محمد جمال قادری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان، ممبئی، ہند)

آج دنیا میں چاروں طرف بد
اخلاقی کا دور دورہ ہے مرد ہو یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، جوان ہو یا بوڑھا، الغرض
ہر طرف خوب زور و شور سے یہ برائی پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو بداخلاقی جیسی
گندی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین
آئیے پہلے بد اخلاقی کی
تعریف سنتے ہیں : اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے
ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ
ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
اب آئیے حدیث پاک کی
روشنی میں ملاحظہ فرماتے ہیں ۔(1) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا
، 9/ 369، حدیث : 24601)
(2) ایک شخص نے بارگاہِ رسالت
میں عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!مجھے نصیحت فرمائیے! تو آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تم جہاں بھی ہو اللہ پاک سے ڈرتے
رہو۔ اس نے عرض کی: مزید کچھ فرمائیے! ارشاد فرمایا: برائی کے بعد نیکی کرلو کہ وہ
برائی کو مٹادے گی۔ عرض کی: کچھ اور فرمائیے! ارشاد فرمایا: لوگوں کے ساتھ اچھے
اَخلاق سے پیش آؤ ۔ ( احیاء العلوم،3/154)
(3) حضرت سیدنا فضیل بن عِیاض
رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں
روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے پڑوسیوں
کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس
میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (احیاء العلوم،3/155)
(4)حضرت سیدنا جریر بن
عبداللہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:( اے جَرِیْر!)اللہ پاک نے تمہاری
صورت کو اچھا بنایا تو اپنے اخلاق کو بھی اچھا رکھو۔
(5)حضرت سیدنا بَراء بن
عازِب رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے
زیادہ حسین اور سب سے بڑھ کر حسنِ اخلاق کے مالک تھے۔
(6)حضرت سیدنا ابو مسعود بدری
رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں دُعا کیا
کرتے تھے: اَللَّھُمَّ حَسَّنْتَ
خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ یعنی اے اللہ پاک! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے
اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔
محمد ارشد عطاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان، ممبئی، ہند)

آج کل اس میں ترقی کے دور
میں فحش فنشن و فحش کلامی و بد اخلاقی و بدزبانی و بے حیائی وغیرہ اتنا عام ہو گیا
ہے کہ نہ بڑے چھوٹوں سے نہ چھوٹے بڑوں سے صحیح طریقے سے بات کرتے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ
دینِ اسلام جہاں محبت و بھائی چاره و برداشت و احسان و قربانی و سچائی و ایمان
داری سکھاتا ہے وہی یہ پیارا اسلام ہم کو دوسروں کی عزت و اکرام کرنا بھی سکھاتا ہے
بھر چاہے وہ کافر ہوں یا مشرک کسی سے بھی بداخلاقی کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن افسوس
لوگوں نے دین اسلام کی تعلیمات کو بھلا دیا اور بداخلاقی کی ایسی مثال پیش کرتے
ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو کوئی سچا مسلمان کبھی بھی نہیں کر سکتا ۔
آیئے اس کے تحت بداخلاقی
کی مذمت پر احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں تاکہ ہم اور آپ اس سے نصیحت حاصل کرے ۔
بد اخلاقی ایسی مذموم صفت
ہے جس کے سبب انسان کا وقار معاشرے میں ختم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے
والا ہے فحش گوئی بد اخلاقی کی ایک شاخ ہے اور بد اخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے
۔(جامع الترمذی کتاب البر والصلہ )
نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بد اخلاقی ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہیں ہوگی اور بد
گمانی ایسی خطا ہے کہ اس سے اور گناہ پیدا ہوتے ہیں ۔ (احیاء العلوم)
ایک اور جگہ نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بیشک بندہ اپنے برے اخلاق کی وجہ سے جہنم کے
سب سے پچھلے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دو خصلتیں
ایسی ہیں کہ جو منافق میں کبھی جمع نہیں ہو سکتی ہے اچھے اخلاق اور دین کی سمجھ ۔
(جامع ترمذی )
اے میرے اسلامی بھائیوں
آپ نے ابھی ابھی احادیثِ رسول کو سماعت فرمایا ۔ کہ بد اخلاقی کے ساتھ پیش آنے اور
بد اخلاق شخص کوآخرت و دنیا میں کیا ہوگا۔ ہمیں بھی چاہئے کے ہم ایک دوسرے کے ساتھ
اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے اور دینِ اسلام کی تعلیمات کو اپنے بچوں اور دوسروں کو
بھی سکھائے اور بداخلاقی سے خود بھی بچے اور دوسروں کو بھی بچائے۔ اللہ پاک سے دعا
ہے کہ ہمیں اور آپ کو دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عارف رضا عطّاری(درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ کنزالایمان، ممبئی، ہند)

بداخلاقی ایک ایسا قبیح و
مذموم فعل ہے جس کو معاشرے میں ہر طبقہ ، ہر مذہب ، ہر جگہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو
یا بوڑھا ہر ایک اس بد اخلاقی کو ناپسند کرتا ہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں ایک عجیب
فضا قائم ہوتی جا رہی ہے کہ جن کے بچے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں وہی اپنے ماں باپ یا
گھر والوں سے بد تمیزی و بداخلاقی سے پیش آتے دکھائی دے رہیں ہیں ، غرباء سے زیادہ
امراء کی یہ حالت ہے امیر حضرات غریبوں سے حتی کہ کسی بھی نچلے طبقے والے سے
بداخلاقی سے پیش آتے دکھائی دیتے ہیں چاہے وہ اس کے گھر کا خادم ہو یا بواب ، اسی
طرح اسکول یا یونیورسٹیز کا بھی یہی حال ہے کہ بچہ کبھی اپنے ٹیچرز سے بداخلاقی و
بد تمیزی سے بات کرتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی ٹیچرز اپنے اسٹوڈینٹ سے ۔ الغرض آپ
جس بھی شعبے میں جائیں وہاں کا یہی حال پائیں گے۔
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں
اور دین اسلام میں بد اخلاقی سے بچنے اور حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی بہت زیادہ
تاکید کی گئی ہے ۔ نیز خوش اخلاقی کی برکتیں اتنی زیادہ ہیں کہ غیر مسلم اس سے
متاثر ہوکر مشرف بہ اسلام ہو جاتے ہیں۔
حضور رحمۃ للعلمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مومنین
میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ۔
حسنِ اخلاق کے پیکر صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ
اپنے بھائی کی طرف ایسی نظر سے دیکھے جو اس کے لئے تکلیف کا باعث ہو۔
پہلی حدیث شریف سے تو ہمیں اچھے اخلاق سے پیش
آنے کی فضیلت معلوم ہوئی مگر دوسری حدیث شریف ہمارے لئے عبرت کا انبار ہے کیونکہ
جس شخص کو یہ روا نہیں صرف کہ وہ کسی مسلمان کو ایسی نظر سے دیکھے جس سے اس کو تکلیف
ہو تو ذرا غور تو کریں کہ اس کے لئے کیا حکم ہوگا جو مسلمانوں کو گالیاں دیتا ہے،
برا بھلا کہتا ہے، ذرا ذرا سی بات پر مار دھاڑ کرے یا کسی سے بد اخلاقی سے پیش آئے
۔ ہمیں چاہئے کہ کسی سے بداخلاقی و غصہ و طنز بھری نگاہوں سے دیکھنے اور گالیاں
دینے وغیرہ سے باز رہیں ۔
اللہ پاک سے دعا: ہمیں
بداخلاقی سے بچتے ہوئے زندگی گزارنے اور حسنِ اخلاق سے پیش آنے کی توفیق عطا فرما
کر ہمیں با ادب بنا دے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پیارے اسلامی بھائیو!
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری کا ایک مقصد یہ بھی
ہے کہ لوگوں کے اخلاق و معاملات کو درست کریں، ان کے اندر سے بُرے اخلاق کی جڑیں
اکھاڑیں اور ان کی جگہ بہتر اخلاق پیدا کریں چنانچہ حضور نبی پاک صاحب لو لاک سیاح
افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :مجھے اچھے اخلاق کی
تکمیل کے لئے بھیجا گیاہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی ، 343/10 ،حدیث: 20782)
جو لوگ ہر وقت گال پھلائے اور پیشانی پر بل ڈالے
ہوئے تیوری چڑھائے ہوئے ہر آدمی سے بداخلاقی کے ساتھ پیش آتے ہیں وہ بہت ہی بری خصلت
کے حامل ہوتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی سعادتوں اور خوش نصیبیوں سے محروم ہیں
جبکہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے لوگوں سے ملنا جلنا بہت بڑی سعادت
اور خوش نصیبی اور ثواب کا کام ہے۔ بد اخلاقی میں کراہیت ہی کراہیت اور خوش اخلاقی
میں حسن ہی حسن ہے لہذا ہر اسلامی بھائی کو چاہئے کہ اپنے گھر والوں ، رشتہ داروں
اور پڑوسیوں بلکہ ہر ملنے جلنے والے کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آئے۔ افسوس!
آج کل ہم میں سے اکثر کے گھروں میں مدنی ماحول بالکل نہیں ہے اس میں کافی حد تک
ہمارا اپنا بھی قصور ہے، گھر والوں کے ساتھ ہماری بے انتہا بے تکلفی ہنسی مذاق ،
تو تراق اور بد اخلاقی وغیرہ اس کے اسباب ہیں۔
ہم ہر ایک کے ساتھ خوش روئی اور خوش اخلاقی کے
ساتھ پیش آنا چاہیے، یہ وہ صفت ہے جس کے بارے میں حضور اکرم نور مجسم، سرور عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ تم سب مسلمانوں میں سب سے زیادہ
مجھے وہ شخص محبوب ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب صفة
النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، 489/2،حديث: 350)
اسی طرح ایک شخص نے
بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے
بہترین چیز جو اللہ پاک نے انسان کو عطا فرمائی ہے وہ کیا چیز ہے؟ تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق۔ (شعب الایمان للبیہقی، 200/2، حدیث: 1529)
سب سے زیادہ وزن دار نیکی
حضور اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن
مومن کے میزان عمل میں سب سے زیادہ وزن دار نیکی اچھے اخلاق ہوں گے۔ (سنن الترمذى
كتاب البر والصلة باب ماجاء في حسن الخلق )
اچھے اخلاق گناہ مٹا دیتے
ہیں حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک اچھے
اخلاق گناہ کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح سورج برف کو پگھلا دیتاہے۔(شعب الايمان
للبیہقی ، 247/1 ،حديث : 8032)
وزیر خان عطاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدينہ فیضان اولیا احمدآباد، ہند)

خلق کی تعریف: خلق (عادت) نفس میں راسخ
ایسی کیفیت کا نام ہے ۔جس کی وجہ سے اعمال بآسانی صادر ہوتے ہیں۔ غور و فکر کی
حاجت نہیں ہوتی۔(احیاء العلوم، 3 /
165 ،مکتبۃ المدینہ)
امام غزالی کے نزدیک حسنِ
اخلاق اور بد اخلاقی کی تعریف :اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال
اس طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق
کہتے ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر
ناپسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ
المدینہ)
بد اخلاقی ایک بہت بری
اور رذیل صفت ہے۔ جسے ہر کوئی شخص نا پسند کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس سے کنارہ
کش اختیار کرتے ہیں ۔ لوگوں کے نزدیک اس کا مرتبہ و وقار گر جاتا ہے ہر کوئی اس کے
شر سے بچنے کی وجہ اس کے منہ نہیں لگتا۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس مذمت وارد ہوئی
ہے ۔
(1)حضرت ابو ہریرہ سے روایت
ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کی گئی فلاں عورت رات کو قیام
کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے۔ اور صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو
تکلیف دیتی ہے۔ تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ
جہنمیوں میں سے ہے۔( شعب الایمان، 12 /
84 ،ناشر مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع)
(2) حضورصلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتل کرنا کفر
ہے۔(مشکٰوۃ المصابیح ،حدیث: 4814) اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی
فرماتے ہیں کہ یہاں کفر بمعنی کفرانِ نعمت یعنی ناشکری ہے ایمان کا مقابل یعنی بلا
قصور مسلمان کو برا بھلا کہنا اور بلا قصور اس سے لڑنا بھڑنا ناشکری ہے یا کفار سا
کام ہے۔ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے مارنا پٹنا یا ناجائز جنگ کو حلال سمجھ کر کرنا
کفر و بے ایمانی ہے۔ (مرآت المناجیح، 6 /
355 ،نعیمی کتب خانہ گجرات)
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد
فرمایا کہ بد اخلاقی بے برکتی ہے اور تمہارے برے اخلاق وہ ہیں جو زیادہ بد اخلاق
ہیں ( کنز العمال کتاب البر ،حدیث: 7345)
(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ برے اخلاق ایمان کو اس طرح برباد کر دیتے ہیں جیسے
سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 10 /
386 ،ناشر مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع)
(5) پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کہ مومن میں دو
خصلتیں جمع نہیں ہو سکتی ہیں: بخل اور بداخلاقی۔ (جامع ترمذی ، 2 / 18 مجلسِ
البرکات الجامعۃ الاشرفیہ)
معاشرے میں اس کے
اثرات: بد اخلاقی وجہ سے آج ہر
رشتہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے بھائی بھائی سے جدا ہے بچے والدین سے دور بھاگتے ہیں ۔
ہر ما تحت اپنے افسر کے پاس جانے سے خوف کھاتا ہے کوئی بھی انسان دوسرے کی ترقی کو
پسند نہیں کرتا اور علما کی بد اخلاقی کی وجہ سے دین کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے ۔
تعلیم کا معیار کم ہو رہا ہے ۔
ان کا حل: انسان کو چاہیے کہ اچھا
رویہ اختیار کرے خندہ پیشانی سے ملاقات کرے۔ عالم دین مسئلہ بتانے میں نرم لہجہ
اختیار کرے برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے پڑوسیوں سے حسن سلوک کیا جائے ۔ اور
نیکی کی دعوت کو عام کیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔
محمد ناظم عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان امام احمد رضا حیدر آباد،
ہند)

بد اخلاقی ایسی مذموم صفت
ہے جو معاشرہ میں بغض، حسد، کینہ پیدا کرتی ہے اس کی وجہ سے بسا اوقات میاں بیوی
کے درمیان طلاق کی نوبت آجاتی ہے، بد اخلاق سے کوئی بھی شریف آدمی بات کرنا پسند
نہیں کرتا احادیث کریمہ میں بھی بد اخلاقی کی مذمت بیان کی گئ ہے جن میں سے چند
ملاحظہ ہوں۔
بد اخلاق جہنمی ہے : حضرت سیدنا فضیل بن
عِیاض رحمۃُ الله علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن
میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ،اپنی زبان سے
پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ ( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار،
7/78، حدیث: 9545)
بد اخلاقی نحوست ہے: بارگاہِ رسالت میں عرض کی
گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ،
مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)
بد اخلاقی کفر کو تقویت
دیتی ہے: جب اللہ پاک نے ایمان کو
پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی اے رب مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے حسنِ اخلاق
اور سخاوت کے ذریعہ تقویت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو پیدا کیا تو اس نے کہا اے
رب مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بد اخلاقی کے ذریعہ تقویت دی۔ (احیاء
العلوم، 3 / 153)
بد اخلاقی عمل کو
خراب کر دیتی ہے : نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : سُوْءُ الخُلْقِ یُفْسِدُ العَمَلَ کَمَا یُفْسِدُ الخَلُّ العَسَلَ یعنی بد اخلاقی عمل کو
ایسے ہی خراب کردیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کردیتا ہے۔ ( شعب الایمان باب فی
حسن الخلق، 6 / 247 ،حديث: 8036)
بد اخلاق اپنے آپ کو
عذاب میں جھونکتا ہے: حضرت سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جس انسان کا اخلاق برا ہوتا
ہے وہ اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔( احیاء العلوم ، 161/3)
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: انسان اپنے حسنِ اخلاق کے سبب جنت کے اعلی درجات پالیتا ہے حالانکہ وہ کوئی
عبادت گزار نہیں ہوتا اور انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقات
تک پہنچ جاتا ہے با وجود یہ کے وہ عبادت گزار ہوتا ہے۔ (احیاء العلوم، 161/3)
بد اخلاق کی مثال : حضرت سیدنا وہب بن منبہ
رضی اللہ فرماتے ہیں: بد اخلاق انسان کی مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابل
استعمال نہیں رہتا۔(احياء العلوم ، 161/3)
با اخلاق فاسق بد
اخلاق عابد سے زیادہ پسندیدہ ہے : حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃُ الله علیہ فرماتے ہیں: اگر کوئی
اچھے اخلاق والا فاسق میرا رفیق سفر ہو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ کوئی بد
اخلاق عابد میرا رفیق سفر ہو۔( احياء العلوم، 161/3)
بد اخلاقی آفت ہے: حضرت سیدنا یحی بن معاذ
رازی رحمۃُ الله علیہ فرماتے ہیں : بد اخلاقی ایک ایسی آفت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے
نیکیوں کی کثرت بھی فائدہ مند نہیں ہوتی اور حسنِ اخلاق ایک ایسی نیکی ہے کہ جس کے
ہوتے ہوئے بہت سی برائیاں بھی باعث نقصان نہیں ہوتیں۔ (احياء العلوم، 161/3)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ
پاک ہمیں بد اخلاقی جیسے عظیم گناہ سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مصطفیٰ رضا عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ اولیا احمدآباد، ہند)

پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! اخلاقیات کا انسان کی زندگی میں بڑا کردار ہے جہاں اچھے اخلاق انسان کو
دنیا اور آخرت میں فائدہ دیتے ہیں اسی طرح برے اخلاق کی وجہ سے انسان دنیا میں بھی
اور آخرت میں بھی کافی نقصان اٹھاتا برے اخلاق کی مذمت کے بارے چند احادیث ملاحظہ
فرمائیں۔
(1) حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی کے۔ ایک عورت دن میں روزہ رکھتی ہے اور رات میں قیام
کرتے ہیں لیکن و بد اخلاق ہے اپنی زبان سے پڑوسیوں کے تکلیف پہنچاتی ہے تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں و جہنمیوں میں
سے ہے۔(شعب الايمان،باب فی اکرام الجار 7/78 ، حدیث : 9545 )
(2)بد اخلاقی عمل کی اس طرح
خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الايمان،باب فی حسن
الخلق 6/247، حدیث 8036)
(3) بد اخلاقی ایک ایسا گناہ
ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی باب ما جاء فی سوء الخلق ص 20 ،حدیث7
)
(4)انسان اپنے برے اخلاق
کی وجہ سے جہنّم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے۔ (مساویٔ الاخلاق للخرائطی
باب ما جاء فی سوء الخلق، ص 22 ،حدیث 12)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! برے اخلاق کی وجہ سے
معاشرہ میں بہت بگاڑ پیدا ہوتا ہے اسی طرح بد اخلاق آدمی کو لوگ پسند نہیں کرتے بد
اخلاق آدمی دنیا میں تو نقصان اٹھاتا ہی ہے لیکن آخرت میں بھی اس کے لیے سخت وعید
آئی ہے بد اخلاقی سے چھٹکارا پانے اور اچھے اخلاق اپنانے کے لئے صحبت بڑی اثر کرتی
ہے اس پُر فتن دور میں اچھے اخلاق پانے کے لیے دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول بہترین ذریعہ
ہے اس ماحول سے وابستہ ہو جائیے ان شاء اللہ رب کی رحمت سے اچھے اخلاق بھی میسر
ہونگے اور خوب نیکیوں کا جذبہ ملےگا اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے وہ صاحبِ حسنِ
اخلاق صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں ہمارے اخلاق کو اچھا کردے۔ اٰمین۔

تمام تعریف اللہ پاک کے لئے
جس نے ہمیں انسان بنایا اور وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَفرما کر ہمیں تمام مخلوق
پر برتری عطا فرمایا اور درود و سلام حضور پر نور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جسے اللہ نے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فرما کر ہماری رہنمائی
فرمایا۔
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں کسی طرح کا کوئی بھید بھاؤ نہیں جس میں
کوئی اونچ نیچ نہیں۔
حدیث شریف میں ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے
ہیں: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں ایام تشریق کے درمیان دن کو
خطبۃ الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی
ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ
رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی
فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری ہے: اللہ پاک کے
ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، خبردار!
کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں
نہیں۔ پھر فرمایا: حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔
پیارے اسلامی بھائیو! اس
حدیث شریف میں اللہ کے پیارے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھید
بھاؤ کو اونچ نیچ، افضل اعلی، آقا غلام، گورے کالے، عربی عجمی کو جڑ سے اکھاڑ
پھینکا لیکن ایک انسان کو دوسرے انسان پر تقویٰ میں فرق کیا۔
تقویٰ کسے کہتے ہیں: تقوی کی ایک یہ بھی تعریف
کی جاتی ہے اپنے آپ کو ہر قسم کے گناہ یعنی حرام ارتکاب اور ترک نماز و روزہ وغیرہ
سے بچانا اور صغیرہ گناہوں سے محفوظ رکھنا ارتکاب مکروہ تحریمی اور ترک واجب سے
بچانا اور ساتھ ہی اساءت (برائی) کے ارتکاب اور سنت مؤکدہ کے ترک سے بچانا ۔ (
کنز التعريفات، ص 24)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں تقوی کو اپنانے
کا حکم دیا گیا اور بد اخلاق سے بچنے کا گناہ سے بچنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔
اے میرے پیارے اسلامی بھائی بد اخلاق وہ افعال
ہے جس سے خدا اور اس کے رسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ناراض ہوتے ہیں
۔ بد اخلاق سے ہر کوئی پریشان رہتا ہے اس کوئی پسند نہیں کرتا کبھی وہ کسی کا غیبت
آپ کے سامنے کرتا ہے تو آپ کی چغلی کسی کے سامنے کرتا اپنے آپ کو سب سے اچھا
سمجھتا ہے اور دوسرے کو نیچا دیکھنے میں لگا رہتا اگر کبھی نیکی کر لیا تو تکبّر
میں پڑ جاتا جب بھی بات کرے گا تو گالی نکالتا ہے اپنے والدین کی ایک نہیں سنتا
وغیرہ وغیرہ
برا اخلاق خدا اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی کرنا نماز کو تر کرنا روزہ نہ رکھنا بد کلامی کرنا ماں
باپ کی خدمت نہ کرنا۔
بے ادبی کرنا اپنی خواہش کی پیروی کرنا برے دوست
رکھنا نیکیوں سے دور بھاگنا وغیرہ
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! لوگو کے درمیان اپنی بات منوانے کے لئے جھگڑا کرنا۔
حدیث پاک میں آتا :(1) إِنَّ أَبْغَضَ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الأَلَدُّالْخَصِمُ ترجمہ: بے شک اللہ کے
نزدیک زیادہ ناپسندیدہ لوگ بڑے جھگڑالو ہیں۔(رواه البخاري ومسلم)
(2) إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةٌ عِندَ اللهِ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ مَنْ تَرَكَهُ النَّاسُ إِثْقَاءَ فُحْشِه ترجمہ یقیناً قیامت کے دن اللہ کے
نزدیک سب سے بدتر و شخص ہو گا جسے لوگوں نے اس کی بد زبانی سے بیچنے کی خاطر چھوڑ
دیا۔(رواه البخاری ومسلم)
( 3) حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جس میں تین باتوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے تو وہ اپنے کسی بھی
عمل کے ثواب کی امید نہ رکھے: (1)
ایسا تقویٰ جو حرام کاموں سے روکے (2)
ایسا ظلم جو اسے گمراہی سے روکے (3)
حسنِ اخلاق جس کے ساتھ وہ لوگوں میں زندگی گزارے۔ (حسنِ اخلاق، ص 23)
(4) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے بغیر نقص و عیب کے عاجزی کی اور
خوشخبری ہے اُس کے لئے جو علمائے فقہ و حکمت سے میل جول رکھے اور ذلیل اور
گنہگاروں کی محبت سے دور رہے۔ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنا زائد مال راہ خدا میں
خرچ کر دے اور فضول گفتگو سے باز رہے۔ خوشخبری ہے اس کے لئے جو میری سنت کو اپنائے
ہوئے ہو اور سنت کو چھوڑ کر بدعت اختیار نہ کرے۔(حسنِ اخلاق، ص 20)
(5)حضرت سیدنا جابر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبیوں کے سلطان، رحمت عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: بروز قیامت تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں زیادہ
قریب وہ لوگ ہوں گے جو اچھے اخلاق والے اور عاجزی اختیار کرنے والے ہوں گے، وہ
لوگوں سے اور لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور تم میں سے میرے نزدیک ناپسندیدہ اور
میری مجلس میں مجھ سے زیادہ دُور وہ لوگ ہوں گے جو بہت زیادہ باتیں کرنے والے، بک
بک کرنے والے اور تکبر کرنے والے ہوں گے ۔
(6)حضرت سیدنا عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور سرورِ عالم، نُورِ مُجَسَّم، شاہ بنی آدم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں نے بندوں
کو اپنے علم سے پیدا کیا۔ پس جس سے میں بھلائی کا ارادہ کرتا ہوں اسے اچھے اخلاق
عطا کر دیتا ہوں اور جس سے بُرائی کا ارادہ کرتا ہوں اسے بُرے اخلاق دے دیتا ہوں۔
پیارے اسلامی بھائیو!
ہمیں بد اخلاق کے بارے میں جاننا چائے اور اس چھوڑ کر نیک حسن اعمال کرنا چاہیے
ذات کو برا بنانے والے افعال بہت سارے ہیں جیسے حرص، تکبر، غیبت ،چغلی ،ریا کاری
یعنی دکھاوا، عجب، حسد، بغض و کینہ، حب مدح، حب جاه ،محبت دنیا ،طلب شہرت۔
پیارے اسلامی بھائیو! آپ
اس کی تفصیل مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتب باطنی بیماریوں کی معلومات میں پڑھ سکتے
ہیں ۔
محمد کامران رضا(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان عطاء عطار جھوہا پور
احمدآباد، دہند)

پیارے اسلامی بھائیو!
اللہ پاک نے ہم مسلمانوں کو ایک بہت بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے جو اسلام کی
دعوت پہنچنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے وہ لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا اور
بداخلاقی سے دور رہنا ہے۔
دین اسلام جہاں پر محبت و اخوت (بھائی چارگی) کا
درس دیتا ہے وہاں پر ہمارا پیارا دین ہمیں لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنے کا اور
بداخلاقی سے بچنے کا درس دیتا ہے مگر افسوس اس زمانہ میں بداخلاقی بہت عام ہوتی
جارہی ہے ہمیں بداخلاقی سے بچنے کے لئے قراٰن و حدیث و اسلامی کتب میں جو بداخلاقی
کی مذمت و نقصانات پر مشتمل مضامین ہے ان کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ہم اس بری صفت
بچیں اور حسنِ اخلاق کے پیکر بنیں۔ اب ہم ان شاء اللہ بد اخلاقی کی مذمت پر پانچ
حدیث سنیں گے:۔
(1)حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃُ
اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن میں روزہ رکھتی
اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے ، اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف
پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس میں کوئی
بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔( شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)
(2)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، سیدالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں
تمہیں اللہ پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ بد اخلاق اور متکبر
ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار،حدیث حذیفہ بن الیمان عن النبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ، 9 / 120، حدیث:23517)
بداخلاق انسان کی
مثال: حضرت سیدنا وہب بن منبہ
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بد اخلاق انسان کی مثال اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے
جو قابل استعمال نہیں رہتا۔(احیاء العلوم ، 3 ص 246)
(3)روایت ہے حضرت ابو
الدرداء رضی اللہُ عنہ سے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی
فرمایا کہ بڑی بھاری چیز جو قیامت کے دن مؤمن کی ترازو میں رکھی جاوے گی وہ اچھی
عادت ہے! اور اللہ پاک ناراض ہوتا ہے فحش گو بد خلق سے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ
المصابیح جلد : 6 حدیث : 5081)
(4) بارگاہِ رسالت میں عرض کی
گئی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: برے اخلاق۔(المسند للامام احمد بن حنبل ،
مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)
(5) حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
اچھے اخلاق گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح پانی میل کو صاف کر دیتا ہے اور
بُرے اخلاق اس طرح نیکیوں کو ضائع کر دیتے ہیں جس طرح سرکہ شہد کو ضائع کر دیتا
ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانى، /1482 حدیث: 850)
پیارے بھائیو! ان احادیث
سے آپ کو بداخلاقی کی نحوست کا علم ہو گیا ہوگا تو ہمیں چاہیے کہ بد اخلاقی سے
بچنے کے لئے اور حسنِ اخلاق حاصل کرنے کے لئے دعا کریں۔ خود نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ہماری تعلیم کے لئے اچھے اخلاق کی دعا فرماتے تھے حالانکہ
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق کی تعریف تو خود اللہ پاک نے قراٰن
مجید میں بیان فرمائی ہے کہ چنانچہ فرمایا: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً
عظیم اخلاق پر ہو ۔ (پ29،القلم:4) لیکن اس کے باوجود خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں ہے کہ حضرت سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یوں دُعا کیا کرتے تھے: یعنی اے اللہ
پاک! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے۔ (المسند
للامام احمد بن حنبل، مسند السيدة عائشة رضى الله عنها، 9
/ 339، حدیث: 24446) اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں بداخلاقی کی نحوست سے محفوظ رکھے۔ اٰمین
محمد صابر عطاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان فتح شاہ ولی ہبلی کرناٹک،
ہند)

تمام تعریفیں اللہ پاک کے
لئے جو تمام جہان کا پالنے والا ہے جس نے اپنی مخلوق کو نعمت عظمیٰ سے سرفراز
فرمایا اور انسانی صورت کو اچھے قالب سے زینت دی۔ اسے شکل و صورت اور مقدار میں
کمی و زیادتی سے محفوظ رکھا اور اخلاق کو سنوارنے کا ذمہ اپنے بندوں کو دیا اور
اپنے خاص بندوں پر اخلاق کو سنوارنے کا عمل آسان فرمایا۔ اچھے اخلاق رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفت اور صدیقین کا افضل عمل ہے اور برے اخلاق جان لیوا
و زہر قاتل، ذلت و رسوائی کا سبب ہے اور بد اخلاقی شیطان کے گروہ میں ڈال دیتی ہے ۔
امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ
کے نزدیک بد اخلاق کی تعریف نفس میں موجود وہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث برے
افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہو تو اسے بد اخلاقی
کہتے ہیں ۔
(1)حضرت سیّدنا فضیل بن عیاض
علیہ رحمۃ اللہ الوہاب سے مروی ہے کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی: ایک عورت دن
میں روزہ رکھتی اور رات میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے اپنی زبان سے
پڑوسیوں کو تکلف پہنچاتی ہے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اس میں کوئی بھلائی نہیں وہ جہنمیوں میں سے ہے۔ (شعب الایمان ،باب فی اکرم الجار، 7/78، حدیث: 9545)
(2)حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے جس طرح
سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے (شعب الایمان ،باب فی حسن الخلق، 6/247، حدیث:8036)
(3) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بد اخلاقی ایک ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور
بد گمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہے ( مساوی الاخلاق للخرائطی،باب
ماجاء فی سوءلاخلق من الکراہۃ،ص20،حدیث:7)
(4)خاتم الانبیاء صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں انسان اپنے برے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے
طبقے میں پہنچ جاتا ہے ( مساوی الاخلاق للخرائطی ،باب ماجاء فی سوءلاخلق من
الکراہۃ،ص22، حدیث:12)
(5)حضرت سیّدنا عبداللہ بن
مبارک رحمۃُ اللہ علیہ کے ساتھ سفر میں ایک بد اخلاق آدمی شریک ہو گیا آپ اس کی بد
اخلاقی پر صبر کرتے اور اس کے خاطر مدارت کرتے جب وہ جدا ہو گیا تو آپ رونے لگے
کسی نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں اس پر ترس کھا کر رو رہا ہوں کہ میں اس
سے الگ ہو گیا لیکن اس سے بد اخلاقی اس سے الگ نہ ہوئی۔(احیاء العلوم /3 161)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو !آپ نے پڑھا کہ بد اخلاقی کیسی بری بیماری ہے جس کے سبب ذلت و رسوائی اور
جہنم کے سب سے نچلے طبقے تک پہنچ جاتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنے اخلاق کو سنوارے
اور بزرگانِ دین کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگی کو گزارنے چاہیے۔
یا اللہ پاک ہمارے اخلاق
کو اچھے بنا اور حسنِ اخلاق کی دولت سے مالا مال فرما اور ہر ایک سے خوش دلی و
مسکرا کر گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین
بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی
مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی
(وسائل بخشش مرمم،ص698)
اعجاز احمد مصباحی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضان بڑے شاہ ولی، یاوت، پونہ، ہند)

کہتے ہیں کہ انسان کی
شناخت اس کے اخلاق و کردار سے ہوتی ہے۔ اخلاق اگر اچھے ہیں تو انسان معاشرے میں
قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اچھے اخلاق کا حامل انسان عزت کی ٹوکری سر پر لیے
پھرتا ہے اور جہاں جاتا ہے اس کی عزت ہوتی۔ جب کہ اخلاق اگر برے ہو تو یہی انسان
لوگوں میں اپنی قدر و منزلت کھو دیتا ہے، معاشرہ اسے گری ہوئی نگاہ سے دیکھتا ہے
ایسے شخص کا نہ دوست و احباب کے درمیان کوئی وقار رہتا ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی
نگاہ میں کوئی عزت۔ بلکہ ایسا شخص خود اپنے گھر، پریوار میں اپنی عزت و وقار کا
جنازہ خود اپنے ہاتھوں سے نکال چکا ہوتا ہے۔
بداخلاقی ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی
معافی نہیں ہوتی، بدکرداری جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں حدیث ملاحظہ
فرمائیں:
(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:
بداخلاقی ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہیں ہوگی اور بدگمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے
گناہوں کا سبب بنتی ہے۔(مساوئ الاخلاق للخرائطی، باب ما جاء فی سوء الخلق من
الکراهۃ، ص20، بحوالہ: احیاء
العلوم، 160/3، المدينۃ
العلميہ)
(2) ایک اور حدیث پاک میں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: انسان اپنے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا
ہے۔ (بحوالہ سابق)
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حیا
ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے، اور فحش گوئی بداخلاقی میں سے ہے
اور بداخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے۔(سنن الترمذی ،539/3، باب ما جاء في الحياء ، حديث:2009)
(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: بداخلاقی
عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے ایلوا شہد کو برباد کردیتا ہے۔(شعب الایمان،248/6،حديث:8036)
(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
نے فرمایا: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی گئی
کہ فلاں عورت رات میں قیام کرتی ہے، اور دن میں روزہ رکھتی ہے، اور صدقہ کرتی ہے،
لیکن وہ بد اخلاق ہے، اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، تو حضور نے
ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے، وہ جہنمیوں میں سے ہے۔(شعب الایمان ،78/7،باب فی اكرام
الجار)
ان تمام احادیث کریمہ سے
معلوم ہوا کہ زبان یا ہاتھ پاؤں وغیرہ سے کسی کو تکلیف دینا انتہائی سنگین جرم ہے
اور یہ ایسا گناہ ہے جو جہنم میں لے جانے والا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو اس طرح کے
تمام افعال بد سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔
یہ ایک ناقابل انکار
حقیقت ہے کہ بداخلاقی اعمالِ حسنہ کو برباد کر دیتی ہے۔ اس کار بد کی سیاہی اکثر
نور حسنات کو سلب کر لیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ انسان گناہوں کے باب میں اس قدر
جری ہو جاتا ہے کہ وہ معرفتِ حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ ہماری کتنی بڑی حرماں
نصیبی ہے کہ ہمارا معاشرہ نیک بننے کے بجائے گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جارہا
ہے۔ وہ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک خاص خدائی رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
اسی مذہب کے ماننے والے اسلامی تعلیمات کو یک لخت نظر انداز کرکے مغربی کلچر کے
ایسے دلدادہ نظر آتے ہیں جیسے ان کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ وہ
کونسی ایسی برائی ہے جو قوم مسلم میں نہیں پائی جاتی اور یہ سارا کچھ بداخلاقی ہی
کا نتیجہ ہے جس سے دن بدن معاشرے میں نئی نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
حل: اس کا بہترین حل یہ ہے کہ
معاشرے سے بد اخلاقی کو دور کیا جائے، بد اخلاق و بدکردار اشخاص کی تربیت کی جائے،
لوگوں کو دین سے قریب کیا جائے، ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
پیاری پیاری سیرت طیبہ پر عمل کے پیغام کو عام سے عام تر کیا جائے، مسلمان اسی خاص
خدائی رنگ میں رنگ جائیں جسے قراٰن نے "صبغة الله " سے تعبیر کیا ہے، بزرگان دین کی سیرت پر عمل کیا
جائے، اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے بے حیائی ، فحش گوئی اور دیگر اعمالِ
قبیحہ سے مکمل احتراز کیا جائے۔

پیار پیارے اسلامی بھائیو!
اخلاق ایک ایسی صفت حمیدہ ہے کہ معاشرے پر اس کے سب سے زیادہ اثرات ہے مثال کے طور
پر اگر کوئی شخص بہت سے خوبیوں کا مالک ہے اگر وہ بداخلاق ہے تو بھی لوگ اسے برا
ہی جانتے ہیں کوئی اس کی تعریف نہیں کرتا اور اگر کسی کے اخلاق اچھے ہو تو اگر چہ
دوسری خوبیاں کم ہو لوگ پھر بھی اس کی تعریف کرتے ہیں۔
بد اخلاقی ایسی مذموم صفت
ہے کہ ہر مذہب میں برا جانا جاتا ہے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اپنے امت کی تربیت کرتے ہوئے اس برے صفت کی مذمت بیان فرمائی ہے۔
(1)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا کرتے تھے اے
اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ مخالفت کروں اور منافقت اور برے اخلاق
سے۔ (ابوداؤد شریف حدیث: 1546)
(2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے
سراقہ کیا میں تمہیں نہ بتلادوں کہ کون لوگ جنتی ہیں اور کون جہنمی ہے ۔ انہوں نے
کہا: ہاں یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: بد اخلاق بد مزاج اور متکبر آدمی جہنمی ہے جو لوگ دنیوی لحاظ سے
کمزور اور مغلوب ہوں وہ جنتی ہیں۔(مسند احمد ،حدیث: 13188)
کچھ لوگ اپنے خادموں اور
ماتحتوں و کاریگروں کے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں انہیں یہ حدیث پڑھ کر خوف
خدا سے لرزنا چاہیے اور توبہ کرنی چاہیے۔
(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا وہ شخص
جنت میں نہیں جائیگا جو خادموں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے ۔ (الترمذی، حدیث: 1946)
(4)نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہر گناہ کی
اللہ پاک کے یہاں تو بہ ہے مگر ہے بداخلاق کے وہ جس گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے
زیادہ برے میں واقع ہو جاتا ہے۔(الترغيب والترهیب کتاب الاداب وغیرہ الترغيب في
الحياء وما جاء فضله جزء 2 کتاب الادب، ص 278)
(5)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بد
اخلاقی عمل کو خراب کرتی ہے۔ جیسے سرکہ شہد کو بگاڑتا ہے۔ (کنز العمال حدیث: 1347)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! اگر معاشرے میں بد اخلاقی کے نقصانات دیکھے تو لوگ بداخلاق سے نفرت کرتے
ہیں بغض وکینہ و حسد کا سبب بنتا ہے میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت آجاتی ہے یو
گھر کا سکون برباد ہو جاتا ہے وغیرہ جیسے بہت سی برائیاں پیدا ہوتی ہے تمام
مسلمانوں کو اچھے اخلاق ولا ہونا چاہئے تاکہ وہ اس فضیلت سے حصہ پالے رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اہل ایمان میں سب سے بڑھ کر کامل ایمان والا
وہی ہے جو اخلاق میں سب سے بڑھ کر ہو۔(ابوداؤد شریف حدیث: 4682)اللہ پاک ہم سب کو
اخلاق حمیدہ سے متصف فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم