وہ شخصیت جو سنگِ راہِ گزر کو آنکھوں کا تارا بنا دیتا ہے، جس کو دنیا کا کامیاب انسان کہا جاتا ہے، جس کی خدمت کو بڑے بڑے اپنی سعادت سمجھیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک استاد ہے۔ استاد کی عزت اور عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ کائنات کی سب سے افضل شخصیت، اللہ پاک کے سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(ابن ماجہ، 1/151، حدیث: 229) دنیا کا کوئی شخص استاد کے بغیر کامیاب نہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحصیلِ علم میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جہاں استاد کی اتنی اہمیت ہے وہیں اس کے کچھ حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں۔ آئیے ان حقوق میں سے پانچ حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)استاد کو خود پر مقدم رکھنا: اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نقل فرماتے ہیں: عالم کا جاہل اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے برابر اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غَیبت (یعنی غیرموجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے اور اس کی بات کو رد نہ کرے۔(فتاویٰ رضویہ،23/637)

(2)استاد کو تکلیف دینے سے بچنا: طالبِ علم و شاگرد کو چاہئے کہ استاد کو تکلیف دینے سے بچے۔ جبکہ عام لوگوں کو بھی تکلیف دینے سے بچنے کا حکم ہے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا (پ22،الاحزاب:58) جب ایک عام مسلمان کو ایذا دینے کا بڑا گناہ ہے تو استاد کو تکلیف دینا کس قدر بُرا ہوگا۔

(3)استاد کے لئے عاجزی اختیار کرنا : طالب علم کو چاہئے کہ استاد کا ادب کرے اورا س کے لئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اس کی تعظیم بجا لائے حدیث ِ پاک میں ہے کہ سیّد ِعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جن سے تم علم حاصل کرتے ہو ان کے لئے عاجزی اختیار کرو۔ (الجامع لاخلاق الراوی، ص230، حدیث:802)

(4)استاد کی باتیں غور سے سننا :شاگرد کو چاہئے کہ استاد کی گفتگو کو خوب توجہ اور غور سے سنے چنانچہ امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں: بے توجہی کے ساتھ سننے سے غلط فہمی کا سخت اندیشہ رہتا اور بسا اوقات ”ہاں “ کا ”نا“ اور ”نا“ کا ”ہاں“ سمجھ میں آتا ہے۔(علم و حکمت کے 125 مدنی پھول، ص70)

(5)استادکی شخصیت کا خیال رکھنا: استاد کا یہ حق کئی امور پر مشتمل ہے جیسا کہ مولیٰ علی رضی اللہُ عنہ کے فرمان کا خلاصہ ہے : استاد سے کثرت سوال سے بچنا، استاد کو کسی سوال کے جواب میں طعنہ نہ دینا، استاد کے تھک جانے پر اصرار نہ کرنا، استاد کے عیب ظاہر نہ کرنا، استاد کی غیبت سے بچنا، استاد کو کوئی حاجت ہو تو ا سے پورا کرنا۔(جامع بیان العلم وفضلہ، ص175)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے استاد محترم کا حق پہچاننے اور اس کو صحیح طور پر بجالا نے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم