سجاول زبیر
(درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ گجرات ،پاکستان)
غصہ:- کسی
خلاف طبیعت چیز یا بات پر نفس کا جوش مارنا ،اس کیفیت کا نام ’’غصہ ‘‘ ہے۔ غصہ ہر
انسان میں ہونا کمال انسانی کے لوازم میں سے ہے اور غصہ فی نفسہ اور بذات خود نہ
اچھا ہے نہ بُرااس کو ایک مثال سے یوں سمجیے کہ غصہ ایسا ہی ہے جیسے ’’استرہ
‘‘ظاہر ہے کہ اگر ’’استرہ ‘‘ سے حجامت بنائی جائے تو یہ بہت ہی اچھی چیز ہے اور
اگر استرہ سے ناک کاٹ لی جائے تو یہ بہت ہی بُری چیز ہے۔تو ’’استرہ ‘‘بذات خود نہ
اچھا ہے نہ برا بلکہ اگر اس سے اچھا کام لیا جائے تو یہ اچھا ہے اور اگر اس سے
بُرا کام لیا جائے تو یہ بُرا ہے ۔بس غصہ بھی بالکل ایسا ہی ہے کہ اگر غصہ آنے پر
اس غصہ سے کوئی اچھا کام ہوا تو یہ غصہ اچھا ہے اور اگر اس غصہ سے کوئی بُرا کام
ہوا تو یہ غصہ بُرا ہے اور غصے کی احادیث بہت مذمت بیان کی گئی ہے آئیے اس میں سے
کچھ احادیث سنتے ہے
" غصے کا ایمان بگاڑنا " عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ
عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهٖ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"إِنَّ الْغَضَبَ
لَيُفْسِدُ الْإِيمَانَ كَمَا يُفْسِدُ الصَّبْرُ الْعَسَل ترجمہ :- حضرت بہز ابن حکیم اپنے والد سے وہ اپنے دادا
سے روایت کرتے ہے کہ راوی فرماتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
" کہ غصہ ایمان کو ایسا بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا یعنی تمہ شہد کو۔ حکیم الامت
مفتی احمد یار خاں فرماتے ہے کہ غصہ اکثر کمال ایمان کو بگاڑ دیتا ہے مگر کبھی اصل
ایمان کا ہی خاتمہ کر دیتا ہے۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد:6 , حدیث
نمبر:5118
" جہنمی دروازہ " تاجدار رسالت ، محبوب رَبُّ الْعِزَّت صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’بے شک! جہنم میں ایک ایسا
دروازہ ہے جس سے وہی داخل ہوگا جس کا غصہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی پر ہی
ٹھنڈا ہوتاہے۔ ( کنزالعمال، کتاب الالخلاق، قسم الاقوال 2/208 حدیث نمبر 7696 )
" الله کا عذاب روک لینا " وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ
رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ خَزَنَ لِسَانَهٗ سَتَرَ
اللّٰهُ عَوْرَتَهٗ وَمَنْ كَفَّ غَضَبَهٗ كَفَّ اللّٰهُ عَنْهُ عَذَابَهٗ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ وَمَنِ اعْتَذَرَ إِلَى اللّٰهِ قَبِلَ اللّٰهُ عُذْرَهٗ ترجمہ :- روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنی زبان کی حفاظت کرے الله تعالٰی
اس کے عیب چھپالے گا اور جو اپنا غصہ روکے الله تعالٰی اس سے قیامت کے دن اپنا
عذاب روک لے گا اور جو الله تعالٰی کی بارگاہ میں معذرت کرےالله تعالٰی اس کے عذر
قبول کرلے گا , کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5121
" غصہ مت کرو " عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ: أَوْصِنِیْ قَالَ:’’ لَا تَغْضَبْ‘‘ فَرَدَّدَ مِرَارًا، قَالَ:’’ لَا تَغْضَبْ‘‘ ترجمہ :- حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نَبِیِّ اکرم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کی :’’مجھے وصیت فرمائیے! ‘‘
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :’’غصہ مت کرو۔‘‘
اس نے کئی بار یہی سوال دُہرایا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے ہر بار یہی فرمایا کہ’’ غصہ مت کیا کرو۔‘‘ ( بخاری کتاب الادب ، باب
حذر من الغضب، 131/4، حدیث)6116
بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللہِ الغَنِیْ فرماتے ہیں :’’حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے سائل کو’’لَاتَغْضَبْ‘‘ اس لئے فرمایا کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کی طبیعتیں جانتے تھے اس لئے جس کی جیسی
طبیعت ہوتی اُسے ویسا ہی حکم ارشاد فرماتے ، شاید کہ وہ صاحب بہت غصے والے تھے اسی
لئے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں غصہ ترک کرنے
کی وصیت فرمائی ۔‘‘( عمدة القاری، کتاب الادب، باب حذر من الغضب، 255/15، تحت حدیث
6116
"غصہ کی کثرت راہِ حق سے ہٹا دیتی ہے"
حضرتِ سَیِّدُنا سیلمان بن داؤد
عَلَیْھِمَا السَّلَام نے فرمایا: زیادہ غصہ کرنے سے بچو کیونکہ غصے کی کثرت
بُرْدبار آدمی کے دل کو راہِ حق سے ہٹادیتی ہے۔ (احیاء العلوم 204/3
ہمارے بزرگانِ دین رَحِمَہم اللہُ الْمُبِیْن کے
سامنے جب غصہ دلانے والی باتیں کی جاتیں تو وہ غُصّہ نہ کرتے بلکہ ان کی تمام تر
توجہ اپنی آخرت کی طرف رہتی تھی اور شیطان کے اس وار کو ناکام بنا دیتے۔ آئیے اس
کو ایک حکایت سے سمجھتے ہے
منقول ہے کہ ایک
شخص نےاَمِیْرُ الْمُؤمِنِیْن حضرتِ سَیِّدُنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کو برا بھلا کہا تو آپ نے فرمایا :’’جو کچھ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھ سے
چھپا رکھا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے ۔‘‘ گویا آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خوف اور اس کی مزید معرفت کے حصول میں مشغول تھے اسی لئے آپ
نے اپنی عیب جوئی کرنے والے پر غصہ نہ کیا ۔
ایک عورت نے
حضرتِ سَیِّدُنا مالک بن دینار عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار سے کہا:’’ اے ریا
کار !‘‘ آپ نے فرمایا: تیرے سوا کسی نے مجھے نہیں پہچانا۔گویا آپ اپنے آپ سے ریاکاری
کی آفت کو دور کرنے میں مشغول تھے اور جو کچھ شیطان کہتا تھا اس کا انکار فرماتے
تھے، لہٰذا جب آپ کو رِیا کار کہا گیا تو آپ نے غُصّہ نہ کیا ۔( احیاء العلوم
212/3)
امام غزالی
عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی ان واقعات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’
ان واقعات سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کو غُصّہ نہیں آتا تھا کیونکہ
ان کے دل اہم دینی اُمور میں مشغول ہوتے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گالی گلوچ
اُن کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہو لیکن یہ اس طرف توجہ ہی نہ کرتے ہوں کیونکہ وہ
اس بات میں مشغول ہوتے تھے جس کا اُن کے دلوں پر غلبہ تھا ، تو بعید نہیں کہ دل کا
بعض اَہم امور میں مشغول ہونا بعض پسندیدہ چیزوں کے چلے جانے پر غُصّہ آنے کو روک
دے اس وقت غصے کا مفقود ہونا متصور ہوگا۔‘‘ ( احیاء العلوم 212/3 )
" غصہ شیطان کی طرف سے ہے " وَعَنْ عَطِيَّةَ بْنِ
عُرْوَةَ السَّعْدِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«إِنَّ الْغَضَبَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَإِنَّ الشَّيْطَانَ خُلِقَ
مِنَ النَّارِ وَإِنَّمَا يُطْفَأُ النَّارُ بِالْمَاءِ فَإِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ
فَلْيَتَوَضَّأْ» ترجمہ :-روایت ہے
حضرت عطیہ ابن عروہ سعدی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ
غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی
جاتی ہے تو تم میں سے کسی کو جب غصہ آئے تو وہ وضو کرے ۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:5113