ایاز احمد عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان، ممبئی،ہند)
پیارے محترم اسلامی
بھائیو! اسلام وہ عظیم دین ہے، جس نے حصولِ علم یعنی علم طلب کرنے کو ایک دینی
فریضہ قرار دیا ہے۔ اس کی اہمیت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے آقا و مولا محمد
عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی وہ "اِقراء" یعنی پڑھیے پر مشتمل ہے۔ جس سے اسلام میں علم کی
عظمت و اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ
پاک نے معلّم بنا کرمبعوث فرمایا۔ اس سے واضح ہوا کہ علم کی عظمت و اہمیت اپنی جگہ
،تاہم معلّم کا مقام و مرتبہ سب سے بلند ہے۔معلم یعنی استاذ بلاشبہ عظیم ہستی اور
انسانیت کی محسن ذات ہے، استاذ کی بڑی شان اور عظمت ہے، دنیا نے چاہے استاذ کی
حقیقی قدر و منزلت کا احساس کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن اسلام نے بہت پہلے ہی اس کی
عظمت و شان کو اجاگر کیا، اس کے بلند مقام سے انسانوں کو آشنا کیا اور خود اس
کائنات کے عظیم محسن میرے پیارے آقا مدینے والے مصطفی محمد رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے طبقہ ٔ اساتذہ کو یہ کہہ کر شرف بخشا کہ
"میں معلم بناکر
بھیجا گیا ہوں"۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب سے پہلے جو وحی
نازل ہوئی اس میں علم اور تعلیم ہی کا ذکر تھا۔” قراٰن پاک میں اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا
آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔(پ30،العلق:1، 2)
استاد ہونا ایک بہت بڑی
نعمت اور عظیم سعادت ہے ۔معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی
ہے، پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استاذ کی
محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ پاک
،اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں
اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی ،حدیث:2675)
یوں تو استاذ کے شاگردوں
پر بہت سارے بہت سارے احسانات ہوتے ہیں جس کی بنا پر ایک شاگرد کامیابیوں کے منازل
طے کرتا ہوا نظر آتا ہے بلاشبہ شاگرد کے اپنے استاذ پر بہت سارے حقوق ہے یہاں پانچ
حقوق پیش کئے جا رہے ہیں :
(1) استاد کا پہلا حق یہ
ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں۔
(2) اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ
پیش آئیں۔
(3)اس کا کہنا مانیں اور
جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔
(4) استاذ کی ادنیٰ سی بے
ادبی سے بھی اپنے آپ کو بچائے اس کے ہر حکم کی فوراً تعمیل کرے۔
(5) امیرالمؤمنین حضرت
سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ
تعالٰی وجہَہُ الکریم فرماتے ہیں کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف
سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے، چاہے تو آزاد کر دے اور
چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں: میں استاذ کے حق کو
تمام حقوق پر مقدم سمجھتا ہوں اور ہر مسلمان پر اس کی رعایت واجب مانتا ہوں۔
حق تو یہ ہے کہ استاذ کی
طرف ایک حرف سکھانے پر تعظیماً ایک ہزار درہم کا تحفہ بھیجا جائے۔ (راہ علم،ص29)
اللہ تبارک وتعالٰی سے
دعا ہے کہ ہمیں اساتذہ کرام کا صحیح معنوں میں ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ان کے صدقے سے ہمیں دین ودنیا کے ثمرات و فوائد نصیب فرمائے۔ آمین۔
ان ہی سے معطر ہوئے افکار
ہمارے استاذ یہ قوموں کے ہے
معمار ہمارے