کسی سے حد درجہ جلنے کو بغض کہتے ہیں نیز دل میں کسی کے
بارے میں ناپسندیدگی کا احساس رکھنا نفرت کہلاتا ہے۔ نفرت ہمارے اندر ایک منفی
جذبے کا نام ہے۔ جس کا آغاز ناپسندیدگی کے احساس سے ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ ناپسندیدگی
بڑھ کر نفرت میں بدل جاتی ہے۔نفرت تب پیدا ہوتی ہے جب ہمارے دل میں وسعت نہ رہے۔ اللہ
پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ
الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی
الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ
الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی
چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی
یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔
صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد
آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس آیت
میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خواری اور جوئے بازی
کا ایک وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو ان
بدیوں میں مبتلا ہو وہ ذکر الٰہی اور نماز کی اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا
ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 54)
حدیث مبارکہ میں ہے: اللہ پاک شعبان کی پندرویں رات اپنے
بندوں پر (اپنی قدرت کے شایان شان) تجلی فرماتا ہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت
فرماتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے جبکہ نفرت رکھنے والوں کو ان
کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/382، حدیث: 3835)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:بغض رکھنے والوں سے بچو
کیونکہ بغض دین کو مونڈ ڈالتا(یعنی تباہ کر دیتا) ہے۔ (کنز العمال، 3/209، حدیث:
7714)
بغض و نفرت کا حکم: کسی بھی مسلمان کے متعلق بلاوجہ شرعی اپنے دل میں بغض و نفرت رکھنا نا جائز و
گناہ ہے۔ سیدنا عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حق بات بتانے یا عدل و
انصاف کرنے والے سے بغض و نفرت رکھنا حرام ہے۔ (حدیقہ ندیہ، 1/ 629)
بغض و نفرت کے علاج: دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 84 صفات پر مشتمل رسالے
بغض و نفرت صفحہ 40 سے بغض و نفرت کے چھ علاج پیش خدمت ہیں:
1۔ ایمان والوں کی نفرت سے بچنے کی دعا کیجیے۔پارہ 28 سورہ
حشر آیت10 کو یاد کر لینا اور وقتاً فوقتاً پڑھتے رہنا بھی بہت مفید ہے۔
2۔ اسباب دور کیجیے۔ یقیناً بیماری جسمانی ہو یا روحانی اس
کے کچھ نہ کچھ اسباب ہوتے ہیں اگر اسباب کو دور کر دیا جائے تو بیماری خود بخود
دور ہو جاتی ہے، بغض و نفرت کے اسباب میں سے غصہ، بدگمانی، شراب نوشی، جوا بھی ہے
ان سے بچنے کی کوشش کیجئے، ایک سبب نعمتوں کے کثرت بھی ہے کہ اس سے بھی آپس میں
بغض و نفرت پیدا ہو جاتی ہے، نعمتوں کا شکر ادا کر کے اور سخاوت کی عادت کے ذریعے
اس سے بچنا ممکن ہے۔
3۔ سلام و مصافحہ کی عادت بنا لیجیے کہ سلام میں پہل کرنا
اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا آپ کی نفرت کو ختم کر دیتا ہے، نیز تحفہ
دینے سے بھی محبت بڑھتی اور عداوت دور ہوتی ہے۔
4۔ بے جا سوچنا چھوڑ دیجیے کہ عموماً کسی کی نعمتوں کے بارے
میں سوچنا یا کسی کی اپنے اوپر ہونے والے زیادتی کے بارے میں سوچتے رہنا بھی نفرت
کے پیدا ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ لہذا کسی کے متعلق بے جا سوچنے کے بجائے اپنی
آخرت کی فکر میں لگ جائیے کہ یہی دانشمندی ہے۔
5۔ مسلمانوں سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کیجئے۔ محبت نفرت
کی ضد ہے لہذا اگر ہم رضائے الٰہی کے لیے اپنے مسلمان بھائی سے محبت رکھیں گے تو
نفرت کو دل میں آنے کی جگہ نہیں ملے گی اور دیگر فضائل بھی حاصل ہوں گے۔
6۔ سوچیے اور عقلمندی سے کام لیجئے۔ نفرت کی بنیاد عموماً
دنیاوی چیزیں ہوتی ہیں، لیکن سوچنے کے بات ہے کہ کیا دنیا کی وجہ سے اپنی آخرت کو
برباد کر لینا دانشمندی ہے۔ یقیناً نہیں تو پھر اپنے دل میں نفرت کو ہرگز جگہ مت
دیجئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص55 تا 57)