استاذ علم کا سر چشمہ، معلم و مربی، علم کے فروغ کا ذریعہ اللہ پاک کا انعام و احسان ہے، دنیا میں بہت سارے رشتے ہوتے ہیں جو انسان سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ رشتے روحانی ہوتے ہیں انہی میں سے ایک استاذ کا رشتہ ہے۔ ایک استاذ ہی ہے جو ماں، باپ کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتے ہیں اور ہمیں اچھی زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں، صحیح اور غلط کا پہچان کرنا سکھاتے ہیں۔ دنیا میں جتنے رشتے ہیں ان سب میں سے ایک مقدس رشتہ استاذ اور شاگرد کا مانا جاتا ہے۔

لہٰذا استاذ کی اہمیت اور ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: اَنَا عَبْدُ مَنْ عَلَّمَنِیْ حَرْفًا وَّاحِدًا اِنْ شَآءَ بَاعَ وَاِنْ شَآءَ اَعْتَقَ وَاِنْ شَآءَ اسْتَرَقَّ یعنی جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کر دے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (تعليم المتعلم طريق التعليم،ص78) ایک جگہ میرے آقا کريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استاذ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کیلئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے بھی تواضع اختیار کرو اور سرکش عالم نہ بنو۔(الجامع ا لاخلاق الراوی، 1/138، حدیث:42)

چنانچہ اسلاف کے ادب و احترام اور تعظیم کے بے شمار آثار اور واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں استاذ کی اہمیت کیا تھی۔ آج بھی مدارس اسلامیہ کی فضا میں استاذ کا ادب و احترام باقی ہے ان کی عزت و عظمت کی جاتی ہے اور مدارس کے طلبہ کے ذہن و دل پر یہ نقش ہے کہ استاذ کی شان میں معمولی درجہ کی بے ادبی نعمتِ علم اور سعادتِ دارین سے دوری کا سبب بن سکتی ہے۔ شاگرد کے لئے بےحد ضروری ہے کہ وہ اپنے استاذ کے حقوق کو پہچانے اور وہ اپنے استاذ کا ادب و احترام آخری دَم تک کرتا رہے۔

اسلام نے استاذ کے بہت سے حقوق متعین کئے ہیں جن میں یہاں پانچ حقوق بیان کئے جاتے ہیں:

(1)استاد کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ شاگرد ان کا ادب و احترام کریں ان کے ساتھ عزت، عاجزی اور انکساری سے پیش آئیں، ان کا کہنا مانیں اور وہ جو تعلیم دیں ان پر عمل پیرا ہوں۔

(2)استاذ سے بحث، ضد، غصے اور ناراضگی سے پرہیز کرنا، ان کی سختی اور ڈانٹ کو برداشت کرنا بلکہ نعمت سمجھنا۔

(3)گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جائے ان کی اجازت کے بغیر سوالات نہ کئے جائيں۔

(4)بغیر اجازت ان کی مجلس، درس یا کلاس سے باہر نہ جائیں، نہ ان کی قیام گاہ پر بیٹھا جائے۔

(5)استاذ کو تنگ کرنے کے لئے لَایعنی سوالات سے اجتناب کیا جائے ان کی عیب جوئی، غیبت یا بہتان درازی سے پر ہیز کیا جائے۔

مشورۃً عرض ہے کہ اپنے اساتذۂ کرام کے لئے دعائے خیر کرتے رہیں یہ بڑی سعادت مندی اور بڑی پسندیدہ بات ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے اساتذۂ کرام کی عزت، ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو اساتذۂ کرام حیات ہیں اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ و طفیل ان کے علم و عمل میں بے پناہ برکتیں عطا فرمائے اور انہیں درازیِ عمر بالخیر عطا فرمائے۔ اور جو اساتذۂ کرام دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنّتُ الفردوس میں بہترین انعام و اکرام سے نوازے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم