آج کے نوجوان کی تعلیم و تربیت نہایت اہم ذمہ داری ہے جس ذمہ داری پر ہر شخص قادر نہیں ہوتا سوائے پختہ ارادہ رکھنے والے کے اور استاذ ہی وہ ہستی ہے جو اس اہم کام کو انجام دیتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے طلبہ کی علمی، اخلاقی، اجتماعی طورپر تربیت کرکے نیک شہری بناتا ہے کہ جن پر آنے والے دنوں میں عوام امید کرسکتی ہے استاذ ہی خوشی و غمی میں امت کا سرمایہ ہوتا ہے جن کے ذریعہ علم کا پھول کھلتا ہے آئیے اس موضوع پر کچھ پڑھنے سے پہلے استاذ کی تعریف ملاحظہ کرتے ہیں : جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے ،یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذ کہتے ہیں۔

( 1 ) استاذ کا ادب و احترام: استاذ کا پہلا حق ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں ، کیونکہ استاذ کا ادب ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے چنانچہ ہمارے اسلاف کا ادب دیکھئے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے کبھی اپنے اساتذ کے گھر کی طرف پاؤں دراز نہیں کیے اور امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے کہ ادب و احترام کی وجہ سے میں اپنے استاذ کے سامنے کتاب کا ورق آہستہ الٹتا تھا ۔

ادب تعلیم کاجو ہر ہے زیور ہے جوانی کا وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں

( 2 ) استاذ کا حق :اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگرصلبی وجسمانی باپ ہے تواساتذہ روحانی باپ ،اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم۔یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں( ابن الصلاح (ت 643)، فتاوى ابن الصلاح65 )

( 3)اچھا سلوک: استاد بہترین سلوک کا حق دار ہے شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھیں۔ استاد کے ساتھ عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں،اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے اس پر عمل پیرا ہوں گفتگو میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں۔ کیونکہ استاذ کے سامنے احتراماً نگاہ جھکانے والا ہمیشہ سر اٹھا کر جیتا ہے استاد کی صحبت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں، تاکہ ان کی علمیت سے استفادہ کیا جاسکے۔ امام شافعی نے حصول علم کیلئے چھ چیزوں کا ذکر فرمایا :أَخي لَن تَنالَ العِلمَ إِلّا بِسِتَّةٍ سَأُنبيكَ عَن تَفصيلِها بِبَيانِ ذَكاءٌ وَحِرصٌ وَاِجتِهادٌ وَبُلغَةٌ وَصُحبَةُ أُستاذٍ وَطولُ زَمانِ ۔جن میں سے ایک استاذ کی صحبت بھی ہے ۔

( 4 ) قوم کا محسن:استاد کی معاشرتی خدمات کے عوض اس کا حق ہے کہ اسے سوسائٹی میں اعلیٰ مقام دیا جائے۔کیونکہ استاذ افراد کی کردار سازی کا کام کرتا ہے ۔ افراد ہی سے قوم بنتی ہے اس لئے استاذ پوری قوم کا محسن ہوتا ہے ۔

علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال اللہ رب العزت ہے یقیناً ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے کیونکہ استاذ بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اٹھاتا ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی بلاشبہ استاذ ہی وہ شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتا ہے اللہ کریم عزوجل ہمیں اپنے اساتذہ کا ادب کرنے والا بنائے آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم