
کسی سے حد درجہ جلنے کو بغض کہتے ہیں نیز دل میں کسی کے
بارے میں ناپسندیدگی کا احساس رکھنا نفرت کہلاتا ہے۔ نفرت ہمارے اندر ایک منفی
جذبے کا نام ہے۔ جس کا آغاز ناپسندیدگی کے احساس سے ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ ناپسندیدگی
بڑھ کر نفرت میں بدل جاتی ہے۔نفرت تب پیدا ہوتی ہے جب ہمارے دل میں وسعت نہ رہے۔ اللہ
پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ
الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی
الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ
الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی
چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی
یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔
صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد
آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس آیت
میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خواری اور جوئے بازی
کا ایک وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو ان
بدیوں میں مبتلا ہو وہ ذکر الٰہی اور نماز کی اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا
ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 54)
حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ پاک شعبان کی پندرویں رات اپنے
بندوں پر (اپنی قدرت کے شایان شان) تجلی فرماتا ہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت
فرماتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے جبکہ نفرت رکھنے والوں کو ان
کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/382، حدیث: 3835)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:بغض رکھنے والوں سے بچو
کیونکہ بغض دین کو مونڈ ڈالتا(یعنی تباہ کر دیتا) ہے۔ (کنز العمال، 3/209، حدیث:
7714)
بغض و نفرت کا حکم: کسی بھی مسلمان کے متعلق بلاوجہ شرعی اپنے دل میں بغض و نفرت رکھنا نا جائز و
گناہ ہے۔ سیدنا عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حق بات بتانے یا عدل و
انصاف کرنے والے سے بغض و نفرت رکھنا حرام ہے۔ (حدیقہ ندیہ، 1/ 629)
بغض و نفرت کے علاج: دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 84 صفات پر مشتمل رسالے
بغض و نفرت صفحہ 40 سے بغض و نفرت کے چھ علاج پیش خدمت ہیں:
1۔ ایمان والوں کی نفرت سے بچنے کی دعا کیجیے۔پارہ 28 سورہ
حشر آیت10 کو یاد کر لینا اور وقتاً فوقتاً پڑھتے رہنا بھی بہت مفید ہے۔
2۔ اسباب دور کیجیے۔ یقیناً بیماری جسمانی ہو یا روحانی اس
کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں اگر اسباب کو دور کر دیا جائے تو بیماری خود بخود
دور ہو جاتی ہے، بغض و نفرت کے اسباب میں سے غصہ، بدگمانی، شراب نوشی، جوا بھی ہے
ان سے بچنے کی کوشش کیجئے، ایک سبب نعمتوں کے کثرت بھی ہے کہ اس سے بھی آپس میں
بغض و نفرت پیدا ہو جاتی ہے، نعمتوں کا شکر ادا کر کے اور سخاوت کی عادت کے ذریعے
اس سے بچنا ممکن ہے۔
3۔ سلام و مصافحہ کی عادت بنا لیجیے کہ سلام میں پہل کرنا
اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا آپ کی نفرت کو ختم کر دیتا ہے، نیز تحفہ
دینے سے بھی محبت بڑھتی اور عداوت دور ہوتی ہے۔
4۔ بے جا سوچنا چھوڑ دیجیے کہ عموماً کسی کی نعمتوں کے بارے
میں سوچنا یا کسی کی اپنے اوپر ہونے والے زیادتی کے بارے میں سوچتے رہنا بھی نفرت
کے پیدا ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ لہذا کسی کے متعلق بے جا سوچنے کے بجائے اپنی
آخرت کی فکر میں لگ جائیے کہ یہی دانشمندی ہے۔
5۔ مسلمانوں سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کیجئے۔ محبت نفرت
کی ضد ہے لہذا اگر ہم رضائے الٰہی کے لیے اپنے مسلمان بھائی سے محبت رکھیں گے تو
نفرت کو دل میں آنے کی جگہ نہیں ملے گی اور دیگر فضائل بھی حاصل ہوں گے۔
6۔ سوچیے اور عقلمندی سے کام لیجئے۔ نفرت کی بنیاد عموماً
دنیاوی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن سوچنے کے بات ہے کہ کیا دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت کو
برباد کر لینا دانشمندی ہے۔ یقیناً نہیں تو پھر اپنے دل میں نفرت کو ہرگز جگہ مت
دیجئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص55 تا 57)

بعض و نفرت یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے،
اس سے غیر شرعی دشمنی وبغض رکھے نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 53)
بعض و نفرت کی علامات اور مثالیں: کسی سے پہلے کی طرح خوش مزاجی اور نرمی و مہربانی کے ساتھ
پیش نہ آنا اس کو سلام کرنے اور ملاقات کرنے کو دل نہ کرنا اس کو دیکھنے اور اس کے
ساتھ بات کرنے کو جی نہ چاہنا اس کی خیر خواہی کا خیال نہ کرناوغیرہ۔
بغض و کینہ كا حكم: کسی بھی مسلمان کے متعلق بلا وجہ شرعی اپنے دل میں بغض و کینہ رکھنا ناجائز و گناہ
ہے۔ سیدنا
عبد الغنی نابلسى رحم الله علیہ فرماتے ہیں: حق بات بتانے
یا عدل و انصاف کرنے والے سے بغض و کینہ رکھنا حرام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،
ص54)
کینہ پیدا ہونے اسباب: (1) فقہ (2) بد گمانی (3) نجوا (4) نعمتوں کی کثرت (5) لڑائی جھگڑا۔
پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کا وصف ہے اور اللہ پاک کے فضل سے
امید ہے کہ جو یہاں اپنے دل بغض و کینہ اور چند سے پاک رکھے گا اللہ پاک قیامت کے
دن اسے پاکیز و دل والوں یعنی جنتیوں میں داخل فرمائے گا۔ جنت میں جانے سے پہلے سب
کے دلوں کو کینہ سے پاک کر دیا جائے گا۔
الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ
الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ
ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان
یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ
کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعيم الدین مراد
آبادی رحمۃ الله علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس آیت
میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خوری اور جوئے بازی
کا ایک وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو ان
بدیوں میں مبتلا ہو وہ ذکر الٰہی اور نماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا ہے۔
(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 54)
احادیث مبارکہ: اللہ شعبان کی پندرہویں رات اپنے بندوں پر اپنی قدرت کے شایان شان تجلی فرماتا
ہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم
فرماتا ہے جبکہ کینہ رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔(شعب الایمان، 3/382،
حدیث: 3835)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: بغض رکھنے والوں سے بچو
کیونکہ بغض دین کو مونڈ ڈالتا (یعنی تباہ کردیتا ) ہے۔ (کنز العمال، 3/209، حدیث:
7714)
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: بے
شک چغل خوری اور کینہ پروری جہنم میں ہیں یہ دونوں کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں
ہو سکتے۔ (معجم اوسط، 1/301، حدیث: 4653)
رسول اللہ ﷺ نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جس نے اس حال میں
صبح کی کہ وہ کینہ پرور ہے تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔(حلیۃ الاولیاء، 8
/ 108، حدیث:11536)
بغض و دشمنی رکھنے سے بچو! کیونکہ بغض دین کو مونڈ ڈالتا ہے
یعنی تبا کردیتا ہے۔(کنز العمال، 3/209، حدیث: 7714)
بغض وکینہ کے چھ علاج: دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 84صفحات پر مشتمل رسالے
بغض و کینہ صفحہ 40سے بغض وکینہ کے چھ علاج پیش خدمت ہیں:
(1) ایمان والوں کے کینے سے بچنے کی دعا کیجئے۔ پاره 28سوره
حشر آیت نمبر 10کو یاد کرلینا اور وقتاً فوقتاً پڑھتے رہنا بھی بہت مفید ہے۔
(2) اسباب دور کیجئے۔ یقیناً بیماری جسمانی ہو یا روحانی اس
کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں اگر اسباب کو دور کردیا جائے تو بیماری خود بخود ختم
ہوجاتی ہے، بغض وکینہ کے اسباب میں سے غصہ، بدگمانی شراب نوشی جوا بھی ہے ان سے
بچنے کی کوشش کیجئے ایک سبب نعمتوں کی کثرت بھی ہے کہ اس سے بھی آپس میں بغض وکینہ
پیدا ہوجاتا ہے، نعمتوں کا شکر ادا کرکے اور سخاوت کی عادت کے ذریعے اس سے بچنا
ممکن ہے۔
(3) سلام و مصافحہ کی عادت بنا لیجئے کہ سلام میں پہل کرنا
اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا آپ کے کینے کو ختم کردیتا ہے، نیز تحفہ
دینے سے بھی محبت بڑھتی اور عداوت دور ہوتی ہے۔
(4) بے جا سوچنا چھوڑ دیجئے کہ عموماً کسی کی نعمتوں کی
بارے میں سوچنا یا کسی کی اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کے بارے میں سوچتے رہنا بھی
کینے کے پیدا ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ لہٰذا کسی کے متعلق بے جاسوچنے کے بجائے
اپنی آخرت کی فکر میں لگ جائیے کہ یہی دانش مندی ہے۔
(5) مسلمانوں سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کیجئے۔ محبت کینے
کی ضد ہے لہٰذا اگر ہم رضائے الہی کے لیے اپنے مسلمان بھائی سے محبت رکھیں گے تو
کینے کو دل میں آنے کی جگہ نہیں ملے گی اور دیگر فضائل بھی حاصل ہوں گے
(6) سوچئے اور عقلمندی سے کام لیجئے۔ کینے کی بنیاد عموماً
دنیاوی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت کو
برباد کرلینا دانشمندی ہے۔ یقیناً نہیں تو پھر اپنے دل میں کینے کو ہرگز جگہ مت
دیجئے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 55 تا 57)
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بعض و نفرت
جیسی باطنی امراض سے محفوظ فرمائے۔ آمین
ہاتھ بھلائی کے
واسطے اٹھیں
بچانا ظلم و ستم
سے مجھے سدا یارب

جس طرح ہمیں اپنے ظاہری امراض کو دور کرنا بہت ضروری ہوتا
ہے اسی طرح ہمیں اپنے باطنی امراض کی درستی انتہائی ضروری ہے بلکہ ظاہری امراض سے
زیادہ باطنی امراض کو دور کرنا بہت مشکل ہے اتنا ہی اس کو دور کرنا انتہائی اہمیت
کا حامل ہے کہ اگر باطن درست ہوگا تو ان شاء اللہ الکریم ظاہر بھی اچھا ہی ہوگا۔ باطنی
امراض کثیر ہیں جن کے اسباب و علاج کا جاننا انتہائی مفید ہے تاکہ ہم اس کا علاج
با آسانی کر سکیں۔ باطنی امراض میں سے ایک خطرناک مرض بغض و نفرت ہے آئیے پہلے اس کی
تعریف سنتے ہیں کہ کسی بھی مرض کا علاج کرنے سے پہلے اسکی تعریف کا جاننا بہت اہم
ہے۔
تعریف: انسان
اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے، نفرت کرے اور یہ
کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 53)
بغض و نفرت کے کئی نقصانات ہیں کئی آیات مبارکہ اور احادیث
مبارکہ میں اسکی مذمت بھی ذکر کی گئی ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّمَا
یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی
الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ
الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی
چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی
یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔
کینہ، بغض و نفرت سے جنتیوں کے دل پاک و صاف ہوں گے جس کا
ذکر خود رب تعالیٰ اپنے مقدس کلام میں فرماتا ہے: وَ
نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ
الْاَنْهٰرُۚ-وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا- وَ مَا كُنَّا
لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُۚ- (پ8،الاعراف:43) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے ان
کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے ان کے نیچے نہریں بہیں گی اور کہیں گے سب خوبیاں
اللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی اور ہم راہ نہ پاتے اگر اللہ نہ دکھاتا۔اس سے معلوم ہوا کہ پاکیزہ دل ہونا جنتیوں کے وصف ہیں اور
اللہ پاک کے فضل سے امید ہے کہ جو یہاں اپنے دل کو بغض وکینہ اور حسد سے پاک رکھے
گا اللہ پاک قیامت کے دن اسے پاکیزہ دل والوں یعنی جنتیوں میں داخل فرمائے گا۔ جنت
میں جانے سے پہلے سب کے دلوں کو کینہ سے پاک کردیا جائے گا۔
احادیث مبارکہ:
1۔ بغض رکھنے والوں سے بچو کیونکہ بغض دین کو مونڈڈالتا
(یعنی تباہ کردیتا ) ہے۔ (کنز العمال، 3/209، حدیث: 7714)
2۔ اللہ (ماہ)شعبان کی پندرہویں رات اپنے بندوں پر (اپنی
قدرت کے شایان شان) تجلّی فرماتاہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے اور
رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتاہے جبکہ کینہ رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ
دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/382، حدیث: 3835)
حکم: مسلمان سے
بلاوجہ کینہ و بغض رکھنا حرام ہے۔ (فتاوی رضویہ، 6/526)
نقصانات: بغض و نفرت دوزخ میں لے جائیں گے، اس کی بخشش نہیں ہوتی، رحمت و مغفرت سے وہ
محروم رہتا ہے، وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا، اس کو ایمان برباد ہونے کا خطرہ رہتا ہے، اسکی دعائیں
قبول نہیں ہوتیں، وہ متقی و پرہیزگار کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا، اس کے لیے دیگر
گناہوں کا دروازہ کھل جاتا ہے، وہ بے سکون رہتا ہے، اس سے معاشرے کا سکون برباد
ہوجاتا ہے۔ (بغض و کینہ، ص8 تا 15)
ہمارے مہربان و شفیق آقا ﷺ نے بھی اس سے بچنے کی ترغیب
ارشاد فرمائی ہے ارشاد فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو
پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ پاک کے بندو بھائی بھائی
ہوجاؤ۔ (بخاری، 4/ 117، حدیث: 6066)
علاج: ایمان والو کے بغض سے بچنے کی دعا کیجیئے۔ بغض و نفرت کے
اسباب کو دود کیجیئے۔ سلام و مصافحہ کی
عادت بنائیے۔ بے جا سوچنا چھوڑ دیجیئے۔ مسلمانو سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کیجیئے۔ دنیاوی چیزوں کی
وجہ سے بغض و کینہ رکھنے کے نقصانات پر غور کیجیئے۔ (بغض و کینہ، ص78 تا 79)
گناہوں کی چھٹے
ہر ایک عادت
سدھر جاؤں کرم یا
مصطفیٰ ہو
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام ظاہری و باطنی گناہوں
سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

سب سے پہلے جانتے ہیں کہ بغض و نفرت کے معنی کیا ہے؟ بغض کے
معنی چھپی ہوئی دشمنی، نفرت محبت کی ضد ہے، قارئین یہ تو تھی لغوی اعتبار سے شرعا
اس کی تعریف کیا ہے ایک بہت ہی پیاری کتاب باطنی بیماریوں کی معلومات میں بغض و
کینے کی تعریف یوں ہے۔
کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے
غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے، نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 53)
افسوس کہ آج کل مسلمانوں کے دلوں میں اپنے مسلمان بھائیوں
کے لیے ہی نفرت پائی جاتی ہے حالانکہ بغض ایک باطنی بیماری ہے جس کے بارے میں
معلومات حاصل کرنا فرض ہے۔ قارئین میں اسکو فرض اپنی طرف سے نہیں بول رہی بلکہ اعلیٰ
حضرت فتاویٰ رضویہ جلد 23، صفحہ 624 پر ارشاد فرماتے ہیں: محرّمات باطنیّہ (یعنی
باطنی ممنوعات مثلاً) تکبر وریا وعجب (یعنی غرور) وحسد وغیرہا اور ان کے معالجات (یعنی
علاج) کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔
قارئین اگر معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو یہ نظر آئے گا کہ
لوگ آپس میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پالے ہوئے ہیں یعنی ایک مسلمان اپنے ہی مسلمان
بھائی کے بارے میں اپنے دل میں نفرت پالے بیٹھا ہے کینے کو بسائے بیٹھا ہے، حالانکہ
یہ ایک باطنی بیماری ہے جس سے بچنا نہایت ضروری ہے، جس طرح ظاہری امراض کا علاج اس
وقت کیا جاتا ہے جب بیماری کی تشخیص ہو جائے اسی طرح جب انسان کو معلوم ہی نہیں
ہوگا کہ آیا اس کو کون سا باطنی مرض ہے تو وہ اس کا علاج کس طرح کرے گا تو سب سے
پہلے بندہ یہ غور و فکر کرے کہ آیا کہیں میرے اندر تو کینہ اور نفرت جیسی بری عادت
تو نہیں اگر جواب ہاں میں آئے تو پھر اس کے علاج کی کوششیں کریں اور اگر نہ میں
آئے تو بھی غور و فکر کریں کیونکہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم
میں تو کینہ اور نفرت نہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔
آئیے جانتے ہیں کہ کینے کے کیا علاج ہو سکتے ہیں؟ سب سے
پہلے تو ان اسباب پر غور و فکر کریں کہ جس کی وجہ سے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے
مثال کے طور پر اگر کوئی بہت غصیلہ ہے اور غصہ ہی کینے کا سبب بنتا ہے تو چاہیے کہ
پہلے اپنے غصے کو کنٹرول کرے کیونکہ جب سبب ختم ہوگا تو کینے کا علاج بھی بآسانی
ہو سکے گا۔
بعض اوقات نفرتوں کینوں کا سبب دنیاوی چیزیں ہوتی ہیں جیسے
کہ اگر کسی کے پاس بہت مال و دولت ہے اور یہ شخص جس کے دل میں کینہ و نفرت بسا ہے
اگر اس کے پاس مال نہیں تو یہ مالدار سے حسد کرتا ہے جسکے نتیجے میں نفرت بھی پیدا
ہوتی ہے لہذا عقلمندی سے کام لیتے ہوئے یہ سوچیے کہ اس مال و دولت کی وجہ سے جو کہ
دنیاوی چیز ہے اس کی وجہ سے اگر میں مسلمان بھائی سے بغض و نفرت کروں اور اس کی
وجہ سے اللہ نہ کرے قیامت کے دن مجھے جہنم میں ڈال دیا گیا تو میرا کیا بنے گا اسی
طرح جہنم کے عذابات سے بھی خود کو ڈرائیے۔
اسی طرح نفرتوں و کینے سے انسان خود ہی پریشان رہتا ہے دل
بے چین رہتا ہے تو بندہ یہ سوچے کہ نفرتوں کا کیا فائدہ اس سے تو مجھے خود ہی
نقصان ہو رہا ہے اس طرح بھی کینہ سے بغض و نفرت سے بچنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس
طرح ایک علاج یہ بھی ہے کہ مسلمان سے کینے کا جو حکم ہے اس پر غور کرے۔ اب غور تو
جب کرے گا جب حکم پتا ہوگا تو سنیے حکم یہ ہے کہ کسی مسلمان سے بغض و کینہ ناجائز
و حرام ہے، اب ذرا غور کریں ایک مسلمان سے کینہ کرکے حرام کے مرتکب ہو رہے ہیں اس
طرح بھی خوف خدا پیدا کریں اور گناہوں سے بچیں۔ نفرت کریں مگر کافروں سے بے دینوں
سے، بد مذہبوں سے،گناہوں سے، کفر سے شرک سے، شیطان لعین سے، الحاصل کہ گناہوں سے
تو نفرت کریں مگر گناہگار سے نفرت نہ کریں کیونکہ اگر آپ ان سے نفرت کریں گے تو
دوری ہوگی اور جب دوری ہوگی تو آپ اس کی اصلاح کیسے کریں گے مشکل ہو جائے گی اصلاح
کرنا۔
ہماری محبت و نفرت کا معیار رضائے الٰہی و رضائے مصطفے ہونا
چاہیے۔ اگر آپ کے دل میں کسی کے لیے بغض و کینہ ہو نفرت ہوتو اسے دور کرنے کی حتی
الامکان کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے کینے و نفرت کے دور ہونے کی سچے دل سے دعا کریں۔
جس سے نفرت و کینہ ہوگیا ہے اس مسلمان بھائی کے لیے خوب خوب دعائیں کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو مسلمانوں کے بغض کینہ و نفرت و
دشمنی سمیت تمام باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

الحمد للہ، ہم سب مسلمان ہیں اور اسلام دین فطرت ہے جس نے
اپنے پیروکاروں کو زندگی گزارنے کے وہ روشن اصول سکھائے جو نہ صرف ان کی دینی بلکہ دنیوی فلاح و کامرانی کے بھی
ضامن ہیں۔ معزز قارئین! انہیں اصولوں میں سے ایک آپس میں پیارو محبت قائم رکھنا
اور بلا وجہ شرعی ایک دوسرے کے بغض و نفرت سے اپنے دل کو پاک رکھنا بھی ہے دیکھیے!
اس کے بارے میں قرآن کریم میں کیسا غور طلب ارشاد خداوندی موجود ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ
الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ
ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان
یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ
کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔اس آیت مبارکہ میں اس بات کا بیان واضح طور پر موجود ہے کہ آپس کی بغض و
عداوتیں اللہ کی یاد اور پابندیِ نماز سے محروم کر دیتی ہیں، اسی طرح مختلف احادیث
مبارکہ میں بھی اس ضمن میں ہماری رہنمائی کے لیے بیان موجود ہے، آئیے! ان میں سے
کچھ ملاحظہ کرتے ہیں:
احادیث مبارکہ:
1۔نبی رحمت ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک (ماہ) شعبان کی
پندرہویں رات اپنے بندوں پر (اپنی قدرت کے شایان شان) تجلّی فرماتا ہے اور مغفرت
چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے جبکہ
کینہ(بغض و نفرت) رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الايمان، 3/383،حدیث:
3835)
2۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: بغض رکھنے والوں سے
بچو کیونکہ بغض دین کو مونڈ ڈالتا (تباہ کردیتا) ہے۔ (کنز العمال، 3/209، حدیث: 7714)
3۔ ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو ایک دوسرے کی جڑیں نہ
کاٹو ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور باہم حسد نہ کرو اللہ کے بندے بھائی بھائی
ہوجاؤ۔ (مسلم، ص 1064، حدیث: 2563)
4۔ تم سب باہم حسد نہ کرو اور نہ بیع (خرید و فروخت) وغیرہ
میں اشیاء کی قدر و قیمت بنانے میں مبالغہ و فریب سے کام لو اور نہ باہم دشمنی
رکھو اور نہ باہم قطع تعلق کرو۔ (مسلم، ص 1064، حدیث: 2564)
معزز قارئین! مندرجہ بالا تمام روایات کی روشنی میں اس بات
کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں کس طرح باہم نفرت
و دشمنی، بغض و کینہ جیسی مہلکات (ہلاکت میں ڈالنے والی چیزیں) سے دور رہنے کی
تعلیم دیتا ہے اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح ہم پر
عیاں ہوتی ہے کہ ہمارا مسلم معاشرہ جس پستی و زوال کا شکار ہے اس کی سب سے بنیادی
وجہ مسلمانوں کی باہم بغض و نفرت ہے جس نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر کے دوسری
قوموں کو ہم پر ظاہری سبقت لے جانے کے مواقع فراہم کیے ہیں تو آئیے! یہ پختہ نیّت
کریں کہ بلا وجہ شرعی اپنے مسلمان بھائی سے بغض و نفرت نہیں رکھیں گے بلکہ آپس میں
فقط رضائے الٰہی کے حصول
کی خاطر محبت، پیاراور خلوص جیسی پاکیزہ صفات کا عملی مظاہرہ کر کےدنیا و آخرت
دونوں کی بھلائیاں سمیٹیں گے۔ ان شاء اللہ

اللہ تعالیٰ صرف ظاہری صورتوں اور کھالوں کو نہیں دیکھتا
بلکہ وہ دلوں کو بھی دیکھتا ہے، اسی لئے ظاہر کی درستگی کے ساتھ ساتھ ساتھ
باطن(دل) کی اصلاح بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ دل تمام جسم کا اصل ہے اس لئے اصلاح
قلب کی طرف پوری توجہ دینا بےحد ضروری ہے اگر اسکی طرف توجہ نہ دی جائے تو دل
بیماریوں(گناہوں) کا شکار ہوسکتا ہے ان باطنی بیماریوں میں سے ایک بغض و نفرت بھی
ہے۔
بغض و نفرت یعنی دل میں دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے
ہی اسکا اظہار کردینا۔ (لسان العرب، 1/888)
مسلمان سے بلاوجہ شرعی بغض ونفرت رکھنا حرام ہے، جبکہ غیر
مسلم یا بدمذہب سے بغض ونفرت رکھنا جائز و محمود ہے، بغض و نفرت کی وجہ سے انسان
بے شمار گناہوں مثلاً قتل غیبت چغلی حسد وغیرہ کا شکار ہوجاتا ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔ بیشک چغل خوری اور کینہ پروری جہنم میں ہیں یہ دونوں کسی
مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (معجم اوسط، 3/301،حدیث: 4653)
2۔ جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ کینہ پرور ہے تو وہ جنت
کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔ (حلیۃ الاولیاء،8/180، حدیث:11536)
3۔ تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کرگئی،
یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈتی
ہے۔ (ترمذی، 4/228، حدیث: 2518)
4۔ عالم بن یا متعلم یا علمی گفتگو سننے والا یا علم سے
محبت کرنے والا بن اور پانچواں(یعنی علم اور عالم سے بغض رکھنے والا)نہ بن کہ ہلاک
ہوجائیگا۔ (جامع صغیر، ص78، حدیث: 1213)
5۔ رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ لوگوں
میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا سلامت دل والا، سچی زبان والا۔ لوگوں نے عرض کی سچی
زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں یہ سلامت دل والا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یعنی وہ
ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد۔ (ابن ماجہ، 4/475، حدیث:4216)
بغض و نفرت کا علاج: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مصافحہ کیا کرو کینہ دور ہوگا اور تحفہ دیا کرو
محبت بڑھے گی اور بغض دور ہوگا۔ (موطا امام مالک، 2/407، حدیث:1731)
اے ہماری ظاہری و باطنی بیماریوں کے طبیب! اور اے ہر قسم کی
بیماریوں سے نجات دینے والے ہم نہیں جانتے کہ ہماری بیماریوں کی کیا دوا ہے یا کس
شے کے ذریعے روز قیامت میری نجات ہوگی تو ہی اصلاح فرمانے والا ہے تو ہی ہمارے
ظاہر و باطن کی اصلاح فرما۔

بغض یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی چیز کو بوجھ جانے اس سے
غیر شرعی دشمنی اور بغض رکھے نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔(احیاء
العلوم، 3/223)
حکم: کسی بھی
مسلمان کے متعلق بلاوجہ شرعی اپنے دل میں بغض رکھنا ناجائزو گناہ ہے۔ محبوب رب
تاجدار عرب ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: عرب کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے
جس نے عرب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے
بغض رکھا۔ (معجم اوسط،2/66، حدیث: 2537)
سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: عالم بن یا متعلم، یا
علمی گفتگو سننے والا یا علم سے محبت کرنے والا بن اور پانچواں (یعنی علم اور عالم
سے بغض رکھنے والا) نہ بن کہ ہلاک ہو جائیگا۔ عالم دین سے خواہ مخواہ بغض رکھنے
والا مریض القلب اور خبیث الباطن ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ
فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 129 پر فرماتے ہیں: (1)اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا
ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور( 2)اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا
ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت(یعنی دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ہے اور
تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اور (3)اگر بے سبب (یعنی بلاوجہ رنج) بغض رکھتا
ہے تو مریض القلب، خبیث الباطن (یعنی دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس
یعنی خواہ مخواہ بغض رکھنے والے کے کفر کا اندیشہ ہے۔
خلاصے میں ہے: جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض
رکھے اس پر کفر کا خوف ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی، 4/388)
مجھ کو اے عطار
سنی عالموں سے پیارہے
انشاءاللہ دو
جہاں میں میرا بیڑا پار ہے
حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب کے حق میں خدا سے ڈرو! خدا کا خوف کرو! انہیں میرے بعد
نشانہ نہ بناؤ جس نے انہیں محبوب رکھا میری محبت کی وجہ سے محبوب رکھا اور جس نے
ان سے بغض کیا وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اس لئے اس نے ان سے بغض رکھا جس نے انہیں
ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی جس نے مجھے ایذا دی اس نے بیشک خدا کو ایذا دی جس نے
اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ اللہ اسے گرفتار کرے۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888) یاد
رہے کہ بغض و کینہ آج کل کی پیداوار نہیں بلکہ بہت پرانی بیماری ہے ہم سے پہلی
امتیں بھی اس کا شکار ہوتی رہی ہیں، دافع رنج و ملال ﷺ کا فرمان باکمال ہے: عنقریب
میری امت کو پچھلی امتوں کی بیماری لاحق ہو گی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض
کی! پچھلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تکبر کرنا، اترانا، ایک
دوسرے کی غیبت کرنا اور دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرنا نیز آپس میں بغض
رکھنا، بخل کرنا یہاں تک کہ وہ ظلم میں تبدیل ہو جائے اور پھر فتنہ و فساد بن جائے۔
(معجم اوسط، 6/348، حدیث: 9016)
گناہوں سے مجھ کو
بچا یاالہی
بری عادتیں بھی
چھڑا یا الہی
نفرت کیوں ہوتی ہے؟ ہر مرض کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے، کسی کی نفرت میں مبتلا ہونے کے کم از کم
9 ممکنہ اسباب (Possible Reasons) ہوسکتے ہیں:
(1)جب ہمارا کوئی دوست یا عزیز امید وں کے برعکس ہماری
توقعات (Expectations) پر پورا نہیں
اترتا مثلاً ہمیں کوئی ایمرجنسی پیش آئی لیکن ہمارے دوست یا عزیز نے ہمارے مدد
مانگنے پر بے رخی اختیار کی تو ہمارے دل میں اس کے لئے نفرت کا بیج لگ سکتا ہے جو
بڑھتے بڑھتے درخت کی شکل اختیار کرسکتاہے۔
(2)جب ہمارا ماتحت مسلسل
ہمارے مزاج کے خلاف کام کرتا رہتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ ہمارے دل سے اتر جاتا
ہے اور ایسی کیفیت ہوجاتی ہے کہ اس کے عطر (پرفیوم) میں سے بھی ہمیں پسینے کی بو
آنے لگتی ہے وہ کیسا ہی شاندار کام کرے ہم خواہ مخواہ اس میں سے کیڑے نکالنے لگتے
ہیں۔
(3)کسی نے لوگوں کے سامنے ہمیں ڈی گریڈ کردیا، یا ڈانٹ دیا
یا بے جاتنقید کردی تو ہمیں وہ شخص برا لگنے لگتا ہے۔ اس کیفیت پر قابو نہ پایا
جائے تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ہم اس کی نفرت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
(4)اصلاح کا غلط انداز بھی نفرت پیدا ہونے کا سبب بن سکتا
ہے، ہمارا تو اکثر یہ حال ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورت شرعی
سب کے سامنے نام لےکر یا اسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھائیں گے کہ بے چارے کی
پولیں بھی کھول کر رکھ دیں گے۔ اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے کہ یہ سمجھانا ہوا یا اگلے
کو ذلیل کرنا ہوا؟ اس طرح سدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا؟ یاد رکھئے! اگر
ہمارے رعب سے سامنے والا چپ ہو گیا یا مان گیا تب بھی اس کے دل میں ناگواری سی رہ
جائے گی جو کہ بغض وعداوت اور نفرت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ کاش!ہمیں اصلاح
کا ڈھنگ آجائے۔
(5)کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں لیکن کچھ لوگ ناکام
ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کو اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں، ایسے حوصلہ شکن شخص سے محبت
کرنے والے کم اورنفرت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔
(6)بولنا (Speaking) ایک فن ہے تو
سننا (Listening) اس سے بڑا فن
ہے، بولنے کا شوق بہت ساروں کو ہوتا ہے مگر سننے کا حوصلہ کم افراد میں پایا جاتا
ہے، ایسے لوگ اپنی کہنے کے لئے بلاوجہ دوسروں کی بات کاٹنے میں ذرا جھجک محسوس
نہیں کرتے، ان کا یہ انداز بھی نفرتیں کمانے والا ہے۔
(7)بات بات پر غصّہ
کرنا، چیخنا چلّانا، معمولی بات پر مشتعل ہوجانا بداخلاق ہونے کی نشانی ہے، بداخلاقی
محبتیں نہیں کماتی بلکہ اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں۔
(8)کسی کے رشتے پر
رشتہ بھیجنا یا سودے پر سودا کرنا بھی نفرتیں پھیلاتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے
کہ دوگھرانوں کے درمیان رشتے کی بات چل رہی ہوتی ہے کہ کوئی تیسرا بھی بیچ میں
پہنچ جاتا ہے، یا دو افراد کے درمیان خرید وفروخت کی بات ہورہی ہوتی ہے توکوئی
تیسرا اس میں کود پڑتا ہے ایسی صورت میں فائدے سے محروم ہونے والا فریق بنا بنایا
کام بگاڑ دینے والے کے بغض اور نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس لئے کسی کے رشتے یا
سودے کی بات چیت کے دوران ٹانگ نہ اڑائی جائے بلکہ ان کا معاملہ فائنل ہونے کا
انتظار کیا جائے اگر انہوں نے آپس میں سودا یا رشتہ نہ کیا تو اپنی بات آگے
بڑھائیے ورنہ رک جائیے۔
(9)کسی کے بارے میں شک و بدگمانی یا جیلسی میں مبتلا ہونا
بھی محبتوں کی قینچی ثابت ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں محبتیں پھیلانے والے کام کرنے اور نفرتوں کو
عام کرنے والے ذرائع سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

بغض کسی سے حد درجہ جلنے کو کہتے ہیں جبکہ نفرت و کینہ یہ
ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے، نفرت
کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (احیاء العلوم، 3/223) اللہ پاک قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ
الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی
الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ
الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی
چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی
یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔
حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ
اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: اس آیت میں شراب اور جوئے کے نتائج اور
وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب
خوری اور جوئے بازی کا ایک
وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو ان بدیوں
میں مبتلا ہو وہ ذکر الٰہی اور نماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا ہے۔
اللہ کے محبوب ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ شعبان کی
پندرہویں رات اپنے بندوں پر تجلی فرماتا ہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا
ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے جبکہ کینہ رکھنے والوں کو انکی حالت
پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/383، حدیث: 3835)
کسی بھی مسلمان کے متعلق بغیر کسی شرعی وجہ کے اپنے دل میں
بغض و نفرت رکھنا حرام ہے۔
حکایت: حضور ﷺ کے
چچا جان حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت بابرکت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم
سفر حج کے لیے نکلے تھے جب ہم مقام ذات الصّفاح پہنچے تو ہمارے ایک ساتھی کا
انتقال ہو گیا۔ ہم نے اسکو غسل و کفن دیا پھر اسکے لیے قبر کھودی جب اسے دفن کرنے
لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اسکی قبر کالے سانپوں سے بھر گئی بالآخر ہم اسے چھوڑ کر
آپکی خدمت بابرکت میں حاضر ہوگئے۔ یہ واقعہ سن کر حضرت عباس نے ارشاد فرمایا: یہ
اسکا کینہ ہے جو وہ مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں رکھا کرتا تھا جاؤ اور اسے وہیں
دفن کر دو۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 6/83، رقم: 128)
بغض و نفرت کے علاج: سلام و مصافحہ کی عادت بنائیے۔ کیونکہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا
کینے کو دور کرتا ہے۔ بے جا سوچنا چھوڑ دیجیے۔ کیونکہ عموماً کسی کی اپنے اوپر
ہونے والی زیادتی کے بارے میں سوچنے سے بھی کینہ پیدا ہو سکتا ہو۔ مسلمانوں سے
اللہ کی رضا کے لیے محبت کیجئے۔ محبت کینے کی ضد ہے لہذا اگر ہم کسی مسلمان کی اپنے دل
میں اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھیں گے تو کینے کو دل میں جگہ نہ ملے گی۔ ان شاء
اللہ
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بغض و کینہ سے محفوظ رکھے۔ آمین
بجاہ النبی الامین ﷺ

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا
یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی
الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ
الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی
چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی
یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔
تعریف: دل میں
دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اس کا اظہار کرنا بغض و کینہ ہے۔ مثلا کوئی
شخص ایسا ہے جس کا خیال آتے ہی آپ کو اپنے دل میں بوجھ سا محسوس ہوتا ہے، نفرت کی
ایک لہر دوڑ جاتی ہے، وہ نظر آ جائے تو ملنے سے کتراتے اور زبان ہاتھ یا کسی بھی
طرح سے اسے نقصان پہنچانے کا موقع ملے تو پیچھے نہیں رہتے تو سمجھ لیجئے کہ آپ اس
شخص سے بغض و کینہ رکھتے ہیں۔
بغض و نفرت سے متعلق بعض احکام: مسلمان سے بلا وجہ شرعی بغض رکھنا حرام ہے (فتاویٰ رضویہ،
6/526)
خلاصہ میں ہے جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے
اس پر کفر کا خوف ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی، 4/388)
احادیث مبارکہ:
1۔ بغض و نفرت کی مذمت بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے آخری نبی
ﷺ نے بھی اپنی امت کو اس کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: مومن
کینہ پرور نہیں ہوتا۔ (احیاء العلوم، 3/637)
2۔ اور ارشاد فرمایا: ہر پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے
اعمال پیش کئے جاتے ہیں پھر بغض و کینہ رکھنے والے دو بھائیوں کے علاوہ ہر مومن کو
بخش دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے: ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اس بغض سے واپس پلٹ
آئیں۔ (مسلم، ص1388، حدیث: 2565)
3۔ اور ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور
بغض سرایت کر گئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے
بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (ترمذی، 4/228، حدیث: 2518)
بغض و نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والی 8 برائیاں:
تمہاری نفرت تمہیں اس چیز پر ابھارے گی کہ تم اس شخص سے
زوال نعمت کی تمنا کرو گے۔ تم اس کی مصیبت پر خوش ہو گے۔ قطع تعلقی کرو گے۔ حقیر
سمجھنا شروع کر دو گے۔ غلط باتیں منسوب کرنا جو جائز نہ ہوں گی مثلا جھوٹ، غیبت،
راز فاش کرنا، عیب بیان کرنا وغیرہ۔ مذاق اڑانا تکلیف پہنچانا حقوق کی ادائیگی نہ
کرنا۔ (احیاء العلوم، 3/638)
علاج: دعا کیجئے:
اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بے شک تو ہی
نہایت مہربان رحم والا ہے۔
اسباب دور کیجئے، بغض و نفرت کے اسباب میں سے غصہ، بدگمانی
شراب نوشی وغیرہ ہیں ان کی عادت نکالئے۔
نعمتوں کا شکر ادا کیجئے۔ سلام و مصافحہ کی عادت بنا لیجئے۔
بے جا سوچنا چھوڑ دیجیے۔ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے محبت کیجئے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کو مسلمانوں سے بغض و
نفرت رکھنے سے پاک فرمائے۔
ظاہر و باطن
ہمارا ایک ہو
یہ کرم یا مصطفیٰ
فرمائیے
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

چونکہ ماہِ رمضان دوسرے مہینوں سے زیادہ شرف وعظمت
والا ہے،اس لیے آقا ﷺ جب رجب کا مہینا آتا تو حضور ﷺیوں دعافرماتے: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے اللہ پاک ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان سے ملا دے۔(معجم اوسط،3/85، حدیث : 3939)
حضور ﷺ اس
کی آمد پہ خوشی کا اظہار فرماتے، خوب دعاؤں ، نمازوں اور تلاوت کا اہتمام فرمایا
کرتے۔لہٰذا رمضان میں بھی آپ کے معمولات
بے مثل و بے نظیر ہیں۔چنانچہ حدیثِ پاک میں مروی ہے:وعَنِ ابنِ عباس قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ -صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ أَطْلَقَ كُلَّ أَسِيرٍ، وَأَعْطَى كُلَّ
سَائِلٍیعنی
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو رسول اللہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )مفتی
احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ہر سائل کو عطا فرماتےکے تحت لکھتے ہیں:یوں تو سرکار
ہمیشہ ہی ہر سائل کو دیتے تھے،کریم ہیں،سخی ہیں،داتا ہیں،مگر ماہِ رمضان میں آپ کی
سخاوت کا سمندر موجیں مارتا تھا۔یہاں دوباتیں خیا ل میں رکھیے:ایک یہ کہ امیروں سے
صرف مال مانگے جاتے ہیں مگر حضور انور ﷺ سے مال،اعمال،کمال،رضائے رب ذوالجلال اور
جنت،نیز دوزخ سے پناہ،ایمان پر خاتمہ سب کچھ ہی مانگا جاتا ہے۔حضرت ربیعہ نے حضور
انور ﷺ سے جنت مانگی۔حضور ﷺ یوں تو ہمیشہ خصوصًا رمضان میں ہر سائل کو اس کی منہ
مانگی مراد دیتے تھے۔دوسرے یہ کہ سرکار کی یہ بخششیں صرف اس زمانہ سے خاص نہیں تا
قیامت ان کا دروازہ ہر فقیر کے لیے کھلا ہے،کیوں نہ ہو کہ رب کریم نے فرمایا:وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ(1۰)۔سائل میں زمانہ ومکان کی قید
نہیں ،لہٰذا اب بھی رمضان میں حضور انور ﷺ سے ہر مومن کو رہائی بھی مانگنی چاہیے
اور جنت وغیرہ بھی ۔(مراۃ المناجیح،3/142)
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ رمضان میں تلاوت ِقرآنِ
کریم کی کثرت بھی فرماتے تھے۔چنانچہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا: جبر ئیل ا مین علیہ السلام رَمَضانُ
المبارَک کی ہر رات میں ملاقات کیلئے
حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم ﷺان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دَور فرماتے ۔ ( بخاری ،1/9،
حدیث:6)
اسی طرح ہمارے پیارے اور آخری نبی ﷺ رمضان کی راتوں
میں خوب خوب عبادت کا اہتمام فرمایا کرتے کہ پوری رات بستر مبارک پر تشریف نہ لاتے۔چنانچہ
اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب رمضان کا آخری عشرہ
آتا تو تاجدارِ کائنات ﷺ رات بھر جاگتے
اور گھر والوں کو بھی جگاتے اور اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے۔مسلم،ص462،حدیث: 2787
رمضان المبارک میں کی جانے اہم ترین عبادت اعتکاف
بھی ہےجو سرکار ﷺ کی سنت بھی ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک
کہ آپ کا وصال ہوا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف فرمایا کرتیں۔ (بُخاری،1/664،حدیث:2026)
ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ آقا ﷺ رمضان
المبارک میں عبادت کا کتنا زیادہ اہتمام فرمایا کرتے ۔اللہ پاک ہمیں بھی پیارے آقا
ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے رمضان المبارک کو ایمان و عافیت کے ساتھ پا لینے کے بعد خوب
خوب عبادت و ریاضت میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
حضور رمضان کیسے گزارتے تھے؟از بنتِ بشیر احمد،
طارق بن زیاد کالونی ساہیوال

ماہِ رمضان تمام مہینوں میں سب سے
بابرکت اور باعظمت مہینا ہے۔ اس مہینے میں شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے۔ جنت کے
دروازے کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔اس مبارک مہینے میں
مسلمان کثرت سے عبادت کرتے اور رحمتِ الٰہی
کے حق دار بنتے ہیں۔حضور ﷺ آمدِ رمضان سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع فرما دیتے اور اپنے
اصحاب رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلاتے تاکہ وہ بھی اس مبارک مہینے کی برکتوں
سے فیض یاب ہوں ۔
نماز کی کثرت:حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتا تو حضور اکرم، نورِ مجسم ﷺ کا
رنگ مبارک تبدیل ہو جاتا،آپ کی نماز زیادہ ہو جاتی اور خوب دُعا ئیں مانگتے
۔(شُعَبُ الْایمان، 3/310،حدیث:3625 )علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:( رنگ اس لیے تبدیل ہو جاتا)کہ کہیں کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہو جائے
جس کی وجہ سے حقِّ عبودیت میں کمی ہو۔
(فیض القدیر،5/168،تحت حدیث:: 6681)
قید سے رہائی:حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتاتو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی
کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )
حکیم الامت
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیثِ پاک کے حصےہر قیدی کو رہا
کر دیتے کے تحت مرآۃالمناجیح،جلد 3 صفحہ
142 پر فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد وہ شخص ہے جو حق اللہ یا حق العبد میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے
اس کے حق ادا کر دینا یا کرا دینا مراد ہے۔
کمر بند کس لیتے:حضرت
عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ پاک ﷺ جب رمضان شریف کا مہینا
تشریف لاتا تو اپنی کمر بند کس لیتے۔آپ بستر پر آرام کے لیے تشریف نہ لاتے تھے حتی
کہ رمضان گزر جاتا ۔( مسلم،ص462،حدیث: 2787)
رمضان میں سخاوت:حضرت
عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر
سخی تھے اور رمضان شریف میں آپ بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔جبرائیلِ امین علیہ
السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور رسولِ کریم ﷺ ان
کے ساتھ قرآن ِمجید کا دور فرماتے۔جب بھی جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر
ہوتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر( یعنی بھلائی) کے معاملے میں سخاوت
فرماتے۔( بخاری ،1/9، حدیث:6)
ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم! ہیں سخی کے مال میں حقدار
ہم
(حدائق بخشش، ص 83)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور ﷺ کی سیرتِ
مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان نیکیوں کے
ساتھ گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین

رمضان المبارک اپنی عظمتوں، رحمتوں اور برکتوں کے
اعتبار سے دیگر مہینوں سے افضل ہے ۔چنانچہ
حدیثِ پاک میں ہے کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:ماہِ رمضان مہینوں کا سردار ہے۔
(موسوعہ ابن ابی الدنیا،1/ 369، حدیث: 33)
اس کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں قرآنِ مجید نازل ہوا
اور اسی ماہِ مبارک کا ذکر اللہ پاک نے اپنے کلام قرآنِ مجید میں فرمایا ہے۔اس کے
علاوہ کسی اور مہینے کا ذکر قرآنِ پاک میں نام کے ساتھ نہیں آیا۔حضور ﷺ کو رمضان
المبارک سے بہت محبت تھی۔آپ کے ظاہری
پردہ فرمانے تک کل 9 بار رمضان المبارک نے حاضری دی۔( اسلامی بیانات،14/319)
اس مبارک
ماہ سے محبت اور اس کی اہمیت و فضیلت
کے پیشِ نظر آپ اس ماہِ مبارک کی آمد پر اپنے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو
مبارکباد(خوشخبری) دیتے اور آپ اس ماہ میں اپنی عبادات(تلاوت ِقرآنِ پاک اور ذکر و
دعا وغیرہ) میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ فرمادیتے۔آئیے! رمضان المبارک میں حضور
ﷺ کے مبارک معمولات کے بارے میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے :
1- آقا ﷺ رمضان المبارک کی آمد پر صحابہ
کرام علیہم الرضوان کو مبارکباد دیتے:چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت
ہے کہ سرکار ﷺ کا معمول تھا کہ رمضان المبارک تشریف لاتا تو آپ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم اجمعین کو آمد رمضان کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔ (موسوعہ ابن ابی دنیا،1/
364، حدیث: 13)
2-شبِ بیداری اور آخری عشرہ میں عبادت:اُمُّ
المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رمضان کا آخری عشرہ
آتا تورسول اللہ ﷺ رات کو زندہ کرتے (یعنی شب بیداری فرماتے)،اپنے گھر والوں کو بھی
جگاتے،عبادت میں خوب کوشش کرتے اور تہبند مضبوطی سے باندھ لیتے (یعنی عبادت کے لیے
کمر بستہ ہوجاتے۔)( مسلم،ص462،حدیث: 2787)
3- آقا ﷺ رمضان المبارک میں خوب دعائیں
مانگا کرتے:ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :جب رمضان تشریف لاتا تو حضور
اکرم ﷺ کا مبارک رنگ متغیر(تبدیل) ہو
جاتااور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔(شعب الایمان،3/310،حدیث:3625)اس
حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم سارا سال خصوصاً رمضان المبارک میں خوب
دعائیں کیا کریں ۔
4-ہر قیدی کو رہا فرما دیتےاور اللہ پاک
کی راہ میں خوب خوب خیرات فرماتے:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے
ہیں:جب رمضان آتا تو رسول اللہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر منگتے کو دیتے
تھے۔
(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )
اس حدیثِ پاک میں قیدی سے مراد وہ شخص ہے جو حق
اللہ یا حق العبد میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق ادا کر دینا یا کرا دینا مراد ہے۔یوں
تو آپ ہمیشہ ہی سائل کو دیتے تھے کہ آپ کریم ہیں، سخی ہیں، داتا ہیں، مگر ماہِ
رمضان میں آپ کی سخاوت سمندر کی موجیں
مارتی تھی۔ (مراۃ المناجیح،3/142)
5 - اعتکاف کرنا سنت ہے :ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رحمت عالمین ﷺ
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے،یہاں تک کہ اللہ پاک نے
وفات ظاہری عطا فرمائی، پھر آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کرتی تھیں۔
(بخاری، 1/ 664،حدیث: 2026)
6 -سحری کرنا سنت ہے:حضرت
عرباض ابنِ ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہ ﷺ
نے رمضان میں سحری کے لیے بلایا تو فرمایا:برکت والے ناشتہ کے لیے آؤ۔
(ابوداود،2/442،حدیث: 2344)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں سرکارِ مدینہ،راحتِ
قلب و سینہ ﷺ کے صدقے آپ کے طریقہ پر چلتے ہوئے اپنی رضا والی عبادت کی توفیق عطا
فرمائے،بالخصوص رمضان المبارک میں خوب عبادت و ریاضت اور سارا سال، ساری زندگی
عبادت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ