تمام تعریفیں اللہ کیلئے جس نے انسان کی طرف انبیائے کرام بھیجے تاکہ ان کی اطاعت کی جائے جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت 64 میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ (پ5،النسآء:64)

حضرت ابراہیم الوا العزم رسول میں سے ہیں ۔ الوا العزم دیگر جملہ انبیائے کرام سے افضل ہیں۔ مگر پیارے اسلامی بھائیو! ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیا سے افضل ہیں۔ آپ علی نبینا وعلیہ الصلاة و السّلام کی قراٰنِ پاک میں کئی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1) خلیل الله : حضرت ابراہیم کا ایک لقب خلیل اللہ بھی ہے۔ جسے قراٰنِ پاک میں سورۃُ النسآء آیت 125 میں فرمایا گیا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النسآء : 125 ) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں (خلیل وہ ہے جو رب کی مانے ، حبیب وہ کہ رب اس کی مانے۔) اور حبیب ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔

(2)سچے نبی : رب کریم نے سورہ مریم آیت 41 میں سیدنا ابراہیم کو صدیق فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

(3) سمجھداری: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سمجھداری کی نعمت سے نوازا تھا۔ چنانچہ سورۃُ الانبیاء کی آیت 51 میں ہے۔ ﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآ : 51)

(4)خشیت الہی اور تحمل: آپ کی دو صفات آہ وزاری اور برداشت کو اللہ نے سورةُ (التوبۃ) آیت (114) میں ذکر فرمایا : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

(5) کامل ایمان والے: آپ الله پاک کے ان بندوں میں سے ہیں جو کامل ایمان والے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الصّٰفّٰت آیت (111) میں ہے۔ ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(6) اولاد میں نبوت : ربِّ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی کہ حضرت ابراہیم کے بعد جتنے حضرات منصبِ نبوت پر فائز ہوئے ، سب آپ کی نسل سے ہوئے اور کتاب سے مراد توریت، انجیل ، زبور اور قراٰن شریف مراد ہیں ۔ چنانچہ سورۃُ العنکبوت آیت (27) میں فرمایا گیا ہے۔ ﴿وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ (پ20،العنکبوت:27)

شکر کرنے والے : حضرت ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے احسانات کا شکر ادا کرتے تھے۔ سورۃُ النحل آیت 121 میں ارشاد باری ہے۔ ﴿شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا ۔( پ14، النحل : 121)

مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: اس کی نعمتوں پر ایسے شاکر تھے کہ تھوڑی نعمت پر شکر بہت زیادہ کرتے تھے۔ شَاكِرًا کی تنوین تعظیمی ہے اور اَنْعُمِهٖ جمع قلت فرمانے میں یہی حکمت ہے۔(تفسیر نعیمی، ص 581 نعیمی کتب خانہ گجرات)

باطل ادیان سے پاک کامل مؤمن : حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام مسلمان تھے۔ آپ کا مسلمان ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے ۔ چنانچہ پارہ 3، سورہ آل عمرٰن ، آیت 67 میں ہے۔ ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

اس آیت میں حضرت ابراہیم سے علیہ السّلام تین (3) چیزوں کی نفی کی گئی ہے۔یہودیت ، نصرانیت ، شرک اور دو چیزیں ثابت کی گئی ہیں حنیف اور مسلم ہونا۔ حنیف کے معنی ہیں ہر برائی سے دور اور ہر برے سے دور۔ عقائد ،اعمال ، خیالات وغیرہ ہر اندرونی بیرونی برائی مراد ہے۔ عیبوں سے صفائی (دوری) پہلے بیان ہوئی اور بعد میں (مسلم کی) صفت بیان ہوئی۔ مسلم سے مراد مسلمان یا فرمانبردار ہے۔ (جبکہ ) ﴿ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ﴾ سے مراد ہے کہ نہ تو آپ (علیہ السّلام) موجودہ یہودیت اور عیسائیت پر تھے اور نہ ہیں مشرکینِ مکہ کے دین پر جو خود کو دینِ ابراہیمی پر کہتے تھے ۔(تفسیر نعیمی پاره سوم، ص 524 تا 529 ملخصاً)

احکامِ الٰہی کو پورا کرنے والے : حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے ہر حکم کو پورا کرتے۔ چنانچہ سورةُ النجم آیت نمبر 37 میں ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

خزائن العرفان میں ہے کہ اس سے مراد بیٹے کو ذبح کرنا، آگ میں ڈالا جانا اور ان کے علاوہ احکامات بھی ہیں ۔

روح البیان میں ہے کہ ﴿وَفّٰۤى﴾ کی تشدید تکثیر اور مبالغہ فی الوفاء کیلئے ہو سکتی ہے یعنی جو انہوں نے اللہ سے معاہدہ کیا اُسے خوب نبھایا ۔جو حکم ہوا اُسے بغیر کمی و نقصان کے مکمل کیا۔( فیوض الرحمٰن اردو ترجمہ تفسیر روح البیان، ص : 297 پارہ 27 اور 28)

(10) پچھلوں میں تعریف: حضرت ابراہیم (علی نبینا وعلیہ الصلاۃ و السّلام) کی ایک شان قراٰن میں یوں بیان ہوئی: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ(۱۰۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ (پ 23 ، الصّٰٓفّٰت : 108)

اس آیت کا تعلق پچھلی آیتوں سے بھی ہے جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کی قربانی کا ذکر ِخیر ہے ۔ ارشاد ہوا ہم نے یہ سنت پچھلوں میں باقی رکھی اور تا قیامت آپ کی یہ سنت جاری رکھیں گے اور آپ کی تعریف ہوتی رہے گی اور ان تمام کروڑوں قربانیوں کا ثواب جو ہر سال ہوتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو ملتا رہے گا۔اسی طرح آپ ہی کی یادگار حج کے ارکان ہیں ۔( تفسیر نعیمی، 1/682،ملخصاً)