَعاذَ اللہعَزَّوَجَلَّ محض نفس کیلئے ہونے والی ناراضگی اورغُصّہ کی وجہ
سے اس میں شرکت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں ۔ بعض رشتے دار ایسے بھی ہوتے ہیں
کہ ان کے ساتھ آدَمی لاکھ حُسنِ سُلوک کرے مگر وہ راہ پر آتے ہی نہیں ،مگر ہمیں مایوس
نہیں ہونا چاہئے۔’’جامِعِ صغیر ‘‘میں ہے: صِلْ مَنْ قَطَعَکَ یعنی ’’جو تجھ سے
رِشتہ کاٹے تو اس سے جوڑ۔‘‘(الجامع الصغیرللسیوطی ص309ح 5004)
مولیٰنارُومی
فرماتے ہیں :
جنت کی بشارت:
حضر ت ِسیِّدُناابو الدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں، کہ میں نے عرض
کی ،یارسول اللہ! عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنَّت میں داخِل کر دے؟ سرکارِ
مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے
ارشاد فرمایا : ’’ لَا تَغْضَبْ وَلَکَ الْجَنَّـۃُ ‘‘ یعنی غُصّہ نہ کرو، تو تمہارے لئے جنَّت ہے۔(مجمع
الزوائد،ج8،ص134حدیث12990 دارالفکر بیروت)
طاقتور کون؟: بخاری
میں ہے:’’طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے
جوغُصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔‘‘(صحیح البخاری ج4ص130 حدیث6114
دارالکتب العلمیۃ بیروت)
غُصّہ پینے کی
فضیلت: کَنزُالْعُمّال میں ہے:سرکارِ مدینۂ منوَّرہ،، سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظم ہے: جوغُصّہ پی جائے
گاحالانکہ وہ نافِذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس
کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرمادیگا۔(کنزالعُمّال ج3ص163حدیث7160 دارالکتب العلمیۃ
بیروت)
غُصّے کا ایک
علاج یہ بھی ہے کہغُصّہ لانے والی باتوں کے موقع پر بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ
الْمُبِیْن کے طرز ِعمل اور ان کی حِکایات کو ذِہن میں دوہرائے :