محمد حسان رضا عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق کراچی پاکستان)
تعارف: قراٰنِ
پاک اللہ پاک کی آخری کتاب ہے جو اس نے اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر نازل فرمائی قراٰنِ پاک تمام انسانیت کے لئے سرچشمہ رشد و ہدایت ہے جس میں
اللہ نے اپنے مقرب انبیائے کرام السّلام کی صفات کو بیان کیا ہے ان ہی انبیائے
کرام میں سے اللہ کے بہت خاص نبی حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہے ۔ جو حضرت اسماعیل
علیہ السّلام کے والد ہے۔ آپ علیہ السّلام حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے بعد اللہ کے سب سے افضل نبی ہے ۔ آپ علیہ السّلام کا نام ”ابراہیم“ ہے۔
اِبْراہیم سُریانی زبان کا لَفْظ ہے۔اس کے معنی ہیں اَبٌ
رَحِیْمٌ ( یعنی مہربان باپ)چُونکہ آپ بچوں پر بہت مہربان تھے۔ نِیز
مہمان نَوازی اور رَحْم و کرم میں آپ مَشْہورہیں، اسی لیے آپ کو اِبْراہیم
کہاجاتاہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِبْراہیم اَصْل میں ابرم تھا۔ جس کے مَعْنیٰ ہیں
بُزرگ، چُونکہ آپ بہت سے اَنْبِیائے کرام(علیہ السّلام) کے والد ہیں اور سارے دِیْنوں
میں آپ کی عِزت،حتّٰی کہ مُشرکینِ عَرب بھی آپ کی عَظمت کرتے تھے ،اس لیے آپ
کانامِ نامی اِبْراہیم ہوا۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی قربانیاں )
صفات حضرت ابراہیم علیہ السّلام :
(1) اللہ
پر توکل :حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السّلام نے مل کر اللہ پر
توکل کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام اللہ پر
نہایت توکل کرنے والے تھے جب اللہ نے آزمائش اور ابتلاء کا ارادہ فرمایا تو مسلسل
تین روز تک یعنی آٹھ نو اور دس ذوالحجہ تک حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو خواب میں
دکھایا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے ۔اللہ پاک تمہیں اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا
حکم دیتا ہے۔ اس کا ذکر قراٰن میں بھی موجود ہے ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے
قابل عمر کو پہنچ گیا تو ابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ
میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: اے میرے
باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے
صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
استفسار پر حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے جواب دیا کہ اے میرے
والد اپنے رب کا حکم بجا لائے اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیٹے
کو اللہ کے حکم کے مطابق پیشانی کے بل لٹا دیا اور چھری چلا دی خدا کی شان کہ وہ
حضرت اسماعیل علیہ السّلام پر نہ چلی اور آپ پر وحی آئی : ترجمۂ کنزُالعِرفان:
اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! ۔بیشک تو نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی
کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔
دیکھا اپنے پیارے اسلامی بھائیو! حضرت ابراہیم علیہ السّلام
اللہ پر کس قدر توکل کرنے والے تھے کہ اللہ کے لئے فوراً اپنے لخت جگر کو قربان
کرنے کے لئے تیار ہو گئے ۔
(2) کامل مؤمن : حضرت ابراہیم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ نے انہیں اپنے کامل الایمان بندوں
میں سے فرمایا ۔ قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل
الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)
(3) تحمل والے اور اللہ کی طرف رجوع لانے والے :
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نہایت صبر و تحمل کرنے والے اور
اللہ کے حضور رجوع لانے والے تھے ۔ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ
12 ، ھود : 75 )
(4) کفر و شرک سے منع کرنے والے : ترجَمۂ کنزُالایمان: اور یاد کرو جب
ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تم بتوں کو خدا بناتے ہو بے شک میں تمہیں اور
تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔(پ7،الانعام : 74 )
حضرت ابراہیم علیہ السّلام قومِ نمرود کی طرف بھیجے گئے تھے
اور انہیں اللہ کی وحدانیت کا حکم دیتے اور ستاروں کی پرستش سے باز رہنے کا حکم دیتے۔
یاد رہے کہ آزر آپ کے والد نہیں بلکہ آپ کے چچا ہے۔ عربی زبان میں چچا کو بھی باپ
کہہ دیا جاتا ہے۔ (القاموس)
(5) ملت ابراہیمی :قراٰنِ پاک میں متعدد مقامات پر اللہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام اور آپ کے
امتیوں کو دین ابراہیم پر ثابت قدم رہنے کی تلقین فرمائی۔ ﴿فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ
اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ابراہیم کے دین پر چلو جوہر باطل
سے جدا تھے ۔(پ4، اٰل عمرٰن : 95)
ایک اور جگہ اللہ پاک کا ارشاد ہوتا ہے۔ ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور کتابی بولے یہودی یا نصرانی ہو جاؤ راہ پاؤگے تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیم کا
دین لیتے ہیں جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرکوں سے نہ تھے۔(پ1،البقرۃ : 135 )
مذکورہ آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ پاک نے ہر
باطل سے جدا فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ سچے مؤمن
تھے ۔
اور ملت ابراہیمی سے روگردانی کرنے والوں کو احمق یعنی بے
وقوف فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ترجمۂ کنزالایمان: اور ابراہیم کے دین سے
کون منہ پھیرے سوا اس کے جو دل کا احمق ہے اور بیشک ضرور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا
اور بیشک وہ آخرت میں ہمارے خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے۔(پ1،البقرۃ : 130 )
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص کے ساتھ حضرت ابراہیم
علیہ السّلام کی صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم