محمد امیر حمزہ عطاری (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ ،کراچی
پاکستان)
نماز سے محبت :حضرت ابراہیم علیہ السّلام عبادت سے محبت رکھتے تھے۔ آپ علیہ السّلام بڑی رغبت
سے نماز ادا فرماتے اور اُس پر غم زدہ ہوتے جو نماز سے غافل ہو۔ حضرت کعب رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی : اے میرے رب ! مجھے یہ
بات غمزدہ کرتی ہے کہ زمین میں اپنے علاوہ کسی اور کو تیری عبادت کرتا نہ دیکھوں اس
پر اللہ پاک نے فرشتے بھیج دیئے جو آپ کے ساتھ نماز پڑھتے اور آپ کے ہمراہ رہتے
تھے ۔ (حلیۃ الاولیا، کعب الاحبار، 6/26 )
حسنِ اخلاق: آپ علیہ السّلام کا حسنِ اخلاق بھی مثالی تھا اور انہیں اللہ پاک کی طرف سے اس
پر استقامت کا حکم بھی دیا گیا تھا ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرمایا : اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی
۔ اے میرے خلیل ! تم حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہو اگرچہ سامنے والے کنار ہوں (ایسا
کرنے سے ) تُم ابرار کے زمرے میں داخل ہو جاؤ گے ۔بیشک حسنِ اخلاق والے کے لئے میرا
یہ فرمان جاری ہو چکا کہ میں اسے اپنے عرش کا سایہ دوں گا ۔ اور اپنی بارگاہِ اقدس
سے سیراب کروں گا اور اُسے اپنی رحمت کے قریب کر دوں گا ۔
توکل اور تسلیم و رِضا: آپ علیہ السّلام توکل و تسلیم و رضا کے بھی اعلیٰ پیکر تھے۔ اللہ کے حکم پر
اپنے بیتے حضرت ِ اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جانا ،نیز اللہ
پاک کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ اور اپنے چھوٹی سی عمر کے بیتے
کو بیابان میں چھوڑ دینا ایسی تسلیم و رضا کے مرتبے کا اظہار تھا ۔جب حضرت ابراہیم
علیہ السّلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا
ہی اچھا کارساز ہے ۔
سخاوت و مہمان نوازی : آپ علیہ السّلام انتہائی سخی اور بڑے مہمان نواز تھے حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اللہ
پاک نے میرے دوست جبرائیل علیہ السّلام کو حضر ت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف (یہ
پیغام دے کر ) بھیجا کہ اے ابراہیم میں نے تمہیں اس لئے خلیل نہیں بنایا کہ تم میرے
سب سے زیادہ عبادت گزار ہو بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ تیرا دل اہلِ ایمان کے دلوں میں
سے سب سے زیادہ سخی ہے۔ (الترغیب )
امورِ آخرت کا اہتمام اور دنیا سے بے رغبتی :اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو علمی اور عملی قوتوں
سے نوزا جن کی بناء پر انہیں اللہ پاک کی معرفت اور عبادت پر قوت حاصل ہوئی ۔آپ علیہ
السّلام لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے اور کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے تھے اور دنیا کی
محبت نے اُن کے دلوں میں ذرہ بھر جگہ نہیں پائی ۔ ارشادِ باری ہے: اور یاد کرو
ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو ، بےشک ہم نے انہیں
ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے اور بےشک وہ ہمارے نزدیک چنے
ہوئے پسندیدہ ہیں ۔ (پ 23 ، ص آیت 45تا 47 )
آپ بہت اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں
بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ۔آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے انتہائی کامل ایمان
والے بندے تھے ۔ ارشادِ باری ہے ترجمہ: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل
الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)
آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے ارشادِ پاری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا
(۴۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک
وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)
انعاماتِ الہٰی :آپ علیہ السّلام پر اللہ پاک نے بہت سے انعام و احسان فرمائے ۔ جیسے آپ کو اللہ
پاک نے بچپن میں ہی عقلِ سلیم اور رشدُ و ہدایت سے نوازا دیا۔ ارشادِ باری ہے : ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم
ا سے جانتے تھے ۔ (پ17، الانبیا:51 )
آپ علیہ السّلام کو نبوت و خلت کے لئے منتخب فرمایا اور
صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دی ارشادِ باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے اسے
چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ ( پ 14،النحل: 121 )