مدینہ
منورہ کے 10 فضائل احادیث کی روشنی میں از بنت الیاس عطاریہ، حیدرآباد
مدینہ منورہ
کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وہ مقدس اور عظیم شہر ہے کہ اللہ پاک نے جس کا ذکر قرآن ِکریم میں مختلف
ناموں کے ساتھ فرمایا بلکہ مدینہ منورہ کا مشہور نام مدینہ 3مرتبہ قرآن میں آیا ہے۔
مدینۂ پاک
دنیا کا واحد شہر ہے جس کے 100 سے زائد نام ہیں ، اس کے عِلاوہ دنیا میں کوئی ایسا
شہر نہیں جس کے اتنے زیادہ نام ہوں ۔ شیخ عبد الحق مُحَدِّثْ دِہلوی رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں :مدینۂ پاک کے اتنے زیادہ نام ہونے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ مبارک
شہر کیسی عظمتوں والا ہے ۔( جذب القلوب ،ص9)
زمانہ سعادت
نشانِ نبوت سے پہلے مدینہ شریف کو یثرب و اثرب بروزن مسجد
کہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
اپنے رب کے حکم سے اس کا نام طابہ اور طیبہ رکھا۔ لوگ کہتے ہیں :یثرب حضرت نوح علیہ
السلام
کی اولاد میں سے کسی ایک کا نام ہے جب ان کی اولاد متفرق شہروں میں آباد ہوئی تو
یثرب نے اس سرزمین میں قیام کیا۔
قرآنِ پاک کی
بھی آیت ِمبارکہ میں”یثرب‘‘ کا لفظ ذکر
ہوا، اس کے بارے میں اعلیٰٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں:قرآنِ عظیم میں لفظ ”یثرب‘‘ آیا وہ رب العزت نے منافقین کا قول نقل
فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کر کے
یثرب کہتے ، اللہ پاک نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا، حضور اقدس،
سرورِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے
ہیں:” یقولون
یثرب وھی المدینہ‘‘وہ
اسے
یثرب کہتے
ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔( بخاری ، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ ۔الخ،ا
/ 217 ، حدیث: 1871)اس سے
معلوم ہوا !مدینہ کو یثرب کہنا منافقین کا طریقہ ہے ۔
یثرب
نہ کہنے کی وجہ:
لفظ یثرب سے
کراہت کی وجہ اس کا ثرب سے مشتق ہونا(بننا ہے) جس
کے معنی فساد کے ہیں یا تثریب سے مشتق
ہونا (بننا
ہے)
جس کے معنی مواخذہ اور عذاب کے ہیں ان سب باتوں کے علاوہ یثرب ایک کافر کا نام بھی
ہے لہٰذا اس کے نام پر اس مقام شریف کا نام رکھنا جس کی عزت شرک کے غبار اور کفر
سے پاک و بری ہو۔ کسی طرح مناسب نہیں ہے ۔
مدینہ
منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم :
اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مدینہ
طیبہ کو یثرب کہنا نا جائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنےوالا گنہگار۔ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں: جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔( مسند
امام احمد ، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب ، 4 / 409)
علامہ مناوی
تیسیر شرحِ جامعِ صغیر میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کا یثرب
نام رکھنا حرام ہے کہ یثرب کہنے سے استغفار کا حکم فرمایا اور استغفار گناہ ہی سے
ہوتی ہے۔
(
التیسیر شرح جامع الصغير ،حرف المیم،2 / 444)
فضائلِ
مدینہ احادیث کی روشنی میں:
1)حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم
دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے ، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ
ہے اور وہ بُرے لوگوں کو اس طرح دور کر تا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور
کرتی ہے۔(
بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ وانہا تنفی الناس، 1 / 217 ،حدیث: 1871)
2)حضرت جابر
بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام
طابہ رکھا ہے۔(مسلم،
کتاب الحج، باب المدینۃۃتنفی شرارہا،حدیث: 491(1385))
3)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے
کناروں کے در میان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیا گیا ہے ۔
( بخاری، کتاب
فضائل المدینۃ، باب حرم المدينۃ، 1 / 216،حدیث:
1829)
5) حضرت انس
بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس سےدگنی
برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔
(
بخاری، کتاب فضائل المدينۃ، 11:باب، 1 / 220،حدیث:
1885)
4)حضرت سہل بن
حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سیّد
المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور
امن کا گہوارہ ہے۔
(
معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 / 92،
حدیث: 5611)
6)حضرت عبداللہ
بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان
کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
(
بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، 1 / 402، حدیث: 1195)
(7)حضرت عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے
روایت ہے،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا: جس کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے،کیونکہ
میں یہاں مرنے والوں کی(خاص طور پر ) شفاعت کروں
گا۔
( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483،حدیث:
3943)
8)سرورِ
کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ
منورہ کے حق میں اکثر دعائےخیروبرکت فرماتے رہتے تھے۔ آپ دعا کرتے:اللهم بارك لنا في
مدينتنا وبارك لنا في صاعنا وبارک لنا في مدنا اللهم ان ابراہیم عبدك وخليلك ونبیک
وانی عبدک ونبیک وانه دعاك لمكته وانا ادعوك للمدينته بمثل ما دعاك لمكنه ومثله
معه
ترجمہ:اے اللہ پاک!برکت دے ہمارے لئے
ہمارے مدینہ میں اور برکت دے ہمارے لئے ہمارے صاع میں اور برکت دے ہمارے لئے ہمارے
مد میں۔اے اللہ پاک! بے شک ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے
اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ بے شک
ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی
تھی تجھ سے مکہ کے لئے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اتنی مقدار میں
کہ تجھ سے دعا کی تھی مکہ کے لئے اور اس کے مثل اس کے ساتھ۔
9)مام حاکِم
نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے روایَت کیا :جب مدنی آقا ، مکی داتا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہجرت کا اِرادہ فرمایا تو بارگاہِ الٰہی میں
دُعا کی:اللہمَّ اِنَّکَ اِنْ
اَخْرَجْتَنِیْ مِنْ اَحَبِّ الْبِلَادِ اِلَیَّ فَاَسْکِنِّیْ فِی اَحَبِّ
الْبِلَادِ اِلَیْکَ یعنی الٰہی!تُو نے مجھے میرے مَحْبُوب ترین شہر سے
ہجرت کا حکم دِیا ہے ، اب میرا قِیَام ایسی جگہ فرما جو تیرے ہاں محبوب ترین ہو۔ (مستدرك
، كتاب : ہجرۃ ، جلد : 3 ، صفحہ : 535 ، حدیث : 4320بتغیر قلیل)
شیخ عبد الحق مُحَدِّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیثِ پاک جَذْبُ
الْقُلُوب میں نقل فرمائی اور فرمایا : اِذِ الْحَبِیْبُ لَا یَخْتَارُ لِحَبِیْبِہٖ اِلَّا مَا ہُو
اَحَبُّ وَ اَکْرَمُ عِنْدَہٗ یعنی ایک محبت کرنے والا اپنے محبوب کے
لئے وہی پسند کرتا ہے جو اس کے نزدیک
زیادہ پسندیدہ اور عزّت والا ہو۔ (جذبُ القلوب ، صفحہ : 20)
اس دُعا کے بعد اللہ پاک نے اپنے پیارے
حبیب،حبیبِ لبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے مدینۂ پاک کا انتخاب فرمایا ، اس سے معلوم
ہوا! مدینۂ پاک اللہ پاک کے ہاں مَحْبُوب ترین مقام ہے۔
10) مدینہ
منورہ کا ایک وصف سنئے۔ وہ یہ ہے کہ یہ شہر مقدس دجال کے وجود اور نجاست سے محفوظ
رہے گا۔ صحیحین (بخاری
و مسلم)
کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ اس زمانے میں مدینہ منورہ کی ہر گلی پر فرشتوں کی ایک
جماعت مقرر ہوگی کہ اس کی حفاظت کرے اور دجال کے داخلے کو روک دے۔
دوسری حدیث
میں یہ آیا ہے : روئےزمین پر کوئی شہر ایسا نہیں ہے جہاں دجال نہ جاسکے۔ سوائے مکہ
اور مدینہ کے۔ مدینہ منورہ وہ حسین شہر ہےکہ
جہاں میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام
فرما ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے !
مدینہ
اس لئے عطار
جان و دل سے ہے پیارا کہ
رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں
پھر کیوں نہ
ہم عشق ِمدینہ میں تڑپیں!غم ِمدینہ میں روئیں !کہ محبوب کے کوچہ سے دور رہ کر محب
تڑپتا اور مچلتا ہی رہتا ہے۔اللہ پاک ہم سب کو غمِ مدینہ میں رونا نصیب کرے ۔(آمین)