مدینہ تو وہ بستی ہے جہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، جہاں کے رستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں، جہاں گناہ گاروں کو دامنِ رحمت میں چھپایا جاتا ہے، جہاں مغفرتوں کے پروانے تقسیم ہوتے ہیں، جہاں بے سہاروں کی بگڑیاں بنتی ہیں، جہاں غم کے ماروں کے غم دور ہوتے ہیں،جہاں خالی جھولیاں بھردی جاتی ہیں،جہاں دشمنوں کو بھی خالی نہیں لوٹایا جاتا، جہاں جانے کے لیے عشاق تڑپتے ہیں اور کیوں نہ تڑپیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی آقا، دوجہانوں کے داتا، بے سہاروں کے سہارا، گناہگاروں کے شفیع صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بنفسِ نفیس وہاں موجود ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے منسوب یادیں وہاں موجود ہیں۔

اہلِ عرب مدینہ طیبہ کو یثرب کے نام سے بلایا کرتے تھے۔ آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے قدمین شریفین کی برکت سے یہ بستی طیبہ ہوگئی۔ حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالْحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃ اللہ علیہ اَشِعَّۃُ اللَّمعات شَرْحُ الْمِشْکٰوۃمیں فرماتے ہیں:آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رَہنے سَہنے اور جَمْع ہونے اور اس شہر سے مَحَبَّت کی وجہ سے اس کا نام ’’مدینہ ‘‘ رکھا اور آپ نے اسے یَثرِب کہنے سے مَنْعْ فرمایا اِس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیّت کانام ہے یا اِس لئے کہ یہ ’’یثَرْبٌ‘‘سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہلاکت اورفَساد ہے اور تَثْرِیْبٌ معنیٰ سَرزَنِش اور ملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکَش بندے کانام تھا۔( فتاوی رضویہ ،جلد 21 صَفْحَہ 119)رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو مدینہ کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے، مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے ۔

1۔مدینہ پاک تو وہ مبارک شہر ہے جس کی برکت کی دعا خود نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمائی ہے۔ حضرتِ ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،لوگ جب موسِم کا پہلا پھل دیکھتے،اُسے حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمتِ سراپا رحمت میں  حاضِر لاتے، سرکارِ نامدار(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) اسے لے کراس طرح دُعا کرتے:الٰہی! تو ہمارے لیے ہمارے پھلوں میں بَرَکت دے اور ہمارے لیے ہمارے مدینے میں بَرَکت کر اور ہمارے صاع و مُد(یہ پیمانوں کے نام ہیں ان)میں بَرَکت کر، یااللہ پاک!بے شک ابراہیم تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکّے کے لیے تجھ سے دُعا کی اور میں مدینے کے لیے تجھ سے دُعا کرتا ہوں،  اُسی کی مثْل جس کی دعا مکّے کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور(یعنی مدینے کی برکتیں مکے سے دُگنی ہوں)۔پھر جو چھوٹا بچّہ سا منے ہوتا اُسے بلاکر وہ پھل عطا فرما دیتے۔ مسلم ،ص713،حدیث:1373

2۔ روئے زمین پرمدینہ طبیہ سے بڑھ کر کوئی بستی فضیلت والی نہیں اور ہو بھی کیسے کہ دوجہانوں کے مختار، محبوب رب کعبہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا روضہ انور یہاں موجود ہے۔فضیلتِ مدینہ پیارے آقاکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمائی اور اس میں رہنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے۔حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں :میں نے رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :’’ یمن فتح ہو گا ،اس وقت کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور ان کو جو اُن کی اطاعت میں ہیں لے جائیں گے حالانکہ مدینہ اُن کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور شام فتح ہوگا، کچھ لوگ دوڑتے آئیں گے ، اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، اور عراق فتح ہو گا، کچھ لوگ جلدی کرتے آئیں گے اور اپنے گھر والوں اور فرمانبرداروں کو لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر جانتے۔( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب من رغب عن المدینۃ،1 /618، حدیث:1857، مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینۃ عند فتح الامصار، ص719، حدیث:497(1388))

3۔ مدینہ شریف تو وہ بستی ہے جہاں جینا بھی سعادت اورمرنابھی سعادت ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، سرکار ِدو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: ’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو مدینہ میں مرے میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔ (ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 /483، حدیث:3943)

4۔مدینہ منورہ کی کیاشان ہے کہ یہاں کی نگہبانی کے لیے انسان نہیں بلکہ فرشتے مقرر ہیں۔چنانچہ

نبیِّ مکرم، نُورِمُجَسَّم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ مُعظَّم ہے:’’اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں۔‘‘(مسلم،ص714،حدیث:1374)

5۔ مدینہ منورہ تو ان خطوں میں سے ہے جو دجال کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔ چنانچہ 

سرکارِ والا تَبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے:عَلٰی اَنْقَابِ الْمَدِینَۃِ مَلَائِکَۃٌ لَّا یَدْخُلُہَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُمدینےمیں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فِرِشتے ہیں،اس میں طاعون اوردجّال داخل نہ ہوں گے۔( بُخاری ج1 ص619حدیث 1880)

6۔ مدینہ تو وہ سرزمین ہے کہ وہاں عشاق ایسا سکون پاتے ہیں جو دنیا کے کسی شہر یا خوبصورت وادی میں ممکن ہی نہیں۔وہاں کے خار بھی پھول لگتے ہیں اور مدینہ طیبہ کی مبارک سرزمین پر تکلیف آبھی جائے تو اس کو باخوشی صبر کے ساتھ برداشت کرکے حدیثِ مبارکہ میں بیان کردہ فضیلت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ سرکارِ دو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ طیبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری اُمت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔( مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ۔ الخ، ص715، حدیث: 483(1377))

7۔ مدینہ طیبہ تو گناہ گاروں کے لیے ذریعہ نجات ہے کہ دو جہانوں کے سرور، رحمتِ عالمیان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مدینہ(گناہوں کے)میل کو ایسے چھڑاتا ہے جیسے بھٹی لوہے کا زنگ دور کرتی ہے۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فض المدینہ، حدیث 1363، ص 710)

8۔ ایمان کی پناہ گاہ مدینہ ہے۔فرمانِ مصطفٰے ہے :مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔( ترمذی،5/282، حدیث 3465)

9۔ مدینہ کی مبارک خاک کی بھی کیا بات ہے کہ دوجہانوں کے مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، ص 22) یہاں کی دھول مٹی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے چہرہ اقدس سے صاف نہ فرماتے تھے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے تھے۔ مکے اور مدینے کے پہاڑوں اور وادیوں میں بھی نورانیت ہے اور کیوں نہ ہوکہ ان تمام جگہوں میں کوئی ایسا ذرہ نہیں جس پر نگاہِ مصطفٰے نہ پڑی ہو اور وہ دیدارِ مصطفٰے سے فیضیاب نہ ہوا ہو۔( جذب القلوب ص 148)

10۔ مدینہ تو مدینہ ہے۔اس خطہ زمین کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو اتنی فضیلت حاصل ہے کہ مدینہ کے رہنے والوں کو ستانے والوں کے لیے اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :’’ یااللہ پاک! جو اہلِ مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں ڈرائے تو اُسے خوف میں مبتلا کر اور اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل۔( معجم الاوسط، باب الراء، من اسمہ روح، 2 / 379، حدیث:3589)مدینہ منورہ عشاق کے لیے جنت سے بڑھ کر ہے کہ مدینہ میں روضہ رسول ہے۔ خدا کی قسم! روضہ رسول سے عظیم جگہ دنیا کے کسی مقام کجا جنت میں بھی نہیں ہے۔

فردوس کی بلندی بھی چھو سکے نہ اس کو خلدِ بریں سے اونچا میٹھے نبی کا روضہ

(وسائل بخشش ص 298)

اے عشقِ رسول کا دم بھرنے والیوں! ہم جن سے محبت کا دعوی کرتی ہیں، وہ بھی مدینہ شریف سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا ہے کہ ہم بھی مدینے کی گلیوں، کوچوں، در و دیوار، پھولوں حتی کہ کانٹوں سے بھی پیار کریں اور ان کے دیدار کی نہ صرف خواہش کریں بلکہ اس کے لیے اللہ پاک سے دعائیں مانگیں۔اللہ پاک ہمیں مدینہ پاک کی سچی محبت اور باآدب حاضری نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم