آج کے نوجوان کی تعلیم و تربیت نہایت اہم ذمہ داری ہے جس ذمہ داری پر ہر شخص قادر نہیں ہوتا سوائے پختہ ارادہ رکھنے والے کے اور استاذ ہی وہ ہستی ہے جو اس اہم کام کو انجام دیتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے طلبہ کی علمی، اخلاقی، اجتماعی طورپر تربیت کرکے نیک شہری بناتا ہے کہ جن پر آنے والے دنوں میں عوام امید کرسکتی ہے استاذ ہی خوشی و غمی میں امت کا سرمایہ ہوتا ہے جن کے ذریعہ علم کا پھول کھلتا ہے آئیے اس موضوع پر کچھ پڑھنے سے پہلے استاذ کی تعریف ملاحظہ کرتے ہیں : جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے ،یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذ کہتے ہیں۔

( 1 ) استاذ کا ادب و احترام: استاذ کا پہلا حق ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں ، کیونکہ استاذ کا ادب ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے چنانچہ ہمارے اسلاف کا ادب دیکھئے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے کبھی اپنے اساتذ کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے اور امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے کہ ادب و احترام کی وجہ سے میں اپنے استاذ کے سامنے کتاب کا ورق آہستہ الٹتا تھا ۔

ادب تعلیم کاجو ہر ہے زیور ہے جوانی کا وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں

( 2 ) استاذ کا حق :اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگرصلبی وجسمانی باپ ہے تواساتذہ روحانی باپ ،اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم۔یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں( ابن الصلاح (ت 643)، فتاوى ابن الصلاح65 )

( 3)اچھا سلوک: استاد بہترین سلوک کا حق دار ہے شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ استاد کے ساتھ عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں،اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے اس پر عمل پیرا ہوں گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں۔ کیونکہ استاذ کے سامنے احتراماً نگاہ جھکانے والا ہمیشہ سر اٹھا کر جیتا ہے استاد کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، تاکہ ان کی علمیت سے استفادہ کیا جاسکے۔ امام شافعی نے حصول علم کیلئے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا :أَخي لَن تَنالَ العِلمَ إِلّا بِسِتَّةٍ سَأُنبيكَ عَن تَفصيلِها بِبَيانِ ذَكاءٌ وَحِرصٌ وَاِجتِهادٌ وَبُلغَةٌ وَصُحبَةُ أُستاذٍ وَطولُ زَمانِ ۔جن میں سے ایک استاذ کی صحبت بھی ہے ۔

( 4 ) قوم کا محسن:استاد کی معاشرتی خدمات کے عوض اس کا حق ہے کہ اسے سوسائٹی میں اعلیٰ مقام دیا جائے۔کیونکہ استاذ افراد کی کردار سازی کا کام کرتا ہے ۔ افراد ہی سے قوم بنتی ہے اس لئے استاذ پوری قوم کا محسن ہوتا ہے ۔

علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال اللہ رب العزت ہے یقیناً ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے کیونکہ استاذ بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اٹھاتا ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی بلاشبہ استاذ ہی وہ شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے اللہ کریم عزوجل ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب کرنے والا بنائے آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے محترم اسلامی بھائیو! اسلام وہ عظیم دین ہے، جس نے حصولِ علم یعنی علم طلب کرنے کو ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے۔ اس کی اہمیت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے آقا و مولا محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ "اِقراء" یعنی پڑھیے پر مشتمل ہے۔ جس سے اسلام میں علم کی عظمت و اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے معلّم بنا کرمبعوث فرمایا۔ اس سے واضح ہوا کہ علم کی عظمت و اہمیت اپنی جگہ ،تاہم معلّم کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔معلم یعنی استاذ بلاشبہ عظیم ہستی اور انسانیت کی محسن ذات ہے، استاذ کی بڑی شان اور عظمت ہے، دنیا نے چاہے استاذ کی حقیقی قدر و منزلت کا احساس کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اس کی عظمت و شان کو اجاگر کیا، اس کے بلند مقام سے انسانوں کو آشنا کیا اور خود اس کائنات کے عظیم محسن میرے پیارے آقا مدینے والے مصطفی محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے طبقہ ٔ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا کہ

"میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں"۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی اس میں علم اور تعلیم ہی کا ذکر تھا۔” قراٰن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔(پ30،العلق:1، 2)

استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے، پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استاذ کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ پاک ،اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ،حدیث:2675)

یوں تو استاذ کے شاگردوں پر بہت سارے بہت سارے احسانات ہوتے ہیں جس کی بنا پر ایک شاگرد کامیابیوں کے منازل طے کرتا ہوا نظر آتا ہے بلاشبہ شاگرد کے اپنے استاذ پر بہت سارے حقوق ہے یہاں پانچ حقوق پیش کئے جا رہے ہیں :

(1) استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں۔

(2) اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔

(3)اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔

(4) استاذ کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے اس کے ہر حکم کی فوراً تعمیل کرے۔

(5) امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم فرماتے ہیں کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں: میں استاذ کے حق کو تمام حقوق پر مقدم سمجھتا ہوں اور ہر مسلمان پر اس کی رعایت واجب مانتا ہوں۔

حق تو یہ ہے کہ استاذ کی طرف ایک حرف سکھانے پر تعظیماً ایک ہزار درہم کا تحفہ بھیجا جائے۔ (راہ علم،ص29)

اللہ تبارک وتعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں اساتذہ کرام کا صحیح معنوں میں ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے سے ہمیں دین ودنیا کے ثمرات و فوائد نصیب فرمائے۔ آمین۔

ان ہی سے معطر ہوئے افکار ہمارے استاذ یہ قوموں کے ہے معمار ہمارے


استاذ علم کا سر چشمہ، معلم و مربی، علم کے فروغ کا ذریعہ اللہ پاک کا انعام و احسان ہے، دنیا میں بہت سارے رشتے ہوتے ہیں جو انسان سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ رشتے روحانی ہوتے ہیں انہی میں سے ایک استاذ کا رشتہ ہے۔ ایک استاذ ہی ہے جو ماں، باپ کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتے ہیں اور ہمیں اچھی زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں، صحیح اور غلط کا پہچان کرنا سکھاتے ہیں۔ دنیا میں جتنے رشتے ہیں ان سب میں سے ایک مقدس رشتہ استاذ اور شاگرد کا مانا جاتا ہے۔

لہٰذا استاذ کی اہمیت اور ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: اَنَا عَبْدُ مَنْ عَلَّمَنِیْ حَرْفًا وَّاحِدًا اِنْ شَآءَ بَاعَ وَاِنْ شَآءَ اَعْتَقَ وَاِنْ شَآءَ اسْتَرَقَّ یعنی جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (تعليم المتعلم طريق التعليم،ص78) ایک جگہ میرے آقا کريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استاذ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کیلئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے بھی تواضع اختیار کرو اور سرکش عالم نہ بنو۔(الجامع ا لاخلاق الراوی، 1/138، حدیث:42)

چنانچہ اسلاف کے ادب و احترام اور تعظیم کے بے شمار آثار اور واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں استاذ کی اہمیت کیا تھی۔ آج بھی مدارس اسلامیہ کی فضا میں استاذ کا ادب و احترام باقی ہے ان کی عزت و عظمت کی جاتی ہے اور مدارس کے طلبہ کے ذہن و دل پر یہ نقش ہے کہ استاذ کی شان میں معمولی درجہ کی بے ادبی نعمتِ علم اور سعادتِ دارین سے دوری کا سبب بن سکتی ہے۔ شاگرد کے لئے بےحد ضروری ہے کہ وہ اپنے استاذ کے حقوق کو پہچانے اور وہ اپنے استاذ کا ادب و احترام آخری دَم تک کرتا رہے۔

اسلام نے استاذ کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن میں یہاں پانچ حقوق بیان کئے جاتے ہیں:

(1)استاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ شاگرد ان کا ادب و احترام کریں ان کے ساتھ عزت، عاجزی اور انکساری سے پیش آئیں، ان کا کہنا مانیں اور وہ جو تعلیم دیں ان پر عمل پیرا ہوں۔

(2)استاذ سے بحث، ضد، غصے اور ناراضگی سے پرہیز کرنا، ان کی سختی اور ڈانٹ کو برداشت کرنا بلکہ نعمت سمجھنا۔

(3)گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جائے ان کی اجازت کے بغیر سوالات نہ کئے جائيں۔

(4)بغیر اجازت ان کی مجلس، درس یا کلاس سے باہر نہ جائیں، نہ ان کی قیام گاہ پر بیٹھا جائے۔

(5)استاذ کو تنگ کرنے کے لئے لَایعنی سوالات سے اجتناب کیا جائے ان کی عیب جوئی، غیبت یا بہتان درازی سے پر ہیز کیا جائے۔

مشورۃً عرض ہے کہ اپنے اساتذۂ کرام کے لئے دعائے خیر کرتے رہیں یہ بڑی سعادت مندی اور بڑی پسندیدہ بات ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے اساتذۂ کرام کی عزت، ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو اساتذۂ کرام حیات ہیں اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ و طفیل ان کے علم و عمل میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے اور انہیں درازیِ عمر بالخیر عطا فرمائے۔ اور جو اساتذۂ کرام دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنّتُ الفردوس میں بہترین انعام و اکرام سے نوازے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جشنِ ولادتِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے موقع پر افتتاحِ بخاری کا سلسلہ ہوگا

”دورۃ الحدیث شریف“ درسِ نظامی (عالم کورس)کی وہ عظیم کلاس ہے جس میں طلبائے کرام کو احادیثِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔اس کلاس کے آغاز میں صحاحِ ستہ کی سب سے بڑی کتاب ”بخاری شریف“ کے افتتاح اور سال کے آخر میں ختمِ بخاری کے لئے تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی جشنِ ولادت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے موقع پر 10 شوال المکرم 1444ھ بمطابق 30اپریل 2023ء بروز اتوار رات 09:15 بجے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ”افتتاح ِبخاری“کے لئے پُر وقار تقریب کا انعقاد کیا جائیگا۔ اس تقریب میں دورۃ الحدیث شریف پاکستان کے طلبائے کرام براہِ راست جبکہ دیگر مقامات پر قائم دورۃ الحدیث کے طلبہ و طالبات بذریعہ مدنی چینل شریک ہوں گے۔

افتتاحِ بخاری میں شیخِ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بخاری شریف کی پہلی حدیث پڑھ کر اس کی تشریح بیان فرمائیں گے۔

واضح رہے کہ اس پروگرام کو مدنی چینل پر بھی براہ راست نشر کیا جائیگا۔


وہ شخصیت جو سنگِ راہِ گزر کو آنکھوں کا تارا بنا دیتا ہے، جس کو دنیا کا کامیاب انسان کہا جاتا ہے، جس کی خدمت کو بڑے بڑے اپنی سعادت سمجھیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک استاد ہے۔ استاد کی عزت اور عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ کائنات کی سب سے افضل شخصیت، اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(ابن ماجہ، 1/151، حدیث: 229) دنیا کا کوئی شخص استاد کے بغیر کامیاب نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحصیلِ علم میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں استاد کی اتنی اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں۔ آئیے ان حقوق میں سے پانچ حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)استاد کو خود پر مقدم رکھنا: اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں: عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے برابر اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غَیبت (یعنی غیرموجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی بات کو رد نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ،23/637)

(2)استاد کو تکلیف دینے سے بچنا: طالبِ علم و شاگرد کو چاہئے کہ استاد کو تکلیف دینے سے بچے۔ جبکہ عام لوگوں کو بھی تکلیف دینے سے بچنے کا حکم ہے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا (پ22،الاحزاب:58) جب ایک عام مسلمان کو ایذا دینے کا بڑا گناہ ہے تو استاد کو تکلیف دینا کس قدر بُرا ہوگا۔

(3)استاد کے لئے عاجزی اختیار کرنا : طالب علم کو چاہئے کہ استاد کا ادب کرے اورا س کے لئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اس کی تعظیم بجا لائے حدیث ِ پاک میں ہے کہ سیّد ِعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کے لئے عاجزی اختیار کرو۔ (الجامع لاخلاق الراوی، ص230، حدیث:802)

(4)استاد کی باتیں غور سے سننا :شاگرد کو چاہئے کہ استاد کی گفتگو کو خوب توجہ اور غور سے سنے چنانچہ امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں: بے توجہی کے ساتھ سننے سے غلط فہمی کا سخت اندیشہ رہتا اور بسا اوقات ”ہاں “ کا ”نا“ اور ”نا“ کا ”ہاں“ سمجھ میں آتا ہے۔(علم و حکمت کے 125 مدنی پھول، ص70)

(5)استادکی شخصیت کا خیال رکھنا: استاد کا یہ حق کئی امور پر مشتمل ہے جیسا کہ مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کے فرمان کا خلاصہ ہے : استاد سے کثرت سوال سے بچنا، استاد کو کسی سوال کے جواب میں طعنہ نہ دینا، استاد کے تھک جانے پر اصرار نہ کرنا، استاد کے عیب ظاہر نہ کرنا، استاد کی غیبت سے بچنا، استاد کو کوئی حاجت ہو تو ا سے پورا کرنا۔(جامع بیان العلم وفضلہ، ص175)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے استاد محترم کا حق پہچاننے اور اس کو صحیح طور پر بجالا نے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رسم بسم اللہ یا بسم اللہ خوانی:

جب بچہ یا بچی چار سال چار ماہ چار دن کے ہوجائیں تو کسی بزرگ یا کسی اچھے عالمِ دین حافظِ قرآن سے بچے کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھوائی جائے۔

اسی سلسلے میں 26 اپریل 2023ء کو نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی کی پوتی ایمن عطاریہ کی رسمِ بسم اللہ ہوئی ۔ رسمِ بسم اللہ میں شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ایمن عطاریہ کو بسم اللہ شریف پڑھائی ۔ اس موقع پر امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے دعا بھی کروائی۔


دینِ اسلام جہاں محبت و اخوت، بھائی چارہ و برداشت ،احسان و قربانی ،سچائی و ایمانداری سکھاتا ہے وہی یہ پیارا دینِ اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے۔ کسی بھی چیز سے بچنے اور بچانے کے لیے اس کے نقصانات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور بد اخلاقی تو ایسی بری صفت ہے کہ اس کے دنیوی اور اُخروی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔

بد اخلاقی کے نقصانات بیان کرنے سے پہلے اخلاق کی تعریف ذہن نشین کرلیں۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ المدینہ)

بد اخلاقی کی مذمت پر احادیث کریمہ ملاحظہ فرمائیں : (1)حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)

(2)اَوَّلُ مَایُوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالسَّخَآءُ یعنی میزان میں سب سے پہلے حُسنِ اخلاق اور سخاوت کو رکھا جائے گا۔( المصنف لابن ابی شيبۃ)جب اللہ پاک نے ایمان کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی: اے رب! مجھے تقویت دے۔ تو اللہ پاک نے اسے حُسن اَخلاق اور سخاوت کے ذریعےتَقْوِیَت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو پیدا کیا تو اس نے کہا: اے رب! مجھے تقویت دے۔تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بداخلاقی کے ذریعے تقویت دی۔

(3)سُوْ ءُالْخُـلُقِ ذَنْبٌ لَّا یُغْفَرُ وَسُوْ ءُ الظَّنِّ خَطِیْـئَةٌ تَـنُوْجُ یعنی بد اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہے۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب ماجاء فی سوء الخلق من الکراهۃ،ص20، حدیث:7)

(4)اِنَّ الْعَبْدَ لَیَبْلُغُ مِنْ سُوْ ءِخُلُقِہٖ اَسْفَلَ دَرْکَ جَھَنَّمَ یعنی انسان اپنے بُرے اخلاق کے سبَب جَہَنَّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔( مساویٔ الاخلاق للخرائطی،باب ماجاء فی سوء الخلق من الکراهۃ، ص22، حدیث:12)

(5)بد اخلاقی عمل کو خراب کر دیتی ہے : شعب الایمان میں ہے کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے۔ جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان،باب فی حسنِ اخلاق،6/247، حدیث:8036)


عاشقانِ رسول کے دلوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لئے شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے 21صفحات کا رسالہ نیک بندوں کی شان پڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/ سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

یا ربَّ المصطفٰے! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ نیک بندوں کی شان پڑھ یا سُن لے اُسے اپنے نیک بندوں کی محبت و صحبت کی سعادت دے اور بے حساب بخش دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتمِ النّبیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری 28 اپریل 2023ء کو دینی کاموں کے سلسلے میں پاکستان سے بنگلہ دیش روانہ ہوچکے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ہونے والے اجتماعات میں بیانات ، ذمہ داران کے مدنی مشور ے اور شخصیات سے ملاقاتیں کرنا آپ کے شیڈول میں شامل ہے۔

نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری 28 اپریل تا 15 مئی 2023ء بنگلہ دیش کے ان شہروں کا دورہ کریں گے:

٭نیلفاماری(Nilphamari)، 28 تا 30 اپریل ٭ڈھاکہ(Dhaka)، یکم تا 03 مئی ٭چٹا گانگ(Chattogram)، 04 تا 07 مئی ٭کومیلا(Cumilla)، 08 تا 10 مئی ٭ڈھاکہ(Dhaka)، 11 تا 15 مئی۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حسنِ اخلاق ایمان کی اور بداخلاقی نفاق کی علامت ہے۔ بد اخلاقی کی مذمت پر قراٰن و حدیث شاہد ہیں لیکن یہاں چند احادیث بیان کرنا ضروری ہے تاکہ اس نحوست سے مسلمان محفوظ رہیں۔

(1)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔(مساوىٔ الاخلاق باب ما جاء فى سوء الخلق فی الكراهيۃ)( 2) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے ہم سب کو عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کہیں ہم بد اخلاقی کی وجہ سے مغفرت سے محروم نہ ہو جائیں۔ اللہ ہمیں حضورِ اکرم کے حسن اخلاق میں سے کروڑواں حصہ عطا فرمائے۔ اٰمین

(3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جس طرح سر کہ شہد کو خراب کر دیتا ہے ۔(شعب الايمان باب فی حسن الخلق)

حدیث میں آیا ہے کہ بداخلاقی عمل کو برباد کر دیتی ہے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے جیسے کہ ولید بن مغیرہ کے عمل اکارت ہو گئے کیونکہ وہ بد زبان تھا جیسا کہ رب نے فرمایا: عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ(۱۳)یہاں پر عُتُلٍّ کا معنیٰ ہے سخت مزاج۔ اس آیت میں اس کافر کے دو عیب بیان کئے گئے ہیں کہ وہ طبعی طور پر بد مزاج اور بد زبان ہے ، کیونکہ ولید بن مغیرہ بد اخلاق تھا۔ اس کا بد اخلاق ہونا قراٰن نے بیان کیا اسی بداخلاقی کی وجہ سے اس نے بارگاہ نبوی میں بے ادبی کی تو رب کائنات نے اس کی دس عیوب بیان کئے۔ الله ہمیں بد اخلاقی سے محفوظ رکھے۔ اٰمین

(4)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص میں تین یا ان میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے عمل کو کچھ بھی شمار نہ کرو:(1)تقوٰی جو اسے اللہ پاک کی نافرمانی سے روکے۔(2)تَحَمُّلجس کے ذریعے وہ خود کو بیوقوف سے دُور کرے۔ (3)اچھے اخلاق جن کے ذریعے لوگوں میں زندگی گزارے ۔( المعجم الکبير،23/ 308، حديث:695)

(5) حضرت سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے انسان اپنے حسنِ اخلاق کے سبب جنت کے اعلیٰ درجات پا لیتا ہے حالانکہ وہ کوئی عبادت گزار نہیں ہوتا اور انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے تک پہنچ جاتا ہے باوجود یہ کہ وہ عبادت گزار ہوتا ہے ۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اچھے اخلاق بندے کو جنت کے اعلیٰ درجات پر فائز کرتے ہیں اگر چہ وہ عبادت گزار نہ ہو لیکن بد اخلاقی بندے کو جہنم کے نچلے طبقے میں پہنچاتی ہے اگرچہ وہ عبادت گزار ہو۔


اخلاق ہی ایک ایسی چیز ہے جس میں جنت اور جہنم بھی ہے اگر ا خلاق اعلی و حسین اور لوگوں سے معاملات اور کردار اچھا ئی ہوئی اور اس بارے اللہ پاک کا خوف ہو گا تو یہی خوبی جنت میں جانے کا باعث بنے گی اور اگر خدا نخواستہ کردار میں اور اخلاق میں برائی ہوئی تو یہی خصلت (Habit) دوزخ بن جائے گی۔

برے اخلاق کی تباہ کاریاں:۔ (1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بد اخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔

(2) بد اخلاقی برا شگون ہے عورتوں کی اطاعت ندامت ہے اور درگزر کرنا اچھی عادت ہے۔ (4) بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بدا خلاق کی توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔

(5)اللہ پاک کے نزدیک بد اخلاقی کے علاوہ ہر گناہ کی توبہ ہے، کیونکہ بدا خلاق آدمی جب ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔(6) برا شگون بد اخلاقی ہے۔(7) اگر بد اخلاقی انسان (کی شکل میں )ہوتی تو وہ شخص سب سے بدصورت ہوتا اور بے شک اللہ پاک نے مجھے بد کلامی کرنے والا نہیں بنایا۔(8) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے: جس کا اخلاق برا ہو گا وہ تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا بدن بیمار ہو جائے گا اور جو لوگوں کو ملامت کرے گا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت ختم ہو جائے گی۔

(9) بد اخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا۔(10) لوگ مختلف چیزوں کے سر چشمے ہیں اور باپ دادا کی عادتیں اولاد میں ضرور منتقل ہوتی ہیں اور بے ادبی بہت بری عادت کی طرح ہے۔(11) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز شروع کرتے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَایَھْدِیْ لِاَحْسَنِھَآاِلَّآ اَنْتَ وَاَصْرِفْ عَنِّیْ سَیِّئَھَالَایُصْرِف سَیِّئَھَآ اِلَّآ اَنْتَ یعنی اے اللہ پاک! مجھے اچھے اخلاق کی رہنمائی فرما کیونکہ اچھے اخلاق کی رہنمائی تو ہی فرماتا ہے اور مجھ سے بُرے اَخلاق دور رکھ کیونکہ برے اخلاق سے تو ہی دور رکھتا ہے۔

(12)تاجدارِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں اور جو اپنے گھڑ والوں پر سب سے زیادہ نرمی کرنے والا ہو۔ (ترمذی) (13)حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ تو فحش گو تھے اور نہ ہی بدکلامی کرنے والے تھے اور فرمایا کرتے تھے: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو۔(بخاری)

(14) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لوگوں کی کثرت سے جنت میں داخل کرنے والے عمل کے بارے میں سوال کیا گیا: تو ارشاد فرمایا: خوفِ خدا اور حسن اخلاق ۔ پھر وہ عمل جو كثرت سے جَہَنَّم میں داخل کرے گا تو ارشاد فرمایا: منہ اور شرم گاہ۔(15) جس نے اپنی دو داڑھوں کے درمیان والی چیز یعنی (زبان) اور دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز یعنی (شرم گاہ) کی حفاظت کی وہ جنت میں داخل ہوگا ۔ (المعجم الکبیر مسند عن ابی رافع )

(16)حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (17)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی گئی کہ کونسے مومن کا اِیمان افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کا خلق سب سے بہتر ہوگا۔(المعجم الکبیر)

(18) قیامت کے دن مجھے سب سے زیادہ محبوب اور مجھ سے قریب تر وہ لوگ ہوں گے جو تم میں سے بہترین خلق رکھتے ہیں ۔ (ترمذی) (19)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں اس لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ عمدہ اَخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں ۔ (سنن الکبری للبیہقی) (20)تین خصلتیں ہیں جس شخص میں وہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے، اس کے کسی عمل کو شمار میں نہ لاؤ! پرہیزگاری جو اسے اللہ پاک کی نافرمانی سے باز رکھتی ہے، حلم جس سے وہ بیوقوف کو روک دیتا ہے، حسن خلق جس سے متصف ہو کر وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ (مکا شفۃ القلوب،ص 568)


دین اسلام نے اچھے اخلاق کی برکات اور برے اخلاق کے مذموم ہونے کو واضح انداز میں بیان فرمایا ہے چنانچہ اچھے اخلاق بہت خوبصورت صفات میں سے ایک صفت ہے اور یہ نہایت بلند و بالا عظیم مرتبہ والی صفت ہے اس کے ذریعے بندہ لوگوں کی دلوں پر حکومت کرتا ہے اور بہت سارے لوگ اس سے محبت کرنے والے بن جاتے ہیں اس کے ذریعہ معاشرتی مسائل گھریلو جھگڑوں کو آسانی سے حل کر لیتا ہے اور دینِ اسلام نے مسلمان شخص کے لئے اس صفت (اچھے اخلاق) کو ضروری قرار دیا ہے اور بد اخلاقی کو برے افعال (کاموں) میں شمار فرمایا ہے۔ یہ بہت بری مذموم صفت ہے اس سے ہمارا رب ہم سے ناراض ہوتا ہے۔ برے اخلاق والے شخص کو لوگ ناپسند کرتے ہیں اور معاشرہ میں اس کی عزت نہیں کی جاتی اور اس سے گھر و معاشرہ میں ناچاکی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب موضوع کی مناسبت سے احادیث ملاحظہ فرمائیے :

(1) مفلس شخص کون ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام نے عرض کیا: ہم میں مفلس وہ آدمی ہے جس کے پاس درہم و مال اسباب نہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز ،روزہ ،زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئیے جائیں گے۔ پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، 2/402)

(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے، اور فحش گوئی بداخلاقی میں سے ہے اور بداخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے۔(سنن الترمذی ،539/3، باب ما جاء في الحياء ، حديث:2009)

بد اخلاقی جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہے : حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔(شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)

اسی طرح بد اخلاقی و بد کرداری کی وجہ سے بندہ جہنم کا حقدار ہو جاتا ہے، اور بھی اس کی بہت ساری خرابیاں انسانی پر مرتب ہوتی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں: (1) بد اخلاقی و بد کرداری کی وجہ سے بندہ اپنے رب اور گھر معاشرہ اور رشتہ داروں سے دور ہو جاتا ہے

(2) بد اخلاق و بد کردار شخص ہمیشہ ندامت و شرمندگی والی زندگی بسر کرتا ہے (3) لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور مصیبت و آزمائش میں پڑ جاتا ہے۔

(4) خوشی سے محروم ہو کر ڈپریشن کا مریض ہو جاتا ہے سب سے بری بات یہ ہے کہ اللہ پاک اس پر لعنت فرماتا ہے۔ الامان والحفیظ

میرے پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم اپنی دنیوی واخروی زندگی آسان اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بد اخلاقی و بد کرداری جیسے برے کام سے بچ کر حسنِ اخلاق اور بہتر کردار بنانا ہوگا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بد اخلاق اور تمام برے کاموں سے بچائے اور حسنِ اخلاق کا پیکر بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم