عبدالرحمٰن سلیم عطاری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی،پاکستان)
بد اخلاقی دنیاوی اور
اخروی دونوں اعتبار سے ہی بہت بری خصلت ہے ۔بداخلاق انسان کی ہر مہذب معاشرے میں
مذمت کی جاتی ہے ۔اور بلاشبہ اسلامی معاشرہ تو تمام معاشروں میں سب سے زیادہ مہذب
اور خوبصورت معاشرے میں سے ہیں ۔اسی وجہ سے ہمارے اسلام نے ہمیں اچھے اخلاق اپنانے
اور برے اخلاق چھوڑنے کی بھی تعلیم دی ہے ۔آئیں ان تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں
۔لیکن اس سے پہلے ہم بداخلاقی کی تعریف ذہن نشین کر لیتے ہیں کہ بد اخلاقی کہتے
کسے ہیں ۔ چنانچہ امام غزالی (رحمۃُ اللہ علیہ) فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود
ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور
پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا
ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا
ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ)
بداخلاق کی مذمت پر
احادیث طیبہ:(1) حسنِ اخلاق کے پیکر، اللہ
پاک کے آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا: تم میں سے مجھے
سب سے پیارا اور قیامت کے دن مجھ سے بہت قریب تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے اور تم
میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے اخلاق والے ہیں جو زیادہ بولنے و
الے منہ پھٹ فراخ گو متکبر ۔(مراة المناجیح، جلد 6 ،حدیث: 4797)شرح حدیث :مفسر شہیر حکیم الامت
مفتی احمد یار خان (رحمۃُ اللہِ علیہ)
نے حدیث پاک کے اس حصہ(اور تم میں سے مجھ کو بہت ناپسند اور مجھ سے بہت دور برے
اخلاق والے ہیں)کے تحت تحریر فرمایا: کیونکہ بدخلق اکثر بدعمل ہوتے ہیں بدخلقی خود
بھی بدعملی ہے اور بہت سے بدعملیوں کا ذریعہ۔جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بدمعاملگی سب
ہی بد اخلاقی کی شاخیں ہیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 ،حدیث:4797 )
(2)حسنِ اخلاق کے پیکر، تمام
نبیوں کے سرور، اللہ کے آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)نے ارشاد فرمایا:
حسنِ اخلاق خطاؤں کو اس طرح پگھلاتا ہے جیسے پانی برف کو پگھلاتا ہے جبکہ بداخلاقی
عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہدکو خراب کر دیتا ہے۔ (معجم کبیر ، 10
/ 319 ، حدیث : 10777)حضرت علامہ مولانا عبدالرؤف مناوی شافعی (علیہ رحمۃُ اللہ
القوی) اس حدیثِ پاک کے تحت تحریر فرماتے ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ حسنِ اخلاق کی
بدولت انسان سے بھلائی کے کام صادر ہوتے ہیں ، بھلائی کے کام نیکی ہیں اور نیکیاں
گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس فرمانِ عالیشان میں یہ اِشارہ ہے کہ بندہ حسنِ اخلاق
کی بدولت ہی تمام بھلائیوں اور بلند مقامات کو پانے پر قادر ہوتا ہے۔ اس حدیثِ پاک
کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ جَوَامِعُ
الْکَلِم (یعنی جامع ترین احادیث)
میں سے ہے۔ (فیض القدیر ، 3 / 675 ، تحت الحدیث : 4137)
(3) اللہ کریم کے آخری نبی (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے ارشاد فرمایا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہو سکتى،
وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع الترمذى ابواب البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل،4/343،
حدیث: 1962)
پیارے و محترم قارئین ہم
جس آخری نبی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے امتی ہیں ان کے اخلاق کریمہ کے
بارے میں قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً
عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4)اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام الشاہ امام احمد رضا
خان (علیہ رحمۃُ الرحمٰن)نے حدائق بخشش میں کیا خوب نعت بیان کی ہے کہ ۔
ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا تری خِلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالقِ حسن واَدا کی قسم
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی
اپنے آخری نبی(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے اخلاقِ عظیمہ کی پیروی کریں اور
دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں ۔اٰمین