جنید احمد (درجہ خامسہ مدنی مرکز فیضانِ مدینہ خان پور ضلع رحیم یارخان،پاکستان)

انسان کے اندر کچھ ایسی
خوبیاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور انسان لوگوں میں
معزز بن جاتا ہے اب جس طرح انسان میں اچھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح انسان میں
بری صفات بھی ہوتی ہیں جو انسان کو لوگوں میں کم تر بنا دیتی ہیں اور لوگ اس انسان
کی نہ تو قدر کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اس کی عزت کرتا ہے انہی بری صفات میں سے ایک
صفت بد اخلاقی بھی ہے تو آئیے بداخلاقی کی مذمت احادیث کی روشنی میں سنتے ہیں تاکہ
ہم بد اخلاقی کی بری صفت سے نجات یا سکیں اور معاشرے کے اچھے انسان بن کر زندگی
گزار سکیں۔
حدیث(1) حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ فلاں خاتون کے
نماز، روزے اور صدقہ کی کثرت کا خوب چرچا ہے مگر وہ اپنے پڑوسی کو اپنی زبان سے
تکلیف دیتی تھی۔ فرمایا وہ دوزخی ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ فلاں خاتون کے روزے ، نماز
اور صدقے میں کمی ہے اس نے پنیر کے کچھ ٹکڑے ہی صدقہ کیے لیکن اپنے پڑوسی کو زبان
سے تکلیف نہ دیتی تھی فرمایا: وہ جنتی ہے۔
حدیث(2) حضرت ابو مسعود
انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : جب تو بے حیا ہو گیا تو جو چاہے کر۔(کتاب
جامع الاحاديث كتاب الادب، 4/ 147 ، حدیث: 2246 ،مکتبہ شبیر برادرز)
حدیث(3) حضرت عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جنت ہر فحش بکنے والے پر حرام ہے۔(کتاب جامع الاحاديث كتاب الادب، 4/
148 ، حدیث: 2247 ،مکتبہ شبیر برادرز)
حدیث(4) حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : فحش جب کسی چیز میں دخل پائے گا اسے عیب دار کر دے گا اور حیا جب کسی چیز
میں شامل ہوگی اس کا سنگار کر دے گی۔(کتاب جامع الاحاديث، كتاب الادب، 4/ 148 ،
حدیث: 2247 ،مکتبہ شبیر برادرز)
حدیث(5) حضرت ابو درداء
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : فحش بکنا منحوس ہے۔( کتاب جامع الاحادیث ، کتاب الادب، 4/ 149 ،حدیث :
2249مکتبہ شبیر برادرز)
محمد جلیل نیاز (درجہ و خامسہ مدنی مرکز فیضان مدینہ خان پور ضلع رحیم یارخان،پاکستان)

انسان کے اندر کچھ ایسی
صفات اور خو بیاں ہوتی ہیں جو اسے باکمال بناتی ہیں اور لوگ اس کی دل سے عزت کرتے
ہیں تو جس طرح اچھی صفات انسان کو اچھا بناتی ہیں اسی طرح کچھ بری صفات بھی ہوتی
ہیں جو انسان کو برا بناتی ہیں اور لوگ اس شخص سے جان چھڑاتے ہیں اور اس کی عزت و
احترام بھی نہیں کرتے۔ اسی بری صفات میں سے ایک بد خلقی بھی ہے ۔ آئیے بد خلقی کی
مذمت کے بارے میں کچھ احادیث سنتے ہیں تاکہ ہم اس بری صفت کو ختم کر سکیں اور معاشرے
کے اچھے انسان بن کر زندگی گزاریں۔
(1)ایک شخص نے آپ علیہ السّلام
سے پو چھا کہ نحوست کیا چیز ہے؟ آپ علیہ السّلام نے فرمایا سوء الخلق یعنی بد خلقی۔(احیاء العلوم، 3/ 75)
حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ : جو کوئی بد خلقی کرتا ہے وہ اپنی جان کو ستاتا ہے۔ حضرت یحیی
بن معاذ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :بد خلقی ایسی بلا ہے کہ اس کے ہوتے حسنات
کی کثرت سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ (احیاء العلوم، 2/79،78)
دوسری حدیث مبارکہ : حضرت
ابو هرین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صادق و مصدوق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے
ہوئے سنا کہ : صفتِ رحمت سوائے بد بخت کے کسی اور سے نہیں چھینی جاتی۔( الادب
المفرد)
تیسری حدیث مبارکہ : حضرت
جریر بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ پاک اس پر رحم نہیں فرماتا اور
جس پر اللہ پاک رحم نہ فرمائے وہ جہنم میں ہوگا ۔ (الادب المفرد )
چوتھی حدیث مبارکہ : حضرت
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو نرمی سے محروم ہوا تو وہ تمام
بھلائیوں سے محروم رہ گیا ۔ (سنن ابی داؤد ،مترجم، کتاب الادب، حدیث: 1382 ،ص 512 ،فرید
بک سٹال)
پانچویں حدیث مبارکہ : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم علیہ السّلام نے فرمایا : شرم و حیا ایمان
کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا اور بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ
ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا ۔(انوار الحدیث ، حدیث : 3 ،ص 385)
چھٹی حدیث مبارکہ : حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السّلام نے فرمایا: الله قسم
مومن وہ نہیں ، اللہ کی قسم مومن وہ نہیں، اللہ کی قسم مومن وہ نہیں (یعنی کہ کامل
مومن) آپ علیہ السّلام سے عرض کیا گیا یا رسولَ اللہ کون ؟ تو فرمایا : جس کا
پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو ۔( اشعۃ اللمعات)
ساتویں حدیث مبارکہ :حضرت
ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ السّلام نے فرمایا : تم میں
سے سب سے محبوب اور قیامت کے دن میرے بہت قریب اچھے اخلاق والا ہو گا اور تم میں
سے مجھے بہت ناپسند اور مجھ سے دور برے اخلاق والا ہوگا جو منہ پھٹ، فراخ گو، متکبر
ہوگا۔(شرح مشكوٰة اشعة اللمعات مترجم)
آٹھویں حدیث مبارکہ :
حضرت فضیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
کسی نے ذکر کیا کہ فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے اور رات کو تہجد پڑھتی ہے مگر بد
خلق ہے۔ ہمسایوں کو اپنی زبان سے ایذا دینی ہے تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا : لا خیر فیہا ہی من اهل النار یعنی اس میں کچھ خیر نہیں وہ دوزخیوں
میں سے ہے۔(احیاء العلوم)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں برے اخلاق سے بچ کر اچھے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اچھا خلق رسولوں کے سردار
محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفت ہے اور صدیقین کا افضل عمل ہے، اصل
میں یہ نصف دین ہے، صدیقین کی کوشش کا نتیجہ ہے اور عبادت گزار لوگوں کی ریاضت ہے۔
بد اخلاقی زہر قاتل ہے یہ وہی خبیث چیز ہے جو اللہ کے قرب سے انسان کو دور کر دیتی
ہے۔ اب آئیے آپ کے سامنے اس عظیم ہستی کے فرمان ذکر کرتا ہوں جس کو الله پاک نے حسنِ
اخلاق کا پیکر بنا کر بھیجا ہے۔
فرمانِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : سُوْ ءُالْخُـلُقِ
ذَنْبٌ لَّا یُغْفَرُ وَسُوْ ءُ الظَّنِّ خَطِیْـئَةٌ تَـنُوْجُ یعنی بد
اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں
کا سبب بنتی ہے۔ بد اخلاقی ایسا گناہ ہے
جس کی بخشش نہ ہوگی۔ بدگمانی ایسی خطاء ہے کہ اس سے اور گناہ پیدا ہوتے ہیں۔(احیاء
العلوم )
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ
سُوْ ءِخُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے سبَب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا
ہے۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز شروع
کرتے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ
اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَایَھْدِیْ لِاَحْسَنِھَآاِلَّآ اَنْتَ
وَاَصْرِفْ عَنِّیْ سَیِّئَھَالَایُصْرِف سَیِّئَھَآ اِلَّآ اَنْتَ یعنی اے اللہ پاک! مجھے
اچھے اخلاق کی رہنمائی فرما کیونکہ اچھے اخلاق کی رہنمائی تو ہی فرماتا ہے اور مجھ
سے بُرے اَخلاق دور رکھ کیونکہ برے اخلاق سے تو ہی دور رکھتا ہے۔
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اللھم انى اعوذ
بك من الشقاق والنفاق وسو الأخلاق ترجمہ : اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں عداوت سے نفاق سے
اور بد اخلاقی سے۔ (مشکوۃ شریف )
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ
کوفہ کی طرف تشریف لائے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے آقا علیہ السّلام
کا ذکر کیا فرمایا۔ آقا علیہ السّلام نہ تو بد زبان تھے، نہ بد زبانی فرماتے تھے ،
آقا علیہ السّلام نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔
(صحیح مسلم جلد سوم کتاب فضائل کا بیان)
جب بد اخلاقی کی اتنی
مذمت اور یہ اتنی بری چیز ہے تو اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے اخلاق اختیار
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور برے اخلاق سے بچنے اور ہمیشہ اچھے اخلاق پر عمل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
آج رات جانشین امیر اہلسنت فیضان مدینہ آفندی ٹاؤن
میں معتکفین سے ملاقات کریں گے

خلیفۂ
امیر اہلسنت مولانا حاجی عبید رضا عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی کی آج
رات مدنی مرکز فیضان مدینہ آفندی ٹاؤن حیدر آباد میں تشریف آوری ہوگی۔ جانشینِ
امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ فیضان مدینہ
اور شہر بھر میں ایک ماہ اور 10 دن اعتکاف کرنے والوں عاشقان رسول سے ملاقات
فرمائیں گے۔
اعتکاف
کرنے والے تمام عاشقان رسول پابندیٔ وقت کا خیال رکھتے ہوئے نماز عشاء فیضان مدینہ
میں ادافرمائیں۔ فیضان مدینہ میں عشاء کی نماز 8:15 بجے ادا کی جائے گی۔
محمد اریب (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنز الایمان ، کراچی پاکستان،پاکستان)

اچھے اخلاق بندے کی سعادت
مندی کا پتہ دیتے ہیں اور برے اخلاق دین و دنیا کے نقصانات میں کوئی کسر نہیں
چھوڑتے۔ بد اخلاقی سے انسان کا وقار معاشرے میں ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔
بد اخلاقی کی تعریف :
امام غزالی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے
ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ
ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
کسی بھی چیز سے بچنے اور
بچانے کے لیے اس کی مذمت اور نقصانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور احادیث میں بھی
بد اخلاقی کی مذمت اور نقصانات وارد ہوئے ہیں جن میں سے ذیل میں کچھ بیان کی جائیں
گی۔
(1) عمل کو برباد
کرنے والا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بد اخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے
سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
(2) سب سے برا شخص : رسول کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بداخلاقی برا شگون ہے اور تم میں بدترین
وہ ہے جس کا اخلاق سب سے برا ہے۔
(3) بد اخلاق کی توبہ
نہیں : حضور پر نور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی توبہ نہیں،
کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔
(4) بدصورت شخص: شفیع المذنبین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :اگر بداخلاقی انسان (کی شکل میں )ہوتی
تو وہ شخص سب سے بدصورت ہوتا اور بے شک اللہ پاک نے مجھے بد کلامی کرنے والا نہیں
بنایا۔
(5) تنہا رہ جانے
والا شخص: جود و سخاوت کے پیکر صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کا اخلاق برا ہو گا وہ
تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا بدن بیمار ہو جائے گا اور جو
لوگوں کو ملامت کریگا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت ختم ہو جائے گی۔
(6)جنت میں داخل نہ
ہوگا : محسن انسانیت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بد
اخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا ۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال ، 1/266)
(7) بری عادت: محبوب رب العزت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لوگ مختلف چیزوں کے سرچشمے ہیں اور باپ دادا
کی عادتیں اولاد میں ضرور منتقل ہوتی ہیں اور بے ادبی بہت بری عادت کی طرح ہے۔
اللہ ہمیں بد اخلاقی جیسی
بری خصلت سے محفوظ فرمائے۔
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین راولپنڈی،پاکستان)

امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ بد اخلاقی کی تعریف کرتے ہوئے
فرماتے ہیں کہ : نفس میں ایسی کیفیت کا موجود ہونا جس سے باآسانی بغیر غور وفکر کے
ایسے بُرے افعال واقع ہوں جو عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں ، تو اسے
بداخلاقی کہتے ہیں۔ (احیا ءالعلوم مترجم،3 /165،ملخصاً)
ہمارے معاشرے میں ایک
بڑھتی ہوئی وبا بداخلاقی ہے جو اپنے ساتھ اور بہت سے ہلاکت خیز امراض جیسا کہ
نفرتیں، عداوتیں، بغض، کینہ اور طرح طرح کی باطنی بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ اس برائی
کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ علمِ دین سے دوری ہے۔ کیونکہ جس شخص نے حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا کبھی مطالعہ ہی نہ کیا تو اسے کیا پتہ کہ ہمیں
اپنے معاشرے میں لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے؟ اسے کیا پتہ کہ حسنِ اخلاق پر
علمائے کرام نے کتنی اہم تعلیم ارشاد فرمائی ہے ؟ اسے کیا معلوم کہ ہم جس ہستی کو
چاہنے والے ہیں، جس ذات سے محبت کا بھرم بھرنے والے ہیں اس عظیم شخصیت کے اخلاق کے
بارے میں قراٰن مجید کتنے خوبصورت انداز میں فرما رہا کہ : وَ اِنَّكَ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)اسی
کمزوری کے سبب لوگ اخلاقیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور بد اخلاقی کا طوفان بہہ رہا
ہے۔ بد اخلاقی کی مذمت کے متعلق حسنِ اخلاق کے مالک کے چند فرامین پیش کیے جاتے
ہیں :
(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : بد
کلامی بد اخلاقی میں سے ہے، اور بد اخلاقی جہنم میں ( جانے کا سبب ) ہے ۔ (ابنِ
ماجہ، حدیث:4184)
(2) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی
اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)
(3) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں
: بے شک اللہ پاک کریم ہے اور کرم کو پسند فرماتا ہے، اور حسنِ اخلاق کو پسند
فرماتا ہے اور بداخلاقی و کمینگی کو ناپسند کرتا ہے۔ ( المستدرک ، حدیث:151)
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: بداخلاقی عمل کو اس طرح خراب کرتی ہے جیسے شرکہ شہد کو۔ (شعب الایمان، 6/247،
حدیث:8036)
(5) ایک مرتبہ بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن
وہ بد اخلاق ہے، اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (شعب
الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)
دورِ جدید میں سوشل میڈیا
کا استعمال بہت عروج پر ہے اور اس کے ذریعے بداخلاقی کی نئی صورتیں بھی متعارف ہوئیں
ہیں، مثلاً: (Pranks) کے نام پر
لوگوں کو اذیت پہنچانا اور انہیں سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع پر لگا دینا اور انہیں
شرمندگی کا سامان بنانا ، کسی کی خفیہ طور پر ایسی خلافِ شرع تصویر یا ویڈیو بنا
کر لوگوں کو دکھانا جو شرمندگی اور بے عزتی کا باعث بنے ، کسی بھی مشہور شخصیت
خواہ دینی ہو یا دنیاوی انکی تصاویر کو خلافِ شرع طور پر تبدیل کر کے بگاڑنا اور
لوگوں کے لیے ہنسی مزاق کا سامان بنانا ، جالی و غلط شناخت کے ساتھ لوگوں کو تنگ
کرنا ، لوگوں کی ذاتی معلومات وغیرہ کو خلافِ شرع اور غیر قانونی طریقے سے چوری
کرنا اور پھر ان کا غلط استعمال کرنا، وغیرہ۔ اس طرح کی اور بے شمار بد اخلاقیاں
معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہیں، جن سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اور لوگوں کو بھی بچانا
ہے۔ لہذا بداخلاقی سے بچنے اور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ سیکھنے اور سکھانے کے
لیے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت اور فرامینِ مبارکہ کے مطالعہ کی
اشد ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہمیں بداخلاقی اور تمام تر باطنی امراض سے نجات عطا فرمائے۔
اٰمین

پیارے بھائیوں نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کے اخلاق
معاملات درست کریں برے اخلاق کا خاتمہ فرمائے اور معاشرے میں بہترین اخلاق پیدا
کریں مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں بد اخلاقی عام ہوتی جا رہی ہے۔ پیارے
بھائیوں ! برے اخلاق میں رنج و غم کے سوا کچھ نہیں اور اچھے اخلاق میں حسن ہی حسن
ہے ۔
(1) ایک شخص نے بارگاہ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
انسان کو دی گئی سب سے بہترین چیز کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق۔( معجم اوسط )
(2) حضرت علی رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: حسنِ اخلاق 3 چیزوں کا نام ہے (1) حرام سے اجتناب (2) حلال کا حصول
اور (3) اہل عیال پر خرچ میں کشادگی کرنا ۔( احیاءالعلوم، جلد 3 )
پیارے بھائیوں ! بد
اخلاقی رشتے توڑنے کا سبب بنتی بد اخلاق بندے سے لوگ بات کرنا پسند نہیں کرتے بد
اخلاقی کی مذمت پر کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں 2 پیش خدمت ہیں:
(1) حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی
اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا: جن میں 3
باتوں میں سے ایک بھی نہ پائی جائے تو وہ اپنے کسی بھی عمل کے ثواب کی امید نہ
رکھے (1) حرام کاموں سے روکنے والا تقویٰ (2) بےوقوفوں سے روکنے والا حلم (3) ایسا
حسنِ اخلاق جس کے ساتھ وہ معاشرے میں زندگی بسر کرے ۔( شعب الایمان )
(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان
عالیشان ہے : بے شک برا اخلاق عمل کو اس طرح خراب کرتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب
کرتا ہے۔ ( المعجم اوسط )
پیارے بھائیوں ! برے
اخلاق انسان کو کسی قابل نہیں چھوڑتے، ہر شعبے میں انسان کو ذلیل و خوار کر دیتے
ہیں۔ ہمارے بزرگان دین ہمیشہ اچھے اخلاق کو اپناتے اور برے اخلاق کی ہمیشہ مذمت
فرماتے، برے اخلاق کی مذمت پر بزرگانِ دین کے کچھ اقوال پیش خدمت ہیں:۔
(1) حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: جس انسان کا اخلاق برا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا
کرتا ہے۔
(2) حضرت سیدنا وہب بن منبہ
فرماتے ہیں بد اخلاق انسان کی مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح جو قابل استعمال نہیں
رہتا ۔
(3) حضرت فضیل بن عیاض رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر کوئی اچھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق سفر ہو یہ مجھے
اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی بد اخلاق عابد میرا رفیق سفر ہو۔
(4) حضرت سیدنا عبد الله بن
مبارک کے ساتھ سفر میں ایک بد اخلاق آدمی شریک ہو گیا آپ اس کی بد اخلاقی پر صبر
کرتے اور اس کی خاطر مدارات کرتے وہ جب جدا ہو گیا تو آپ رونے لگ گئے کسی نے رونے
کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں اس پر ترس کھا رہا ہوں کہ میں تو اس سے الگ ہو گیا
لیکن اس کی بد اخلاقی اس سے الگ نہ ہوئی۔ ( احیاء العلوم)

اللہ پاک نے انسان کو
پیدا فرمایا اور اس کو اشرف المخلوقات کا مرتبہ عطا فرمایا اس کو بےشمار خوبیوں سے
نوازا۔ ان میں سے ایک خوبی حسنِ اخلاق ہے۔ اللہ پاک نے یہ وصف اپنے محبوب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا فرمایا۔ اس کا تذکرہ قراٰن پاک میں فرمایا یہاں تک
کہ آپ کے اس وصف کا ذکر تورات و انجیل میں بھی ملتا ہے۔
حسنِ اخلاق انسان کی ذات
کو خوبصورت بناتا ہے اور اس کے سبب معاشرہ میں اس کا ایک بہترین مقام ہوتا ہے۔ لوگ
حسنِ اخلاق کے پیکر سے محبت کرتے ہیں اس کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔حسنِ اخلاق کی
جس قدر اہمیت ہے اس کے برعکس بداخلاقی کو اتنا ہی برا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بد
اخلاقی کے دینی و دنیاوی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔
میاں بیوی میں بد اخلاقی
کے سبب طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔دوستوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔ بہن بھائیوں
میں محبت ختم ہو جاتی ہے اور خاندانوں میں جدائیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آئیے بد
اخلاقی کے متعلق نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات ملاحظہ کرتے
ہیں۔
چنانچہ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو
وہ بہت برا آدمی ہوتا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،الفصل الاول،حدیث: 7351)
ایک اور مقام پر نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بُرے
اَخْلاق ہیں۔(جامع الاحادیث، 19/406،حدیث: 14922)
مزید فرمایا: بے شک بے
حیائی اور بد اخلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔(مسند احمد حدیث ابی
عبد الرحمن، 7/431،حدیث: 20997)
بد اخلاق انسان اس صفتِ
بد کے سبب گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور اگر ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس
صفت بد کے سبب اس سے بڑے گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: بداَخْلاق ایک گُناہ سے تَوبہ کرتا ہے تو
اُس سے بدتَر گُناہ میں گِرفتار ہوجاتا ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، قسم الاقوال،2/
375، حدیث: 6064)
بد اخلاقی ایسی منحوس صفت
ہے کہ خود نبی کریم علیہ الصلوۃ والسّلام نے بھی اپنی دعا میں اس سے پناہ طلب
فرمائی ہے۔
چنانچہ ترمذی شریف کی
حدیث مبارکہ میں ہے: كَانَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ
بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلاَقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ ترجمہ۔ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں برے اخلاق، برے
اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔(الترمذی، محمد بن عيسى، سنن الترمذی
،ت بشار،5/467)
ایک حدیث مبارکہ میں تو
بداخلاق کو بدترین بندہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اللہ
پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور متکبر ہے۔ (مسند
امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم، 9/ 120، حدیث: 23517)
پیارے اسلامی بھائیو! ان
احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بداخلاقی کتنی بری صفت ہے اور دنیا و آخرت میں
تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس کی نحوست سے محفوظ
فرمائے۔

لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق
سے پیش آنا تمام انبیا علیہم السّلام کی سنت ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ایک وصف "خلق عظیم "بھی ہے ۔اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ
لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا
تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے
خالقِ حسن واَدا کی قسم
نبی آخرالزماں صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں بھی اچھے اخلاق سے پیش آنے کی تعلیم ارشاد فرمائی ہے۔ اس
کے برعکس بداخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے۔بداخلاقی کی مذمت بیان کرنے سے قبل اس کی
تعریف جان لیتے ہیں۔
بداخلاقی کی تعریف: امام غزالی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسےحسنِ اخلاق کہتے ہیں
اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ
ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ)
یعنی ایسے افعال کا صدور
جو شرعاً ناپسندیدہ ہوں بداخلاقی کہلاتا ہے۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں حسنِ اخلاق سے پیش آنے اور بداخلاقی سے بچنے کا حکم ارشاد
فرمایا ہے اور بداخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے۔
ذیل میں چند احادیث طیبہ
اس کے متعلق ذکر کی جاتی ہیں۔
(1)آقا کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خَصْلَتَانِ
لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ: الْبُخْلُ، وَسُوءُ الْخُلُقِ ترجمہ! دو خصلتیں مؤمن
میں اکھٹى نہیں ہوسکتیں، بخل اور بداخلاقى ۔ (جامع الترمذى ،باب ما جا ٕ فی الخیل،
حدیث: 1962) یعنی یہ دو ایسی مکروہ و مذموم صفات ہیں کہ کسی کامل ایمان والے میں
جمع نہیں ہو سکتیں۔
(2)حضور جان جاناں صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اَلْخُلُقُ
الْحَسَنُ یُذِیْبُ الْخَطَایَا کَمَا یُذِیْبُ الْمَائُ الْجَلِیْدَ وَالْخُلُقُ
السُّوْ ءُ یُفْسِدُ الْعَمَلَ کَمَا یُفْسِدُ الْخَلُّ الْعَسَلَ ترجمہ! حسنِ اخلاق خطاؤں
کو اس طرح پگھلاتا ہے جیسے پانی برف کو پگھلاتا ہے جبکہ بداخلاقی عمل کو اس طرح
برباد کرتی ہے جیسے سرکہ شہدکو خراب کر دیتا ہے۔ (معجم کبیر ، 10 / 319 ، حدیث : 10777)
بد زبانی بھی برے اخلاق
میں سے ہے اور اس کے متعلق وعید شدید حدیث نبوی میں وارد ہوئی ہے۔
(3)آقا حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَا
شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ
حَسَنٍ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ ترجمہ: قیامت کے دن مؤمن
کے میزان میں اخلاق حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اور اللہ پاک بےحیا، بدزبان
سے نفرت کرتا ہے۔(جامع الترمزی،ابواب البر والصلۃ،حدیث :2002)
ذکر کردہ احادیث سے یہ
امر واضح ہے کہ بداخلاقی ایسی بری صفت ہے جو کامل مؤمن میں نہیں ہو سکتی اور اللہ
پاک بھی اس صفت سے متصف اشخاص سے نفرت فرماتا ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے
کہ وہ ہمیں برے اخلاق سے بچائے اور اخلاق حسنہ سے مالامال فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عطاء بن محمد شہزاد(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ جمالِ مصطفی ،کراچی،
پاکستان)

کسی بھی معاشرے کی ترقی و
بقا اور استحکام کے لیے اخلاق کی وہی اہمیت ہے جو انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی،
کہ جس معاشرے سے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں تو وہ کبھی بھی تہذیب و ترقی اور استحکام
حاصل نہیں کر سکتا دنیا میں ترقی اچھے اخلاق والوں کا ہی مقدر ہوتی ہے جبکہ برے
اخلاق والے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔
اخلاق کے ساتھ معاشرے کے
امن و سکون اور بگاڑ کا بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے کہ اچھے اخلاق سے بگڑے ہوئے لوگ بھی
سدھر جاتے ہیں جبکہ برے اخلاق سدھرے ہوئے لوگوں کو بھی بگاڑ دیتے ہیں۔
ہمارے پیارے نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اخلاق کے ایسے بلند مرتبے پر فائز تھے کہ لوگ آپ کے حسنِ
اخلاق کی وجہ سے ایمان لے آتے تھے، چنانچہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً
عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)
رحمتِ کونین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دنیا میں تشریف آوری کا ایک مقصد اخلاق کی تکمیل بھی تھا
چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: مجھے اچھے اخلاق
کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،2/466،حدیث:4866)
مگر افسوس! آج اخلاق کی
کمی ہماری زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے خواہ وہ عبادات سے تعلق رکھتا ہو یا
معاملات سے، صدق و عدل کا ہو یا تعلیم و تربیت کا تقریباً ہر جگہ یہ فقدان دکھائی
دیتا ہے یاد رکھیے! جب بد اخلاقی کسی انسان کے کردار میں داخل ہو جاتی ہے تو وہ نہ
صرف اسے بلکہ اس کی آخرت بھی برباد کر دیتی ہے بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے
ہوتے ہوئے نیکیوں کی کثرت بھی نفع نہیں دیتی۔
بد اخلاقی صرف کسی کو
گالی دینے کا نام نہیں بلکہ جھوٹ، غیبت، دھوکہ دینا نیز اللہ پاک کی ہر نافرمانی
بد اخلاقی ہی کی قسم ہے۔
احادیث مبارکہ میں بد
اخلاقی کی مذمت کچھ یوں بیان کی گئی ہے:
(1)حضرت جابر رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک تم
میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک تر وہ لوگ ہوں گے جو تم
میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں۔ اور تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسند
اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہونگے جو برے اخلاق والے ہیں، جو
زیادہ باتیں کرنے والے منہ پھٹ، باچھیں اور منہ بھر کر باتیں کرنے والے ہیں (سنن
ترمذی، ص 488 ،حدیث:2018)
(2) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حسنِ اخلاق
سے زیادہ بھاری کوئی شے نہیں ہوگی، بیشک اللہ پاک فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند
فرماتا ہے۔ (سنن ترمذی،ص486،حدیث:2002)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان سے ہے اور ایمان والا جنت میں جائے
گا اور فحش گوئی برائی سے ہے اور برائی والا جہنم میں جائے گا۔ (سنن ترمذی،ص487،حدیث:
2009)
(4) حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: متکبر اور بد اخلاق جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
(سنن ابی داؤد، 2/554، حدیث:4801)
(5) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کی یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاقی۔ (شعب الایمان، 10/378،حدیث:7657)
اے عاشقانِ رسول! زبان کی
حفاظت بہت ضروری ہے کیونکہ اکثر نقصانات اسی کی وجہ سے ہوتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ
زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر ہڈیاں تڑوا دیتی ہے، زبان تلوار نہیں مگر خون بہا دیتی
ہے۔
اللہ پاک ہمیں زبان کی
آفتوں اور بد اخلاقی جیسی نحوست سے محفوظ فرمائے۔
محمد احمد رضا عطاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ: فیضانِ خلفائے راشدین بحریہ
ٹاؤن اسلام آباد،پاکستان)

(1)شہنشاہِ خوش خصال پیکرِ
حسن و جمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان: بداخلاقی عمل کو اس
طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کشف الخفاء ،1/522،حدیث:1498)
(2)حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بد اخلاقی برا شگون ہے، عورتوں کی اطاعت
ندامت ہے اور درگزر کرنا اچھی عادت ہے۔
(3) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بداخلاقی برا شگون ہے اور تم میں بدترین
وہ ہے جس کا اخلاق سب سے برا ہے۔
(4)نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے : جب تم یہ بات سنو کہ کوئی پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ گیا ہے تو اس
بات کی تصدیق کر دو اور جب یہ سنو کہ کسی شخص نے اپنا اخلاق بدل لیا ہے تو ہر گز
اس بات کی تصدیق نہ کرنا کیونکہ بندہ اپنی عادت پر ہی قائم رہتا ہے۔
(5)سیدالمبلغین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی
توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ
جاتا ہے۔ (جامع الاحادیث للسیوطی، قسم الاقوال،2/375،حدیث:6064)
(6)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے اللہ پاک کے نزدیک بد اخلاقی کے علاوہ ہر گناہ
کی توبہ ہے کیونکہ بداخلاق آدمی جب ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ کا
مرتکب ہوجاتا ہے۔ (کنزالعمال کتاب اخلاق قسم الاقوال فصل الترہیب،3/178، حدیث: 7352)
عبدالرحمٰن سلیم عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی،پاکستان)

بد اخلاقی دنیاوی اور
اخروی دونوں اعتبار سے ہی بہت بری خصلت ہے ۔بداخلاق انسان کی ہر مہذب معاشرے میں
مذمت کی جاتی ہے ۔اور بلاشبہ اسلامی معاشرہ تو تمام معاشروں میں سب سے زیادہ مہذب
اور خوبصورت معاشرے میں سے ہیں ۔اسی وجہ سے ہمارے اسلام نے ہمیں اچھے اخلاق اپنانے
اور برے اخلاق چھوڑنے کی بھی تعلیم دی ہے ۔آئیں ان تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں
۔لیکن اس سے پہلے ہم بداخلاقی کی تعریف ذہن نشین کر لیتے ہیں کہ بد اخلاقی کہتے
کسے ہیں ۔ چنانچہ امام غزالی (رحمۃُ اللہ علیہ) فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود
ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور
پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا
ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا
ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ)
بداخلاق کی مذمت پر
احادیث طیبہ:(1) حسنِ اخلاق کے پیکر، اللہ
پاک کے آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا: تم میں سے مجھے
سب سے پیارا اور قیامت کے دن مجھ سے بہت قریب تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے اور تم
میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے اخلاق والے ہیں جو زیادہ بولنے و
الے منہ پھٹ فراخ گو متکبر ۔(مراة المناجیح، جلد 6 ،حدیث: 4797)شرح حدیث :مفسر شہیر حکیم الامت
مفتی احمد یار خان (رحمۃُ اللہِ علیہ)
نے حدیث پاک کے اس حصہ(اور تم میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے
اخلاق والے ہیں)کے تحت تحریر فرمایا: کیونکہ بدخلق اکثر بدعمل ہوتے ہیں بدخلقی خود
بھی بدعملی ہے اور بہت سے بدعملیوں کا ذریعہ۔جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بدمعاملگی سب
ہی بد اخلاقی کی شاخیں ہیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 ،حدیث:4797 )
(2)حسنِ اخلاق کے پیکر، تمام
نبیوں کے سرور، اللہ کے آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا:
حسنِ اخلاق خطاؤں کو اس طرح پگھلاتا ہے جیسے پانی برف کو پگھلاتا ہے جبکہ بداخلاقی
عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہدکو خراب کر دیتا ہے۔ (معجم کبیر ، 10
/ 319 ، حدیث : 10777)حضرت علامہ مولانا عبدالرؤف مناوی شافعی (علیہ رحمۃُ اللہ
القوی) اس حدیثِ پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ حسنِ اخلاق کی
بدولت انسان سے بھلائی کے کام صادر ہوتے ہیں ، بھلائی کے کام نیکی ہیں اور نیکیاں
گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس فرمانِ عالیشان میں یہ اِشارہ ہے کہ بندہ حسنِ اخلاق
کی بدولت ہی تمام بھلائیوں اور بلند مقامات کو پانے پر قادر ہوتا ہے۔ اس حدیثِ پاک
کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ جَوَامِعُ
الْکَلِم (یعنی جامع ترین احادیث)
میں سے ہے۔ (فیض القدیر ، 3 / 675 ، تحت الحدیث : 4137)
(3) اللہ کریم کے آخری نبی (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے ارشاد فرمایا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہو سکتى،
وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع الترمذى ابواب البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل،4/343،
حدیث: 1962)
پیارے و محترم قارئین ہم
جس آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے امتی ہیں ان کے اخلاق کریمہ کے
بارے میں قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً
عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام الشاہ امام احمد رضا
خان (علیہ رحمۃُ الرحمٰن)نے حدائق بخشش میں کیا خوب نعت بیان کی ہے کہ ۔
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حسن واَدا کی قسم
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی
اپنے آخری نبی(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے اخلاقِ عظیمہ کی پیروی کریں اور
دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں ۔اٰمین