قرآنِ کریم وہ پاکیزہ کتاب ہے جس میں
ہر شے کا بیان موجود ہے۔قرآنِ کریم ہدایت کا مرکز ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر قرآنِ
کریم مسلمان کے ساتھ ہے۔قرآنِ کریم کی راہ نمائی کے بغیر نہ تو منزل تک پہنچا
جاسکتا ہے،نہ ہی اس کی تعلیمات کو بھول کر کامیابی کی اُمید رکھی جاسکتی ہے۔لہٰذا حقیقی
کامیابی حاصل کرنے کیلئے قرآنِ کریم سے راہ نمائی حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔دنیا و
آخرت میں فلاح و کامیابی دلانے والے اعمال کے متعلق قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا
ہے:1:قَدْ
اَفْلَحَ الْمومنوْنَ0(المؤمنون:1)ترجمۂ کنز
العرفان:بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔2:وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا0(الاحزاب:71)ترجمۂ
کنز العرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول
کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔3:اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ
الْمومنیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ
اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ؕوَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0 (النور:51)ترجمۂ
کنز العرفان:مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف
بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا
اور اطاعت کی اوریہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ 4:فَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ
اُنْزِلَ مَعَهٗۤ ۙاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0 (الاعراف:157)ترجمۂ
کنز العرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی
مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح
پانے والے ہیں۔اس
آیتِ مبارکہ میں نور سے مراد قرآنِ پاک ہے۔(تفسیر صراط
الجنان، الاعراف:157)5:الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ
الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ ؕ اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ
رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0(لقمٰن:4-5)ترجمۂ
کنز العرفان: وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین
رکھتے ہیں وہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں
اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔6:فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ
الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ؕذٰلِكَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ
اللّٰهِ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0 (الروم:38)ترجمۂ
کنز العرفان: تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔یہ
ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے
ہیں۔7:وَ
مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۚ(الحشر:
9)ترجمۂ
کنز العرفان: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں
۔8:قَدْ
اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا0(الشمس:9)ترجمۂ کنز
العرفان:بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔9: وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕوَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0(ال
عمران: 104)ترجمۂ
کنز العرفان:اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور
اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔10:فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ؕ(ال
عمران: 185)ترجمۂ
کنز العرفان: توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ کامیاب
ہوگیا۔
قرآنِ کریم وہ پاکیزہ کتاب ہے جس میں
ہر شے کا بیان موجود ہے۔قرآنِ کریم ہدایت کا مرکز ہے۔زندگی کے ہر موڑ پر قرآنِ
کریم مسلمان کے ساتھ ہے۔قرآنِ کریم کی راہ نمائی کے بغیر نہ تو منزل تک پہنچا
جاسکتا ہے،نہ ہی اس کی تعلیمات کو بھول کر کامیابی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔لہٰذا
حقیقی کامیابی حاصل کرنے کیلئے قرآنِ کریم سے راہ نمائی حاصل کرنا ازحد ضروری
ہے۔دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی دلانے والے اعمال کے متعلق قرآنِ کریم میں
ارشاد ہوتا ہے:1:ترجمۂ کنز العرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔(المؤمنون:1)2:ترجمہ:اور
جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(الاحزاب:71)3:ترجمہ:
مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے
تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی
اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (النور:51)4:ترجمہ:تو
وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس
نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (الاعراف:157)اس
آیتِ مبارکہ میں نور سے مراد قرآنِ پاک ہے۔(تفسیر صراط
الجنان ،الاعراف:157)5:ترجمہ:وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے
ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔وہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور وہی کامیاب ہونے
والے ہیں۔(لقمٰن:
4:5)6:ترجمہ:
تو رشتے دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۔یہ ان لوگوں کیلئے بہتر
ہے جو الله کی رضا چاہتے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(الروم:38)7:ترجمہ:اور
جو اپنے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔(الحشر:
9)حدیثِ
پاک میں ہے:شُح(یعنی
نفس کے لالچ)
سے بچوکیونکہ شُح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیا کہ اسی نے ان کوناحق قتل کرنے
اورحرام کام کرنے پرابھارا۔(مسلم،ص1394،حدیث: 56(2578))8:ترجمہ:بیشک
جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔(الشمس:9)9:
ترجمہ:اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی
بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(ال
عمران: 104)تفسیر
صراط الجنان میں ہے:اس آیت سے معلوم ہوا! مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ
ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا،مقررین کا تقریر
کرنا،مبلغین کا بیان کرنا،انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ۔یاد
رہے!جہاں کوئی کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین
ہوجاتا ہے۔10: ترجمہ:توجسے آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ
کامیاب ہوگیا۔(ال
عمران: 185)اس
آیت سے معلوم ہوا! قیامت میں حقیقی کامیابی یہ ہے کہ بندے کو جہنم سے نجات دے کر
جنت میں داخل کر دیا جائے جبکہ دنیا میں کامیابی فی نفسہ کامیابی تو ہے لیکن اگر
یہ کامیابی آخرت میں نقصان پہنچانے والی ہے تو حقیقت میں یہ خسارہ ہے۔ لہٰذا ہر
مسلمان کو چاہئے کہ وہ ایسے اعمال کی طرف توجہ دے اور ان کے لئے کوشش کرے جن سے
اسے حقیقی کامیابی نصیب ہو اور ان اعمال سے بچے جو اس کی حقیقی کامیابی کی راہ میں
رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان،ال عمران، تحت الآیۃ: 185)
فلاح و کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ جب
آدمی ایسے راستے سے گزر جائے جس میں اس کے سامنے بہت رکاوٹیں،کانٹے اور پھسلنے کی
جگہیں ہوں اور وہ ان راستوں سے صحیح سلامت گزر جائے تو وہ کامیاب ہے۔اصل کامیابی
ہر مسلمان کو حاصل ہے کیونکہ اس کے پاس ایمان کی نیکی ہے۔انسان اپنے اعمال اور
عقائد کو درست کر لے تو وہ کامیاب ہے۔(1)ترجمہ:تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال
کرتے ہیں۔تم فرما دو یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ہیں اور یہ کوئی نیکی
نہیں کہ تم گھروں میں پچھلی دیوار توڑ کر آؤ ہاں اصل نیک تو پرہیز گار ہوتا ہے اور
گھروں میں ان کے دروازوں سے آؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ2،البقرۃ:189)تفسیر:یہ
آیت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ
عنہ
اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ
کے جواب میں نازل ہوئی۔ ان دونوں نے نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں
سوال کیا اس کے جواب میں چاند کے گھٹنے بڑھنے کے سبب کے بجائے اس کے فوائد بیان
فرمائے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں کیونکہ آدمیوں کے ہزاروں دینی اور دنیاوی کام اس
سے متعلق ہیں۔زراعت،تجارت،لین دین کے معاملات،روزے اور عیدکے اوقات،عورتوں کی عدتیں،حیض کے ایام،حمل و دودھ
پلانے کی مدتیں اور چھڑانے کی مدتیں اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں۔ بہت سے
احکام میں چاند کا حساب رکھنا ضروری ہے جیسے بالغ ہونے کی عمر،عیدین،زکوٰۃ میں جو
سال گزر گزرے اس کا اعتبار بھی چاند سے ہے۔(تفسیر
صراط الجنان،1/303)(2) ترجمہ: اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے
جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی
لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ4،ال
عمران:104)تفسیر:آیتِ
مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی
کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو
لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے،انہیں نیکی کی دعوت دے،اچھی بات کا حکم کرے اور بری
بات سے منع کرے ۔مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے جیسے مصنفین کا تصنیف
کرنا،مبلغین کا بیان کرنا وغیرہ۔(تفسیر صراط
الجنان،2/26)(3)ترجمہ:اے
ایمان والو!دگنا در دگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے۔(پ4،ال
عمران:130)تفسیر:اس
آیت میں سود کھانے سے منع گیا اور اسے حرام قرار دیا گیا۔زمانۂ جاہلیت میں سود کی
ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی مدت آتی۔اگر اس وقت مقروض ادا
نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کردیتا اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا
رہتا، اسے دگنا در دگنا کہا جا رہا ہے۔سود حرامِ قطعی ہے۔اسے حلال جاننے والا کافر
ہے۔(تفسیر
صراط الجنان،2/56)(4)ترجمہ:اے
ایمان والو!صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور اسلامی سرحد کی نگہبانی کرو
اور اللہ سے ڈرتے رہو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔(پ4،ال
عمران:200)تفسیر:صبر
کا معنی نفس کو اس چیز سے روکنا جو شریعت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہ ہو۔مصابرہ
کا معنی دوسروں کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنا۔صبر کے تحت اس کی تمام اقسام داخل ہیں
جیسے توحید،عدل،نبوت،حشر و نشر،واجبات مستحبات کی ادائیگی کی مشقت پر صبر کرنا،دنیا
کی مصیبتوں اور آفتوں پر صبر، گھر والوں، پڑوسیوں،رشتہ داروں کی بداخلاقی برداشت
کرنا وغیرہ۔(1)سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کے لئے تیار رکھو (2)اللہ
پاک کی اطاعت پر کمر بستہ رہو۔(تفسیر صراط
الجنان،2/152)(5)ترجمہ:اے
ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(پ6،المائدۃ:35)تفسیر:آیت
میں وسیلے کا معنی یہ ہے کہ جس کے ذریعے اللہ پاک کا قرب حاصل ہو یعنی اللہ پاک کی
عبادت چاہے فرض ہو یا نفل ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ پاک کا قرب حاصل کرو۔ تقویٰ
سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اور وسیلہ تلاش
کرنے سے مطلقاً ہر وہ چیز جو اللہ پاک کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے
درست ہےجیسے رب کریم کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کا وسیلہ بنانا،ان کے وسیلے سے
دعا کرنا جائز بلکہ صحابہ کا طریقہ رہا ہے۔نیک بندوں کا وسیلہ بنانا جائز ہے۔(6)ترجمہ:اے
ایمان والو!شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہیں
تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پ7،المائدۃ:90)تفسیر:اس
آیتِ مبارکہ میں چار چیزوں کے نجاست و خباثت اور ان کا شیطانی کام ہونا بیان
فرمایا اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ چار یہ ہیں:(1)شراب(2) جوا(3)انصاب
یعنی بت(4)ازلام یعنی پانسے ڈالنا۔مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں:شراب پینا حرام ہے اس کی وجہ سے بہت سے گناہ پیدا ہوتے ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں:جوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔ امام عبداللہ احمد نسفی رحمۃ
اللہ علیہ
فرماتے ہیں:انصاب سے مراد بت کیونکہ انہیں نصب کر کے ان کی پوجا کی جاتی ہے،ان سے
بچنا واجب ہے۔ازلام زمانۂ جاہلیت میں کفار کے تین تیر تھے، ان میں سے ایک پر لکھا
تھا” ہاں“دوسرے پر ”نہیں“تیسرا خالی۔وہ لوگ ان کی بہت تعظیم کرتے تھے۔(تفسیر
صراط الجنان،3/20) (7) ترجمہ:تم فرما دو کہ گندا اور پاکیزہ برابر
نہیں ہیں اگرچہ گندے لوگوں کی کثرت تمہیں تعجب میں ڈالے تو اے عقل والو!تم سے ڈرتے
رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(پ7،المائدۃ:100)تفسیر:اس
آیت میں فرمایا گیا کہ حلال و حرام،نیک و بد،مسلم و کافر اور کھرا کھوٹا ایک درجہ میں
نہیں ہو سکتے بلکہ حرام کی جگہ حلال،بد کی جگہ نیک، کافر کی جگہ مسلمان اور کھوٹے
کی جگہ کھرا ہی مقبول ہے۔(تفسیر صراط
الجنان،3/35)(8)ترجمہ:تو
جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی کامیاب ہونے والے ہوں گے۔(پ18،المومنون:102
)تفسیر
:معنی یہ ہے کہ جس کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں گے تو اس کے اعمال کا اللہ پاک
کے نزدیک وزن ہوگا اور ایسے لوگ اپنا مقصد و مطلوب کو پا کر کامیاب ہوں گے۔(تفسیر
صراط الجنان،6/564)(9)ترجمہ:بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18،
المومنون:1)تفسیر:اس
آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے
کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے جنت
میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔(تفسیر
صراط الجنان،6/494)(10)ترجمہ:بے شک جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب
ہو گیا وہ کامیاب ہو گیا ۔(پ30،الاعلی:14)تفسیر:تزکی
کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خود کو کفر و شرک اور گناہوں سے پاک کرنا
ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ہے۔ تیسرا قول یہ
ہے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کر کے مال کو پاک کرنا مراد ہے ۔(تفسیر
صراط الجنان،10/639)
قرآنِ پاک میں انسان کی کامیابی کے لئے
بہت سے الفاظ ہیں جیسے”فائزون“” ناجحون“۔اسی طرح ایک لفظ ”مفلحون“بھی ہے یعنی فلاح
پانے والے۔فلاح سے مراد ایسی کامیابی جو کامل ہو ادھوری نہ ہو بلکہ ایسی کامیابی
جس کا نتیجہ جنت ہو اور ایسی کامیابی کی خوشخبری متقین کو قرآنِ پاک میں سنائی گئی
ہے۔ ہر مسلمان دنیا و آخر ت میں کامیابی چاہتا ہے۔آج دنیا کی کامیابی و فلاح کے لئے
دن رات ہماری کوششیں جاری ہیں۔اس کامیابی کے حصول کے لئے ہم مشکل سے مشکل کام کر
گزرتی ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنی آخرت کی فلاح کے لئے کتنی کوشش کر رہی
ہیں! وہ کون سے اعمال ہیں جن کو اپنا کر اخروی فلاح حاصل کی جاتی ہے! تو قرآن کی
روشنی میں ان اعمال کو جاننے کی کوشش کرتی ہیں:(1،2،3)غیب پر ایمان،نماز قائم کرنا،
اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرنا: ترجمہ وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور
نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارےدیے ہوئے رزق سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ (4)کتابوں
پر ایمان لانا اور(5)آخرت پر ایمان لانا: ترجمہ:وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری
طرف نازل کیا اور تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں یہی لوگ
اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(تفسیر
صراط الجنان،البقرۃ:3،4،5) (6)امر بالمعروف اور نہی عن المنکر :ترجمہ:
اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(تفسیر
صراط الجنان،ال عمران:104) (7)رشتہ داروں،مسکینوں اور مسافروں کے
حقوق ادا کرنا:ترجمہ:تو رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی یہ ان
لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور ہی لوگ کامیابی والے ہیں۔ (سورۂ
روم:38)(8)نفس
کے لالچ سے بچنا:ترجمہ: اور جسے اس کے نفس کے لالچ پن سے بچا لیا تو وہی لوگ فلاح
پانے والے ہیں۔ (تغابن:16)(9)مالی و جانی
جہاد:ترجمہ: لیکن رسول اور جو ان کے ساتھ ایمان لائے انہوں نے اپنے مالوں اورجانوں کے ساتھ جہاد کیا اور انہی کے لئے بھلائیاں ہیں
اور یہی کامیاب ہیں۔(التوبۃ:88)اللہ پاک اور
اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
اطاعت:ترجمہ: مسلمانوں کی بات تو ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا
جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو وہ عرض کریں گے کہ ہم نے سنا اور
اطاعت کی اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(النور:51)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان آیات طیبات کی روشنی میں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ
کیا ہم ایسے اعمال پر کاربند ہیں جو ہمیں آخرت میں فلاح و کامیابی دلا سکتے ہیں؟
یا پھر ایسے کاموں کو اپنائے ہوئی ہیں جو ہماری فلاح اور کامیابی کی راہ میں رکاوٹ
بنیں گے؟ اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں شرم سار کریں گے؟ اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اعمالِ صالح کی توفیق عطا فرمائے۔
فلاح سے مراد:المفلحون فلاح سے بنا
ہے۔فلاح کے لغوی معنیٰ ہیں:چیرنا،کھلنا اور قطع کرنا، اسی لئے کسان کو فلاح کہتے
ہیں۔ کیوں کہ وہ زمین کو چیرتا ہے۔اصطلاح میں فلاح کے معنی ہے :کامیابی، کیونکہ وہ
بھی آڑوں اور پردوں کو چیر کر مشکلات کو دفع کر کے حاصل کی جاتی ہے۔فلاح سے مراد
رب کریم کا اپنی طرف کھینچنا ہے۔قرآنِ کریم میں بہت سی جگہ مختلف اعمال پر کامیابی
کی ضمانت دی گئی ہے جن میں سے چند یہ ہیں ۔1) ترجمۂ کنز الایمان :وہ جو نماز قائم
رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور آخرت پر یقین لائیں وہی اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور انہیں کا کام
بنا۔تفسیر:معنی یہ ہے کہ نیک لوگ وہ ہیں جو نماز کو اس کی تمام شرائط اور حقوق کے
ساتھ ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں فرض ہونے والی زکوٰۃ اس کے حق داروں
کو دیتے ہیں اور وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے، اعمال کا حساب ہونے
اور اعمال کی جزاو سزا میں شک یا انکار نہیں کرتے بلکہ اس پر یقین رکھتے ہیں
۔جن کے یہ اوصاف ہیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اور
وہی لوگ قیامت کے دن اپنے رب کی بارگاہ سے ثواب حاصل کر کے حقیقی طور پر کامیاب
ہونے والے ہیں۔(روح
البیان،لقمان،تحت الآیۃ:4-5، 7/63-64-تفسیر طبری،لقمان،تحت الآیۃ:4-5، 10/201 ملتقطاً)2)دین
و دنیا میں کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ:ترجمۂ کنز الایمان: مسلمانوں کی بات تو
یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض
کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔تفسیر:فرمایا گیا کہ مسلمانوں
کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف بلایا جائے تا کہ رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے درمیان اللہ پاک کے دیے ہوئے احکامات
کے مطابق فیصلہ فرمادیں تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا سُنا اور اسے قبول کر کے اطاعت
کی اور جو ان صفات کے حامل ہیں وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(خازن،النور،تحت
الآیۃ:51،3/ 359،مدارک،النور،تحت
الآیۃ:51،ص787ملتقطاً)اس
سے معلوم ہوا! سیدالمرسلین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کےحکم کے سامنے
اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں اور نہ ہی آپ کے حکم کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے
معاملے میں صرف اپنی عقل کو معیار بنایا جائے
بلکہ جس طرح ایک مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے سپرد کر دیتا ہے اور اس کی دی ہوئی
دوائی کو چون وچرا کئے بغیر استعمال کرتا ہے اسی طرح خود کوحضورِ اقدس،مکے مدینے کے والی،جن کا رتبہ سب
سے بلند وعالی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حوالے کر دینا اور آپ کے ہر حکم کے
سامنے سر ِتسلیم خم کر دینا چاہئے کیونکہ ہماری عقلیں ناقص ہیں اور
تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
عقلِ مبارک وحی کے نور سے روشن اور کائنات کی کامل ترین عقل ہے۔ اگر اس پر عمل ہو
گیا تو پھر دین و دنیا میں کامیابی نصیب ہو گی۔3)نفس کو برائیوں سے پاک
کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے:ترجمۂ کنز الایمان:بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا
کیا۔تفسیر :اللہ پاک نے اس آیت میں فرمایا:بیشک جس نے اپنے نفس کو برائیوں سے
پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا ۔(جلالین مع صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ:
9، 6/2370)اس سے معلوم ہوا! اپنے نفس کو برائیوں سے پاک
کرنا کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا
سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب اللہ پاک اور
اس کے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
اطاعت کی جائے۔ 4)اور ارشاد فرماتا ہے:’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا0‘‘(احزاب:71)ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے
بڑی کامیابی پائی۔لہٰذا جو شخص حقیقی کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی
سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اطاعت کر کے اپنے نفس کو
برائیوں سے پاک کرے۔5) ترجمۂ کنز الایمان :تو جن کی تولیں بھاری ہوئیں وہی
مراد کو پہنچے۔تفسیر : معنی یہ ہے کہ جس
کے عقائد درست اور اعمال نیک ہوں گے تو اس کے اعمال کا اللہ پاک کے نزدیک
وزن ہو گا اور یہی لوگ اپنا مقصد ومطلوب کو پا کر کامیاب ہوں گے۔(تفسیرابوسعود،
المؤمنون، تحت الآیۃ: 102، 4 / 64-65)6) ترجمۂ کنز الایمان :تو رشتہ
دار کو ا س کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو یہ بہتر ہے اُن کے لئے جو الله کی رضا
چاہتے ہیں اور اُنہیں کا کام بنا۔تفسیر:یعنی اے وہ شخص! جسے اللہ پاک نے وسیع رزق
دیا،تم اپنے رشتے دار کے ساتھ حسن ِسلوک اور احسان کر کے ا س کا حق دو اور مسکین
اور مسافر کو صدقہ دے کر اور مہمان نوازی کرکے اُن کے حق بھی دو۔رشتہ
داروں،مسکینوں اور مسافروں کے حقوق ادا کرنا ان لوگوں کیلئے بہتر ہے جو
اللہ پاک کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ پاک سے ثواب کے طالب ہیں اور وہی لوگ آخرت
میں کامیاب ہونے والے ہیں۔(مدارک، الروم، تحت الآیۃ: 38، ص909، روح
البیان، الروم، تحت الآیۃ: 38، 7 / 39، خازن، الروم، تحت الآیۃ: 38، 3 / 465،
ملتقطاً)اس
سے معلوم ہوا! جو شخص رشتہ دارو ں سے حسنِ سلوک اور صدقہ و خیرات ،نام و نَمود اور
رسم کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ محض اللہ پاک کی رضا کے لئے کرے وہی ثواب
کا مستحق ہے۔7) ترجمۂ کنز الایمان :دوزخ والے اور جنت والے برابر نہیں جنت والے
ہی مراد کو پہنچے۔تفسیر : یعنی جہنم والے جن کے لئے دائمی عذاب ہے اور جنت والے جن
کیلئے ہمیشہ کا عیش اور سَرمَدی راحت ہے،یہ دونوں برابر نہیں بلکہ جنت
والے ہی کامیاب ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی اللہ پاک کی رضا میں گزاری اور
آخرت میں اس کی نعمتوں کے مستحق ہوئے جبکہ کفار دونوں جگہ نقصان میں رہے۔(سورة
الحشر: 20)8)اصل
کامیابی ہر مسلمان کو حاصل ہے:ترجمۂ کنز الایمان :وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے
ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔(سورة البقرۃ:5)تفسیر
صراط الجنان : یاد رہے!اس آیت میں فلاح سے مراد ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل
کامیابی متقین ہی کو حاصل ہے، ہاں! اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا
ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے
بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔9) جس نے اپنے مال
کو شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ترجمۂ کنز الایمان :تو اللہ سے
ڈرو جہاں تک ہوسکے اور فرمان سنو اور حکم مانو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اپنے
بھلے کو اور جو اپنی جان کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ تفسیر
: یعنی جب تم نے اس نصیحت کو سن لیا اور ثواب کے بارے میں جان لیا تو تم اپنی طاقت
اور وسعت کے مطابق اللہ پاک سے ڈرتے رہو ، اللہ پاک اور اس کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمہیں جو بات ارشاد فرمائیں اسے سنو
اور ان کا حکم مانو اور اپنے فائدے کیلئے اللہ پاک کی راہ میں مال خرچ کرو
اور جو اپنے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا اور اس نے اپنے مال کو اطمینان کے ساتھ
حکمِ شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(روح
البیان، التغابن، تحت الآیۃ: 16، 10 / 19،خازن، التغابن،تحت الآیۃ: 16، 4 / 277،
خزائن العرفان، التغابن، تحت الآیۃ: 16، ص1031، ملتقطاً) اس آیت سے معلوم
ہوا! ہر شخص پر اپنی طاقت کے مطابق تقویٰ اورپرہیز گاری لازم ہے ۔ اور جس نے اپنے
مال کو شریعت کے مطابق خرچ کیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔10) اُخروی کامیابی کے لئے
ہی عمل کرنا چاہئے: ترجمۂ کنز الایمان : تو کیا ہمیں مرنا نہیں مگر ہماری پہلی موت اور ہم پر عذاب نہ ہوگا۔ بے
شک یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی بات کے لئے کامیوں کو کام کرنا چاہیے۔تفسیر:ان
آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب موت ذبح کردی جائے گی تو اہل ِجنت فرشتوں سے کہیں
گے:کیا ہم دنیا میں ہو جانے والی پہلی موت کے سوا مریں گے نہیں اور
ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا؟فرشتے کہیں گے: نہیں یعنی اب تمہیں کبھی موت
نہیں آئے گی۔ اس پر جنتی کہیں گے کہ بیشک یہ بڑی کامیابی ہے جو
ہمیں نصیب ہوئی ۔(خازن، والصافات،تحت الآیۃ:58-60،
4/18، مدارک، الصافات،تحت الآیۃ: 58-60، ص1002 ملتقطاً)اس آیت میں اللہ
پاک کی اطاعت کے بدلے ثواب اور اُخروی انعامات حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کہ
عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لئے عمل کرنا چاہیے۔(خازن،
والصافات،تحت الآیۃ: 61، 4 / 18-19) اس آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا!
اصل اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کو جہنم کے عذاب سے بچا لیا
جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، لہٰذا اسی کامیابی کو حاصل کرنے کی
بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ہر عقل مند کو چاہئے کہ وہ نیکوں کے اوصاف اپنا کر حقیقی
کامیابی حاصل کرنے والوں میں شامل ہونے کی بھرپور کوشش کرے ۔
عربی لفظ قد افلح کا لغوی معنی
ہے: جودنیا اورآخرت میں کامیاب ہے ۔کامیابی کا وسیع تر اسلامی تصور یہ ہے کہ خدا
راضی ہو، آخرت میں نجات ملے،جہنم سے چھٹکارا اور جنت میں داخلہ حاصل ہو جائے۔حقیقت
یہ ہے کہ جب کوئی بندہ خلوصِ دل سےاللہ پاک اور اس کے محبوب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے
تو کامیابی ہر میدان میں اس کے قدم چومتی ہے۔ اللہ پاک کی غیبی امداد اس کے شاملِ
حال ہوتی ہے اور بظاہر اسباب نہ ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ فلاح و کامرانی سے ہمکنار
ہوتا ہے۔استقامت اور ثابت قدمی اختیار کرنے والا انسان کامیاب ہوتا ہے۔کامیاب
لوگوں کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک ایمان والے کامیاب
ہوگئے۔تفسیر:قدافلح:بے
شک کامیاب ہوگئے۔اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک
کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر
ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے ۔(پ18،المومنون:1-تفسیر صراط الجنان،6/494)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس (کی
نافرمانی)
سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(پ18،النور:52) ترجمۂ
کنزالعرفان: تو جسے آگ سے بچا لیا گیا اور ان میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو
گیا۔(پ4،ال
عمران:185)قرآن
کی نظر میں ایمان اور اچھے کردار والے حقیقت میں کامیاب ہیں۔ترجمہ:یہی لوگ اپنے رب
کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔(پ1،البقرۃ:5)
ترجمۂ
کنزالعرفان:اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور
اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(پ4،ال
عمران:104) ترجمۂ
کنزالعرفان:وہ جنہوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں
کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے اور وہی
لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔(پ10:التوبہ:20)ترجمۂ
کنزالعرفان:تو اللہ سے ڈرو جہاں تک تم سے ہو سکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ
خدا میں خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لئے بہتر ہوگا اور جسے اس کے نفس کے لالچ پن
سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔(پ28،التغابن:16) ترجمۂ
کنز العرفان:اللہ نے فرمایا:یہ قیامت وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا
ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچےنہرے جاری ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ اللہ ان سے
راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہی بڑی کامیابی ہے ۔(پ7،المائدۃ:119)حقیقی
اور اصل کامیابی یہ ہے کہ قیامت کے دن بندے کے گناہ معاف کئےجائیں اور اسے جہنم کے
عذاب سے بچا لیا جائے۔اللہ پاک فرماتا ہے: ترجمۂ کنز العرفان: اور انہیں گناہوں
کی شامت سے بچا لے اور جسے تو نے اس دن گناہوں کی شامت سے بچا لیا تو بےشک تو نے
اس پر رحم فرمایا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ24،المؤمن:9)نفس
کو برائیوں سے پاک کرنا کامیابی کا ذریعہ ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنز
العرفان: بے شک جس نے نفس کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہو گیا اوربے شک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہو
گیا ۔(پ30،الشمس:9-10)
آخر
میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابیاں عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
25 مئی 2022ء بروز بدھ پاکستان کے شہر فیصل
آباد میں واقع مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں شعبہ اطراف کے علاقے
کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔
تفصیلات کے مطابق مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و نگرانِ پاکستان
مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے اس میٹنگ میں شعبے کے دینی کاموں کی کارکردگی کا
جائزہ لیا اور اسے بہتر بنانے کے حوالے سے اہم امور پر گفتگو کی۔
مزید نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد
عطاری نے 3 دن، 12 دن، ایک ماہ اور 12 ماہ کے مدنی قافلوں میں عاشقانِ رسول کو سفر
کروانے نیز دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کا ذہن دیتے
ہوئے مدنی پھولوں سے نوازا۔اس موقع پر مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد امین
عطاری سمیت کثیر ذمہ داران موجود تھے۔(رپورٹ:عبدالخالق
عطاری نیوز فالواپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
پچھلے دنوں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے
رکن و نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد
عطاری نے گلگت بلتستان مشاورت کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ کیا جس میں
مختلف ڈیپارٹمنٹس (صوبائی نگران ، صوبائی آفسز نگران، سرکاری ڈویژن نگران اور KPK شہر کے نگران، جامعۃالمدینہ بوائز، گرلز اور مدرسۃ المدینہ بوائز، گرلز نیز مدرسۃالمدینہ بالغان ) کے نگرانِ مجالس سمیت دیگر اسلامی بھائیوں کی شرکت رہی۔
اس موقع پر نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد
شاہد عطاری نےشرکا کی تربیت کرتے ہوئے 12 دینی کاموں کی کارکردگی سمیت فروری 2022ء
تا اپریل 2022ء کی کارکردگیوں کا تقابلی
جائزہ لیا۔آخر میں نگرانِ پاکستان مشاورت نے شعبہ جات کے متعلق کلام کیا اور مدنی
پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ:عبدالخالق
عطاری نیوز فالواپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
دعوت اسلامی کی مرکزی
مجلس شوریٰ کے رکن و نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے پچھلے دنوں پشاور میں KPK مشاورت کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ کیا جس میں
مختلف ڈیپارٹمنٹس (صوبائی نگران، صوبائی آفسز نگران، سرکاری ڈویژن نگران اور KPK شہر
کے نگران، جامعۃالمدینہ بوائز، گرلز اور مدرسۃ المدینہ بوائز، گرلز نیز مدرسۃالمدینہ بالغان) کے
نگرانِ مجالس سمیت دیگر اسلامی بھائیوں کی شرکت رہی۔
دورانِ
مدنی مشورہ نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے
12 دینی کاموں کی کارکردگی سمیت فروری 2022ء تا اپریل 2022ء کی کارکردگی کاتقابلی جائزہ لیا۔آخر میں نگرانِ
پاکستان مشاورت نے شعبہ جات کے متعلق کلام کیا اور مدنی پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ:عبدالخالق
عطاری نیوز فالواپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن و نگران
پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے پچھلے دنوں مظفرآباد کشمیرمیں کشمیر مشاورت کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ کیا جس میں
مختلف ڈیپارٹمنٹس (صوبائی نگران، صوبائی آفسز نگران، سرکاری ڈویژن نگران اور مظفر
آباد شہر کے نگران، جامعۃالمدینہ بوائز، گرلز اور مدرسۃ المدینہ بوائز، گرلز نیز مدرسۃ المدینہ بالغان) کے نگرانِ مجالس سمیت
دیگر اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔
نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری
نےشرکا کی تربیت کرتے ہوئے 12 دینی کاموں کی کارکردگی سمیت فروری 2022ء تا اپریل
2022ء کی کارکردگی کاتقابلی جائزہ لیا۔آخر
میں نگرانِ پاکستان مشاورت نے شعبہ جات کے متعلق کلام کیا اور مدنی پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز
فالواپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پنڈی مشاورت کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ
دعوتِ اسلامی کے تحت پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں مدنی مشورے کا
انعقاد ہوا جس میں پنڈی مشاورت کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں سمیت دیگر عاشقانِ رسول
نے شرکت کی۔
اس مدنی مشورے میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس
شوریٰ کے رکن و نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے 12 دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے
فروری 2022ء تا اپریل 2022ء کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔بعدازاں نگرانِ پاکستان
مشاورت نے شعبہ جات کے متعلق کلام کرتے ہوئے مدنی پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالواپ ذمہ دار،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ
العلمیہ) کے علمائے کرام کے
لئے نشست کا انعقاد
دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 25 مئی 2022ء بروز بدھ بعد نمازِ ظہر عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی (سندھ) میں قائم اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ
العلمیہ) میں خدمت سر انجام دینے
والے علمائے کرام اور ذمہ داران کے لئے ایک نشست کا انعقاد کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اس نشست میں مرکزی مجلسِ شوریٰ
کے رکن حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ’’اصلاحِ نفس، منصبِ امامت اور علما کا
کردار‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اوہاں موجود اسلامی بھائیوں کی
دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی۔اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے دورِ حاضر میں علما
کی ضرورت کی اہمیت کے حوالے سےعاشقانِ رسول کی ذہن سازی کی۔(رپورٹ:عابد عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)