اعجاز احمد مصباحی (مدرس جامعۃُ المدینہ فیضان بڑے شاہ ولی، یاوت، پونہ، ہند)
کہتے ہیں کہ انسان کی
شناخت اس کے اخلاق و کردار سے ہوتی ہے۔ اخلاق اگر اچھے ہیں تو انسان معاشرے میں
قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اچھے اخلاق کا حامل انسان عزت کی ٹوکری سر پر لیے
پھرتا ہے اور جہاں جاتا ہے اس کی عزت ہوتی۔ جب کہ اخلاق اگر برے ہو تو یہی انسان
لوگوں میں اپنی قدر و منزلت کھو دیتا ہے، معاشرہ اسے گری ہوئی نگاہ سے دیکھتا ہے
ایسے شخص کا نہ دوست و احباب کے درمیان کوئی وقار رہتا ہے اور نہ ہی عام لوگوں کی
نگاہ میں کوئی عزت۔ بلکہ ایسا شخص خود اپنے گھر، پریوار میں اپنی عزت و وقار کا
جنازہ خود اپنے ہاتھوں سے نکال چکا ہوتا ہے۔
بداخلاقی ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی
معافی نہیں ہوتی، بدکرداری جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے۔ اس ضمن میں حدیث ملاحظہ
فرمائیں:
(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:
بداخلاقی ایسا گناہ ہے جس کی مغفرت نہیں ہوگی اور بدگمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے
گناہوں کا سبب بنتی ہے۔(مساوئ الاخلاق للخرائطی، باب ما جاء فی سوء الخلق من
الکراهۃ، ص20، بحوالہ: احیاء
العلوم، 160/3، المدينۃ
العلميہ)
(2) ایک اور حدیث پاک میں
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: انسان اپنے اخلاق کے سبب جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں پہنچ جاتا
ہے۔ (بحوالہ سابق)
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حیا
ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے، اور فحش گوئی بداخلاقی میں سے ہے
اور بداخلاقی جہنم میں لے جانے والی ہے۔(سنن الترمذی ،539/3، باب ما جاء في الحياء ، حديث:2009)
(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: بداخلاقی
عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے ایلوا شہد کو برباد کردیتا ہے۔(شعب الایمان،248/6،حديث:8036)
(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
نے فرمایا: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی گئی
کہ فلاں عورت رات میں قیام کرتی ہے، اور دن میں روزہ رکھتی ہے، اور صدقہ کرتی ہے،
لیکن وہ بد اخلاق ہے، اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، تو حضور نے
ارشاد فرمایا: اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے، وہ جہنمیوں میں سے ہے۔(شعب الایمان ،78/7،باب فی اكرام
الجار)
ان تمام احادیث کریمہ سے
معلوم ہوا کہ زبان یا ہاتھ پاؤں وغیرہ سے کسی کو تکلیف دینا انتہائی سنگین جرم ہے
اور یہ ایسا گناہ ہے جو جہنم میں لے جانے والا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کو اس طرح کے
تمام افعال بد سے کوسوں دور رہنا چاہیے۔
یہ ایک ناقابل انکار
حقیقت ہے کہ بداخلاقی اعمالِ حسنہ کو برباد کر دیتی ہے۔ اس کار بد کی سیاہی اکثر
نور حسنات کو سلب کر لیتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ انسان گناہوں کے باب میں اس قدر
جری ہو جاتا ہے کہ وہ معرفتِ حق سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ ہماری کتنی بڑی حرماں
نصیبی ہے کہ ہمارا معاشرہ نیک بننے کے بجائے گناہوں کے دلدل میں پھنستا چلا جارہا
ہے۔ وہ مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک خاص خدائی رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے۔
اسی مذہب کے ماننے والے اسلامی تعلیمات کو یک لخت نظر انداز کرکے مغربی کلچر کے
ایسے دلدادہ نظر آتے ہیں جیسے ان کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ وہ
کونسی ایسی برائی ہے جو قوم مسلم میں نہیں پائی جاتی اور یہ سارا کچھ بداخلاقی ہی
کا نتیجہ ہے جس سے دن بدن معاشرے میں نئی نئی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
حل: اس کا بہترین حل یہ ہے کہ
معاشرے سے بد اخلاقی کو دور کیا جائے، بد اخلاق و بدکردار اشخاص کی تربیت کی جائے،
لوگوں کو دین سے قریب کیا جائے، ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
پیاری پیاری سیرت طیبہ پر عمل کے پیغام کو عام سے عام تر کیا جائے، مسلمان اسی خاص
خدائی رنگ میں رنگ جائیں جسے قراٰن نے "صبغة الله " سے تعبیر کیا ہے، بزرگان دین کی سیرت پر عمل کیا
جائے، اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے بے حیائی ، فحش گوئی اور دیگر اعمالِ
قبیحہ سے مکمل احتراز کیا جائے۔