مدینۃ المنورہ دنیا کا وہ عظیم ترین و مقدس شہر ہے جس کی فضیلت و اہمیت بکثرت قرآنی آیات  و احادیثِ پاک سے ثابت ہے اور فضیلت کیوں نہ ہو کہ یہ وہ مبارک شہر ہے جہاں ہمارے پیارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمدس سال اس شہر مقدس میں تشریف فرما رہے اور حضور پرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماب بھی وصالِ ظاہری کے بعد اسی مبارک شہر کو اپنی نگاہِ بے نیاز سے فیضیاب فرما رہے ہیں اور پوری دنیاکے مسلمان اس مبارک شہر سے دل و جان محبت کرتے ہیں ۔ یہ وہ مبارک شہر ہے جہاں صرف عزت والے اور عقیدت مند لوگ ہی حاضر ہو سکتے ہیں۔شہر ِنبوی کے متعلق دس فضائل حدیثِ پاک کی روشنی میں پیش خدمت ہیں پڑھیے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کیجئے ۔چنانچہ

1: آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا ۔(شعب الایمان ج 3 ص 497 حدیث 1482)

زمیں تھوڑی سی دیدے بہر مدفن اپنے کوچے میں لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

(ذوق نعت)

2: فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی اور نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتےمقرر ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم ص 714حدیث 1374)

امام نوَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اس روایت میں مدینۃُ المنّورہ کی فضیلت بیان ہوئی اور پیارے آقا علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثیر تعداد میں فرشتے حفاظت کرتے اور ان فرشتوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لیے محاصرہ کیا ہوا تھا۔ (شرح صحیح مسلم للنوی ج 5 جزء 9 ص 148)

3: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت )کا حکم ملا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(یعنی سب پر غالب آ جائے گی) اسے یثرب کہا جاتا ہے اور وہ مدینہ ہے (یعنی یہ بستی) لوگوں کو ایسے پاک و صاف کردے گی جیسے بھٹی لوہے کے زنگ و میل کو۔ (صحیح البخاری حدیث 1871،ج1،ص617)

یثرب سے مدینہ کیسے بنا؟

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مدینہ پاک تشریف لانے سے پہلے اسے یثرب کہا جاتا تھا( یعنی بیماریوں کا گھر) جب آپ علیہ السلام تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے اس کا نام المدینہ،طیبہ ،طابہ رکھا اور مدینہ کو یثرب کہنے سے منع فرمایا ۔(فضائلِ مدینہ، ص 112)کیونکہ یثرب یا تثریب سے بنا ہے جس کا مطلب ہے: زجرو توبیخ یعنی (ڈانٹنا ، جھاڑنا سر زنش کرنا) اور ملامت (یعنی شرمندگی کے )ہے یا یہ ثربٌ سے بنا ہے جس کا معنی ہے” فساد “اور یہ دونوں نام بُرے ہیں اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماچھے نام پسند فرماتے تھے اور بُرے نام ناپسند فرماتے ۔

(فضائل مدینہ، ص 113مصنف الدکتور ابو ابراھیم ملا خاطر، مکتبہ ضیاء القرآن )

طیبہ اور طابہ کہنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

بعض علما نے فرمایا :اس کو طیبہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی مٹی پاک ہے اور بعض نے فرمایا : اس کے باشندے یعنی رہائشی لوگ پاک ہیں اور بعض کے نزدیک زندگی پاکیزہ ہونے کی وجہ سے طیِّبہ اور طابہ کہا جاتا ہے۔ (فضائل مدینہ ص 110۔109)

4: جو پختہ ارادے کے ساتھ میری زیارت کو آیا بروزِ قیامت میری حفاظت میں رہے گا اور جو مدینے میں مستقل قیامت اختیار کرے گا اور مدینے کی تکلیفوں ہر صبر کرےگا تو میں بروزِ قیامت اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو مکے مدینے میں سے کسی ایک میں مرے گا اللہ پاک اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت سے بے خوف رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح ج 1 ص حدیث 2755)

5: پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ پاک کی گرد و غبار صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :مدینہ پاک کی خاک میں شفا ہے۔( جذب آپ قلوب ص22)

6: جو مسلمان زیارت کی نیت سے مدینۃ المنورہ آتا تو فرشتے رحمت کے تحائف سے اس کا استقبال فرماتے ہیں ۔ (جذب القلوب ص 211)

7: شہر ِمدینہ کی مقدس زمین پر مزارِ رسول ہے جہاں صبح و شام ستر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

(عاشقان رسول کی 130 حکایات ص 261)

8:مسجدِ نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ 2ص176حدیث 1413)

9:فرمایا:مدینہ پاک کی مبارک خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول للجزری ج9ص297حدیث 6962)

10:دنیا کا کوئی شہر ایسا نہیں جس کے اتنے اسمائے مبارکہ ہوں سوائے مدینۃ المنورہ کے کہ بعض علمائے کرام نے 100 نام تحریر فرمائے ہیں۔

اللہ پاک کی قسم! وہ مسلمان بہت ہی خوش نصیب ہے جسے غم ِمدینہ کی دولت نصیب ہو جائے۔غمِ مدینہ کی دولت حاصل کرنے کے لیے بکثرت تصورِ مدینہ کیجئے۔فضائلِ مدینہ کا مطالعہ فرمائیے نیز مدینہ کی یاد میں لکھے گئے کلامِ پاک سنیے ان شاء اللہ غمِ مدینہ کے ساتھ ساتھ محبتِ مدینہ بھی نصیب ہوگی۔اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں اخلاص کے ساتھ محبتِ مدینہ اور غم ِمدینہ نصیب فرمائے۔ آمین