اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا:﴿لَا تَجَسَّسُوْا ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)یعنی مسلمان کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ پاک نے اپنی ستاری سے چھپایا ۔

تجسّس کی مذمّت: حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ان لوگوں کے گروہ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا، اللہ پاک اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (پاک) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کر دے گا، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو۔ (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، 4 / 354، حدیث: 4880)

تجسّس کے اسباب :سب سے پہلے ہے بغض و کینہ اور حسد اپنے دل میں کسی بھی مسلمان کے لیے کینہ نہ رکھے یہ تو ویسے بھی برا فعل ہے مگر اس کی وجہ سے بھی بندہ تجسّس میں مبتلا ہوجاتا ہے کیوں کہ جس سے حسد یا بغض ہوگا تو بندہ اس کے عیب تلاش کرے گا ہمیں چاہیے نہ کسی مسلمان سے حسد کریں اور نہ کسی کے لیے دل میں کینہ رکھے ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں۔

تجسّس کا علاج :اس کا جو سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے عیبوں کو دیکھے اور اسی کو دور کرنے کی کوشش کرے دوسروں کے عیب نہ ڈھونڈے شیخ سعدی فرماتے ہیں: اپنے جسم پر زہریلے سانپ اور بچھو بیٹھے ہیں اور دوسروں کی مکھیاں اڑانے میں ہم لگے ہیں یعنی ہمیں اپنے بڑے بڑے عیب نظر نہیں آتے دوسروں کے چھوٹے عیب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ اللہ پاک کی رضا کے لیے سب سے محبت کریں اِن شاءلله لوگ آپ سے بھی محبت کریں گے امیر اہلسنت فرماتے ہیں: محبت دو گے محبت ملے گی اور جو بندہ آپ سے محبّت سے پیش آئے تو آپ اس کے عیب بھی نہیں ڈھونڈیں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو ہر گناہ سے بالخصوص تجسّس جیسے برے گناہ سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : تجسّس کے بارے میں مزید معلومات کے لیے دعوت اسلامی کا اشاعتی ادارہ مکتبۃُ المدینہ کی کتاب نیکی کی دعوت صفحہ 357 تا 402 کا مطالعہ کیجیے۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! آج کل ہم دوسروں کی خامیاں جاننا بہت پسند کرتے ہیں اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ برائی کا ارتکاب کی تلاش و جستجو کرنا اس سے منع کیا گیا ہے اور یہ تجسّس ہے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسروں کے گھروں میں جھانکے یا دوسروں کی غلطیوں کو نوٹ کرنا یا دوسروں کی خفیہ باتیں و عیب جاننے سے بچنا چاہیے میں آپ کو بتا دوں کہ تجسّس کہتے کسے ہیں ؟

تجسس کی تعریف : لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے۔(احیاء العلوم، 3/459، ماخوذ)

اللہ پاک قراٰنِ پاک میں اِرشاد فرماتا ہے:﴿ لَا تَجَسَّسُوْا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ (پ26، الحجرات: 12)

اللہ پاک کے محبوب، دانائے غُیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا! مسلمانوں کو ایذا مت دو، اور نہ ان کے عیوب کو تلاش کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اُس کا عیب ظاہر فرما دے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرما دے تو اُسے رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانہ میں ہو۔ (شعب الایمان ، باب فی تحریم اعراض الناس، 5/296، حدیث: 6704، بتغیر)

ایک اور مقام پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: ’’غیبت کرنے والوں ، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک (قیامت کے دن )کتّوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(التّوبیخ والتّنبیہ لابی الشیخ الاصبھانی، ص97 ، حدیث:220، الترغیب والترھیب، 3/325 ، حدیث :10)

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے بارے میں کچھ سنتا ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور یہ اسے برہنہ کرنے سے بڑا گناہ ہے۔ ( احیاء العلوم، 2/ 644)

تجسس کا ایک سبب نفاق ہے اسی لیے امام غزالی فرماتے ہیں : ’’مومن ہمیشہ اپنے دوست کی خوبیوں کو سامنے رکھتا ہے تاکہ اس کے دل میں عزت، محبت اور احترام پیدا ہو جبکہ منافق ہمیشہ بُرائیاں اور عیوب دیکھتا ہے ۔‘‘اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات سے نفاق کو دور کرنے کی عملی کوشش کرے ۔(احیاء العلوم، 2/640)

تجسس کا دوسرا سبب چغل خوری کی عادت ہے۔ محبتوں کے چور چغل خور کو کسی نہ کسی منفی پہلو کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے وہ ہر وقت مسلمانوں کے پوشیدہ عیوب کی تلاش میں لگا رہتا ہے، پھر یہ عیب اِدھر اُدھر بیان کر کے فتنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ چغل خوری کی وعیدوں کو پیش نظر رکھے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے۔

تجسس کا تیسرا سبب بغض و کینہ اور ذاتی دشمنی ہے۔ جب کسی مسلمان کا بغض و کینہ دل میں آجاتا ہے تو اس کا سیدھا کام بھی الٹا دکھائی دیتا ہے یوں نظریں اس کے عیوب تلاش کرنے میں لگی رہتی ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو مسلمانوں کے بغض و کینہ سے پاک وصاف کرے، اپنے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا کرنے کے لیے اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پیش نظر رکھے: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی طرف محبت بھر ی نظر سے دیکھے اور اس کے دل یا سینے میں عداوت نہ ہو تو نگاہ لوٹنے سے پہلے دونوں کے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔(شعب الایمان، باب في الحث على ترك الغل والحسد، 5/271، حدیث: 6624،ملتقطا)

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب چھپانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب تلاش کرنے سے بچنے، اپنے عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور ا گر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت مزید بڑھ جاتی ہے۔اس لئے دینِ اسلام نے ان تمام افعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جس سے ایک مسلمان کی عزت پامال ہوتی ہو، ان میں سے ایک فعل تجسس (یعنی کسی کے عیب تلاش کرنا بھی ہے) جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑا کردار ہے۔

تجسس کی تعریف: لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص318) پارہ 26 سورۃالحجرات،آیت نمبر: 12 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَاتَجَسَّسُوْا﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔ تفسیر خزائنُ العرفان میں ہے: یعنی مسلمانوں کی عیب جوئی نہ کرو اور ان کے چُھپے حال کی جستجو میں نہ رہو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ستاری سے چُھپایا۔(خزائن العرفان، ص930) آئیے! اب تجسس کی مذمت کے متعلق چند احادیث پڑھئے اور لرزیئے:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اے لوگو! جو زبانوں سے تو ایمان لے آئے ہو مگر تمہارے دل میں ابھی تک ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کے عیب تلاش نہ کرو کیونکہ جو اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ پاک اس کا عیب ظاہر فرمادے گا اور اللہ پاک جس کا عیب ظاہر فرمادے تو اسے رُسوا کر دیتا ہے اگر چہ وہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں ہو۔(شعب الایمان، 5/296، حدیث:6704 ملتقطاً) اس سے پتا چلتا ہے کہ کسی کے عیب تلاش کرنا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے۔

(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی ہو جاؤ۔(مسلم،ص1063،حدیث:6536 ملتقطاً)

(3)حضور خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تِنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ بھول جاتا ہے۔(شعب الایمان، 5/311،حدیث:6761)

(4)حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا: جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو۔(شعب الایمان،5/311،حدیث:6758)

(5)اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غیبت کرنے والوں، چغل خوروں اور پاکباز لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو الله (قیامت کے دن) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔(الترغیب والترہیب، 3/ 392،حدیث:10)

تجسس کا حکم: مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے، دینِ اسلام نے عیبوں کو تلاش کرنے اور لوگوں کے سامنے بغیر شرعی اجازت کے بیان کرنے سے منع فرمایا ہے۔

معزز قارئینِ کرام! ذیل میں تجسس کے کچھ اسباب بیان کئے جا رہے ہیں ان کو ذہن نشین کر لیجئے تاکہ ان اسباب سے بچا جائے اور تجسس جیسی باطنی بیماری سے نجات حاصل ہو۔ (1)بغض و کینہ اور ذاتی دشمنی (2)حسد (3)چغل خوری کی عادت (4)نفاق (5)منفی سوچ (6)شہرت اور مال و دولت کی ہوس (7)چاپلوسی کی عادت۔

اللہ پاک ہمیں دوسروں کے عیب چھپانے اور اپنے عیبوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد الله پاک نے انسانوں کی رشدو ہدایت کے لئے انبیائے کرام کو مبعوث فرمانے کا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے حضرت آدم صفی اللہ علیہ السّلام اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے ۔ پھر اسی طرح انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ حضرت نوح نجی الله، حضرت شیث علیہما السّلام بھی اس دنیا میں نبوت سے سرفراز ہوئے ۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ اس دنیا نے الله پاک کے محبوب نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ و السّلام کی بھی جلوہ گری دیکھی۔ چونکہ نبوت ایک بہت ہی اعلیٰ منصب ہے۔ اس سے ان حضرات کی سب سے بڑی شان و عظمت تو یہی ہے کہ اللہ پاک نے ان مبارک ہستیوں کو منصبِ نبوت کیلئے منتخب فرمایا ۔ اسی طرح یہ تمام حضرات اعلیٰ اخلاق اور عمدہ صفات سے بھی متصف تھے ۔ لیکن الله پاک نے مختلف انبیائے کرام علیہم السّلام کی قراٰن مجید میں مختلف صفات کو بیان فرمایا ہے۔ آئیے اس بار ہم قراٰنِ کریم میں بیان کردہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی چند صفات کے بارے میں جانتے ہیں ۔

(1) امام و پیشوا : قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں ۔ چنانچہ سورةُ البقرہ آیت نمبر (124) میں ارشاد فرمایا : ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ-قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْؕ-قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ(۱۲۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان:اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں عرض کی اور میری اولاد سے فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ (پ1، البقرۃ: 124)

(2) مقامِ ابراہیم : الله پاک نے قراٰن میں مقامِ ابراہیم کے بارے میں فرمایا : ﴿وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔(پ1، البقرۃ:125)

(3) دینِ ابراہیمی: الله پاک نے اپنی لاریب کتاب قراٰن پاک میں ملت ابراہیم سے اعراض کرنے والے کے بارے میں اور حضرت ابراہیم کی ایک صفت ذکر فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرہ آیت نمبر 130 میں ارشاد فرمایا : ﴿وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗؕ-وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَاۚ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۳۰)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ابراہیم کے دین سے کون منہ پھیرے سوا اس کے جو دل کا احمق ہے اور بیشک ضرور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا اور بیشک وہ آخرت میں ہمارے خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے۔(پ1، البقرۃ:130)

(4) حنیف ( ہر باطل سے جدا) : قراٰنِ پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے ان کو کتاب میں حنیف (یعنی ہر باطل سے جدا) فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ قَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْاؕ-قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۳۵)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہو جاؤ راہ پاؤگے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے۔(پ1،البقرۃ : 135 )

(5) اتباع ملتِ ابراہیمی کا حکم : حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے ان کے دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ﴿قُلْ صَدَقَ اللّٰهُ۫-فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ (۹۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اللہ سچا ہے تو ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور شرک والوں میں نہ تھے۔(پ4، اٰل عمرٰن : 95)

(6)نشانی : اسی طرح اور ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے مقامِ ابراہیم کو نشانی فرمایا ہے ۔ سورہ اٰل عمرٰن، آیت نمبر 97 میں ارشاد ہوتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے۔

(7) کتاب، حکمت، عظیم ملک: ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے ان کی اولاد کو کتاب و حکمت اور بڑا ملک عطا فرمایا۔ چنانچہ سورۃُ النساء آیت: 54 میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان : یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔

(8) خلیل الله (اللہ کا گہرا دوست) : حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ایک عظیم صفت یہ ہے کہ اللہ پاک نے انہیں قراٰن میں "خلیل یعنی گہرا دوست " فرمایا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا منہ اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ نیکی والا ہے اور ابراہیم کے دین پر چلا جو ہر باطل سے جدا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النساء : 125 )

(9) وحی : ایک صفت یہ بھی قراٰن میں بیان فرمائی گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف اللہ پاک نے وحی فرمائی۔ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ (پ6، النسآء:163)

(10) بہت آہیں کرنے والا اور متحمل : قراٰن نے حضرت ابراہیم کی ایک صفت بہت آہیں کرنے والا اور ایک صفت متحمل (یعنی برداشت کرنے والا) بیان فرمائی ہے۔ ترجمۂ کنزالایمان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بیشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمل ہے۔ (پ11، التوبۃ:114)

(11)مہمان نواز : حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ بہت مہمان نواز تھے۔ چنانچہ سورہ ہود آیت نمبر 69 میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنزالایمان: اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے سلام کہا سلام پھر کچھ دیر نہ کی کہ ایک بچھڑا بھنا لے آئے ۔

( 12) رجوع لانے والا : اسی طرح انکی ایک صفت "رجوع لانے والا" بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ سورہ ہود آیت نمبر 75 میں مذکور ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(13) ان کی ایک صفت "شکر گزار" ، ایک صفت "امام" ، ایک صفت "اللہ کا فرمانبردار" بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ سورۃُ النحل آیت: 120-122 میں ارشاد ہوا : ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔

(14) یونہی قراٰنِ کریم میں ان کی صفت " صدیق اور نبی یعنی غیب کی خبریں بنانے والا" بھی بیان کی گئی ہے۔ ترجمۂ کنزالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔ (پ16،مریم:41)

معزز قارئین کرام ! قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ و السّلام کی اور بھی صفات کو بیان فرمایا ہے۔ جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو پہلے ہی نیک راہ عطا کرنا، ان پر آگ کا ٹھنڈا اور سلامتی والا ہو جانا ، قدرت اور علم والا ہونا وغیرہ وغیرہ۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرتِ مبارکہ پڑھ کر اس پر عمل کرنے اور ان کے نقش قدم پر چل کر اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی توفیقِ رفیق مرحمت فرمائے ۔ اٰمین


اللہ پاک نے ابتدائے دنیا سے انتہاء دنیا تک لوگوں کی ہدایت کے لئے کثیر انبیا و رسولوں کو بھیجا تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے ایک ہونے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اس کی تلقین فرمائے اور کثیر انبیائے کرام اللہ پاک نے قراٰن مجید میں صفات اور واقعات اور اسماء (نام) بھی ذکر فرمائے ہیں۔ انہی میں سے ایک نبی حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) ہیں جن کا نام اور صفات رب کریم نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمائی ہے۔ رب کریم قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ہم نے فرمایا اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔ (پ 17، الانبیآء :69)

حضرت ابراہیم کی بت شکنی :ہوا کچھ یوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) نے بت پرستی کے معاملہ میں پہلے تو اپنی قوم سے مناظرہ کر کے حق کو ظاہر فرما دیا۔ مگر لوگوں نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ کل ہماری عید کا دن ہے اور ہمارا ایک بہت بڑا میلہ لگے گا وہاں آپ چل کر دیکھیں کہ ہمارے دین میں کیسا لطف (مزہ) اور کیسی بہار ہے۔ اس قوم کا یہ دستور تھا کہ اے سالانہ ان لوگوں کا ایک میلہ لگتا تھا، لوگ ایک جنگل میں جمع ہوتے اور دن بھر لہو لعب (کھیل تماشہ) میں مشغول رہ کر شام کو بت خانہ میں جاکر بتوں کی پوجا کرتے اور بتوں کے چڑھاوے، میٹھائیوں اور کھانوں کو پرشاد کے طور پر کھاتے حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) قوم کی دعوت پر تھوڑی دور کو میلہ کی طرف چلے لیکن پھر اپنی بیماری کا عذر کر کے واپس چلے آئے اور قوم کے لوگ میلہ میں چلے گئے اور جو میلے میں نہیں گئے آپ نے ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا۔(جس کے الفاظ قراٰنِ پاک میں رب کریم نے بیان کئے) (عجائب القرآن ،ص 175)

قراٰنی آیت: ﴿وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(۵۷)﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم پھر جاؤ پیٹھ دے کر۔

چنانچہ آپ نے ایک کلہاڑی لے کر بت خانہ میں تشریف لے گئے اور دیکھا اس میں چھوٹے بڑے بہت سے بت ہیں اور دروازہ کے سامنے ایک بہت بڑا بت ہے ان جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر توحید الہی کے جذبہ سے آپ جلال میں آگئے اور کلہاڑی سے مار مار کر بتوں کو چکنا چور کر ڈالا اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑی اس کے کند سے پر رکھ کر آپ بت خانہ سے باہر چلے آئے ۔ قوم کے لوگ جب واپس آکر بت پوجنے اور پرشاد کھانے کے لئے بت خانہ میں گھسے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور شور مچانے لگ گئے۔ (عجائب القرآن قرائب، ص176)

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا توکل: روایت ہے کہ جب نمرود نے اپنی ساری قوم کے روبرو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تو زمین و آسمان کی تمام مخلوقات چیخ مار مار کر بارگاہ ِ خداوندی میں عرض کرنے لگیں کہ خداوند! تیرے خلیل آگ میں ڈالے جارہے ہیں اور اُن کے سوا زمین میں کوئی اور انسان تیری توحید کا علمبردار اور تیرا پرستار نہیں، لہٰذا تو ہمیں اجازت دے کہ ہم ان کی امداد و نصرت کریں تو اللہ پاک نے فرمایا کہ ابراہیم میرے خلیل ہیں اور میں اُن کا معبود ہوں تو اگر حضرت ابراہیم تم سبھوں سے فریاد کر کے مدد طلب کریں تو میری اجازت ہے کہ سب ان کی مدد کرو۔ اور اگر وہ میرے سوا کسی اور سے کوئی مدد طلب نہ کریں تو تم سب سن لو کہ میں ان کا دوست اور حامی و مددگار ہوں۔ لہٰذا تم اب اُن کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دو۔ اس کے بعد آپ کے پاس پانی کا فرشتہ آیا اور کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں پانی برسا کر اس آگ کو بجھا دوں۔ پھر ہوا کا فرشتہ حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ اگر آپ کا حکم ہو تو میں زبردست آندھی چلا کر اس آگ کو اڑا دوں تو آپ نے ان دونوں فرشتوں سے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھ کو میرا اللہ کافی ہے اور وہی میرا بہترین کارساز ہے وہی جب چاہے گا اور جس طرح اس کی مرضی ہو گی میری مدد فرمائے گا۔ ( صاوی، 4/1370،پ17، الانبیآء:68)

اللہ پاک ان حضراتِ انبیا اور نیک لوگوں کے وسیلے و برکت سے تمام مسلمانوں کی مشکلات آسان فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الكريم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


تمام تعریفیں اللہ کیلئے جس نے انسان کی طرف انبیائے کرام بھیجے تاکہ ان کی اطاعت کی جائے جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت 64 میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ (پ5،النسآء:64)

حضرت ابراہیم الوا العزم رسول میں سے ہیں ۔ الوا العزم دیگر جملہ انبیائے کرام سے افضل ہیں۔ مگر پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیا سے افضل ہیں۔ آپ علی نبینا وعلیہ الصلاة و السّلام کی قراٰنِ پاک میں کئی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1) خلیل الله : حضرت ابراہیم کا ایک لقب خلیل اللہ بھی ہے۔ جسے قراٰنِ پاک میں سورۃُ النسآء آیت 125 میں فرمایا گیا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النسآء : 125 ) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں (خلیل وہ ہے جو رب کی مانے ، حبیب وہ کہ رب اس کی مانے۔) اور حبیب ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔

(2)سچے نبی : رب کریم نے سورہ مریم آیت 41 میں سیدنا ابراہیم کو صدیق فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

(3) سمجھداری: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سمجھداری کی نعمت سے نوازا تھا۔ چنانچہ سورۃُ الانبیاء کی آیت 51 میں ہے۔ ﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآ : 51)

(4)خشیت الہی اور تحمل: آپ کی دو صفات آہ وزاری اور برداشت کو اللہ نے سورةُ (التوبۃ) آیت (114) میں ذکر فرمایا : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

(5) کامل ایمان والے: آپ الله پاک کے ان بندوں میں سے ہیں جو کامل ایمان والے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الصّٰفّٰت آیت (111) میں ہے۔ ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(6) اولاد میں نبوت : ربِّ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی کہ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے حضرات منصبِ نبوت پر فائز ہوئے ، سب آپ کی نسل سے ہوئے اور کتاب سے مراد توریت، انجیل ، زبور اور قراٰن شریف مراد ہیں ۔ چنانچہ سورۃُ العنکبوت آیت (27) میں فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ (پ20،العنکبوت:27)

شکر کرنے والے : حضرت ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرتے تھے۔ سورۃُ النحل آیت 121 میں ارشاد باری ہے۔ ﴿شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا ۔( پ14، النحل : 121)

مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: اس کی نعمتوں پر ایسے شاکر تھے کہ تھوڑی نعمت پر شکر بہت زیادہ کرتے تھے۔ شَاكِرًا کی تنوین تعظیمی ہے اور اَنْعُمِهٖ جمع قلت فرمانے میں یہی حکمت ہے۔(تفسیر نعیمی، ص 581 نعیمی کتب خانہ گجرات)

باطل ادیان سے پاک کامل مؤمن : حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام مسلمان تھے۔ آپ کا مسلمان ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے ۔ چنانچہ پارہ 3، سورہ آل عمرٰن ، آیت 67 میں ہے۔ ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

اس آیت میں حضرت ابراہیم سے علیہ السّلام تین (3) چیزوں کی نفی کی گئی ہے۔یہودیت ، نصرانیت ، شرک اور دو چیزیں ثابت کی گئی ہیں حنیف اور مسلم ہونا۔ حنیف کے معنی ہیں ہر برائی سے دور اور ہر برے سے دور۔ عقائد ،اعمال ، خیالات وغیرہ ہر اندرونی بیرونی برائی مراد ہے۔ عیبوں سے صفائی (دوری) پہلے بیان ہوئی اور بعد میں (مسلم کی) صفت بیان ہوئی۔ مسلم سے مراد مسلمان یا فرمانبردار ہے۔ (جبکہ ) ﴿ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ﴾ سے مراد ہے کہ نہ تو آپ (علیہ السّلام) موجودہ یہودیت اور عیسائیت پر تھے اور نہ ہیں مشرکینِ مکہ کے دین پر جو خود کو دینِ ابراہیمی پر کہتے تھے ۔(تفسیر نعیمی پاره سوم، ص 524 تا 529 ملخصاً)

احکامِ الٰہی کو پورا کرنے والے : حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے ہر حکم کو پورا کرتے۔ چنانچہ سورةُ النجم آیت نمبر 37 میں ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

خزائن العرفان میں ہے کہ اس سے مراد بیٹے کو ذبح کرنا، آگ میں ڈالا جانا اور ان کے علاوہ احکامات بھی ہیں ۔

روح البیان میں ہے کہ ﴿وَفّٰۤى﴾ کی تشدید تکثیر اور مبالغہ فی الوفاء کیلئے ہو سکتی ہے یعنی جو انہوں نے اللہ سے معاہدہ کیا اُسے خوب نبھایا ۔جو حکم ہوا اُسے بغیر کمی و نقصان کے مکمل کیا۔( فیوض الرحمٰن اردو ترجمہ تفسیر روح البیان، ص : 297 پارہ 27 اور 28)

(10) پچھلوں میں تعریف: حضرت ابراہیم (علی نبینا وعلیہ الصلاۃ و السّلام) کی ایک شان قراٰن میں یوں بیان ہوئی: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ(۱۰۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ (پ 23 ، الصّٰٓفّٰت : 108)

اس آیت کا تعلق پچھلی آیتوں سے بھی ہے جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کی قربانی کا ذکر ِخیر ہے ۔ ارشاد ہوا ہم نے یہ سنت پچھلوں میں باقی رکھی اور تا قیامت آپ کی یہ سنت جاری رکھیں گے اور آپ کی تعریف ہوتی رہے گی اور ان تمام کروڑوں قربانیوں کا ثواب جو ہر سال ہوتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو ملتا رہے گا۔اسی طرح آپ ہی کی یادگار حج کے ارکان ہیں ۔( تفسیر نعیمی، 1/682،ملخصاً)


تعارف: قراٰنِ پاک اللہ پاک کی آخری کتاب ہے جو اس نے اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمائی قراٰنِ پاک تمام انسانیت کے لئے سرچشمہ رشد و ہدایت ہے جس میں اللہ نے اپنے مقرب انبیائے کرام السّلام کی صفات کو بیان کیا ہے ان ہی انبیائے کرام میں سے اللہ کے بہت خاص نبی حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہے ۔ جو حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے والد ہے۔ آپ علیہ السّلام حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد اللہ کے سب سے افضل نبی ہے ۔ آپ علیہ السّلام کا نام ”ابراہیم“ ہے۔ اِبْراہیم سُریانی زبان کا لَفْظ ہے۔اس کے معنی ہیں اَبٌ رَحِیْمٌ ( یعنی مہربان باپ)چُونکہ آپ بچوں پر بہت مہربان تھے۔ نِیز مہمان نَوازی اور رَحْم و کرم میں آپ مَشْہورہیں، اسی لیے آپ کو اِبْراہیم کہاجاتاہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِبْراہیم اَصْل میں ابرم تھا۔ جس کے مَعْنیٰ ہیں بُزرگ، چُونکہ آپ بہت سے اَنْبِیائے کرام(علیہ السّلام) کے والد ہیں اور سارے دِیْنوں میں آپ کی عِزت،حتّٰی کہ مُشرکینِ عَرب بھی آپ کی عَظمت کرتے تھے ،اس لیے آپ کانامِ نامی اِبْراہیم ہوا۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قربانیاں )

صفات حضرت ابراہیم علیہ السّلام :

(1) اللہ پر توکل :حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السّلام نے مل کر اللہ پر توکل کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام اللہ پر نہایت توکل کرنے والے تھے جب اللہ نے آزمائش اور ابتلاء کا ارادہ فرمایا تو مسلسل تین روز تک یعنی آٹھ نو اور دس ذوالحجہ تک حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خواب میں دکھایا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے ۔اللہ پاک تمہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کا ذکر قراٰن میں بھی موجود ہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا تو ابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

استفسار پر حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے جواب دیا کہ اے میرے والد اپنے رب کا حکم بجا لائے اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیٹے کو اللہ کے حکم کے مطابق پیشانی کے بل لٹا دیا اور چھری چلا دی خدا کی شان کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السّلام پر نہ چلی اور آپ پر وحی آئی : ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! ۔بیشک تو نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔

دیکھا اپنے پیارے اسلامی بھائیو! حضرت ابراہیم علیہ السّلام اللہ پر کس قدر توکل کرنے والے تھے کہ اللہ کے لئے فوراً اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے ۔

(2) کامل مؤمن : حضرت ابراہیم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ نے انہیں اپنے کامل الایمان بندوں میں سے فرمایا ۔ قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(3) تحمل والے اور اللہ کی طرف رجوع لانے والے : حضرت ابراہیم علیہ السّلام نہایت صبر و تحمل کرنے والے اور اللہ کے حضور رجوع لانے والے تھے ۔ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(4) کفر و شرک سے منع کرنے والے : ترجَمۂ کنزُالایمان: اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بے شک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔(پ7،الانعام : 74 )

حضرت ابراہیم علیہ السّلام قومِ نمرود کی طرف بھیجے گئے تھے اور انہیں اللہ کی وحدانیت کا حکم دیتے اور ستاروں کی پرستش سے باز رہنے کا حکم دیتے۔ یاد رہے کہ آزر آپ کے والد نہیں بلکہ آپ کے چچا ہے۔ عربی زبان میں چچا کو بھی باپ کہہ دیا جاتا ہے۔ (القاموس)

(5) ملت ابراہیمی :قراٰنِ پاک میں متعدد مقامات پر اللہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام اور آپ کے امتیوں کو دین ابراہیم پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔ ﴿فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕترجَمۂ کنزُالایمان: تو ابراہیم کے دین پر چلو جوہر باطل سے جدا تھے ۔(پ4، اٰل عمرٰن : 95)

ایک اور جگہ اللہ پاک کا ارشاد ہوتا ہے۔ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہو جاؤ راہ پاؤگے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم کا دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے۔(پ1،البقرۃ : 135 )

مذکورہ آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ پاک نے ہر باطل سے جدا فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ سچے مؤمن تھے ۔

اور ملت ابراہیمی سے روگردانی کرنے والوں کو احمق یعنی بے وقوف فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ابراہیم کے دین سے کون منہ پھیرے سوا اس کے جو دل کا احمق ہے اور بیشک ضرور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا اور بیشک وہ آخرت میں ہمارے خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے۔(پ1،البقرۃ : 130 )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت سیدنا صالح علیہ السّلام کے دنیا سے پردہ فرمائے جانے کے بعد لوگ جہالت کے اندھیروں میں اس قدر بھٹکنے لگے کہ انہوں نے ستاروں اور بتوں کی پوجا شروع کر دی یہاں تک کہ بادشاہِ وقت بھی اپنے اوپر خدائی کا دعویٰ مسلط کر بیٹھا تھا۔ اس پُر فتن دور میں اللہ پاک نے اپنے اولو العزم رُسُل میں سے ایک رسول حضرت سیدنا ابراہیم کو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ علیہ السّلام لوگوں کو حق و باطل کی معرفت اور ہدایت کا راستہ دکھائے۔ اللہ پاک نے حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کو بہت سے اوصاف حمیدہ عطا کیے ہوئے تھے آپ علیہ السّلام عبادت کی ادائیگی میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ آپ علیہ السّلام توکُّل اور تسلیم و رضا کے اعلٰی پیکر تھے آپ علیہ السّلام انتہائی سخی اور بڑے مہمان نواز بھی تھے، آپ علیہ السّلام کثرت کے ساتھ ذکر الہی فرمایا کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا تعارف: آپ علیہ السّلام کا مشہور نام ”ابراہیم“ آپ علیہ السّلام کا لقب خلیلُ اللہ اور کنیت ابو الضّیفان ہے۔ آپ علیہ السّلام کا ایک لقب ابو الانبیا بھی ہے کیونکہ آپ علیہ السّلام کے بعد والے تمام انبیا و رسل آپ علیہ السّلام کی نسل سے ہوئے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حلیہ مبارک: آپ علیہ السّلام کا حلیہ مبارک اور شکل و شباہت حضور علیہ السّلام سے مشابہت رکھتی تھی مسلم شریف کی حدیث ہے: حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میں نے ابراہیم علیہ السّلام کو دیکھا اور میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔(مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول ،ص91،حدیث :424)

آئیے اب ہم ان اوصاف کی طرف چلتے ہیں جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے متعلق قراٰن کریم میں بیان کیے گئے ہیں:۔

(1، 2)اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بچپن ہی میں عقلِ سلیم اور رشد و ہدایت عطا کی ۔ ارشاد باری ہے: ﴿ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآ : 51)

(4،3)حضرت ابراہیم علیہ السّلام صدیق و نبی تھے: ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

(5)حضرت ابراہیم علیہ السّلام حکمِ الٰہی پر سرِ تسلیمِ خم کرنے والے تھے: ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(6 تا 8)حضرت ابراہیم علیہ السّلام بارگاہِ الٰہی میں تحمُّل خوف خدا آہ وزاری کرنے والے تھے۔ ارشادِ باری ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

پیارے اسلامی بھائیوا ! ہمیں چاہیئے کہ ہم سیرتِ انبیائے کرام علیہم السّلام کا بغور مطالعہ کریں اور آپ علیہ السّلام کی پیاری سیرت کو اپنانے کی کوشش کریں تاکہ ہماری روح عشقِ انبیا سے معطر ہو جائے۔ اللہ کریم ہماری دعاؤں پر رحمت کی نظر فرمائے۔ اٰمین


حضرت ابراہیم علیہ السّلام بہت اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ کچھ اوصاف بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

(1) آزمائشوں پر صبر کرنے والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السّلام آزمائشوں میں صبر کرتے اور ان آزمائشوں میں پورا اترتے تھے۔ ان پر کئی آزمائش آئیں جیسے راہ خدا میں ہجرت، بیوی بچوں کا بیابان میں تنہا چھوڑنا، فرزند کی قربانی وغیرہ اور آپ ان سب میں سرخرو ہوئے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ: 124)

(2) سورہ ابراہیم: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ کے نام کی ایک پوری سورت پارہ نمبر 13 میں موجود ہے۔

(3) ہر باطل سے جدا مسلمان: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نہ یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

(4) دینِ ابراہیمی کی پیروی کا حکم: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں ارشاد فرمایا : ﴿فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ابراہیم کے دین پر چلو جوہر باطل سے جدا تھے ۔(پ4، اٰل عمرٰن: 95)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ "دینِ محمدی کی پیروی کرو کیونکہ اس کی پیروی ملت ابراہیمی کی پیروی ہے، دین محمدی اُس ملت کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔

(5) کامل ایمان والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو کامل ایمان والا بندہ فرمایا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(6) سچے نبی: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے ان کو سچا نبی فرمایا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(7) نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السّلام انعاماتِ الہیہ پر شکر ادا کرنے والے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا ۔( پ14، النحل : 121)

(8،9) تحمل مزاج اور تقوی والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں تحمل مزاجی و تقوی بھی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(10) گہرا دوست: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنا گہرا دوست فرمایا ۔ ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا: ( پ 5 ، النساء : 125 )

پیارے اسلامی بھائیو! اسی طرح اللہ پاک نے قراٰن کریم میں کئی جگہ پر اور بھی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی فضیلت و صفات کو بیان فرمایا ہے جن کو جاننے کے لیے تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ فرمائیے۔ اللہ پاک ہمیں قراٰنِ مجید کو سیکھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی اسباب پیدا فرمائے جن میں سے ایک انبیائے کرام علیہم السّلام کی تشریف آوری بھی ہے، انبیائے کرام علیہم السّلام نے مختلف طریقوں سے دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیا کبھی بزورِ سیفُ و بازو سچے دین کا لوہا منوایا تو کبھی معجزات دکھا کر لوگوں پر حق ظاہر فرمایا، کبھی لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا فرما کر انہیں راہ راست پر گامزن کیا تو کبھی اپنی دل نواز سیرت و کردار سے انکے دلوں کو فتح فرمایا، چونکہ انسان کی طبیعت پاکیزہ کردار و اوصاف سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اس لیے اللہ پاک نے ان حضراتِ کرام علیہم السّلام کو سِحر انگیز اوصاف سے نوازا۔

یہ اخلاق ہی تو تھے جس سے کفار متاثر ہو کر سچے دین کے گلستان سے فیض یاب ہو جاتے، کفار انبیائے کرام علیہم السّلام کے دلربا کردار پر دل ہار کر انکے گرویدہ ہو جاتے تھے، ان معزز ہستیوں میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذات سر فہرست ہے جنہیں اللہ پاک نے بے شمار اوصاف حمیدہ سے نوازا اور ان پر اپنا خاص لطف و کرم فرمایا۔ جس کا سب سے بڑا شاہد خود قراٰنِ پاک ہے۔

آئیے قراٰنِ پاک میں آپ علی نبينا و عليہ الصلوة و السّلام کے چند اوصاف ملاحظہ کیجئے۔

(1)اللہ پاک کے گہرے دوست: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنی خُلت کا جامہ پہنایا اور اپنا گہرا دوست بنایا۔ اسی پر قراٰنِ پاک میں یہ فرمان جاری فرمایا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

(2) سچے نبی :اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو نبوت کا تاج پہنایا اور سچائی کی لازوال دولت سے مالا مال فرمایا۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(3) اللہ پاک کے حکم بردار: آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے ایسے حکم بردار تھے کہ اللہ پاک کی طرف سے جو حکم ہوتا تھا اسے بلا تاخیر بجا لاتے تھے۔جیسے آپ علیہ السّلام کا حکمِ الہی پر اپنے دل عزیز بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو جانا بلکہ کر گزرنا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(4)اچھے اخلاق والے اور پیشوا: آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ تمام اچھی خصلتوں کے مالک تھے اور دین میں لوگوں کے پیشوا ہیں ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم تمام اچھی خصلتوں کے مالک (یا) ایک پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور ہر باطل سے جدا تھے ۔ (پ14 ،النحل:120)

(5)کامل الایمان بندے: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ایک وصف یہ بھی عطا فرمایا کہ آپ علیہ السّلام کو اپنا کامل ایمان والا بندہ بنایا۔ اس کا ذکر قراٰنِ پاک میں کچھ اس طرح فرمایا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(6،7)تحمل والے، آہیں بھرنے والے: آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے حضور بہت ہی آہیں بھرنے والے تھے اور بہترین قوتِ برداشت کے مالک تھے جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا۔ ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

آپ علیہ السّلام بچپن ہی سے اجتہادانہ صلاحیت کے مالک تھے کہ آپ نے ستاروں کے ڈوبنے سے انکے خدا نا ہونے پر استدلال فرما لیا تھا، نیز آپ علیہ السّلام مستجاب الدعوات تھے کہ جتنی دعائیں آپ نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے حق میں کیں تھی ان سب کو اللہ پاک نے شرف قبولیت عطا فرمایا، آپ علیہ السّلام کو اولو العزم رسولوں میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، آپ علیہ السّلام بہت بڑے مہمان نواز اور سخی بھی تھے۔

اللہ پاک نے اپنے خلیل علیہ السّلام کو اور بھی بہت سے اوصاف و کمالات سے نوازا ہے جن کا قراٰنِ پاک میں واضح بیان ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں جا بجا انبیائے کرام علیہم السّلام کے اوصاف و کردار کو بیان فرمایا ہے تاکہ اہلِ ایمان انکی زندگی سے رہنمائی حاصل کرکے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

اللہ پاک کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت پڑھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاه خاتم النبيين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز سے محبت :حضرت ابراہیم علیہ السّلام عبادت سے محبت رکھتے تھے۔ آپ علیہ السّلام بڑی رغبت سے نماز ادا فرماتے اور اُس پر غم زدہ ہوتے جو نماز سے غافل ہو۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی : اے میرے رب ! مجھے یہ بات غمزدہ کرتی ہے کہ زمین میں اپنے علاوہ کسی اور کو تیری عبادت کرتا نہ دیکھوں اس پر اللہ پاک نے فرشتے بھیج دیئے جو آپ کے ساتھ نماز پڑھتے اور آپ کے ہمراہ رہتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیا، کعب الاحبار، 6/26 )

حسنِ اخلاق: آپ علیہ السّلام کا حسنِ اخلاق بھی مثالی تھا اور انہیں اللہ پاک کی طرف سے اس پر استقامت کا حکم بھی دیا گیا تھا ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا : اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی ۔ اے میرے خلیل ! تم حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہو اگرچہ سامنے والے کنار ہوں (ایسا کرنے سے ) تُم ابرار کے زمرے میں داخل ہو جاؤ گے ۔بیشک حسنِ اخلاق والے کے لئے میرا یہ فرمان جاری ہو چکا کہ میں اسے اپنے عرش کا سایہ دوں گا ۔ اور اپنی بارگاہِ اقدس سے سیراب کروں گا اور اُسے اپنی رحمت کے قریب کر دوں گا ۔

توکل اور تسلیم و رِضا: آپ علیہ السّلام توکل و تسلیم و رضا کے بھی اعلیٰ پیکر تھے۔ اللہ کے حکم پر اپنے بیتے حضرت ِ اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جانا ،نیز اللہ پاک کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ اور اپنے چھوٹی سی عمر کے بیتے کو بیابان میں چھوڑ دینا ایسی تسلیم و رضا کے مرتبے کا اظہار تھا ۔جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے ۔

سخاوت و مہمان نوازی : آپ علیہ السّلام انتہائی سخی اور بڑے مہمان نواز تھے حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اللہ پاک نے میرے دوست جبرائیل علیہ السّلام کو حضر ت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف (یہ پیغام دے کر ) بھیجا کہ اے ابراہیم میں نے تمہیں اس لئے خلیل نہیں بنایا کہ تم میرے سب سے زیادہ عبادت گزار ہو بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ تیرا دل اہلِ ایمان کے دلوں میں سے سب سے زیادہ سخی ہے۔ (الترغیب )

امورِ آخرت کا اہتمام اور دنیا سے بے رغبتی :اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو علمی اور عملی قوتوں سے نوزا جن کی بناء پر انہیں اللہ پاک کی معرفت اور عبادت پر قوت حاصل ہوئی ۔آپ علیہ السّلام لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے اور کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے تھے اور دنیا کی محبت نے اُن کے دلوں میں ذرہ بھر جگہ نہیں پائی ۔ ارشادِ باری ہے: اور یاد کرو ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو ، بےشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے اور بےشک وہ ہمارے نزدیک چنے ہوئے پسندیدہ ہیں ۔ (پ 23 ، ص آیت 45تا 47 )

آپ بہت اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ۔آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے انتہائی کامل ایمان والے بندے تھے ۔ ارشادِ باری ہے ترجمہ: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے ارشادِ پاری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا (۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

انعاماتِ الہٰی :آپ علیہ السّلام پر اللہ پاک نے بہت سے انعام و احسان فرمائے ۔ جیسے آپ کو اللہ پاک نے بچپن میں ہی عقلِ سلیم اور رشدُ و ہدایت سے نوازا دیا۔ ارشادِ باری ہے : ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے ۔ (پ17، الانبیا:51 )

آپ علیہ السّلام کو نبوت و خلت کے لئے منتخب فرمایا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دی ارشادِ باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ ( پ 14،النحل: 121 )


قراٰنِ کریم اللہ پاک کی ایک مکمل اور باضابطہ کتاب ہے جو کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمائی ۔ اس کتاب میں جِنْ و اِ نسان تمام کے لئے ہدایت اور جینے کے اُصول ہیں۔انبیا و مرسلین کا مقام و مرتبہ تمام کائنات میں سب سے اَرْفَع و اعلیٰ (بلند) ہے چاہے کوئی بھی ولی یا صحابی ہو الغرض کتنی ہی بڑی شخصیت کا مالک ہو کبھی کسی نبی سے بلند مرتبہ نہیں ہو سکتا جس طرح اللہ پاک نے قراٰن پاک میں کئی انبیا و مرسلین کے مقام و مراتب ذکر فرمائے اسی طرح قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے جن انبیا علیہم السّلام کے اوصاف بیان فرمائے۔ ان میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ہیں۔ ذیل میں آپ علیہ السّلام کی کچھ صفات بیان کی جارہی ہیں ۔

(1)صدیق ہونا : آپ علیہ السّلام کی ایک صفت صدیق (یعنی سچا ہونا )بھی ہے اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں آپ کی یہ صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

بعض مفسرین کِرام نے کہا ہے کہ صدیق سے مراد کثیرُ التَّصدِیق ہے ( یعنی جو اللہ اور اُس کی وحدانیت کی ، اِس کے اَنبیا اور اس کے رسولوں کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور احکام ِ الٰہیہ بجا لائے وہ صّدیق ہے) (تفسیر صراط الجنان ،تفسیر ِ خازن)

(2)خلیلُ اللہ :حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ایک صفت یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنا خلیل(یعنی دوست )منتخب فرمایا ۔ اِسی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا لقب خلیلُ اللہ ہے جس طرح مختلف رسولوں کے مختلف القابات ہیں جیسے حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے اپنا محبوب بنایا ، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے کلیمُ اللہ بنایا ، ، اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا جیسا کہ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا : ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

(3)تحمل مزاجی: آپ علیہ السّلام کی ایک صفت تحمل مزاجی بھی ہے آپ حلیم (یعنی بڑے تحمل والے ) تھے ،اور اللہ سے ڈرنے والے ، بہت گریا و زاری کرنے والے تھے ۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم کو ہلاک کرنے آرہے ہیں تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور اللہ سے ڈرنے لگے تو اللہ پاک نے آپ کی یہ صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(4)کاملُ الایمان والے :آپ کی ایک صفت کاملُ الایمان بھی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنا سارا مال راہِ خدا میں دے دیا تو آپ علیہ السّلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنے بیٹے (اسمٰعیل علیہ السّلام ) کو ذبح فرمائیے تو آپ نے اپنے فرزند کو بھی قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ جسے آپ نے اپنی آخری عمر میں بہت دعاؤں کے بعد پایا اور یہ آپ علیہ السّلام کے لئے سب سے سخت آزمائش تھی ۔جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن مجیدمیں ارشادفرمایا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)