اللہ پاک نے ابتدائے دنیا سے انتہاء دنیا تک لوگوں کی ہدایت کے لئے کثیر انبیا و رسولوں کو بھیجا تا کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے ایک ہونے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اس کی تلقین فرمائے اور کثیر انبیائے کرام اللہ پاک نے قراٰن مجید میں صفات اور واقعات اور اسماء (نام) بھی ذکر فرمائے ہیں۔ انہی میں سے ایک نبی حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) ہیں جن کا نام اور صفات رب کریم نے اپنے پاک کلام میں بیان فرمائی ہے۔ رب کریم قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ہم نے فرمایا اے آگ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔ (پ 17، الانبیآء :69)

حضرت ابراہیم کی بت شکنی :ہوا کچھ یوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) نے بت پرستی کے معاملہ میں پہلے تو اپنی قوم سے مناظرہ کر کے حق کو ظاہر فرما دیا۔ مگر لوگوں نے حق کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ کل ہماری عید کا دن ہے اور ہمارا ایک بہت بڑا میلہ لگے گا وہاں آپ چل کر دیکھیں کہ ہمارے دین میں کیسا لطف (مزہ) اور کیسی بہار ہے۔ اس قوم کا یہ دستور تھا کہ اے سالانہ ان لوگوں کا ایک میلہ لگتا تھا، لوگ ایک جنگل میں جمع ہوتے اور دن بھر لہو لعب (کھیل تماشہ) میں مشغول رہ کر شام کو بت خانہ میں جاکر بتوں کی پوجا کرتے اور بتوں کے چڑھاوے، میٹھائیوں اور کھانوں کو پرشاد کے طور پر کھاتے حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) قوم کی دعوت پر تھوڑی دور کو میلہ کی طرف چلے لیکن پھر اپنی بیماری کا عذر کر کے واپس چلے آئے اور قوم کے لوگ میلہ میں چلے گئے اور جو میلے میں نہیں گئے آپ نے ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا۔(جس کے الفاظ قراٰنِ پاک میں رب کریم نے بیان کئے) (عجائب القرآن ،ص 175)

قراٰنی آیت: ﴿وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(۵۷)﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔اور مجھے اللہ کی قسم ہے میں تمہارے بتوں کا برا چاہوں گا بعد اس کے کہ تم پھر جاؤ پیٹھ دے کر۔

چنانچہ آپ نے ایک کلہاڑی لے کر بت خانہ میں تشریف لے گئے اور دیکھا اس میں چھوٹے بڑے بہت سے بت ہیں اور دروازہ کے سامنے ایک بہت بڑا بت ہے ان جھوٹے معبودوں کو دیکھ کر توحید الہی کے جذبہ سے آپ جلال میں آگئے اور کلہاڑی سے مار مار کر بتوں کو چکنا چور کر ڈالا اور سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا اور کلہاڑی اس کے کند سے پر رکھ کر آپ بت خانہ سے باہر چلے آئے ۔ قوم کے لوگ جب واپس آکر بت پوجنے اور پرشاد کھانے کے لئے بت خانہ میں گھسے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے اور شور مچانے لگ گئے۔ (عجائب القرآن قرائب، ص176)

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا توکل: روایت ہے کہ جب نمرود نے اپنی ساری قوم کے روبرو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تو زمین و آسمان کی تمام مخلوقات چیخ مار مار کر بارگاہ ِ خداوندی میں عرض کرنے لگیں کہ خداوند! تیرے خلیل آگ میں ڈالے جارہے ہیں اور اُن کے سوا زمین میں کوئی اور انسان تیری توحید کا علمبردار اور تیرا پرستار نہیں، لہٰذا تو ہمیں اجازت دے کہ ہم ان کی امداد و نصرت کریں تو اللہ پاک نے فرمایا کہ ابراہیم میرے خلیل ہیں اور میں اُن کا معبود ہوں تو اگر حضرت ابراہیم تم سبھوں سے فریاد کر کے مدد طلب کریں تو میری اجازت ہے کہ سب ان کی مدد کرو۔ اور اگر وہ میرے سوا کسی اور سے کوئی مدد طلب نہ کریں تو تم سب سن لو کہ میں ان کا دوست اور حامی و مددگار ہوں۔ لہٰذا تم اب اُن کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دو۔ اس کے بعد آپ کے پاس پانی کا فرشتہ آیا اور کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں پانی برسا کر اس آگ کو بجھا دوں۔ پھر ہوا کا فرشتہ حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ اگر آپ کا حکم ہو تو میں زبردست آندھی چلا کر اس آگ کو اڑا دوں تو آپ نے ان دونوں فرشتوں سے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھ کو میرا اللہ کافی ہے اور وہی میرا بہترین کارساز ہے وہی جب چاہے گا اور جس طرح اس کی مرضی ہو گی میری مدد فرمائے گا۔ ( صاوی، 4/1370،پ17، الانبیآء:68)

اللہ پاک ان حضراتِ انبیا اور نیک لوگوں کے وسیلے و برکت سے تمام مسلمانوں کی مشکلات آسان فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الكريم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)