مدینہ منورہ کے فضائل:

ہے شہد سے بھی میٹھاسرکارکامدینہ کیاخوب مہکامہکاسرکار کامدینہ

روئے زمین کا کوئی ایساشہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارَک نام اتنی کثرت کوپہنچے ہوں جتنے مدینۃُ المنوَّرہ کے نام ہیں ۔بعض عُلما نے 100تک نام تحریر کئے ہیں ۔

مدینۃُ المنوَّرہ ایسا شہر ہے جس کی محبَّت اورہِجرو فُرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے ، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔مدینہ منورہ کے فضائل کےتوکیاکہنے!یہ وہ مبارک شہر ہے جس کو پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی ہجرت کاشرف بخشا،اس کو اپنی رہائش کامسکن ہونے کاشرف فضیلیت عطافرمایا۔جو وضو کرکے آئے اورمسجِدُالنَّبَوِیِّ شریف میں نَماز ادا کرے اسے حج کا ثواب ملتا ہے۔یہ وہ مدینہ ہےجس میں موت کاآنا کیسی بڑی سعادت کی بات ہےکہ حضرتِ عبداللہ بنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشادفرمایا:’’مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَلْیَمُتْ بِہَا فَإِنِّی أَشْفَعُ لِمَنْ یَّمُوْتُ بِہَا یعنی جو مدینے میں مرسکے وہ وَ ہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شَفاعت کروں گا ۔‘‘ (ترمذی ج5 ص483 حدیث3943)

حکیمُ الْاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ یہ بِشارت اورہِدایت سارے مسلمانوں کو ہے نہ کہ صِرْف مُہاجِرین کو یعنی جس مسلمان کی نیَّت مدینۂ پاک میں مرنے کی ہو وہ کوشِش بھی وہاں ہی مرنے کی کرے کہ خدا نصیب کرے تو وہاں ہی قِیام کرے خُصُوصاً بڑھاپے میں اور بِلاضَرورت مدینۂ پاک سے باہَر نہ جائے کہ موت ودفْن وہاں کاہی نصیب ہو ۔

حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے :’’مولا! مجھے اپنے محبوب کے شہر میں شہادت کی موت دے۔ ‘‘

آپ کی دعا ایسی قَبول ہوئی کہ سُبْحٰنَ اللہِ! فجر کی نماز، مسجدِ نبوی ، مِحرابُ النبی، مُصلّٰیِ نبی اور وہاں شہادت ۔ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ تیس چالیس سال سے مدینۂ مُنَوَّرہ میں ہیں ، حُدودِ مدینہ بلکہ شہرِ مدینہ سے بھی باہَر نہیں جاتے اِسی خطرے سے کہ موت باہَر نہ آجائے۔ حضرتِ امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ کا بھی یہ ہی دستور رہا۔

(مراٰۃ المناجیح ج4ص222)

یہ فضیلت بھی صرف مدینہ طیبہ کے حصے میں ہی آئی کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ظاہری وصالِ مبارکہ کے بعداسی شہر کو اپنے مزار ِمبارک کے لئے شرف ِقبولیت عطافرمایا اور تا قیامت آپ اسی شہر میں آرام فرمارہیں گے ۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے سرور مدینے میں

لفظ مدینہ کے معنی:

مدینہ کے معنی شہر کےہیں لیکن جب یہ لفظ مطلقابولاجائےتو ذہن میں فورا ًمدینہ منورہ ہی آتا ہے ۔مدینہ کالفظ مدن سے ماخوذہے جس کامعنی ہے :ہموار زمین جس میں بکثرت کھجور کے درخت ہوں۔

مدینہ شریف کاسابقہ نام:

مدینہ منورہ کانام پہلے یثرب تھا ۔یثرب کا لغوی معنی ہے:جھڑکنا/ملامت کرنایایثرب ثرب سے ماخوذ ہے، اس کے معنی فساد کے ہیں ۔اس کو یثرب اس لئے کہتے تھے کہ یہ بیماریوں کاگھر تھا جووہاں جاتا بیمار ہوجاتا تھا ۔پھر لوگ اس کو ملامت کرتے کہ تم یثرب کیوں گئے تھے صحت مند تھے بیمار ہوکر آئے ،طاقت ورسے کمزور ہوکر آ گئے ہووغیرہ وغیرہ۔

ایک روایت ہے:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:جب پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ طیبہ تشریف لائے توحضرت ابوبکرصدیق اور حضرت بلال رضی اللہ عنہماکو بخار آگیا(جب یہ حضرات مدینہ میں ہجرت کرکے آئے)تووہ دونوں مکہ مکرمہ کویادکرتے اور بلند آواز سے مکہ کی یاد میں اشعار پڑھتے۔چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ پاک! ان پہ لعنت فرما جنہوں نے ہمیں اپنی سرزمین سے اس وباؤں اور بلاؤں کی زمین کی طرف نکال دیا۔ پھر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے دعافرمائی:اے اللہ پاک! ہماری طرف مدینہ کو مکہ کی طرح محبوب بنادے یااس سے زیادہ محبوب بنادے۔اے اللہ پاک !ہمارے لیے ہمارے صاع (چار کلو کا پیمانہ)میں اور ہمارے مد(ایک کلو کاپیمانہ)میں برکت ڈال دےاور اس کو ہمارے لئے صحت کاسبب بنادے اور اس کے بخار کو جحفہ (ایک وادی کانام)کی طرف منتقل کردے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہامزید بیان فرماتی ہیں:جب ہم مدینے میں آئے تو یہ جگہ اللہ پاک کی زمین میں سب سے زیادہ وباؤں والی تھی ۔مدینہ میں بطحان نام کاایک نالہ تھااس میں تھوڑاتھوڑاپانی بہتاتھا اور وہ بدبودار تھا۔

(صحیح مسلم1376)

لیکن جب ہمارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر کی طرف ہجرت کی تو وہی مدینہ آپ کی تشریف آوری و دعاکی برکت سے صحت و شفا کامرکز بن گیا۔اب کوئی بیمار جاتاہے توشفا پاکر آتاہے کمزور و لاغر جاتاہے تو تواناہوکر آتاہے غم زدہ جائے تو اس شہرِ مدینہ پہنچ کر اپنے دکھ و غم بھول جاتاہے۔اب یہ حال ہےکہ اگر کوئی حج کرکے آئے اور مدینہ نہ جائے اس کو ملامت کیاجاتاہےکہ افسوس! تم حج کر آئے لیکن مدینہ ہوکر نہ آئے۔

مکے سے ہوکر آیامدینے نہ گیا جاتابھی کیسے تجھے سرکارنے بلایاہی نہیں

یعنی بغیر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بلاوے کےتو کوئی مدینہ جاہی نہیں سکتا۔پہلے اس شہر کانام یثرب تھا چونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ نام پسند نہ تھالہٰذا اب اس کانام طیبہ و طابہ رکھ دیاگیا۔ایک روایت میں ہے :آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جس نے مدینہ کانام یثرب لیاوہ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرے یہ طابہ ہے یہ طابہ ہے۔(یعنی پاکیزہ و برکت والی سرزمین)

عشاق ِمدینہ کا کہناہے:اگر کوئی مدینہ کانام غلطی سے یثرب لے لے تواس کو چاہیے کہ اس کے کفارے میں10بار مدینہ کہے۔

محفوظ صدارکھنابے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

شہر ِنبوی کے فضائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں :

1..حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایسی بستی میں جانے کاحکم دیاگیاہےجو تمام بستیوں کو کھالے گی۔(منافق)لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے وہ بُرے لوگوں کواس طرح دور کردے گی جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔

اس حدیثِ مبارکہ میں بستیوں کو کھانے کایہ معنی ہوسکتاہے کہ وہ بستی فضائل کے اعتبار سے تمام بستیوں پر غالب آ جائے گی۔اس حدیث کے پیشِ نظر اہلِ علم کے نزدیک اس میں علمی اختلاف ہے کہ مکہ افضل ہے یامدینہ۔بعض کے نزدیک مدینہ افضل ہے جبکہ بعض مکہ مکرمہ کی افضلیت کے قائل ہیں۔ہر ایک نے اپنے موقف کے مطابق اپنے دلائل بھی پیش کئے۔

یوں تو شہر مکہ افضل ہے لیکن روئے زمین پر سب سے افضل وہ جگہ ہے جہاں اس وقت کائنات کی سب سے عظیم و افضل ہستی تشریف فرماہے اور وہ روضہ انور ہے۔ لہٰذا بالخصوص آپ کاروضہ انور و مزار ِمبارک کی جگہ دونوں جہاں کی تمام جگہوں سے افضل ہے ۔

طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑازاہد ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

2..حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:ہم نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ساتھ غزوۂ تبوک سے واپس آئے حتی کہ جب ہم نے سراٹھا کرمدینہ کو دیکھاتو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:ھذہ طابۃ یعنی یہ طابہ ہے۔(صحیح بخاری1872)

اس سے مراد یہ ہے کہ یعنی آقاعلیہ الصلوۃ والسلام نے مدینہ طیبہ کو طابہ کے لفظ سے یاد فرمایا۔طابہ کے معنی ہیں: پاکیزہ و برکت والی جگہ یعنی یہ بستی وشہر پاکیزہ خوشبودار و برکت والی بستی وشہر ہے ۔ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کانام طیبہ رکھا ۔

3..حضرت جابر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:ضرور لوگوں پر مدینہ میں ایسازمانہ آ ئے گا کہ لوگ مدینہ سے نکل کر مختلف شہروں میں چلے جائیں گے وہ وسعت و کشادگی کی طلب میں دوسرے شہروں میں جائیں گے پس وہ کشادگی کو پالیں گے پھروہ اپنےگھروالوں کو بھی اس کشادگی کی طرف لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر تھا۔کاش !ان کو علم ہوتا۔(مسنداحمدج3ص342طبع قدیم)

صحیح مسلم و بخاری شریف کی روایات میں مختلف شہروں کے نام بھی ذکر ہیں جو یمن،شام اور عراق ہیں۔یعنی جب یہ شہر فتح ہوجائیں گے تو اہلِ مدینہ ان میں موجود اس وقت کی آسائشوں کو دیکھتے ہوئے اپنے اہل و عیال و سواریوں کیساتھ ان شہروں کی طرف نکل جائیں گے ۔حالانکہ اگر یہ شہرِ مدینہ میں ہی قیام و رہائش رکھتے ہیں اور وقتی آزمائشوں پہ صبر کرلیتے تو یہ شہرِ مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا۔لیکن وہ اس فضیلت کونہ جان سکے اور دوسرے شہروں کواپنامسکن بنالیا۔کسی نے کیاخوب کہا:

یاد آتی ہے مجھے اہلِ مدینہ کی وہ بات زندہ رہناہے تو انسان مدینے میں رہے

4..حدیثِ مبارکہ میں ہے :جو مدینہ منورہ کی سختیوں اورمشقتوں پر صبر کرتاہوافوت ہوگامیں بروزِ قیامت اس کے لئے شفاعت کروں گااس کے حق میں گواہی بھی دوں گا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔

(صحیح مسلم رقم حدیث1374)

اس میں صراحتاًاس بات کی طرف اشارہ ہے جس کو مدینہ شریف میں کوئی مصیبت یاتکلیف پہنچی چاہے وہ کسی صورت میں ہواگر وہ اس پہ ثابت قدم رہے گا،یہ شہر چھوڑ کر نہیں جائے گانیز اگر وہ حالتِ ایمان میں مدینہ طیبہ میں انتقال کرجائے توپیارے آقاعلیہ الصلاۃ والسلام کی شفاعت سے حصہ پائے گا۔ان شاءاللہ

یاد رہے! مدینۃُالمنوَّرہ میں صِرْف اُسی کو قِیام کی اجازت ہے جو یہاں کا احتِرام برقرار رکھ سکتا ہو ، جو ایسا نہیں کر سکتا اُس کیلئے یہاں مُستِقل یا زیادہ عرصے رِہائش کی مُمانَعَت ہے چنانچِہ

فتاویٰ رضویہ جلد10 صَفْحَہ695 پر ہے: (صاحبِ فتح القدیر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : کیونکہ مدینۂ طیِّبہ میں رحمت اکثر، لُطف وافِر، کرم سب سے وسیع اورعَفْوْ (یعنی مُعافی ملنا) سب سے جلدی ہوتا ہے جیسا کہ شاہِد مُجرَّب (یعنی تجرِبے سے ثابت) ہے ۔وَالْحَمْدُلِلّٰہِ ربِّ العٰلمین۔اس کے باوُجُود اُکتا نے کا ڈر اور وہاں کے احترام وتَوقیر میں قلّت ِادب کا خوف تو موجود ہے او ریہ بھی تو مُجاوَرَت سے مانِع(یعنی مستقل رہائش سے رکاوٹ) ہے۔ ہاں! وہ افراد جو فِرِشتہ صفت ہوں تو اُن کا وہاں ٹھہرنا اور (طویل رِہائش اختیار کر کے) فوت ہونا سعادتِ کامِلہ ہے ۔

اللہ مصطفٰے کے قدموں میں موت دے دے مدفن بنے ہمارا سرکار کامدینہ

5...حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے دروازوں پر فرشتے ہیں ،وہاں طاعون داخل ہوگانہ دجال(داخل ہوسکےگا)(صحیح بخاری1880)

مختصر وضاحت:

طاعون ایک وباکانام ہے۔یہ جسم میں نکلنے والی گلٹیاں(غدود)ہیں۔ان کیساتھ جسم میں سوجن ہوجاتی ہےاور سخت درد ہوتاہےیہ گلٹیاں جلن کیساتھ نکلتی ہیں اور ان کی جگہ سیاہ ،سرخ یاسبزہوجاتی ہے اس کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے ۔اللہ پاک اس وباسےہماری حفاظت فرمائے ۔آمین۔قرب ِقیامت میں جب دجال کے فتنے کاظہور ہوگا،اس کافتنہ دنیاکے تمام شہروں میں پھیل جائے گالیکن یہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔ایک روایت میں اس طرح کے الفاظ ہیں:مکہ و مدینہ کے سواہر شہر کو دجال روندےگا مدینہ کے راستوں پر صفیں باندھے ہوئے فرشتے اس کی حفاظت کررہے ہیں ۔پھر مدینہ وہاں کے رہنے والوں پر تین بارلرزے گا(یعنی زلزلہ) آئے گا۔پھر اللہ پاک ہرکافرو منافق کونکال دے گا یعنی کفار و منافقین خود مدینہ سے نکل کردجال کے پاس چلے جائیں گے ۔اللہ پاک ہم سب کوفتنۂ دجال سے محفوظ رکھے۔ آمین ۔

6..حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعافرمائی:اے اللہ پاک! تونے مکہ میں جتنی برکتیں نازل کی ہیں ،مدینہ میں اس کی دوگنی برکتیں نازل فرما ۔یعنی اس سے مراد یہ تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاکی برکت سے مکہ مکرمہ میں جو برکتیں نازل ہوئیں مدینہ منورہ میں اس سے چار گنا برکتوں کانزول فرما۔اس حدیث میں برکت سے مراد کثرتِ خیر ہے چنانچہ

قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:برکت سے مراد عام ہے خواہ دین کے امور میں ہو یا دنیا کی چیزوں میں یعنی وہ چیزیں بڑھ جائیں گی اور زیادہ ہوجائیں گی اور دین میں برکت کایہ معنی ہے کہ زکوٰۃ اور کفارہ میں اضافہ ہو جائے۔الحمدللہ آ قاعلیہ الصلاۃ والسلام کی اس دعاکااثر ہر مومن مدینہ طیبہ میں محسوس کرسکتاہے۔

7.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میرے حجرہ اور میرے منبرکے درمیان(جگہ)جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔(صحیح بخاری1888)

امام شہاب الدین رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :اس حدیث کامعنی یہ ہے کہ رحمت کےنزول اور حصولِ سعادت میں میرے حجرہ اور میرے منبرکی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ کی مثل ہے یامعنی یہ ہے کہ اس جگہ پر عبادت کرناجنت تک پہنچادیتاہےیایہ معنی ہیں کہ یہ جگہ حقیقتاً جنت ہے بایں معنی کہ آخرت میں بعینہ یہ جگہ جنت کی طرف منتقل کردی جائے گی ۔واللہ پاک اعلم بالصواب۔

8..حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نےفرمایا:جس نے خاص مدینہ شریف کی سات کھجوریں صبح کے وقت کھالیں توشام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں دے گی ۔

(صحیح مسلم رقم حدیث2047)

یعنی اس شخص پر اس دن جادو و زہر وغیرہ کوئی چیز اثر نہیں کرے گی اس کو اس سے نقصان نہیں پہنچے گا۔ان شاءاللہ ۔

9..حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرمانِ مصطفٰےصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:ایمان مدینہ کی طرف لوٹ جائے گا،جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لوٹ جاتاہے۔(صحیح مسلم147)

یعنی دنیاسے محبت رکھنے والے اور دن رات گناہوں میں مشغول افراد اسلام کے احکام اور اس کے تقاضوں سے ڈر کراس طرح بھاگتے ہیں جیسے سانپ سے دور بھاگتے ہیں۔ آخر زمانہ میں اسلام پر عمل کرنے والے مومن صرف مدینہ منورہ میں رہ جائیں گےاور اسلام مدینہ میں اس طرح لوٹ جائے گاجس طرح جب سانپ کوکوئی گوشہ عافیت نہ ملے تووہ اپنے بل میں چلاجاتاہے۔اللہ پاک ہماراایمان سلامت رکھے۔ آمین۔

10..حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :جس نے میری قبرکی زیارت کی،اس کےلئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(سنن دارقطنی2658ج2ص531)

اگر کوئی مومن خاص قصداً روضۂ رسول کی زیارت کی نیت سے مدینہ طیبہ کاسفر کرے گا اور قبرِانور کی زیارت سے مشرف ہوگااس کے لئے شفاعتِ رسول کی خوشخبری ہے۔جبکہ اس کے برعکس ایک روایت میں روضۂ رسول پر حاضری نہ دینے والوں سے اظہار ِناراضی فرماتے ہوئے اس طرح فرمایا: جس نے بیت اللہ کاحج کیا،پھرمیری (قبرِانور/روضہ ٔرسول کی) زیارت نہیں کی اس نے مجھ سے بے وفائی کی۔

اللہ پاک ہمارا بھی اس سعادت سے مشرف ہوکر شفاعتِ رسول پانے والوں میں شمار فرمائے۔

محبتِ مدینہ:

مدینہ طیبہ کے فضائل سن کر ہر عاشقِ مدینہ کے دل میں یہ تڑپ پیداہوتی ہے کہ اے کاش !کوئی ایساسبب بن جائے کہ جلد مدینہ طیبہ پہنچ جائے اورآقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے قدموں میں حاضری نصیب ہوجائے۔ آئیے ! ایک عاشق ِمدینہ کے بارے میں کچھ ذکر خیرک پڑھتی ہیں ۔

امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ کاعشقِ مدینہ:

کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے ، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینۂ پاک کی گلیوں میں ننگے پَیر چلا کرتے تھے ۔ ( الطبقاتُ الکُبریٰ لِلشَّعرانی الجزء الاول ص 76)اللہ پاک ان عشاقِ مدینہ کے صدقے ہمیں بھی عشقِ مدینہ و ادب مدینہ منورہ نصیب فرمائے۔

گستاخ کے لئے حکم سزا:

امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا:’’مدینے کی مِٹّی خراب ہے ‘‘ یہ سن کر آپ نے فتویٰ دیا : اِس گستاخ کو تیس دُرّے لگائے جائیں اور قید میں ڈال دیا جائے ۔ (ایضاً ص57 )

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیِّدِ عالَم اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

عشق ِرسول و محبتِ مدینہ بڑھانے کے لئے ایک عاشق ِمدینہ خاتون کا واقعہ پیش خدمت ہے،چنانچہ

اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضر ہو کرایک خاتون نے عَرْض کی: مجھے تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوّت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مبارَک قبرکی زیارت کروا دیجئے ۔حضرتِ عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے حُجر ۂ شریفہ کھولا اور اُس عاشِقِ رسول خاتون نے قبر ِانور کی زیارت کرکے روتے روتے جان دیدی۔ (الشفا جزء 2 ص 23)

آپ کے عشق میں اے کاش !کہ روتے روتے یہ نکل جائے مِری جان مدینے والے

یقیناًہر مسلمان کی دل کی یہ آرزو ہوتی ہے اس کو بھی مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہوجائے۔ہزاروں لاکھوں عشاقِ مدینہ زیارتِ مدینہ کے شوق میں دن رات آنسو بہاتے ہیں، یادِ آقامیں تڑپتے ہیں ۔یہی تو ایک ذریعہ و سبب ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دربار میں حاضری کاورنہ بڑے بڑے امراء جن کےپاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن ان کے خواب دنیاکے عیش و عشرت و لندن و پیرس کے ہیں ۔مگر قربان جائیے! ان عشاقِ مدینہ کے جن کی بس ایک ہی آرزو ہے کہ مدینے کابلاوہ آجائے۔اور جن کی آہ وزاری بارگاہ ِرسول میں قبول ہوجاتی ہے یقیناًان کو بلاوہ بھی آجاتاہے جس کامظہر مدینہ طیبہ میں ان زائرین کی بھی حاضری ہے جن کابظاہر کوئی سبب نہیں ہوتامگر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے در کی حاضری کے لئے چن لیاہوتاہے۔

کہاں کامنصب کہاں کی دولت قسم خداکی ہے یہ حقیقت جنہیں بلایاہے مصطفٰے نے وہی مدینے کوجارہے ہیں

جن کو واقعی سچی لگن وتڑپ ہوتی ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کرم فرماتے ہیں۔

فریاد امتی جوکرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیر ِبشر کوخبر نہ ہو

مگر شرط یہ ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سچی محبت دل میں ہو۔حاضریِ مدینہ کے شوق میں دل بے چین و بے قرار ہو۔آنکھیں اشکبار ہوں۔ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے عشق کادل بھرنے کیساتھ اعمال بھی ایسے ہوں کہ جو آقاعلیہ الصلاۃ والسلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنیں۔ جیساکہ فرمان ِمصطفٰے ہے:جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃیعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے ۔اخلاص شاملِ حال رہا،اعمال درست ہوئے، مدینہ کی تڑپ ہوئی تو بلاوہ بھی جلدآجائے گا۔ ان شاءاللہ

روایت:دیکھومدینہ آگیا:

حضرتِ ابراہیم خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک سَفَر میں شدّتِ پیاس سے بے تاب ہوکر گر پڑا، تو کسی نے میرے مُنہ پر پانی چِھڑکا، میں نے آنکھیں کھولیں توکیا دیکھتا ہوں کہ ایک حسین وجمیل بُزرگ خوب صورت گھوڑے پر سُوار کھڑے ہیں ۔اُنہوں نے مجھے پانی پِلایا اورفرمایا: میرے ساتھ سُوار ہوجاؤ ۔ ابھی چند قَدَم ہی چلے تھے کہ فرمایا: دیکھو! کیا نظر آرہاہے؟ میں نے کہا: ’’یہ تو مدینۂ منوَّرہ ہے۔ ‘‘ فرمایا: اُترو اور جاؤ، رَسُوْلُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمتِ اَقدَس میں سلام عَرض کرو اور یہ بھی عرض کرنا کہ خِضَر (علیہ السلام) نے بھی آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ (رَوضُ الرَّیاحین ص126)

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سَہارا دے دیا ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

محبتِ مدینہ و غمِ مدینہ پانے کے لئے عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کی جائے ۔الحمدللہ دعوت ِاسلامی کادینی ماحول محبتِ مدینہ و غمِ مدینہ پانے کاایک انمول ذریعہ ہے ۔امیر ِاہل ِسنت دامت برکاتہم العالیہ کے فیضان کی برکت آج دعوتِ اسلامی کے بچے بڑے مردو عورت ہر ایک کی بس ایک ہی تمناو تڑپ ہے:

اذنِ طیبہ مجھے سرکارِ مدینہ دےدو لے چلے مجھ کوجو طیبہ وہ سفینہ دے دو

مجھ کو دنیاکی دولت نہ ذر چائیے شاہ ِکوثر کی میٹھی نظر چائیے

اللہ پاک سے دعاہے کہ جو جومدینے کی حاضری کے طلبگار ہیں مولاکریم اپنے کرم کے صدقے جلد ان کو باادب حاضریِ مدینہ کی سعادت عطافرمائے ۔ان کے صدقے مجھ گنہگار کے حق میں بھی یہ دعاقبول فرمائے۔