بغض یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی چیز کو بوجھ جانے اس سے غیر شرعی دشمنی اور بغض رکھے نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔(احیاء العلوم، 3/223)

حکم: کسی بھی مسلمان کے متعلق بلاوجہ شرعی اپنے دل میں بغض رکھنا ناجائزو گناہ ہے۔ محبوب رب تاجدار عرب ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: عرب کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے جس نے عرب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (معجم اوسط،2/66، حدیث: 2537)

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: عالم بن یا متعلم، یا علمی گفتگو سننے والا یا علم سے محبت کرنے والا بن اور پانچواں (یعنی علم اور عالم سے بغض رکھنے والا) نہ بن کہ ہلاک ہو جائیگا۔ عالم دین سے خواہ مخواہ بغض رکھنے والا مریض القلب اور خبیث الباطن ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 129 پر فرماتے ہیں: (1)اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور( 2)اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت(یعنی دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اور (3)اگر بے سبب (یعنی بلاوجہ رنج) بغض رکھتا ہے تو مریض القلب، خبیث الباطن (یعنی دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس یعنی خواہ مخواہ بغض رکھنے والے کے کفر کا اندیشہ ہے۔

خلاصے میں ہے: جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی، 4/388)

مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے پیارہے

انشاءاللہ دو جہاں میں میرا بیڑا پار ہے

حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب کے حق میں خدا سے ڈرو! خدا کا خوف کرو! انہیں میرے بعد نشانہ نہ بناؤ جس نے انہیں محبوب رکھا میری محبت کی وجہ سے محبوب رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اس لئے اس نے ان سے بغض رکھا جس نے انہیں ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی جس نے مجھے ایذا دی اس نے بیشک خدا کو ایذا دی جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ اللہ اسے گرفتار کرے۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888) یاد رہے کہ بغض و کینہ آج کل کی پیداوار نہیں بلکہ بہت پرانی بیماری ہے ہم سے پہلی امتیں بھی اس کا شکار ہوتی رہی ہیں، دافع رنج و ملال ﷺ کا فرمان باکمال ہے: عنقریب میری امت کو پچھلی امتوں کی بیماری لاحق ہو گی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی! پچھلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تکبر کرنا، اترانا، ایک دوسرے کی غیبت کرنا اور دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرنا نیز آپس میں بغض رکھنا، بخل کرنا یہاں تک کہ وہ ظلم میں تبدیل ہو جائے اور پھر فتنہ و فساد بن جائے۔ (معجم اوسط، 6/348، حدیث: 9016)

گناہوں سے مجھ کو بچا یاالہی

بری عادتیں بھی چھڑا یا الہی

نفرت کیوں ہوتی ہے؟ ہر مرض کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے، کسی کی نفرت میں مبتلا ہونے کے کم از کم 9 ممکنہ اسباب (Possible Reasons) ہوسکتے ہیں:

(1)جب ہمارا کوئی دوست یا عزیز امید وں کے برعکس ہماری توقعات (Expectations) پر پورا نہیں اترتا مثلاً ہمیں کوئی ایمرجنسی پیش آئی لیکن ہمارے دوست یا عزیز نے ہمارے مدد مانگنے پر بے رخی اختیار کی تو ہمارے دل میں اس کے لئے نفرت کا بیج لگ سکتا ہے جو بڑھتے بڑھتے درخت کی شکل اختیار کرسکتاہے۔

(2)جب ہمارا ماتحت مسلسل ہمارے مزاج کے خلاف کام کرتا رہتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ ہمارے دل سے اتر جاتا ہے اور ایسی کیفیت ہوجاتی ہے کہ اس کے عطر (پرفیوم) میں سے بھی ہمیں پسینے کی بو آنے لگتی ہے وہ کیسا ہی شاندار کام کرے ہم خواہ مخواہ اس میں سے کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔

(3)کسی نے لوگوں کے سامنے ہمیں ڈی گریڈ کردیا، یا ڈانٹ دیا یا بے جاتنقید کردی تو ہمیں وہ شخص برا لگنے لگتا ہے۔ اس کیفیت پر قابو نہ پایا جائے تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ہم اس کی نفرت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

(4)اصلاح کا غلط انداز بھی نفرت پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے، ہمارا تو اکثر یہ حال ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورت شرعی سب کے سامنے نام لےکر یا اسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھائیں گے کہ بے چارے کی پولیں بھی کھول کر رکھ دیں گے۔ اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے کہ یہ سمجھانا ہوا یا اگلے کو ذلیل کرنا ہوا؟ اس طرح سدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا؟ یاد رکھئے! اگر ہمارے رعب سے سامنے والا چپ ہو گیا یا مان گیا تب بھی اس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو کہ بغض وعداوت اور نفرت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ کاش!ہمیں اصلاح کا ڈھنگ آجائے۔

(5)کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں لیکن کچھ لوگ ناکام ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کو اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں، ایسے حوصلہ شکن شخص سے محبت کرنے والے کم اورنفرت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

(6)بولنا (Speaking) ایک فن ہے تو سننا (Listening) اس سے بڑا فن ہے، بولنے کا شوق بہت ساروں کو ہوتا ہے مگر سننے کا حوصلہ کم افراد میں پایا جاتا ہے، ایسے لوگ اپنی کہنے کے لئے بلاوجہ دوسروں کی بات کاٹنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے، ان کا یہ انداز بھی نفرتیں کمانے والا ہے۔

(7)بات بات پر غصّہ کرنا، چیخنا چلّانا، معمولی بات پر مشتعل ہوجانا بداخلاق ہونے کی نشانی ہے، بداخلاقی محبتیں نہیں کماتی بلکہ اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں۔

(8)کسی کے رشتے پر رشتہ بھیجنا یا سودے پر سودا کرنا بھی نفرتیں پھیلاتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوگھرانوں کے درمیان رشتے کی بات چل رہی ہوتی ہے کہ کوئی تیسرا بھی بیچ میں پہنچ جاتا ہے، یا دو افراد کے درمیان خرید وفروخت کی بات ہورہی ہوتی ہے توکوئی تیسرا اس میں کود پڑتا ہے ایسی صورت میں فائدے سے محروم ہونے والا فریق بنا بنایا کام بگاڑ دینے والے کے بغض اور نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس لئے کسی کے رشتے یا سودے کی بات چیت کے دوران ٹانگ نہ اڑائی جائے بلکہ ان کا معاملہ فائنل ہونے کا انتظار کیا جائے اگر انہوں نے آپس میں سودا یا رشتہ نہ کیا تو اپنی بات آگے بڑھائیے ورنہ رک جائیے۔

(9)کسی کے بارے میں شک و بدگمانی یا جیلسی میں مبتلا ہونا بھی محبتوں کی قینچی ثابت ہوتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں محبتیں پھیلانے والے کام کرنے اور نفرتوں کو عام کرنے والے ذرائع سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ