مدینۃ المنورہ دنیا کا وہ عظیم ترین و مقدس شہر ہے جس کی فضیلت و اہمیت بکثرت قرآنی آیات  و احادیثِ پاک سے ثابت ہے اور فضیلت کیوں نہ ہو کہ یہ وہ مبارک شہر ہے جہاں ہمارے پیارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمدس سال اس شہر مقدس میں تشریف فرما رہے اور حضور پرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماب بھی وصالِ ظاہری کے بعد اسی مبارک شہر کو اپنی نگاہِ بے نیاز سے فیضیاب فرما رہے ہیں اور پوری دنیاکے مسلمان اس مبارک شہر سے دل و جان محبت کرتے ہیں ۔ یہ وہ مبارک شہر ہے جہاں صرف عزت والے اور عقیدت مند لوگ ہی حاضر ہو سکتے ہیں۔شہر ِنبوی کے متعلق دس فضائل حدیثِ پاک کی روشنی میں پیش خدمت ہیں پڑھیے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیجئے ۔چنانچہ

1: آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا ۔(شعب الایمان ج 3 ص 497 حدیث 1482)

زمیں تھوڑی سی دیدے بہر مدفن اپنے کوچے میں لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

(ذوق نعت)

2: فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی اور نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتےمقرر ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم ص 714حدیث 1374)

امام نوَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اس روایت میں مدینۃُ المنّورہ کی فضیلت بیان ہوئی اور پیارے آقا علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثیر تعداد میں فرشتے حفاظت کرتے اور ان فرشتوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لیے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ (شرح صحیح مسلم للنوی ج 5 جزء 9 ص 148)

3: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت )کا حکم ملا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(یعنی سب پر غالب آ جائے گی) اسے یثرب کہا جاتا ہے اور وہ مدینہ ہے (یعنی یہ بستی) لوگوں کو ایسے پاک و صاف کردے گی جیسے بھٹی لوہے کے زنگ و میل کو۔ (صحیح البخاری حدیث 1871،ج1،ص617)

یثرب سے مدینہ کیسے بنا؟

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مدینہ پاک تشریف لانے سے پہلے اسے یثرب کہا جاتا تھا( یعنی بیماریوں کا گھر) جب آپ علیہ السلام تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے اس کا نام المدینہ،طیبہ ،طابہ رکھا اور مدینہ کو یثرب کہنے سے منع فرمایا ۔(فضائلِ مدینہ، ص 112)کیونکہ یثرب یا تثریب سے بنا ہے جس کا مطلب ہے: زجرو توبیخ یعنی (ڈانٹنا ، جھاڑنا سر زنش کرنا) اور ملامت (یعنی شرمندگی کے )ہے یا یہ ثربٌ سے بنا ہے جس کا معنی ہے” فساد “اور یہ دونوں نام بُرے ہیں اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماچھے نام پسند فرماتے تھے اور بُرے نام ناپسند فرماتے ۔

(فضائل مدینہ، ص 113مصنف الدکتور ابو ابراھیم ملا خاطر، مکتبہ ضیاء القرآن )

طیبہ اور طابہ کہنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

بعض علما نے فرمایا :اس کو طیبہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی مٹی پاک ہے اور بعض نے فرمایا : اس کے باشندے یعنی رہائشی لوگ پاک ہیں اور بعض کے نزدیک زندگی پاکیزہ ہونے کی وجہ سے طیِّبہ اور طابہ کہا جاتا ہے۔ (فضائل مدینہ ص 110۔109)

4: جو پختہ ارادے کے ساتھ میری زیارت کو آیا بروزِ قیامت میری حفاظت میں رہے گا اور جو مدینے میں مستقل قیامت اختیار کرے گا اور مدینے کی تکلیفوں ہر صبر کرےگا تو میں بروزِ قیامت اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو مکے مدینے میں سے کسی ایک میں مرے گا اللہ پاک اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت سے بے خوف رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح ج 1 ص حدیث 2755)

5: پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ پاک کی گرد و غبار صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :مدینہ پاک کی خاک میں شفا ہے۔( جذب آپ قلوب ص22)

6: جو مسلمان زیارت کی نیت سے مدینۃ المنورہ آتا تو فرشتے رحمت کے تحائف سے اس کا استقبال فرماتے ہیں ۔ (جذب القلوب ص 211)

7: شہر ِمدینہ کی مقدس زمین پر مزارِ رسول ہے جہاں صبح و شام ستر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

(عاشقان رسول کی 130 حکایات ص 261)

8:مسجدِ نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ 2ص176حدیث 1413)

9:فرمایا:مدینہ پاک کی مبارک خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول للجزری ج9ص297حدیث 6962)

10:دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جس کے اتنے اسمائے مبارکہ ہوں سوائے مدینۃ المنورہ کے کہ بعض علمائے کرام نے 100 نام تحریر فرمائے ہیں۔

اللہ پاک کی قسم! وہ مسلمان بہت ہی خوش نصیب ہے جسے غم ِمدینہ کی دولت نصیب ہو جائے۔غمِ مدینہ کی دولت حاصل کرنے کے لیے بکثرت تصورِ مدینہ کیجئے۔فضائلِ مدینہ کا مطالعہ فرمائیے نیز مدینہ کی یاد میں لکھے گئے کلامِ پاک سنیے ان شاء اللہ غمِ مدینہ کے ساتھ ساتھ محبتِ مدینہ بھی نصیب ہوگی۔اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں اخلاص کے ساتھ محبتِ مدینہ اور غم ِمدینہ نصیب فرمائے۔ آمین


مدینہ منورہ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  یہ وہ مقدس اور عظیم شہر ہے کہ اللہ پاک نے جس کا ذکر قرآن ِکریم میں مختلف ناموں کے ساتھ فرمایا بلکہ مدینہ منورہ کا مشہور نام مدینہ 3مرتبہ قرآن میں آیا ہے۔

مدینۂ پاک دنیا کا واحد شہر ہے جس کے 100 سے زائد نام ہیں ، اس کے عِلاوہ دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں جس کے اتنے زیادہ نام ہوں ۔ شیخ عبد الحق مُحَدِّثْ دِہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :مدینۂ پاک کے اتنے زیادہ نام ہونے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ مبارک شہر کیسی عظمتوں والا ہے ۔( جذب القلوب ،ص9)

زمانہ سعادت نشانِ نبوت سے پہلے مدینہ شریف کو یثرب و اثرب بروزن مسجد کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے رب کے حکم سے اس کا نام طابہ اور طیبہ رکھا۔ لوگ کہتے ہیں :یثرب حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروں میں آباد ہوئی تو یثرب نے اس سرزمین میں قیام کیا۔

قرآنِ پاک کی بھی آیت ِمبارکہ میں”یثرب‘‘ کا لفظ ذکر ہوا، اس کے بارے میں اعلیٰٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:قرآنِ عظیم میں لفظ ”یثرب‘‘ آیا وہ رب العزت نے منافقین کا قول نقل فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کر کے یثرب کہتے ، اللہ پاک نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضور اقدس، سرورِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:” یقولون یثرب وھی المدینہ‘‘وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔( بخاری ، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ ۔الخ،ا / 217 ، حدیث: 1871)اس سے معلوم ہوا !مدینہ کو یثرب کہنا منافقین کا طریقہ ہے ۔

یثرب نہ کہنے کی وجہ:

لفظ یثرب سے کراہت کی وجہ اس کا ثرب سے مشتق ہونا(بننا ہے) جس کے معنی فساد کے ہیں یا تثریب سے مشتق ہونا (بننا ہے) جس کے معنی مواخذہ اور عذاب کے ہیں ان سب باتوں کے علاوہ یثرب ایک کافر کا نام بھی ہے لہٰذا اس کے نام پر اس مقام شریف کا نام رکھنا جس کی عزت شرک کے غبار اور کفر سے پاک و بری ہو۔ کسی طرح مناسب نہیں ہے ۔

مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا نا جائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنےوالا گنہگار۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں: جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔( مسند امام احمد ، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب ، 4 / 409)

علامہ مناوی تیسیر شرحِ جامعِ صغیر میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفار کا حکم فرمایا اور استغفار گناہ ہی سے ہوتی ہے۔

( التیسیر شرح جامع الصغير ،حرف المیم،2 / 444)

فضائلِ مدینہ احادیث کی روشنی میں:

1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے ، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ بُرے لوگوں کو اس طرح دور کر تا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ وانہا تنفی الناس، 1 / 217 ،حدیث: 1871)

2)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(مسلم، کتاب الحج، باب المدینۃۃتنفی شرارہا،حدیث: 491(1385))

3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے در میان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیا گیا ہے ۔

( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدينۃ، 1 / 216،حدیث: 1829)

5) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس سےدگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

( بخاری، کتاب فضائل المدينۃ، 11:باب، 1 / 220،حدیث: 1885)

4)حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سیّد المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔

( معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 / 92، حدیث: 5611)

6)حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، 1 / 402، حدیث: 1195)

(7)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: جس کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی(خاص طور پر ) شفاعت کروں گا۔ ( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483،حدیث: 3943)

8)سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ منورہ کے حق میں اکثر دعائےخیروبرکت فرماتے رہتے تھے۔ آپ دعا کرتے:اللهم بارك لنا في مدينتنا وبارك لنا في صاعنا وبارک لنا في مدنا اللهم ان ابراہیم عبدك وخليلك ونبیک وانی عبدک ونبیک وانه دعاك لمكته وانا ادعوك للمدينته بمثل ما دعاك لمكنه ومثله معه ترجمہ:اے اللہ پاک!برکت دے ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں اور برکت دے ہمارے لئے ہمارے صاع میں اور برکت دے ہمارے لئے ہمارے مد میں۔اے اللہ پاک! بے شک ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ بے شک ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی تجھ سے مکہ کے لئے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اتنی مقدار میں کہ تجھ سے دعا کی تھی مکہ کے لئے اور اس کے مثل اس کے ساتھ۔

9)مام حاکِم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے روایَت کیا :جب مدنی آقا ، مکی داتا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہجرت کا اِرادہ فرمایا تو بارگاہِ الٰہی میں دُعا کی:اللہمَّ اِنَّکَ اِنْ اَخْرَجْتَنِیْ مِنْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیَّ فَاَسْکِنِّیْ فِی اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیْکَ یعنی الٰہی!تُو نے مجھے میرے مَحْبُوب ترین شہر سے ہجرت کا حکم دِیا ہے ، اب میرا قِیَام ایسی جگہ فرما جو تیرے ہاں محبوب ترین ہو۔ (مستدرك ، كتاب : ہجرۃ ، جلد : 3 ، صفحہ : 535 ، حدیث : 4320بتغیر قلیل)

شیخ عبد الحق مُحَدِّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیثِ پاک جَذْبُ الْقُلُوب میں نقل فرمائی اور فرمایا : اِذِ الْحَبِیْبُ لَا یَخْتَارُ لِحَبِیْبِہٖ اِلَّا مَا ہُو اَحَبُّ وَ اَکْرَمُ عِنْدَہٗ یعنی ایک محبت کرنے والا اپنے محبوب کے لئے وہی پسند کرتا ہے جو اس کے نزدیک زیادہ پسندیدہ اور عزّت والا ہو۔ (جذبُ القلوب ، صفحہ : 20)

اس دُعا کے بعد اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب،حبیبِ لبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے مدینۂ پاک کا انتخاب فرمایا ، اس سے معلوم ہوا! مدینۂ پاک اللہ پاک کے ہاں مَحْبُوب ترین مقام ہے۔

10) مدینہ منورہ کا ایک وصف سنئے۔ وہ یہ ہے کہ یہ شہر مقدس دجال کے وجود اور نجاست سے محفوظ رہے گا۔ صحیحین (بخاری و مسلم) کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ اس زمانے میں مدینہ منورہ کی ہر گلی پر فرشتوں کی ایک جماعت مقرر ہوگی کہ اس کی حفاظت کرے اور دجال کے داخلے کو روک دے۔

دوسری حدیث میں یہ آیا ہے : روئےزمین پر کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں دجال نہ جاسکے۔ سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ مدینہ منورہ وہ حسین شہر ہےکہ جہاں میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرما ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے !

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں

پھر کیوں نہ ہم عشق ِمدینہ میں تڑپیں!غم ِمدینہ میں روئیں !کہ محبوب کے کوچہ سے دور رہ کر محب تڑپتا اور مچلتا ہی رہتا ہے۔اللہ پاک ہم سب کو غمِ مدینہ میں رونا نصیب کرے ۔(آمین)


تعریف کے لائق جب الفاظ نہیں ملتے                     تعریف کرے کوئی کس طرح مدینے کی

مدینے شریف کی عظمت و رفعت بیاں کیسے ہو !جس میں ہمارے پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی حیات مبارکہ گزاری۔ پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مکہ شریف سے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اس شہر کو یثرب کہا جاتا تھا ،پھر مکی مدنی آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی جب مدینہ شریف میں تشریف آوری ہوئی تو یہ جہالت میں ڈوبا ہوا یثرب نامی شہرِ مدینہ بن گیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یوں دعا مانگی:اے اللہ پاک! تو نے جو برکت مکہ میں رکھی ہے مدینہ کو اس سے دُگنی برکت عطا فرما۔

(بخاری، کتاب فضائل مدینہ، رقم1885 ،ج1، ص620)

مذکورہ حدیثِ پاک میں نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے برکت کی دعا فرمائی۔ بہت سی خیر کا نام برکت ہے۔ چونکہ مدینہ شریف کو پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے شرفِ قیام بخشا، سر زمینِ مدینہ کو اپنے مبارک قدموں کے بوسے لینے کی سعادت عطا فرمائی اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیا میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان سعادتوں سے فیض یاب ہو کر شہرِ مدینہ نے عظمت و رفعت پائی۔ آپصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی دعا سے اس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شفاعتِ مصطفےکی ضمانت قرار پایا۔

یوں یہ شہر بہت فضیلت اور دُگنی خیر و برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کے لئے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے۔

آئیے !مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی چند احادیثِ مبارکہ پڑھئے:

1۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:یہ طیبہ ہے اور گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جیسے آگ چاندی کا کھوٹ دور کر دیتی ہے۔(بخاری، ج3، ص36، حدیث4050)

2۔حضرت اَفلَح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں حضرتِ یزید بن ثابت اور ابو ایوب رضی اللہ عنہماکے قریب سے گزرا۔ یہ دونوں مسجدِ جنائز کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا :کیا تمہیں وہ بات یاد ہے جو رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ہمیں اسی مسجد میں بیان فرمائی تھی؟ تو دوسرے نے کہا :ہاں۔ مدینہ شریف کے بارے میں آپصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا خیال تھا کہ عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں زمین کی فتوحات کھول دی جائیں گی اور لوگ اس کی طرف نکل کھڑے ہونگے تو وہ خوشخالی اور عیش و عشرت اور لزیز کھانے پائیں گے پھر اپنے حج یا عمرہ کرنے والے بھائیوں کے پاس سے گزریں گے تو ان سے کہیں گے:تم تنگدستی اور سخت بھوک کی زندگی کیوں گزار رہے ہو؟رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے کئی مرتبہ یہ جملہ دہرایا کہ جانے والا اور رہ جانے والا اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے جو اس میں ٹھہرا رہے اور مرنے تک تنگدستی و سختی پر صبر کرے میں اس کی گواہی دوں گا یا شفاعت کروں گا۔ (طبرانی کبیر، رقم 3985، ج4، ص153)

وہاں اک سانس مل جائے یِہی ہےزِیست کا حاصل وہ قسمت کا دھنی ہے جو گیا دم بهر مدینے میں

3۔حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: مدینہ منورہ میں رمضان کا ایک مہینہ گزارنا دیگر شہروں میں رمضان کے ایک ہزار مہینے گزارنے سے بہتر ہے اور مدینہ منورہ میں ایک جمعہ ادا کرنا دیگر شہروں میں ایک ہزار جمعے ادا کرنے سے بہتر ہے۔ (طبرانی کبیر، رقم1144، ج1، ص372)

4۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا مانگی:یا اللہ پاک! تیرے بندے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے مکہ والوں کے لئے برکت کی دعا کی اور میں محمد تیرا بندہ اور رسول ہوں میں مدینہ والوں کے لئے برکت کی دعا کرتا ہوں تو ان کے صاع اور مُد (یہ دونوں پیمانے ہیں) میں ویسی برکت عطا فرما جیسی برکت تُو نے مکہ والوں کے لئے عطا فرمائی اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں اور عطا فرما۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب جامع فی الدعالھا، رقم 5815، ج3، ص656)

5۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور جو اس شہر سے منہ پھیر کر اسے چھوڑ دے گا اللہ پاک اس سے بہتر لوگوں کو اس شہر میں بسا دے گا اور جو اس میں تنگدستی اور یہاں کی تکالیف پر ثابت قدم رہے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا گواہی دوں گا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، رقم 1363، ص709)

6۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: جو میری اُمت میں سے مدینہ میں تنگدستی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے لئے گواہی دوں گا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینہ، رقم1378، ص716)

7۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میری اس مسجد میں نماز پڑھنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے اور میری اس مسجد میں ایک جمعہ ادا کرنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار جمعہ ادا کرنے سے افضل ہے اور میری اس مسجد میں رمضان کا ایک مہیناگزارنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار ماہ رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(شعب الایمان، باب فی المناسک فضل الحج والعمرۃ، رقم 4147، ج3، ص476)

8۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینہ میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ مدینہ میں ہی مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، رقم3943، ج5، ص483)

میں ہوں سنی، رہوں سنی، مروں سنی مدینے میں بقیعِ پاک میں بن جائے تربت یا رسول اللہ

9۔رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:تم میں سے جس سے ہو سکے وہ مدینہ میں مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔

(طبرانی کبیر مسند، رقم747، ج24، ص294)

10۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو دو حرموں(یعنی مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن امن والوں میں اٹھایا جائے گا اور جو ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت کرنے آئے گا وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہو گا۔

(شعب الایمان، باب فی مناسک فضل الحج و العمرۃ، رقم4158، ج3، ص490)

نصیب والوں میں میرا بھی نام ہو جائے جو زندگی کی مدینے میں شام ہو جائے

اللہ پاک ہمیں بھی مدینہ منورہ کی یاد میں رونا اور تڑپنا نصیب فرمائے جو روتے اور تڑپتے ہیں مدینے کے لئے اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں دنیاوی غموں سے بچا کر غمِ مدینہ عطا فرمائے کہ جسے مدینے کا غم نصیب ہو جائے اسے کوئی بھی دنیاوی غم نہیں ستاتا۔اللہ پاک ہمیں بیمارِ مدینہ بنا دے،ہمیں بھی مدینہ منورہ میں ایمان والی، شہادت والی موت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامینصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

مجھے ہریالے گنبد کے تلے قدموں میں موت آئے سلامت لے کے جاؤں دین و ایماں یا رسول اللہ


صوبۂ پنجاب پاکستان کے شہر لاہور میں دعوتِ اسلامی کے جامعۃ المدینہ بوائز کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ناظمینِ کرام سمیت شعبے کے  دیگر اہم اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس مدنی مشورے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے ناظمینِ کرام کو دعوتِ اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کی کھالیں جمع کرنےکا ذہن دیا۔

اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے 12 دینی کاموں اور خودکفالت کے متعلق اہم امور پر گفتگو کی۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ۔

ترجمہ کنز العرفان: بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

(سورہ بقرہ، آیت 222)

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:وَاللہِ اِنِّی لَاَسْتَغْفِرُ اللہَ وَاَتُوبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِینَ مَرَّۃً ۔

ترجمہ:خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔

(مشکاۃ المصابیح،ج1،ص434،حدیث:2323)

حکیمُ الاُمّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں: توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح عبادت بھی ہے اسی لئے حضور انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم اس پر عمل کرتے تھے ورنہ حضور انور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا۔ (مراٰۃ المناجیح،ج3،ص353ملخصاً)

شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مبلغین دعوت اسلامی موقع مناسبت سے عاشقان رسول کو اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور استغفار کرنے کی ترغیب ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔

عاشقان رسول کو گناہوں سے توبہ کرنے کا ذہن دینے اور استغفار کرنے کی ترغیب دلانے کے لئے امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے 17صفحات پر مشتمل رسالہ فضائلِ استغفارپڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے بلکہ پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعوت اسلامی کی مجلس تراجم کی جانب سے اس رسالے کا سات زبانوں(انگلش، اردو، بنگلہ، ہندی، رومن اردو، سندھی، پشتو) میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے، دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر ان زبانوں میں رسائل موجود ہیں، مذکورہ زبانوں کے جاننے والے درج ذیل لنک پر کلک کرکے رسائل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔

دعائے عطار

یارب المصطفٰے! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہفضائلِ استغفارپڑھ یا سن لے اُسے تیری رِضا کے لئے زیادہ سے زیادہ ذکر کرنےکی توفیق عطا فرما اور اُسے بخشش دے۔ اٰمین

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


پچھلے دنوں شیخوپورہ ، فیضان مدینہ گوجرانوالہ میں شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ کے تحت سیکھنے سکھانے کا مدنی حلقہ لگایا گیاجس میں فیضان مدینہ کورس کے شرکاء نے شرکت کی ۔

اس مدنی حلقے میں مبلغ دعوت اسلامی محمد عثمان عطاری نے نماز کی اہمیت کے موضوع پر گفتگو کی جس میں نماز نہ پڑھنے کی وعید یں بتائی اور 12 دینی کام کرنے کاذہن دیا ۔(رپورٹ: محمد آفتاب عطاری شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس) 


مدینہ منورہ  عاشقانِ رسول کی محبتوں کا مرکز ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ مدینہ منورہ ہی روئے زمین کا وہ ٹکڑا یا گوشہ ہے جو تمام عالم سے افضل ہے اس کے افضل ہونے کی وجہ یہاں موجود وہ ہستی ہے جو تمام خلق سے افضل و اعلیٰ ہےبلکہ وجہِ تخلیقِ کائنات ہے اور وہ ہستی جنابِ سیدُ المرسلین،رحمۃ العالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ذات بابرکت ہے۔

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت :

ہجرت سے پیشتر لوگ مدینہ کو یثرب کہتے تھے مگر اس نام سے پکارنا جائز نہیں کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔بعض شاعراپنے اشعار میں مدینہ طیبہ کو یثرب لکھا کرتے ہیں انہیں اس سے احتراز لازم اور ایسے شعر کو پڑھیں تو اس لفظ کی جگہ طیبہ پڑھیں کہ یہ نام حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے رکھا ہے۔بلکہ صحیح مسلم شریف میں ہے:اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ (بحوالہ: بہار شریعت ، حصہ ششم ، ص : 1220 )

مدینہ منورہ کے فضائل احادیث کی روشنی میں پیش کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ چنانچہ

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس سے ہوسکے کہ مدینے میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (بحوالہ: جامع الترمذی ،باب ما جاء فی فضل المدینہ ،حدیث :3943، ص483 )

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مکہ ومدینہ کے سوا کوئی شہر ایسا نہیں کہ وہاں دجال نہ آئے ۔ مدینہ کا کوئی راستہ ایسا نہیں جس پر ملائکہ پہرا نہ دیتے ہوں ۔دجال ( قریبِ مدینہ ) شور ِزمین میں اترے گا ۔اس وقت مدینہ میں تین زلزلے ہوں گے جن سے ہر کافر و منافق یہاں سے نکل کر دجال کے پاس چلا جائے گا۔

( بحوالہ: صحیح مسلم ، کتاب الفتن ، حدیث: 2943 ، ص ، 716)

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھاجائے گی (سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔( بحوالہ :صحیح بخاری ، کتاب فضائل المدینہ ، حدیث: 1871 ، ص ،618 )

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ کے راستے پر فرشتے (پہرا دیتے ہیں ) اس میں نہ دجال آئے ،نہ طاعون۔ (بحوالہ : صحیح مسلم ، کتاب الحج ، حدیث: 1379 ، ص ، 716)

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ منورہ کے لیے یوں دعائیں کیا کرتے تھے ،چنانچہ،

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:لوگ جب شروع شروع پھل دیکھتے اسے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمت میں حاضر کرتے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماسے لے کر یہ کہتے:الہٰی! تو ہماری کجھوروں میں برکت دے اور ہمارےلیے مدینہ میں برکت دے اور ہماری صاع ومد میں برکت کر۔ یااللہ پاک!بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انہوں نےمکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اورمیں مدینہ کے لیے تجھ سےدعا کرتا ہوں اسی کی مثل جس کی دعا مکہ کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور( مدینہ کی برکتیں مکہ سے دوچند ہوں ) ۔پھر جو چھوٹا بچہ سامنے آتا اسے بلاکر وہ کجھور عطا فرما دیتے۔( بحوالہ: صحیح مسلم ، کتاب الحج ، حدیث: 1373، ص : 713)

مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا : یا اللہ پاک ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب ہوا کو ہمارے لیے درست فرمادے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرمااور یہاں کے بخار کو منتقل کر کے جحفہ میں بھیج دے۔

(بحوالہ: (صحیح مسلم ، کتاب الحج حدیث : 1376،ص:715)

توضیح:

علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ مسند ِابو یعلی میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:نبی پر اس جگہ موت طاری کی جاتی ہے جو جو جگہ نبی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور جو جگہ نبی کوسب سےزیادہ محبوب ہوتی ہے وہ اللہ پاک کو بھی محبوب ہے اور جو جگہ اللہ پاک اور اس کے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہوگی وہی جگہ سب سے افضل ہوگی۔

(شرح صحیح مسلم ،ص: 735:736)

ان کے طفیل حج بھی خدا نے کرادیے اصل ِمراد حاضری اس پاک در کی ہے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک! ان کے پیمانے میں برکت عطا فرما۔ اےاللہ پاک! ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔اے اللہ پاک! ان کے مد میں برکت عطا فرما۔(شرح صحیح مسلم ،کتاب الحج ،جلد ،3 ،حدیث ، 3221)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس کی دگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

(بحوالہ: شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث ، 3222: ص: 720)

وضاحت:

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ کے لیے دعا فرمائی تاہم امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہما کا نظریہ یہ ہے کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے تاہم مکہ کی افضلیت آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے روضہ کے ماسواہے اور ان احادیث کے پیشِ نظر حق یہ ہے کہ خواہ مکہ افضل ہو لیکن اجرو ثواب اور خیر وبرکت مدینہ میں مکہ سے دو چند ہےنیز فتحِ مکہ کے بعد بھی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ میں رہنا فرض تھا اگر مکہ افضل ہوتا تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مکہ میں رہنے کا حکم دیا جاتا۔ (شرح صحیح مسلم ، ص: 729 )

طبرانی کبیر کی ایک طویل حدیث میں حضرت ابی اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ سرسبز ملک کی طرف چلے جائیں گے ، وہاں کھانا اور لباس اور سواری انہیں ملے گی پھر وہاں سے اپنے گھر والوں کو لکھ بھیجیں گے کہ ہمارے پاس چلے آؤ تم حجاز کی خشک زمین پر پڑے ہو حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بحوالہ: المعجم الکبیر ، للطبرانی ، حدیث : 587 ، ج: 19 ، ص، 265 )

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ پاک کو حرم قرار دیا ،چنانچہ

حضرت رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں اس کے دونوں پتھریلے کنارے یعنی مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔

(بحوالہ: شرح صحیح مسلم، کتاب الحج ، حدیث : 3211)

حرم کی زمین اور قدم رکھ کر چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

درس :

دنیا میں بے شمار ممالک اور شہر اپنی خوبصورتی و دلکشی کے باعث سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں لیکن جس نے مدینہ کی بہاریں دیکھ لی ہیں وہ جانتی ہے اس سے بڑھ کر نہ کوئی شہر ہے اور نہ ہوگا۔لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے قلوب واذہان کو مدینہ کی یادوں سے بسائیں اور صرف اسی کی خواہش کریں اور اذنِ طیبہ کے لیے خوب تڑپیں۔

پیرس پہ مرنے والی پیرس کو بھول جاتی تو بھی جو دیکھ لیتی سرکار کا مدینہ

کہاں کوئی روتی ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشقہ کو یاد ِمدینہ

مدینہ منورہ کے 10 فضائل حدیث کی روشنی میں:

روضہ رسول کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ یہ وہ سر زمین پاک ہے جو عرش و کرسی سے بھی اعلیٰ جگہ ہے کہ یہاں میرے محبوب کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرمااور جلوہ فرما ہیں۔ یہ وہ سر زمین ہے جسے میرے آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی ذات کی رہائش سے ایسا منور فرمایا کہ یہ جگہ یثرب سے مدینہ ہوگئی۔

یثرب بنا مدینہ:

یثرب زمانۂ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ’’ ثربٌ ‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہلاکت اور فساد ہے اور’’ تَثْرِ یْب ‘‘ بمعنیٰ سرزنِش اور مَلامَت ہے یا اس وجہ سے کہ ’’ یَثْرِبْ ‘‘ کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکش بندے کا نام تھا۔ ‘‘

(اَشِعۃ اللَّمعات ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینۃ...الخ ، الفصل الاول ،2/417 کوئٹہ)

اَحادیثِ مُبارَکہ میں مدینۂ منوَّرہ کو یَثْرِبْ کہنے کی سخت ممانعت آئی ہے چنانچہ سردارِ مکۂ مکرمہ، تاجدارِ مدینۂ منورہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اِرشاد فرمایا:جو مدینہ کو یَثْرِبْ کہے تو اِستغفار کرے۔مدینہ طابہ(پاک و صاف خوشبودار جگہ)ہے،مدینہ طابہ ہے۔( کنزالعمال ،کتاب الفضائل ، فضائل المدینۃ...الخ،الجزء: 12،6/107،حدیث: 34836 دار الکتب العلميۃ بیروت)

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

1۔احادیثِ طیبہ کی روشنی میں فضیلتِ مدینہ:

مدینہ طیبہ میں مرنے والوں کی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمشفاعت فرمائیں گے:

سرکارِدو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)

2۔ مدینہ خیر و عافیت کی جگہ ہے:

والمدينۃ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے ۔(صحيح البخاري:1875)

إنها حرَمٌ آمِنٌ بیشک مدینہ امن والا حرم ہے۔ (صحيح مسلم:1375)

4۔ تا قیامت مدینہ دجال اور 5 ۔ طاعون سے محفوظ ہے:

على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ،لايدخُلُها الطاعونُ،ولا الدجالُ۔(صحيح البخاري:7133)
ترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔

6۔ آخری زمانے میں ایمان مدینہ طیبہ میں سمٹ آئے گا:

نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينہ، 3 : 524، رقم : 3111)

7۔ مدینہ طیبہ میں آنے والی مصیبت پر

8 ۔ صبر کا بھی بڑا اجر ہے:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :جو مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينۃ والصبر علی لاوائها، 2 : 1004، رقم : 1377)

9۔ بدعت سے شہر ِمدینہ پاک ہے:

10۔ مدینے میں بدعت ایجاد کرنے والوں پر لعنت ہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :جو کوئی مدینے میں بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ پاک، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔( 2127 سنن ترمذی کتاب فضائل و مناقب)

اللہ اکبر! اتنی رحمتیں اور برکتیں اور کیوں نا ہو کہ یہاں وہ ہیں کے جنہیں اللہ پاک نے رحمۃ العلمین بنایا جن کا ذکر بلند فرمایا،ہر عالم میں آپ کا چرچہ ہے۔ہر مومن کا دل آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی محبت سے لبریز ہے خواہ عمل کے میدان میں کتنا ہی کمزور مومن ہو لیکن اس کا دل محبتِ رسول سے بھرا ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب(یعنی پیارا) نہ ہو جاؤں۔ (بخاری،ج1،ص17،حدیث:15)

عشق ہو تو ایسا کہ جو بھی کام کریں جو بھی عبادت کریں ذہن میں سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ادا ہو کہ میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز ایسے ادا کی ، رکوع کروں تو آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا رکوع یاد آجائے سجدہ میں جاؤں تو یاد آجائے کہ یہ وہی سجدہ ہے جسے میرے کریم آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ادا فرمایا۔ سبز گنبد دیکھوں تو سما بندھ جائے کہ گنبد خضرا اسی جگہ ہے جو حجرۂ عائشہ صدیقہ ہے۔ ارے یہ تو وہی جگہ ہے جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے رب کا پیغام لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے یہ مدینہ وہی جگہ ہے جہاں صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جھرمٹ میں مدینے والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف فرما ہوتے تھے یہ وہی مدینہ ہے جہاں سے میرے غریب پرور گزرا کرتے تھے تو آپ کی مہک سے گلی کوچے محلے معطر ہوجاتے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کو آپ کی خوشبو سے تلاش فرمالیا کرتے ۔

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

پیاری اسلامی بہنو! عشق و محبت بہت ضروری چیزیں ہے جس کی بدولت ہم ایمان کی حلاوت(مٹھاس) کو پاسکتے ہیں اور عشق ِمدینہ میں تڑپنا، غمِ مدینہ میں رونا یہ اہلِ سنت کا طرہ ٔامتیاز ہے۔ بیشک شروع میں تکلف سے ایسا کرنا پڑے تو کیجئے ۔ضرور رقت اور غم ِمدینہ بلا تکلف حاصل ہو ہی جائے گا۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی عشقِ رسول و غمِ مدینہ عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


01 جولائی 2022 ء بروز جمعہ دربار والی مسجد میں پتوکی کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ ہوا جس میں تحصیل نگران  مولانا فیضان عطاری مدنی نے ذمہ داران کی تربیت کرتے ہوئے تصور مدینہ و تصور مرشد کرنے کا ذہن دیا ساتھ ہی ذوالحجہ کے ان مبارک دنوں میں نفلی روزیں ، نفلی عبادات اور زیادہ سے زیادہ دینی کام کرنے کی ترغیب دلائی ۔

اس کے علاوہ سٹی مشاورت و یو سی نگران کے اسلامی بھائیوں کی تقرری کا اعلان کیا ساتھ ہی قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کی ترغیب دلائی ۔ (رپورٹ: علی ریاض عطاری ، مجلس سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ ، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس) 


مدینہ منورہ کے فضائل:

ہے شہد سے بھی میٹھاسرکارکامدینہ کیاخوب مہکامہکاسرکار کامدینہ

روئے زمین کا کوئی ایساشہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارَک نام اتنی کثرت کوپہنچے ہوں جتنے مدینۃُ المنوَّرہ کے نام ہیں ۔بعض عُلما نے 100تک نام تحریر کئے ہیں ۔

مدینۃُ المنوَّرہ ایسا شہر ہے جس کی محبَّت اورہِجرو فُرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے ، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔مدینہ منورہ کے فضائل کےتوکیاکہنے!یہ وہ مبارک شہر ہے جس کو پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی ہجرت کاشرف بخشا،اس کو اپنی رہائش کامسکن ہونے کاشرف فضیلیت عطافرمایا۔جو وضو کرکے آئے اورمسجِدُالنَّبَوِیِّ شریف میں نَماز ادا کرے اسے حج کا ثواب ملتا ہے۔یہ وہ مدینہ ہےجس میں موت کاآنا کیسی بڑی سعادت کی بات ہےکہ حضرتِ عبداللہ بنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشادفرمایا:’’مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَلْیَمُتْ بِہَا فَإِنِّی أَشْفَعُ لِمَنْ یَّمُوْتُ بِہَا یعنی جو مدینے میں مرسکے وہ وَ ہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شَفاعت کروں گا ۔‘‘ (ترمذی ج5 ص483 حدیث3943)

حکیمُ الْاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ یہ بِشارت اورہِدایت سارے مسلمانوں کو ہے نہ کہ صِرْف مُہاجِرین کو یعنی جس مسلمان کی نیَّت مدینۂ پاک میں مرنے کی ہو وہ کوشِش بھی وہاں ہی مرنے کی کرے کہ خدا نصیب کرے تو وہاں ہی قِیام کرے خُصُوصاً بڑھاپے میں اور بِلاضَرورت مدینۂ پاک سے باہَر نہ جائے کہ موت ودفْن وہاں کاہی نصیب ہو ۔

حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے :’’مولا! مجھے اپنے محبوب کے شہر میں شہادت کی موت دے۔ ‘‘

آپ کی دعا ایسی قَبول ہوئی کہ سُبْحٰنَ اللہِ! فجر کی نماز، مسجدِ نبوی ، مِحرابُ النبی، مُصلّٰیِ نبی اور وہاں شہادت ۔ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ تیس چالیس سال سے مدینۂ مُنَوَّرہ میں ہیں ، حُدودِ مدینہ بلکہ شہرِ مدینہ سے بھی باہَر نہیں جاتے اِسی خطرے سے کہ موت باہَر نہ آجائے۔ حضرتِ امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ کا بھی یہ ہی دستور رہا۔

(مراٰۃ المناجیح ج4ص222)

یہ فضیلت بھی صرف مدینہ طیبہ کے حصے میں ہی آئی کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ظاہری وصالِ مبارکہ کے بعداسی شہر کو اپنے مزار ِمبارک کے لئے شرف ِقبولیت عطافرمایا اور تا قیامت آپ اسی شہر میں آرام فرمارہیں گے ۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے سرور مدینے میں

لفظ مدینہ کے معنی:

مدینہ کے معنی شہر کےہیں لیکن جب یہ لفظ مطلقابولاجائےتو ذہن میں فورا ًمدینہ منورہ ہی آتا ہے ۔مدینہ کالفظ مدن سے ماخوذہے جس کامعنی ہے :ہموار زمین جس میں بکثرت کھجور کے درخت ہوں۔

مدینہ شریف کاسابقہ نام:

مدینہ منورہ کانام پہلے یثرب تھا ۔یثرب کا لغوی معنی ہے:جھڑکنا/ملامت کرنایایثرب ثرب سے ماخوذ ہے، اس کے معنی فساد کے ہیں ۔اس کو یثرب اس لئے کہتے تھے کہ یہ بیماریوں کاگھر تھا جووہاں جاتا بیمار ہوجاتا تھا ۔پھر لوگ اس کو ملامت کرتے کہ تم یثرب کیوں گئے تھے صحت مند تھے بیمار ہوکر آئے ،طاقت ورسے کمزور ہوکر آ گئے ہووغیرہ وغیرہ۔

ایک روایت ہے:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:جب پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ طیبہ تشریف لائے توحضرت ابوبکرصدیق اور حضرت بلال رضی اللہ عنہماکو بخار آگیا(جب یہ حضرات مدینہ میں ہجرت کرکے آئے)تووہ دونوں مکہ مکرمہ کویادکرتے اور بلند آواز سے مکہ کی یاد میں اشعار پڑھتے۔چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ پاک! ان پہ لعنت فرما جنہوں نے ہمیں اپنی سرزمین سے اس وباؤں اور بلاؤں کی زمین کی طرف نکال دیا۔ پھر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے دعافرمائی:اے اللہ پاک! ہماری طرف مدینہ کو مکہ کی طرح محبوب بنادے یااس سے زیادہ محبوب بنادے۔اے اللہ پاک !ہمارے لیے ہمارے صاع (چار کلو کا پیمانہ)میں اور ہمارے مد(ایک کلو کاپیمانہ)میں برکت ڈال دےاور اس کو ہمارے لئے صحت کاسبب بنادے اور اس کے بخار کو جحفہ (ایک وادی کانام)کی طرف منتقل کردے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہامزید بیان فرماتی ہیں:جب ہم مدینے میں آئے تو یہ جگہ اللہ پاک کی زمین میں سب سے زیادہ وباؤں والی تھی ۔مدینہ میں بطحان نام کاایک نالہ تھااس میں تھوڑاتھوڑاپانی بہتاتھا اور وہ بدبودار تھا۔

(صحیح مسلم1376)

لیکن جب ہمارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر کی طرف ہجرت کی تو وہی مدینہ آپ کی تشریف آوری و دعاکی برکت سے صحت و شفا کامرکز بن گیا۔اب کوئی بیمار جاتاہے توشفا پاکر آتاہے کمزور و لاغر جاتاہے تو تواناہوکر آتاہے غم زدہ جائے تو اس شہرِ مدینہ پہنچ کر اپنے دکھ و غم بھول جاتاہے۔اب یہ حال ہےکہ اگر کوئی حج کرکے آئے اور مدینہ نہ جائے اس کو ملامت کیاجاتاہےکہ افسوس! تم حج کر آئے لیکن مدینہ ہوکر نہ آئے۔

مکے سے ہوکر آیامدینے نہ گیا جاتابھی کیسے تجھے سرکارنے بلایاہی نہیں

یعنی بغیر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بلاوے کےتو کوئی مدینہ جاہی نہیں سکتا۔پہلے اس شہر کانام یثرب تھا چونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ نام پسند نہ تھالہٰذا اب اس کانام طیبہ و طابہ رکھ دیاگیا۔ایک روایت میں ہے :آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جس نے مدینہ کانام یثرب لیاوہ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرے یہ طابہ ہے یہ طابہ ہے۔(یعنی پاکیزہ و برکت والی سرزمین)

عشاق ِمدینہ کا کہناہے:اگر کوئی مدینہ کانام غلطی سے یثرب لے لے تواس کو چاہیے کہ اس کے کفارے میں10بار مدینہ کہے۔

محفوظ صدارکھنابے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

شہر ِنبوی کے فضائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں :

1..حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایسی بستی میں جانے کاحکم دیاگیاہےجو تمام بستیوں کو کھالے گی۔(منافق)لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے وہ بُرے لوگوں کواس طرح دور کردے گی جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔

اس حدیثِ مبارکہ میں بستیوں کو کھانے کایہ معنی ہوسکتاہے کہ وہ بستی فضائل کے اعتبار سے تمام بستیوں پر غالب آ جائے گی۔اس حدیث کے پیشِ نظر اہلِ علم کے نزدیک اس میں علمی اختلاف ہے کہ مکہ افضل ہے یامدینہ۔بعض کے نزدیک مدینہ افضل ہے جبکہ بعض مکہ مکرمہ کی افضلیت کے قائل ہیں۔ہر ایک نے اپنے موقف کے مطابق اپنے دلائل بھی پیش کئے۔

یوں تو شہر مکہ افضل ہے لیکن روئے زمین پر سب سے افضل وہ جگہ ہے جہاں اس وقت کائنات کی سب سے عظیم و افضل ہستی تشریف فرماہے اور وہ روضہ انور ہے۔ لہٰذا بالخصوص آپ کاروضہ انور و مزار ِمبارک کی جگہ دونوں جہاں کی تمام جگہوں سے افضل ہے ۔

طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑازاہد ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

2..حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:ہم نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ساتھ غزوۂ تبوک سے واپس آئے حتی کہ جب ہم نے سراٹھا کرمدینہ کو دیکھاتو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:ھذہ طابۃ یعنی یہ طابہ ہے۔(صحیح بخاری1872)

اس سے مراد یہ ہے کہ یعنی آقاعلیہ الصلوۃ والسلام نے مدینہ طیبہ کو طابہ کے لفظ سے یاد فرمایا۔طابہ کے معنی ہیں: پاکیزہ و برکت والی جگہ یعنی یہ بستی وشہر پاکیزہ خوشبودار و برکت والی بستی وشہر ہے ۔ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کانام طیبہ رکھا ۔

3..حضرت جابر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:ضرور لوگوں پر مدینہ میں ایسازمانہ آ ئے گا کہ لوگ مدینہ سے نکل کر مختلف شہروں میں چلے جائیں گے وہ وسعت و کشادگی کی طلب میں دوسرے شہروں میں جائیں گے پس وہ کشادگی کو پالیں گے پھروہ اپنےگھروالوں کو بھی اس کشادگی کی طرف لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر تھا۔کاش !ان کو علم ہوتا۔(مسنداحمدج3ص342طبع قدیم)

صحیح مسلم و بخاری شریف کی روایات میں مختلف شہروں کے نام بھی ذکر ہیں جو یمن،شام اور عراق ہیں۔یعنی جب یہ شہر فتح ہوجائیں گے تو اہلِ مدینہ ان میں موجود اس وقت کی آسائشوں کو دیکھتے ہوئے اپنے اہل و عیال و سواریوں کیساتھ ان شہروں کی طرف نکل جائیں گے ۔حالانکہ اگر یہ شہرِ مدینہ میں ہی قیام و رہائش رکھتے ہیں اور وقتی آزمائشوں پہ صبر کرلیتے تو یہ شہرِ مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا۔لیکن وہ اس فضیلت کونہ جان سکے اور دوسرے شہروں کواپنامسکن بنالیا۔کسی نے کیاخوب کہا:

یاد آتی ہے مجھے اہلِ مدینہ کی وہ بات زندہ رہناہے تو انسان مدینے میں رہے

4..حدیثِ مبارکہ میں ہے :جو مدینہ منورہ کی سختیوں اورمشقتوں پر صبر کرتاہوافوت ہوگامیں بروزِ قیامت اس کے لئے شفاعت کروں گااس کے حق میں گواہی بھی دوں گا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔

(صحیح مسلم رقم حدیث1374)

اس میں صراحتاًاس بات کی طرف اشارہ ہے جس کو مدینہ شریف میں کوئی مصیبت یاتکلیف پہنچی چاہے وہ کسی صورت میں ہواگر وہ اس پہ ثابت قدم رہے گا،یہ شہر چھوڑ کر نہیں جائے گانیز اگر وہ حالتِ ایمان میں مدینہ طیبہ میں انتقال کرجائے توپیارے آقاعلیہ الصلاۃ والسلام کی شفاعت سے حصہ پائے گا۔ان شاءاللہ

یاد رہے! مدینۃُالمنوَّرہ میں صِرْف اُسی کو قِیام کی اجازت ہے جو یہاں کا احتِرام برقرار رکھ سکتا ہو ، جو ایسا نہیں کر سکتا اُس کیلئے یہاں مُستِقل یا زیادہ عرصے رِہائش کی مُمانَعَت ہے چنانچِہ

فتاویٰ رضویہ جلد10 صَفْحَہ695 پر ہے: (صاحبِ فتح القدیر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : کیونکہ مدینۂ طیِّبہ میں رحمت اکثر، لُطف وافِر، کرم سب سے وسیع اورعَفْوْ (یعنی مُعافی ملنا) سب سے جلدی ہوتا ہے جیسا کہ شاہِد مُجرَّب (یعنی تجرِبے سے ثابت) ہے ۔وَالْحَمْدُلِلّٰہِ ربِّ العٰلمین۔اس کے باوُجُود اُکتا نے کا ڈر اور وہاں کے احترام وتَوقیر میں قلّت ِادب کا خوف تو موجود ہے او ریہ بھی تو مُجاوَرَت سے مانِع(یعنی مستقل رہائش سے رکاوٹ) ہے۔ ہاں! وہ افراد جو فِرِشتہ صفت ہوں تو اُن کا وہاں ٹھہرنا اور (طویل رِہائش اختیار کر کے) فوت ہونا سعادتِ کامِلہ ہے ۔

اللہ مصطفٰے کے قدموں میں موت دے دے مدفن بنے ہمارا سرکار کامدینہ

5...حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے دروازوں پر فرشتے ہیں ،وہاں طاعون داخل ہوگانہ دجال(داخل ہوسکےگا)(صحیح بخاری1880)

مختصر وضاحت:

طاعون ایک وباکانام ہے۔یہ جسم میں نکلنے والی گلٹیاں(غدود)ہیں۔ان کیساتھ جسم میں سوجن ہوجاتی ہےاور سخت درد ہوتاہےیہ گلٹیاں جلن کیساتھ نکلتی ہیں اور ان کی جگہ سیاہ ،سرخ یاسبزہوجاتی ہے اس کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے ۔اللہ پاک اس وباسےہماری حفاظت فرمائے ۔آمین۔قرب ِقیامت میں جب دجال کے فتنے کاظہور ہوگا،اس کافتنہ دنیاکے تمام شہروں میں پھیل جائے گالیکن یہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔ایک روایت میں اس طرح کے الفاظ ہیں:مکہ و مدینہ کے سواہر شہر کو دجال روندےگا مدینہ کے راستوں پر صفیں باندھے ہوئے فرشتے اس کی حفاظت کررہے ہیں ۔پھر مدینہ وہاں کے رہنے والوں پر تین بارلرزے گا(یعنی زلزلہ) آئے گا۔پھر اللہ پاک ہرکافرو منافق کونکال دے گا یعنی کفار و منافقین خود مدینہ سے نکل کردجال کے پاس چلے جائیں گے ۔اللہ پاک ہم سب کوفتنۂ دجال سے محفوظ رکھے۔ آمین ۔

6..حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعافرمائی:اے اللہ پاک! تونے مکہ میں جتنی برکتیں نازل کی ہیں ،مدینہ میں اس کی دوگنی برکتیں نازل فرما ۔یعنی اس سے مراد یہ تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاکی برکت سے مکہ مکرمہ میں جو برکتیں نازل ہوئیں مدینہ منورہ میں اس سے چار گنا برکتوں کانزول فرما۔اس حدیث میں برکت سے مراد کثرتِ خیر ہے چنانچہ

قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:برکت سے مراد عام ہے خواہ دین کے امور میں ہو یا دنیا کی چیزوں میں یعنی وہ چیزیں بڑھ جائیں گی اور زیادہ ہوجائیں گی اور دین میں برکت کایہ معنی ہے کہ زکوٰۃ اور کفارہ میں اضافہ ہو جائے۔الحمدللہ آ قاعلیہ الصلاۃ والسلام کی اس دعاکااثر ہر مومن مدینہ طیبہ میں محسوس کرسکتاہے۔

7.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میرے حجرہ اور میرے منبرکے درمیان(جگہ)جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔(صحیح بخاری1888)

امام شہاب الدین رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :اس حدیث کامعنی یہ ہے کہ رحمت کےنزول اور حصولِ سعادت میں میرے حجرہ اور میرے منبرکی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ کی مثل ہے یامعنی یہ ہے کہ اس جگہ پر عبادت کرناجنت تک پہنچادیتاہےیایہ معنی ہیں کہ یہ جگہ حقیقتاً جنت ہے بایں معنی کہ آخرت میں بعینہ یہ جگہ جنت کی طرف منتقل کردی جائے گی ۔واللہ پاک اعلم بالصواب۔

8..حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نےفرمایا:جس نے خاص مدینہ شریف کی سات کھجوریں صبح کے وقت کھالیں توشام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں دے گی ۔

(صحیح مسلم رقم حدیث2047)

یعنی اس شخص پر اس دن جادو و زہر وغیرہ کوئی چیز اثر نہیں کرے گی اس کو اس سے نقصان نہیں پہنچے گا۔ان شاءاللہ ۔

9..حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرمانِ مصطفٰےصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:ایمان مدینہ کی طرف لوٹ جائے گا،جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لوٹ جاتاہے۔(صحیح مسلم147)

یعنی دنیاسے محبت رکھنے والے اور دن رات گناہوں میں مشغول افراد اسلام کے احکام اور اس کے تقاضوں سے ڈر کراس طرح بھاگتے ہیں جیسے سانپ سے دور بھاگتے ہیں۔ آخر زمانہ میں اسلام پر عمل کرنے والے مومن صرف مدینہ منورہ میں رہ جائیں گےاور اسلام مدینہ میں اس طرح لوٹ جائے گاجس طرح جب سانپ کوکوئی گوشہ عافیت نہ ملے تووہ اپنے بل میں چلاجاتاہے۔اللہ پاک ہماراایمان سلامت رکھے۔ آمین۔

10..حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :جس نے میری قبرکی زیارت کی،اس کےلئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(سنن دارقطنی2658ج2ص531)

اگر کوئی مومن خاص قصداً روضۂ رسول کی زیارت کی نیت سے مدینہ طیبہ کاسفر کرے گا اور قبرِانور کی زیارت سے مشرف ہوگااس کے لئے شفاعتِ رسول کی خوشخبری ہے۔جبکہ اس کے برعکس ایک روایت میں روضۂ رسول پر حاضری نہ دینے والوں سے اظہار ِناراضی فرماتے ہوئے اس طرح فرمایا: جس نے بیت اللہ کاحج کیا،پھرمیری (قبرِانور/روضہ ٔرسول کی) زیارت نہیں کی اس نے مجھ سے بے وفائی کی۔

اللہ پاک ہمارا بھی اس سعادت سے مشرف ہوکر شفاعتِ رسول پانے والوں میں شمار فرمائے۔

محبتِ مدینہ:

مدینہ طیبہ کے فضائل سن کر ہر عاشقِ مدینہ کے دل میں یہ تڑپ پیداہوتی ہے کہ اے کاش !کوئی ایساسبب بن جائے کہ جلد مدینہ طیبہ پہنچ جائے اورآقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے قدموں میں حاضری نصیب ہوجائے۔ آئیے ! ایک عاشق ِمدینہ کے بارے میں کچھ ذکر خیرک پڑھتی ہیں ۔

امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ کاعشقِ مدینہ:

کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے ، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینۂ پاک کی گلیوں میں ننگے پَیر چلا کرتے تھے ۔ ( الطبقاتُ الکُبریٰ لِلشَّعرانی الجزء الاول ص 76)اللہ پاک ان عشاقِ مدینہ کے صدقے ہمیں بھی عشقِ مدینہ و ادب مدینہ منورہ نصیب فرمائے۔

گستاخ کے لئے حکم سزا:

امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا:’’مدینے کی مِٹّی خراب ہے ‘‘ یہ سن کر آپ نے فتویٰ دیا : اِس گستاخ کو تیس دُرّے لگائے جائیں اور قید میں ڈال دیا جائے ۔ (ایضاً ص57 )

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیِّدِ عالَم اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

عشق ِرسول و محبتِ مدینہ بڑھانے کے لئے ایک عاشق ِمدینہ خاتون کا واقعہ پیش خدمت ہے،چنانچہ

اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضر ہو کرایک خاتون نے عَرْض کی: مجھے تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوّت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مبارَک قبرکی زیارت کروا دیجئے ۔حضرتِ عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے حُجر ۂ شریفہ کھولا اور اُس عاشِقِ رسول خاتون نے قبر ِانور کی زیارت کرکے روتے روتے جان دیدی۔ (الشفا جزء 2 ص 23)

آپ کے عشق میں اے کاش !کہ روتے روتے یہ نکل جائے مِری جان مدینے والے

یقیناًہر مسلمان کی دل کی یہ آرزو ہوتی ہے اس کو بھی مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہوجائے۔ہزاروں لاکھوں عشاقِ مدینہ زیارتِ مدینہ کے شوق میں دن رات آنسو بہاتے ہیں، یادِ آقامیں تڑپتے ہیں ۔یہی تو ایک ذریعہ و سبب ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دربار میں حاضری کاورنہ بڑے بڑے امراء جن کےپاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن ان کے خواب دنیاکے عیش و عشرت و لندن و پیرس کے ہیں ۔مگر قربان جائیے! ان عشاقِ مدینہ کے جن کی بس ایک ہی آرزو ہے کہ مدینے کابلاوہ آجائے۔اور جن کی آہ وزاری بارگاہ ِرسول میں قبول ہوجاتی ہے یقیناًان کو بلاوہ بھی آجاتاہے جس کامظہر مدینہ طیبہ میں ان زائرین کی بھی حاضری ہے جن کابظاہر کوئی سبب نہیں ہوتامگر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے در کی حاضری کے لئے چن لیاہوتاہے۔

کہاں کامنصب کہاں کی دولت قسم خداکی ہے یہ حقیقت جنہیں بلایاہے مصطفٰے نے وہی مدینے کوجارہے ہیں

جن کو واقعی سچی لگن وتڑپ ہوتی ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کرم فرماتے ہیں۔

فریاد امتی جوکرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیر ِبشر کوخبر نہ ہو

مگر شرط یہ ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سچی محبت دل میں ہو۔حاضریِ مدینہ کے شوق میں دل بے چین و بے قرار ہو۔آنکھیں اشکبار ہوں۔ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے عشق کادل بھرنے کیساتھ اعمال بھی ایسے ہوں کہ جو آقاعلیہ الصلاۃ والسلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنیں۔ جیساکہ فرمان ِمصطفٰے ہے:جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃیعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے ۔اخلاص شاملِ حال رہا،اعمال درست ہوئے، مدینہ کی تڑپ ہوئی تو بلاوہ بھی جلدآجائے گا۔ ان شاءاللہ

روایت:دیکھومدینہ آگیا:

حضرتِ ابراہیم خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک سَفَر میں شدّتِ پیاس سے بے تاب ہوکر گر پڑا، تو کسی نے میرے مُنہ پر پانی چِھڑکا، میں نے آنکھیں کھولیں توکیا دیکھتا ہوں کہ ایک حسین وجمیل بُزرگ خوب صورت گھوڑے پر سُوار کھڑے ہیں ۔اُنہوں نے مجھے پانی پِلایا اورفرمایا: میرے ساتھ سُوار ہوجاؤ ۔ ابھی چند قَدَم ہی چلے تھے کہ فرمایا: دیکھو! کیا نظر آرہاہے؟ میں نے کہا: ’’یہ تو مدینۂ منوَّرہ ہے۔ ‘‘ فرمایا: اُترو اور جاؤ، رَسُوْلُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمتِ اَقدَس میں سلام عَرض کرو اور یہ بھی عرض کرنا کہ خِضَر (علیہ السلام) نے بھی آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ (رَوضُ الرَّیاحین ص126)

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سَہارا دے دیا ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

محبتِ مدینہ و غمِ مدینہ پانے کے لئے عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کی جائے ۔الحمدللہ دعوت ِاسلامی کادینی ماحول محبتِ مدینہ و غمِ مدینہ پانے کاایک انمول ذریعہ ہے ۔امیر ِاہل ِسنت دامت برکاتہم العالیہ کے فیضان کی برکت آج دعوتِ اسلامی کے بچے بڑے مردو عورت ہر ایک کی بس ایک ہی تمناو تڑپ ہے:

اذنِ طیبہ مجھے سرکارِ مدینہ دےدو لے چلے مجھ کوجو طیبہ وہ سفینہ دے دو

مجھ کو دنیاکی دولت نہ ذر چائیے شاہ ِکوثر کی میٹھی نظر چائیے

اللہ پاک سے دعاہے کہ جو جومدینے کی حاضری کے طلبگار ہیں مولاکریم اپنے کرم کے صدقے جلد ان کو باادب حاضریِ مدینہ کی سعادت عطافرمائے ۔ان کے صدقے مجھ گنہگار کے حق میں بھی یہ دعاقبول فرمائے۔


01 جولائی 2022 ء بروز جمعہ بوہڑیاں  میں تحصیل نگران دینہ حاجی شفیق عطاری نے مغل آباد یونین کونسل کے تمام اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ کیا ۔ دوران مدنی مشورہ تحصیل نگران نے اسلامی بھائیوں کو 12 دینی کاموں کو مضبوطی سے کرنے، تمام مشاورتیں مکمل کرنے اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے تربیت کی ۔ (رپورٹ: عابد عطاری ( شعبہ مدنی چینل عام کریں ضلع جہلم)، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس) 


01 جولائی 2022 ء بروز جمعہ  تحصیل نگران دینہ حاجی شفیق عطاری نے فیضان مدینہ نکودرمیں لدھڑ یونین کونسلز کے تمام اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ کیا ۔

تحصیل نگران نے دوران مدنی مشورہ اسلامی بھائیوں کی 12 دینی کاموں کی مضبوطی، تقرری مکمل کرنے اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے حوالے سے تربیت کی ۔ (رپورٹ: عابد عطاری ( شعبہ مدنی چینل عام کریں ضلع جہلم)، کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس) 


مدینہ اس لیے عطار جان و دل سے ہے پیارا                      کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں

مدینے کی مدح کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ زندگیاں ختم ہوگئیں اور قلم ٹوٹ گئے مگر مدینے کی تعریف ختم نہ ہوئی تو مبالغہ نہ ہوگا اور کیوں نہ ہو کہ سرورِ کائنات ، شہنشاہ ِعالمیان ، سیدِ ثقلین ، نبیُّ الحرمین ، دکھی دلوں کے چین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلموہاں جلوہ گر ہیں، ذکرِ مدینہ کے صدقے مدینے کے پانچ حروف کی نسبت سے مدینے کے پانچ مختصر فضائل:

1:روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے مبارک نام اتنے زیادہ ہوں جتنے مدینہ کے ہیں ۔بعض علمائے کرام نے اس کے 100 نام بھی تحریر فرمائے ہیں ۔

2 :اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسی شہر مبارک کی طرف ہجرت فرمائی اور یہیں قیام پذیر ہوئے ۔

3 : اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا ۔

4 : مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا قلبِ اطہر سکوں پاتا ۔

5 : حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینے میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ۔

سبحان اللہ العظیم!عاشقوں کے جان و دل ، ہوش و خرد جہاں موجود ہیں اب اسی شہر مقدسہ کے مدینہ بننے کے ذکر ِخیر سے اپنی روح کو مہکائیے ، چنانچہ

حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالْحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃُ اللہِ علیہ اَشِعَّۃُ اللَّمعات شَرْحُ الْمِشْکٰوۃ میں فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وہاں لوگوں کے رَہنے سَہنے اور جَمْع ہونے اوراس شہر سے مَحَبَّت کی وجہ سے اس کا نام ’’مدینہ ‘‘ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے یَثرِب کہنے سے مَنْعْ فرمایا ،اِس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیّت کانام ہے یا اِس لئے کہ یہ ’’ثَرْبٌ ‘‘سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہلاکت اورفَساد ہے اور تَثْرِیْبٌ بمعنیٰ سَرزَنِش اورملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکَش بندے کانام تھا۔

(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں ، ص 253 )

اعلیٰ حضرت،امامِ اہل ِسنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع اور گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں: جو مدینے کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے، مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔علّامہ مُنَاوِی (حدیثِ پاک کی مشہور کتاب )جامعِ صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:اِس حدیث سے معلوم ہوا! مدینَۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/116بتغیر قلیل)

اب شہرِ مدینہ کے متعلق دس احادیثِ نبوی کے گوہر پیشِ نظر ہیں :

1: نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینۂ پاک کی دیواروں کودیکھتے تو مدینے سے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے اَیڑ لگاتے۔(بخاری ،کتاب فضائل المدينہ،11:باب ،1 /620، حديث: 1886)

2: مدینے کے راستوں پر فِرِشتے (پہرہ دار) ہیں،لہٰذا اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔

(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1 /619،حدیث:1880)

3: مَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ يَّمُوتَ بِالْمَدِينَۃ فَلْيَمُتْ بِهَا تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں مرے تو مدینے ہی میں مرے،فَاِنِّي اَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوْتُ بِهَا کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی ،کتاب المناقب،باب فی فضل المدینۃ، 5/483، حدیث:3943)

حکیم الاُمَّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یہ بشارت اور ہدایت سارے مُسلمانوں کو ہے نہ کہ صرف مہاجرین کو یعنی جس مسلمان کی نیت مدینَۂ پاک میں مرنے کی ہو،وہ کوشش بھی وہیں مرنے کی کرے تو وہیں قیام کرے،خصوصًا بڑھاپے میں اوربِلا ضرورت مدینۂ پاک سے باہر نہ جائے تاکہ موت و دفن وہیں نصیب ہو۔(مرآۃ المناجیح ، 4/222 ملتقطاً بتغیر ٍ قلیل)

4: جو میری زیارت کا ارادہ کرتے ہوئے آیا وہ قِیامت کے دن میری حفاظت میں رہےگا،جو مدینے میں رِہائش اِختیارکرےگا اور مدینےکی تکالیف پر صَبْرکرےگا تو میں قِیامت کےدن اُس کی گواہی دوں گااوراُس کی شَفاعت کروں گا۔ جو حَرمَین (یعنی مکے،مدینے)میں سے کسی ایک میں مرے گا،اللہ پاک اُس کو اِس حال میں قَبْر سے اُٹھائے گا کہ وہ قِیامت کے خَوْف سے اَمْن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح،1/512،حدیث 2755)

5: مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ یعنی جس نے میری قَبْر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی،کتا ب الحج،2/ 351، حدیث: 2669)

6:(قِیامت میں جب سب کو قَبْروں سے اُٹھایا جائے گا)سب سے پہلے میری پھر ابُو بَکْر و عُمَر (رضی اللہ عنہما) کی قَبْریں کھلیں گی،پھر میں جَنّتُ الْبَقِیْع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ جمع ہوں گے،پھر میں اَہل ِمکہ کا اِنتظار کروں گا حتّٰی کہ مکے مدینے کے درمیان اُنہیں بھی اپنے ساتھ کرلوں گا۔

(ترمذی،ابواب المناقب،باب(م:تابع17،ت:56) … الخ،5/388، حدیث: 3712)

7: اُس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُ س پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں ۔ ‘‘ ( مسلم ص714 حدیث1374)

امام نَوَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اس روایت میں مدینۃُالمنوَّرہ کی فضیلت کا بیان ہے اورتاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی،کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح صحیح مسلم للنووی ج5 جزء 9 ص148)

8:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔ (مسلم صفحہ 716 ، حدیث 1378 )

9:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے ، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل ، ج 5 ، ص ، 106 ، حدیث 14686 )

10: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی ( سب پر غالب آئے گی ) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے ( یہ بستی ) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ۔ (صحیح بخاری حدیث 1871 ، ج 1 ، ص 617 )

نوٹ:اکثر احادیث مکتبۃ المدینہ کی کتاب عاشقان ِرسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں سے لی گئی ہیں ۔

عشقِ مدینہ تو گویا مومنوں کی گھٹی میں شامل ہے ، اور غمِ مدینہ اس عاشق سے پوچھا جائے جو ہر سال مدینہ دیکھ آتا ہے اور پھر بھی ذکرِ مدینہ پہ زار و قطار روتا ہے ، یا پھر اس عاشق سے پوچھئے کہ جس نے مدینہ دیکھا نہیں مگر اس امید پہ اشک بہاتا ہے کہ ہمیں بلوائیں گے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ ہم بھی دیکھیں گے ، دونوں کی حالت ایک سی ہوتی ہے ، یا یہ کہیے کہ عشاق کو غمِ مدینہ ہے ہی اس قدر پیارا کہ طیبہ سے پلٹ آنا بھی محال اور طیبہ کو نہ جانا بھی محال اور کیوں نہ ہو کہ رہتے ہیں میرے آقا،میرے دلبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے میں۔

کہاں کوئی روتا ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشق کو یادِ مدینہ

اللہ پاک ہمیں بار بار مدینہ طیبہ کی با ادب ، با ذوق ، با شوق حاضری نصیب فرمائے اور اے کاش !حبیبِ خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہی کے شہر مقدسہ میں ہمیں مدفن نصیب ہوجائے ۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم