خلق کی تعریف: خلق (عادت) نفس میں راسخ ایسی کیفیت کا نام ہے ۔جس کی وجہ سے اعمال بآسانی صادر ہوتے ہیں۔ غور و فکر کی حاجت نہیں ہوتی۔(احیاء العلوم، 3 / 165 ،مکتبۃ المدینہ)

امام غزالی کے نزدیک حسنِ اخلاق اور بد اخلاقی کی تعریف :اگر نفس میں موجودہ کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے برے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم ، 3 / 165 ،مکتبۃ المدینہ)

بد اخلاقی ایک بہت بری اور رذیل صفت ہے۔ جسے ہر کوئی شخص نا پسند کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس سے کنارہ کش اختیار کرتے ہیں ۔ لوگوں کے نزدیک اس کا مرتبہ و وقار گر جاتا ہے ہر کوئی اس کے شر سے بچنے کی وجہ اس کے منہ نہیں لگتا۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس مذمت وارد ہوئی ہے ۔

(1)حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کی گئی فلاں عورت رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے۔ اور صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے۔ تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ جہنمیوں میں سے ہے۔( شعب الایمان، 12 / 84 ،ناشر مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع)

(2) حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتل کرنا کفر ہے۔(مشکٰوۃ المصابیح ،حدیث: 4814) اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں کہ یہاں کفر بمعنی کفرانِ نعمت یعنی ناشکری ہے ایمان کا مقابل یعنی بلا قصور مسلمان کو برا بھلا کہنا اور بلا قصور اس سے لڑنا بھڑنا ناشکری ہے یا کفار سا کام ہے۔ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے مارنا پٹنا یا ناجائز جنگ کو حلال سمجھ کر کرنا کفر و بے ایمانی ہے۔ (مرآت المناجیح، 6 / 355 ،نعیمی کتب خانہ گجرات)

(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بد اخلاقی بے برکتی ہے اور تمہارے برے اخلاق وہ ہیں جو زیادہ بد اخلاق ہیں ( کنز العمال کتاب البر ،حدیث: 7345)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ برے اخلاق ایمان کو اس طرح برباد کر دیتے ہیں جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 10 / 386 ،ناشر مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع)

(5) پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا کہ مومن میں دو خصلتیں جمع نہیں ہو سکتی ہیں: بخل اور بداخلاقی۔ (جامع ترمذی ، 2 / 18 مجلسِ البرکات الجامعۃ الاشرفیہ)

معاشرے میں اس کے اثرات: بد اخلاقی وجہ سے آج ہر رشتہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے بھائی بھائی سے جدا ہے بچے والدین سے دور بھاگتے ہیں ۔ ہر ما تحت اپنے افسر کے پاس جانے سے خوف کھاتا ہے کوئی بھی انسان دوسرے کی ترقی کو پسند نہیں کرتا اور علما کی بد اخلاقی کی وجہ سے دین کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے ۔ تعلیم کا معیار کم ہو رہا ہے ۔

ان کا حل: انسان کو چاہیے کہ اچھا رویہ اختیار کرے خندہ پیشانی سے ملاقات کرے۔ عالم دین مسئلہ بتانے میں نرم لہجہ اختیار کرے برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے پڑوسیوں سے حسن سلوک کیا جائے ۔ اور نیکی کی دعوت کو عام کیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔