حضرتِ سیِّدُنا فقیہ ابواللَّیث سمرقندی رَحْمَۃُ اﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہ تَنبیہُ الغافِلین میں نقل کرتے ہیں: حضرت ِ سیِّدُنا وَہب بن مُنَبِّہرضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں: بنی اسرائیل کے ایک بُزُرگ ایک بار کہیں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک موقع پر اچانک پتّھر کی ایک چٹان اوپر کی جانب سے سرکے قریب آپہنچی ،اُنہوں نے ذکر اﷲ عَزَّوَجَلَّ شروع کردیا تووہ دور ہٹ گئی۔ پھرخوفناک شَیر اور درِندے ظاہِر ہونے لگے مگر وہ بُزُرگ نہ گھبرائے اور ذکر اﷲ عَزَّوَجَلَّ میں لگے رہے۔ جب وہ بُزُرگ نَماز میں مشغول ہوئے تو ایک سانپ پاؤں سے لپٹ گیا ،یہاں تک کہ سارے بدن پر پھرتاہوا سر تک پہنچ گیا،وہ بُزُرگ جب سجدہ کا ارادہ فرماتےوہ چہرے سے لپٹ جاتا، سجدے کیلئے سرجُھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سَجدہ پر منہ کھول دیتا۔مگر وہ بُزُرگ اسے ہٹا کرسَجدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ۔

جب نَماز سے فارِغ ہوئے توشیطان کُھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا:یہ سار ی حَرَکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں، آپ بَہُت ہمت والے ہیں، میں آپ سے بَہُت مُتأَثِّر ہواہوں،لہٰذااب میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا،مہربانی فرماکر آپ مجھ سے دوستی کرلیجئے۔ اُس اسرائیلی بُزُرگ نے شیطان کے اس وار کو بھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا: تونے مجھے ڈرانے کی کوشِش کی لیکن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ میں ڈرا نہیں ، میں تجھ سے ہر گز دوستی نہیں کروں گا۔بولا: اچّھا ،اپنے اَہل وعِیال کا اَحوال مجھ سے دریافت کرلیجئے کہ آپ کے بعد ان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا:مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضَرورت نہیں۔ شیطان نے کہا:پھر یِہی پوچھ لیجئے کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایا : ہاں یہ بتادے ۔ بولا، میرے تین جال ہیں: (1)بُخل (2)غُصّہ(3) نَشہ۔ اپنے تینوں جالوں کی وَضاحت کرتے ہوئے بولا، جب کسی پر ’’بُخْل ‘‘ کا جال پھینکتا ہوں تووہ مال کے جال میں اُلجھ کر رَہ جاتاہے اُس کا یہ ذِہن بناتا رَہتا ہوں کہ تیرے پاس مال بَہُت قلیل ہے(اس طرح وہ بُخل میں مبتلا ہو کر)

حُقُوقِ واجِبہ میں خرچ کرنے سے بھی باز رَہتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مال کی طرف بھی مائل ہوجاتاہے ۔ (اور یوں مال کے جال میں پھنس کرنیکیوں سے دُور ہوکر گناہوں کے دلدل میں اترجاتا ہے) جب کسی پر غُصّہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اُچھالتے ہیں، میں اس غُصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں۔غُصیلا شخص علم وعمل کے کتنے ہی بڑے مرتبے پر فائز ہو،خواہ اپنی دعاؤں سے مُرد ے تک زندہ کرسکتا ہو ،میں اس سے مایوس نہیں ہوتا، مجھے اُمّید ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی وہ غُصّہ میں بے قابو ہوکر کوئی ایساجُملہ بک دے گا جس سے اس کی آخِرت تبا ہ ہوجائے گی۔رہا ’’نَشہ ‘‘تو میرے اس جال کا شکاریعنی شرابی اس کو تومیں بکری کی طرح کان پکڑ کر جس بُرائی کی طرف چاہوں لئے لئے پھرتا ہوں۔ اِس طرح شیطان نے یہ بتادیا، کہ جو شخص غُصّہکرتا ہے وہ شیطان کے ہاتھ میں ایسا ہے، جیسے بچّوں کے ہاتھ میں گیند۔ اس لیے غُصّہ کرنے والے کو صَبْر کرنا چاہیے ، تاکہ شیطان کا قیدی نہ بنے کہ کہیں عمل ہی ضائع نہ کر بیٹھے ۔(تنبیہ الغافلین ص110پشاور)

غُصّے کی تعریف مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: غَضَب یعنی غُصّہ نفس کے اُس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دَفع (دور)کرنے پر اُبھارے۔(مرأۃ المناجیح ج6 ص655 ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور)

غُصّے سے جَنَم لینے والی16 بُرائیوں کی نشاندہی:

غُصّہ کے سبب بَہُت ساری برائیاں جنم لیتی ہیں جو آخِرت کیلئے تباہ کُن ہیں مَثَلًا :{1}حسد {2} غیبت {3}چغلی {4}کینہ {5}قَطع تعلُّق {6} جھوٹ}7}آبروریزی {8}دوسرے کوحقیر جاننا{9} گالی گلوچ {10} تکبُّر{11}بے جا مار دھاڑ {12} تَمسخُر(یعنی مذاق اُڑانا) {13} قَطعِ رِحمی {14}بے مُرُوَّتی{15} شُماتَت یعنی کسی کے نقصان پر راضی ہونا {16} اِحسان فراموشی وغیرہ۔ واقِعی جس پرغُصّہ آجاتا ہے ،اُس کا اگر نقصان ہوجائے تو غُصّہ ہونے والا خوشی محسوس کرتاہے ،اگر اُس پرکوئی مصیبت آتی ہے تو یہ راضی ہوتا ہے،اس کے سارے اِحسانات بھول جاتاہے اور ا س سے تعلُّقات ختم کردیتاہے۔ بعضوں کا غُصّہ دل میں چُھپا رَہتا ہے اور برسوں تک نہیں جاتااسی غُصّہکی وجہ سے وہ شادی غمی کے مواقِع پر شرکت نہیں کرتا۔بعض لوگ اگر بظاہر نیک بھی ہوتے ہیں پھر بھی جس پرغُصّہ دل میں چُھپا کر رکھتے ہیں،اس کا اظہار یوں ہوجاتاہے کہ اگر پہلے اس پر اِحسان کرتے تھے تو اب نہیں کرتے ، اب اُس کے ساتھ حُسنِ سُلوک سے پیش نہیں آتے، نہ ہمدردی کامُظاہَرہ کرتے ہیں،اگر اس نے کوئی اجتِماعِ ذکرونعت وغیرہ کا اِہتِمام کیاتو مَعاذَ اللہعَزَّوَجَلَّ محض نفس کیلئے ہونے والی ناراضگی اورغُصّہ کی وجہ سے اس میں شرکت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں ۔ بعض رشتے دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ آدَمی لاکھ حُسنِ سُلوک کرے مگر وہ راہ پر آتے ہی نہیں ،مگر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔’’جامِعِ صغیر ‘‘میں ہے: صِلْ مَنْ قَطَعَکَ یعنی ’’جو تجھ سے رِشتہ کاٹے تو اس سے جوڑ۔‘‘(الجامع الصغیرللسیوطی ص309ح 5004)

مولیٰنارُومی فرماتے ہیں :

جنت کی بشارت: حضر ت ِسیِّدُناابو الدرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کہتے ہیں، کہ میں نے عرض کی ،یارسول اللہ! عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیے جو مجھے جنَّت میں داخِل کر دے؟ سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’ لَا تَغْضَبْ وَلَکَ الْجَنَّـۃُ ‘‘ یعنی غُصّہ نہ کرو، تو تمہارے لئے جنَّت ہے۔(مجمع الزوائد،ج8،ص134حدیث12990 دارالفکر بیروت)

طاقتور کون؟: بخاری میں ہے:’’طاقتور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جوغُصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔‘‘(صحیح البخاری ج4ص130 حدیث6114 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

غُصّہ پینے کی فضیلت: کَنزُالْعُمّال میں ہے:سرکارِ مدینۂ منوَّرہ،، سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ معظم ہے: جوغُصّہ پی جائے گاحالانکہ وہ نافِذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرمادیگا۔(کنزالعُمّال ج3ص163حدیث7160 دارالکتب العلمیۃ بیروت)

غُصّے کا ایک علاج یہ بھی ہے کہغُصّہ لانے والی باتوں کے موقع پر بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کے طرز ِعمل اور ان کی حِکایات کو ذِہن میں دوہرائے :