طفیل عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن خطیب چشتی دھولکہ،ہند)

تمام تعریفیں اللہ پاک کے
لیے جس نے تمام عالم کو وجود بخشا اور اشرف المخلوقات انسانوں کو وجود بخشا اور
انسان کی صورت میں حسن رکھا انسانی صورت کو زینت دی اور اسے شکل و صورت اور مقدار
میں رکھیں، زیادتی سے محفوظ رکھا، اخلاق کو اچھا بنانے کا کام بندے کی کوشش میں
رکھا اسے ڈراتے ہوئے اخلاق سنوار نے کی ترغیب دی اور اپنی توفیق کے ذریعے اپنے خاص
بندوں پر اخلاق کو سنوار دیا حسنِ اخلاق رسول اکرم شاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی صفت اور صدیقین کا افضل عمل ہے۔ حسنِ اخلاق یہ نصف دین اور عبادت
گزاروں کی دیانت ہے جب کہ برے اخلاق زہر قاتل جان لیوا، ذلت و رسوائی اور رب کریم
کی رحمت سے دوری جیسی برائیوں پر مشتمل ہے نیز بد اخلاقی انسان کو شیطانی گروہ میں
داخل کرتی ہے اور بندے کو لوگوں سے بھی دور کر دیتی ہے برے اخلاق دل کی بیماریوں
میں سے ایک بیماری ہے جس کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے آئیے احادیث کریمہ کی روشنی
میں بداخلاقی کی مذمت کے بارے میں جانتے ہیں اور اپنے دل کی اصلاح کی کوشش کرتے
ہیں۔
(1) بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نحوست کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :برے اخلاق۔(المسند للامام
احمد بن حنبل ، مسند السیدۃ عائشۃ رضی اللہ عنہا ، 9/ 369، حدیث : 24601)
(2) حضرت سیدنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے
کہ بارگاہ رسالت میں میں نے عرض کی گئی ایک عورت دن میں روزہ رکھتی اور رات
میں قیام کرتی ہے لیکن وہ بد اخلاق ہے اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے
تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے
وہ جہنمیوں سے ہے۔(شعب الایمان، باب فی الجامع الجار،7/78 ، حدیث:9545)
(3)میزان میں سب سے پہلے حسنِ اخلاق اور سخاوت کو رکھا جائے گا
جب اللہ کریم نے ایمان کو پیدا فرمایا تو اس نے عرض کی یا رب کریم مجھے تقویت دے
تو اللہ پاک نے اسے اخلاق و سخاوت کے ذریعے تقویت دی اور جب اللہ پاک نے کفر کو
پیدا کیا تو اس نے عرض کی اے رب کریم مجھے تقویت دے تو اللہ پاک نے اسے بخل اور بد
اخلاقی کے ذریعے تقویت دی۔(المصنف لابن ابی شیبہ، کتابالادب،ماذکر فی حسنِ اخلاق
الخط ، 6/90، حدیث: 24 دون ذکر الاخاء)
(4) بد اخلاقی عمل کو اس طرح خراب کر دیتی ہے جس طرح سرکہ
شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(شعب الایمان،باب فی حسنِ اخلاق،6/247، حدیث:8036)
(5) جس شخص میں تین یا ان میں سے کوئی بات نہ ہو اس کے
عمل کو کچھ بھی شمار نہ کرو:(1)تقوٰی جو اسے اللہ پاک کی
نافرمانی سے روکے۔(2)تَحَمُّل جس کے ذریعے وہ خود کو بیوقوف سے دُور کرے۔ (3)اچھے اخلاق جن کے ذریعے
لوگوں میں زندگی گزارے۔(المعجم الکبیر 23/308 حدیث :695)
(6) بداخلاقی ایک ایسا گناہ
ہے جس کی مغفرت نہ ہوگی اور بدگمانی ایسی خطا ہے جو دوسرے گناہوں کا سبب بنتی ہیں ۔(مساوی
الاخلاق للخرائطی باب ما جاء فی سوء الخلق من الکراھۃ ص 20، حدیث: 7)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جیسا کہ آپ نے پڑھا
کی بداخلاقی کی کیسی کیسی مذمت بیان کی گئی ہے اور بد اخلاق شخص جہنم کے سب سے
نچلے طبقے میں پہنچ جاتا ہے ہم ان احادیث کریمہ کی روشنی میں جو بداخلاقی کی مذمت
بیان کی گئی اس سے درس حاصل کر کے ہمیں اپنے اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے
آخر میں اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم کو حسنِ اخلاق اپنانے کی توفیق دے
اور بد اخلاقی سے ہمیں کوسوں دور رکھے۔ اٰمین
شہزاد رضا ہزاروی(درجہ دورہ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضان عطار ناگپور، ہند)

آج کل ہمارے معاشرے میں
بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں جس سے لوگوں بد امنی بے چینی کے شکار ہو رہے ہیں
اور بد عملیوں کے باعث انتہائی پریشانی میں گرفتار ہیں جس کی بڑی وجہ بد اخلاقی
بھی ہیں کیوں کہ حسنِ اخلاق ایک ایسی صفت ہیں جس خیال رکھنا ایک مسلمان کے لئے بے
حد ضروری اور اس سے غفلت برتنا دنیا و آخرت میں خسارہ کا سبب ہے۔
ہے فلاح و کامرانى نرمى و آسانى مىں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں
امام غزالی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس
طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں
اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ
ہوں تو اسے بداخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم، 3/165،مکتبۃ
المدینہ)
(1)سرکار مدىنہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرماىا: دو خصلتىں مومن مىں اکھٹى نہىں ہوسکتى، وہ بخل اور بداخلاقى ہىں۔(جامع
الترمذى ابواب البروالصلۃ ، باب ماجا فى الخىل ،343/4،حدىث 1962:)
(2)حضرت انس بن مالک رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: بد اخلاقى اىمان کو اس طرح فاسد کردىتى ہے۔ جس طرح
اىلوا کھانے کو فاسد کر دىتا ہے۔(بىہقى فى الشعب، 247/2)
(3)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حیا ایمان سے ہے
اور ایمان جنت میں( لے جانے والا) ہے فحش گوئی، بد اخلاقی کی ایک شاخ ہے
اوربداخلاقی جہنم میں (لے جانے والی ) ہے ۔(جامع التر مذی ،کتاب البر و الصلۃ، حدیث:
2016)
(4)حضرت سىدنا فضىل بن عىاض سے مروى ہے کہ بارگاہِ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کى گئى اىک عورت دن مىں روزہ رکھتى اور رات مىں
قىام کرتى ہے، لىکن وہ بداخلاق ہے اپنى زبان سے لوگوں کو تکلىف پہنچاتى ہے تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا، اس مىں کوئى بھلائى نہىں وہ جہنمىوں مىں
سے ہے۔(احىا العلوم، 155/3)
(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: قىامت کے دن
مىرے سب سے زىادہ قرىب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق سب سے زىادہ بہتر ہونگے اور مجھ
سے دور وہ لوگ ہوں گے جن کے بدترىن اخلاق ہوں گے۔ (مشکوة ، باب البىان والشعر ،ص 10 )
الغرض یہ کہ بد اخلاقی کئی
برائیاں کا مجموعہ اور دنیا و آخرت میں ہلاکت وذلت کا ذریعہ ہے لہذا ہمیں حسنِ
اخلاق کو اپنانا چاہئے اللہ کرىم ہمىں بداخلاقى سے بچنے اور اپنے اخلاق سنوارنے کى
توفىق عطا فرمائے۔(اٰمىن)
بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی
مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی(وسائل بخشش )

الحمدللہ اسلام کا نور
شروع سے ہی حسنِ اخلاق سے پھیلا ہے اور دیگر مذاہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے میں
سب سے زیادہ اثر حسنِ اخلاق کا رہا اور آج بھی جو اپنے باطل مذہب کو چھوڑ کر کسی کے
ہاتھ پر مذہب حق کو قبول کرتا ہے تو اس کے حسنِ اخلاق کے سبب اور کردار کی وجہ سے۔
اگر ہمارے اخلاق قراٰن و حدیث کے مطابق ہو جائیں تو ان شاء اللہ پھر شجرِ اسلام
لہلہاتا ہوا نظر آ ئے گا ۔
وعن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول اللہ صلى الله
عليه وسلم يقول اللهم كما احسنت فأحسن خلقي ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا
کیا کرتے تھے: اے اللہ! جس طرح تو نے میری ظاہری تخلیق خوبصورت کی ہے اسی طرح میرے
اخلاق کو بھی اچھے رکھنا۔ (الترغیب والترہیب ، 3 /
13)
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ہے ہر کام سے توبہ ہو سکتی ہے البتہ برے اخلاق والے شخص کا معاملہ مختلف ہے
کیونکہ وہ کسی گناہ سے توبہ کرے گا تو اس سے زیادہ برے گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے
گا ۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ، 3 /
130)
اصبہانی کی ایک روایت میں
یہ الفاظ ہے میمون بن مہران بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں برے اخلاق سے زیادہ بڑا گناہ
اور کوئی نہیں ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو کرنے والا شخص جب کسی ایک گناہ سے
نکلتا ہے تو اور ایک گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الادب
وغیرہ ، 3 صفحہ 130 )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کیا کرتے تھے:اے
اللہ میں بد نصیبی منافقت اور برے اخلاق سے تری پناہ مانگتا ہوں (الترغیب والترہیب
کتاب الادب وغیرہ ، 3 صفحہ 130)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے :
یہ اخلاق اللہ تعالی کی طرف سے ہیں جس شخص کے بارے میں اللہ پاک بھلائی کا ارادہ
کرلیتا ہے تو اسے اچھے اخلاق عطا کردیتا ہے اور جس شخص کے بارے میں برائی کا ارادہ
کرلیتا ہے تو اسے بد اخلاق کر دیتا ہے۔(الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 128)
حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
ہے :تم میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ
لوگ ہوں گے جن کے اخلاق سب سے زیادہ عمدہ ہوں گے اور میرے نزدیک سب سے زیادہ
ناپسندیدہ اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق بد ہوں
گے اور وہ لوگ جو تکلف کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور بنا سنوار کر منہ ٹیڑھا کر کے
بات کرتے ہیں۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ ، 3 /
128)
حضرت رافع بن مکیث رضی
اللہُ عنہ (جنہیں صلح حدیبیہ میں شرکت کا شرف حاصل ہے) وہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق بہتری اور برے اخلاق
نحوست ہیں نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے، اور صدقہ بری موت کو ٹال دیتا ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ
عنہ کے حوالے سے یہ روایت منقول ہے وہ بیان کرتے ہیں: عرض کی گئی یا رسول اللہ (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)! نحوست کیا ہے ؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا بد اخلاق ۔(الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 /
129)
مذکورہ بالا احادیث کریمہ
سے معلوم ہوا کہ بد اخلاق ایک ایسا قبیح عمل ہے جو سوسائٹی اور اسلامی ماحول
کوپراگندہ کرنے میں کافی حد تک اثر ڈالتا ہے اور بد اخلاق ایسا شر ہے جس سے خود
نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پناہ مانگتے تھے تو اس سے معلوم ہوا کہ
ہمیں کتنا زیادہ بد اخلاقی سے بچنا چاہیے اور کتنا زیادہ اخلاق میں بہتری لانے کی
کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا گو ہوں کہ مولا کریم ہم تمام مسلمانوں کو حسنِ اخلاق کی لازوال نعمت عطا
فرمائے اور بد کرداری و بداخلاقی سے محفوظ فرمائے ۔ اپنی رضا والے کام کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین
ملک اویس رضا قادری(درجہ دورۂ حدیث دارالعلوم شاہِ عالم احمد آباد ہند)

پیارے اسلامی بھائیو! بد
اخلاقی کے متعلق کچھ معلومات پڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ حسنِ اخلاق اور بداَخلاقی
کی تعریف سمجھ لی جائے۔
حسنِ اخلاق اور
بداَخلاقی کی تعریف: بداخلاقی کی مذمت بیان کرنے سے پہلے اَخْلاق کی تعریف ذہن نشین کرلیں ۔ چنانچہ
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے
باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ
اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور
پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ
المدینہ) پیارے اسلامی بھائیو! آیئے اب بد اخلاقی کی مذمت ہم حدیث نبوی سے سمجھتے
ہیں۔
(1) عَنْ جَابِرْ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاۃَ کَبَّرَ ثُمَّ قَالَ قُلْ اِنَّ
صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)، لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا
اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳)اَللّٰھُمَّ
اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَعْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ
لِاَحْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ
الْاَخْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز شروع کرتے تو
پہلے تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے (اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ
لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)، لَا
شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (۱۶۳)اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ
وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ
سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ
اَنْتَ)میری نماز میری عبادت
میری زندگی اور میری موت سب کچھ پروردگار عالم ہی کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں
ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ اے اللہ! نیک
اعمال اور حسنِ اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف
تو ہی رہنمائی کر سکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال
و بد اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ (مشکوةالمصابيح، حدیث : 784)
اور ایک حدیث شریف میں
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بد اخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّؤْمُ سُوءُ الْخُلُقِ ترجمہ: حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا نحوست بد اخلاقی کا نام ہے۔ (مسند احمد،
حدیث : 23452)
بداَخْلاقی نحوست ہے: بداَخْلاقی خُود بھی
بدعملی ہے اور بہت سی بدعملیوں کا ذریعہ ہے۔جُھوٹ،خیانت،وعدہ خلافی سب بداَخْلاقی
کی شاخیں ہیں۔ بد اَخْلاقی آپس کے اختلاف کا باعث ہے۔ بد اَخْلاقی آپس میں بغض و
حسد اور جدائی پیدا کرتی ہے ، بداَخْلاقی سے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے پناہ طلب فرمائی بد اَخْلاقی و بدزبانی سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے۔ بداَخْلاقی
اگر انسانی شکل میں ہوتی تو وہ بہت بُرا آدمی ہوتا۔ اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی
بُرائی بد اَخْلاقی ہے ۔ بےشک بے حیائی اور بد اَخْلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے
کوئی تعلق نہیں۔ بد اَخْلاقی تبلیغِ دین کی راہ میں بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔ بد
اَخْلاقی سے بسا اوقات میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ بداَخْلاقی کی نحوست
سے گھر کا سُکون برباد ہوجاتا ہے۔ بداَخْلاق شخص کو بارہا ناکامیوں کا سامنا کرنا
پڑتا ہے۔
الغرض بداَخْلاقی کثیر
برائیوں کا مجموعہ اور دُنیا و آخرت میں ہلاکت و بربادی کا سبب ہے، لہٰذا ہمیں
چاہئے کہ ہم نہ صرف خود اس آفت سے بچیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی اِس سے بچتے
رہنے کی ترغیب دلائیں۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کو اچھے اَخْلاق کی لازوال دولت نصیب
فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علیہ
واٰلِہٖ وَسَلَّمَ
بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی
مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی
(وسائل بخشش مرمم،ص698)
عبد الرحمٰن(درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ المدينہ فیضانِ اولیا احمدآباد،ہند)

بد اخلاقی باطنی بیماریوں
میں سے ایک بیماری ہے اور یہ ایسی بُری صفت ہے کہ اس سے دنیاوی و اُخروی دونوں
نقصانات ہیں۔ حسد، بغض، قطع تعلقی وغیرہ سب اس کی شاخیں ہیں اور بد اخلاقی سے حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پناہ مانگی اور اللہ پاک اس فعل سے ناراض
ہوتا ہے،بد اخلاقی عمل کو ایسے خراب کرتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔
اگر ہم نے اپنی باطنی بیماری کا علاج کر کے اپنے اخلاق کو نہ سنوارا تو کہیں اس کی
وجہ سے ہمیں جہنم میں جانے کا حکم نہ ہو جائے۔ اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے: ﴿اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَةَؕ-نَحْنُ
اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ(۹۶)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: سب سے اچھی
بھلائی سے بُرائی کو دفع کرو ہم خوب جانتے ہیں جو باتیں یہ بناتے ہیں۔
(پ18،المؤمنون:96)
بد اخلاقی کی تعریف اگر
نفس میں ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث برے افعال (کام) اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی
اور شرعی طور پر ناپسند ہوں تو اس کو بد اخلاقی کہتے ہیں۔(احیاء العلوم، ص934)
آئیے بداخلاقی کے متعلق
5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے :
(1)بد کلامی بد اخلاقی میں سے ہے، اور بد اخلاقی جہنم میں
(جانے کا سبب ) ہے۔(ابن ماجہ ،4/461، حدیث:4184)
(2)بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو
خراب کر دیتا ہے۔ ( کشف الخفاء، 1/522، حدیث: 1498)
(3)بے شک بندہ اپنے بُرے اخلاق کی وجہ
سے جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں پہنچ جاتا ہے۔( مساویٔ الاخلاق، ص23، حديث:12)
(4)بداَخلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو وہ (بہت)بُرا آدمی
ہوتا۔ (کنز العمال،3/178، حدیث: 7351)
(5)اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بُرے اَخْلاق ہیں۔ (جامع
الاحادیث، 19/406،حدیث: 14922ملخصاً)
نقصانات بد اخلاق شخص اپنے
خاندان سے میل جول اور بات چیت کرنے سے اکتاتا ہے۔ بد اخلاق شخص کی عزت معاشرے میں
گر جاتی ہے۔ بد اخلاق شخص کو لوگ نا پسند کرتے ہیں۔ اس کی عادت اچھی نہ ہونے کی وجہ
سے معاشرے میں نیکی کی دعوت دینے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بد اخلاق شخص کتنے ہی
بڑے منصب پر فائز ہو اور کتنے ہی اچھے اچھے لباس پہن لے لوگوں کی نظروں سے گر جاتا
ہے اور وہ اپنی عزت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
معاشرے پر اثرات پیارے
اسلامی بھائیو! اس پُر فتن دور میں جن گناہوں کو گناہ نہیں سمجھا جا رہا ہے انہی میں
سے تکبّر، جھوٹ، چغلی، حسد اور بد اخلاقی بھی ہے اس سے لوگوں میں نفرت اور دوری پیدا
ہوتی ہیں ان سب بیماریوں کا ہمیں علاج کرنا چاہئے اور حسنِ اخلاق ایک ایسی چیز ہے
کہ جس کا خیال رکھنا انسان کے لئے ضروری اور اس سے غفلت برتنے میں دنیا کے نقصان
کا موجب ہے اور ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ لوگوں کے اخلاق و معاملات کو درست کر
کے ان کے اندر سے بد اخلاقی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے اس کیلئے ہمیں اچھے ماحول اور اچھی
صحبت اختیار کرنی چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں بداخلاق کی بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
شناور غنی بغدادی(درجۂ خامسہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ امام غزالی فیصل
آباد،پاکستان)

پیارے اور محترم اسلامی
بھائیو! ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
تشریف آوری کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کے اَخلاق و معاملات کو درست کریں، ان
کے اندر سے بُرے اخلاق کی جڑیں اُکھاڑیں اور ان کی جگہ بہترین اخلاق پیدا کریں،
چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوری
زندگی اپنے قول و عمل سے تمام اچھے اَخلاق کی فہرست مرتب فرمائی اور زندگی کے تمام
شعبوں پر اسے نافذ کیا اور ہر طرح کے حالات میں ان پر کاربند رہنے کی ہدایت کی۔
بداَخلاقی ایک ایسی مذموم
صفت ہے جس کے سبب انسان کا وقار معاشرے میں ختم ہوکر رہ جاتا ہے، آئیے! بداَخلاقی
کی مذمت پر 5احادیثِ مبارکہ پڑھئے اور اس مذموم صفت سے بچئے:
(1)رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:دو خصلتیں (عادتیں) مؤمن میں جمع (اکٹھی) نہیں
ہوسکتیں (1)بخل اور (2)بداخلاقی۔(ترمذی، 3/387، حدیث: 1969)
(2)حُضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کوئی بداخلاق شخص جنّت میں نہ جائے
گا۔(مسند احمد، 1/26، حدیث:31)
(3)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی
اللہُ عنہما سے مروی ہے: بُرے اَخلاق اور بخل دو ایسے اوصاف ہیں جنہیں اللہ پاک
ناپسند کرتا ہے۔ (فردوس الاخبار، 1/379، حدیث:2811)
(4)نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ! اللہ پاک بداخلاق اور بدزبانی کرنے
والے شخص کو پسند نہیں فرماتا۔ (ابوداؤد، 4/330، حدیث:4792)
(5)اللہ پاک کے آخری نبی،
مکی مدنی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:حیا ایمان کا
حصہ ہے اور ایمان جنّت میں ہوگا۔ اور بداخلاقی سنگدلی کا حصہ ہے اور سنگدلی جہنم
میں ہوگی۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)
بداخلاقی کے چند نقصانات:
بداَخلاقی کے چند نقصانات درج ذیل ہیں:(1) بد اخلاق شخص سے لوگ کتراتے ہیں اور اس
کے قریب آنا/ رہناپسند نہیں کرتے (2) بداخلا ق شخص کی معاشرے میں عزت نہیں ہوتی
(3) بداخلاقی تبلیغِ دین میں رکاوٹ بنتی ہے (4)لوگ بداخلاق شخص کو اپنا دوست نہیں
بناتے (5) بداخلاقی رشتوں کے ٹوٹنے کا سبب بنتی ہے (6) بد اخلاق شخص سے اللہ پاک
ناراض ہوتاہے (7)بد اخلاق شخص سے لوگوں کو ایذا ہوتی ہے (8) بد اخلاقی آپس میں
اختلافات پیدا کروادیتی ہے ۔
رزق میں تنگی کا ایک
سبب:بعض حُکَما فرماتے ہیں: مَنْ سَآءَ خُلْقُہٗ ضَاقَ رِزْقُہ یعنی جس کے اخلاق
بُرے ہوں اُس کا رزق تنگ ہوجاتا ہے۔(ادب الدنیا و الدین، ص383)
امیرِ اہلِ سنّت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں:
بھاگتے ہیں سُن لے بَداَخلاق سے سبھی
مُسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی
(وسائل بخشش (مرمم)،
ص698)
اللہ کریم ہمیں بداَخلاقی
سے بچنے اور اپنے اَخلاق سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ
النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جس طرح اللہ پاک نے دنیا
میں تمام چیزوں کو کوئی نہ کوئی صفت عطا فرمائی ہے۔ جیسے ، پانی کی یہ صفت ہے کہ وہ
آگ کو بجھا دیتا ہے ، آگ کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو راکھ کر دیتی ہے تو
اسی طرح انسان جس کو اشرف المخلوقات (تمام مخلوقوں میں افضل) قرار دیا گیا اس کو
اللہ پاک نے کیوں صفات عطا نہیں کی ہوگی، اور جو تمام انسانوں میں افضل انبیائے
کرام علیہم السّلام۔ ان کو بھی یقیناً کئیں صفات عطا فرمائی ہیں۔ دنیا میں کم و
بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام تشریف لائے۔ جن میں سے ایک
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ہیں، آپ کا نام عیسیٰ ہے۔ آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا
کر بھیجے گئے ، آپ پر انجیل نازل فرمائی، آپ کی وفات کے (569) برس کے بعد حضور
علیہ الصلوۃ و السّلام تشریف لائے، اور اس عرصہ دراز تک درمیان میں کوئی نبی نہیں آیا۔
اللہ پاک نے قراٰن مجید میں پچیس مقامات پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا نام نامی
اسم گرامی ارشاد فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے قراٰن مجید میں بہت سے مقامات پر
آپ علیہ السّلام کی صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جن میں سے چند اوصاف ذکر کئے جاتے ہیں۔
اللہ پاک قراٰن مجید میں آپ علیہ السّلام کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ترجمۂ
کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے
ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے
ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن: 45، 46)
یہاں اللہ نے حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے 3 اوصاف ذکر کئے ہیں۔ (1)دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہونا۔ (2)اللہ
کا مقرب بندہ ہونا (3) جھولے میں لوگوں سے کلام کرنا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے کتنے مقرب
بندے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا
لیا گیا ، اور آپ بروز قیامت جامع مسجد دمشق کے مینار پر نزول فرمائیں گے ۔ پھر
دجال و خنزیر کو قتل کرینگے، صلیب توریں گے، یہ صفات صرف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کے ساتھ خاص ہیں۔ اب اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ معاذ اللہ باقی تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام اللہ پاک کے مقرب بندے نہیں بلکہ تمام کے تمام اپنے اپنے درجے کے
مطابق اللہ کے مقرب ہیں۔ (واللہ اعلم)
رب تعالٰی ایک اور مقام
پر ارشاد فرماتا ہے، ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا،
اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے ۔ (پ3، آلِ عمرٰن :45)
یہاں اللہ پاک نے یہ صفات
ذکر فرمائی :(1) اپنا بندہ کہاں(2) اپنا کلمہ کہاں(3) مسیح کہا (4) عیسی بن مریم
کہا۔ آپ کو کلمہ اس لئے کہا گیا کیونکہ آپ کلمہ" کن" سے پیدا ہوئے۔ آپ
کو مسیح اس لئے کہا گیا کہ آپ کوڑ کے مریض کو چھو کر ٹھیک کردیا کرتے تھے۔ آپ کو
یہ لقب نبوت کے بعد ملا۔ آپ کو عیسیٰ بن مریم کہا (یعنی آپ کی والدہ کی طرف نسبت
کری) کیونکہ اگر آپ والد کے بغیر پیدا نہ ہوتے تو آپ کے والد کی طرف نسبت کری جاتی
جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزالعرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی
نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔ (پ 21، الاحزاب :5) ایک
اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ
کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔(پ16،مریم:30)یہاں عیسیٰ علیہ السّلام کا یہ وصف بیان کیا
کہ آپ نے جھولے میں ہی لوگوں سے کلام کیا اور ان کو بتا دیا کہ میں الله کا بندہ
ہوں، اس کانبی ہوں اس نے مجھے کتاب دی اس آیت سے یہودیوں کا یہ عقیدہ غلط ثابت ہوا
کہ معاذاللہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام خدا ہیں۔ آپ نے خود ہی فرمایا: میں اللہ کا
بندہ ہوں۔ کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ پیدا نہیں ہوتا اور جو پیدا ہوتا ہے وہ خدا
نہیں ہوتا۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے
مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید
فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا)
اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32،31)
اس آیت میں حضرت عیسیٰ
علیہ السّلام نے اپنا مبارک ہونا خود فرمایا ہے مگر میرے حضور علیہ السّلام کا برکت
والا ہونا خود رب کریم نے قراٰن میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ اور نہیں
بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیآء:107)
ذیشان نبی ہیں سب لیکن
میرے سرکار کے جیسا کوئی نہیں
الله پاک سے دعا ہے کہ وہ
ہمیں شریعت پر عمل پیرا ہونے ، انبیائے کرام کی معصومیت کو ماننے اور اپنی ماں کے
ساتھ حسن سلوک کرنے اور انبیا کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے۔ اٰمین
بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم

اللہ پاک نے انسانوں
کیلئے ہدایت کیلئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو بھیجا اور ان کو
بہت سے معجزات و صفات اور دیگر کمالات سے نوازا۔ اور ان میں سے کچھ انبیائے کر ام
کا قراٰن پاک میں تذکرہ بھی فرمایا۔ اور ان انبیائے کرام میں سے حضرت عیسی (علیہ السلام)
بھی ہیں۔ کہ جن کا قراٰن پاک میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ آپ (علیہ اسلام)
اولوالعزم رسولوں میں سے ہیں۔ اللہ پاک نے آپ (علیہ السّلام) کو بہت سے معجزات
وصفات عطا کیئے۔
آئیے معزز قارئین کرام ان
صفات میں سے چند صفات ملاحظہ ہوں:۔
بغیر باپ کے پیدا
ہونا : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی
ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے کہ جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو
فرشتے نے بیٹے کی خوشخبری سنائی تو آپ رضی الله عنہا نے فرمایا: قَالَتْ اَنّٰى
یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ ترجَمۂ کنزُالایمان: بولی میرے لڑکا کہاں سے ہوگا مجھے تو نہ کسی آدمی نے ہاتھ
لگایا ۔(پ16،مریم:20)
بچپن میں کلام کرنا :
جب لوگوں نے حضرت مریم
(رضی اللہ عنہا) پر تہمت لگائی تو آپ (علیہ السّلام) نے اپنی والدہ کا دودھ پینا چھوڑ دیا
اور لوگوں کی طرف توجہ ہو کر بات کرنا شروع کی۔ اور فرمایا : قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ
اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے
کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ (پ16،مریم:30)
پرندے بنانا : ارشاد باری ہے : اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ
الطَّیْرِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں
تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتا ہوں۔(پ3،اٰل عمرٰن: 49)
جب حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام)
نے نبوت کا دعوی کیا تو آپ نے لوگوں کی درخواست پر مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی اور
اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی۔ (تفسیر خازن اٰل عمرٰن)
بیماروں کو شفا دینا
: ارشاد باری ہے: وَ اُبْرِئُ
الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے
اور سپید داغ والے کو ۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)
حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام)
کے پاس ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہو جاتا تھا۔ آپ (علیہ اسلام)
دعا فرما کر ان کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کر لیتے۔
(تفسیر خازن)
مُردوں کو زندہ کرنا
: ارشاد باری ہے: وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى
بِاِذْنِ اللّٰهِۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے۔(پ3،اٰل عمرٰن:49) حضرت عبداللہ بن عباس (رضی
اللہ عنہ) نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے چار شخصوں کو زندہ کیا۔ (1)
عازر (2) ایک بڑھیا کا لڑکا (3) ایک لڑکی جو شام کے وقت مری (4) سام بن نوح۔(
تفسیر قرطبی، اٰل عمرٰن )
غیب کی خبر دینا : ارشاد باری ہے : وَ اُنَبِّئُكُمْ
بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع
کر رکھتے ہو۔(پ3،اٰل عمرٰن:49)آپ علیہ السّلام آدمی کو بتا دیتے تھے جو وہ کل
کھا چکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کر رکھا ہوتا۔(تفسیر جمل)
کلمۃُ الله : ارشاد باری ہے: اِذْ قَالَتِ
الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ- ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا،
اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے ۔ (پ3، آلِ عمرٰن :45)حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) کو کلمۃ اللہ اس
لئے کہا جاتا ہے کہ آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ "کن "
سے ہوئی ۔ (تفسیر صراط الجنان)
اس کے علاوہ آپ (علیہ السّلام)
کی اور بہت سی صفات کا قراٰن پاک میں تذکرہ آیا ہے۔ جہا کہ آپ کو روح الله ،وجیہ
فی الدنیا فر مایا گیا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیائے کرام سے سچی محبت
عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد حدیر فرجاد (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان ابو عطار ،کراچی پاکستان)

ابتدائے دنیا سے لے کر
انتہاء دنیا تک اللہ پاک نے مختلف قوموں کے لیے مختلف انبیا و رسولوں کو بھیجا جو
اللہ پاک کی طرف بلاتے اور نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے تھے یہ سلسلہ
حضرت آدم (علیہ الصلاة والسّلام) سے شروع ہوا اور ہمارے پیارے آقا ( صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تک ختم ہوا۔ تمام انبیا و رسولوں کے الگ الگ مراتب و مناقب
ہیں۔ ان میں سے جو بِن باپ کے پیدا ہوئے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ الصلاۃ والسّلام)۔
ان کی بھی قراٰنِ پاک میں کثیر صفات و معجزات ذکر کیئے گئے ہیں ۔
حضرت عیسیٰ (علیہ
الصلاة والسّلام آسمان پر :
جب حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام)
نے یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو چونکہ یہودی تورات میں پڑھ چکے تھے
کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) ان کے دین کو منسوخ کردیں گے۔ اس لئے یہودی آپ کے
دشمن ہو گئے ۔یہاں تک کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) نے یہ محسوس فرما لیا کہ
یہودی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور وہ مجھے قتل کردیں گے۔ تو ایک دن آپ نے لوگوں
کو مخاطب کرکے فرمایا : مَنْ
اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف۔(پ3، آلِ عمرٰن:52) حواریوں نے یہ کہا: نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ
اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(۵۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں
ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔(پ3، آلِ عمرٰن:52)
باقی تمام یہودی اپنے کفر
پر جمے رہے یہاں تک کہ جوشِ عداوت (دشمنی) میں ان یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ
بنا لیا اور ایک شخص کو یہودیوں نے جس کا نام "ططیانوس" تھا آپ کے گھر
میں آپ کو قتل کر دینے کے لیے بھیجا۔ اتنے میں اچانک الله پاک نے حضرت جبرئیل
(علیہ السّلام) کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا اور اس بدلی نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا
لیا آپ کی والدہ جوش محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا: اماں جان! اب
قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہوگی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا
اور یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔
اس وقت آپ کی عمر شریف بقول علامہ جلالدین سیوطی
(رحمۃُ اللہ علیہ) (33) برس کی تھی ۔ بقول علامہ زرقانی شارح مواہب (رحمۃُ اللہ
علیہ) اس وقت آپ کی عمر شریف (120) برس کی تھی۔
جب "ططیانوس" بہت دیر مکان سے باہر نہیں آیا تو یہودیوں
نے مکان میں گھس کر دیکھا تو اللہ پاک نے "ططیانوس " کو حضرت عیسی (علیہ
السّلام) کی شکل بنا دیا اور یہودیوں نے "ططیانوس " کو حضرت عیسی سمجھ
کر قتل کر دیا۔ اس کے بعد جب "ططیانوس " کے گھر والوں نے ۔ غور سے دیکھا
تو صرف چہرہ حضرت عیسی (علیہ الصلاة والسّلام) کا تھا باقی سارا بدن " ططیانوس
" ہی کا تھا تو اس کے اہل خاندان نے کہا کہ اگر یہ مقتول عیسی (علیہ السّلام)
ہے تو ہمارا آدمی ططیانوس کہاں ہیں؟ اور اگر یہ ططیانوس ہے تو حضرت عیسی (علیہ السّلام)
کہاں ہیں ؟ اس پر خود یہودیوں میں جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک
دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور بہت سے یہودی قتل ہو گئے۔ قراٰن پاک میں اللہ
پاک نے اس واقعہ کو بیان فرمایا ۔ ( عجائب القراٰن و غرائب القراٰن ،ص 75،74)
وَ مَكَرُوْا وَ
مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠(۵۴) اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ
رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ
اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ
تَخْتَلِفُوْنَ(۵۵) ترجمہ کنز الایمان : اور کافروں نے مکر کیا ا ور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر
فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔ یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسٰی
میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا۔اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے
پاک کردوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری
طرف پلٹ کر آؤگے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔(پ3، آلِ
عمرٰن:55،54)
آپ کے آسمان پر چلے جانے
کے بعد حضرت مریم (رضی اللہ عنہا) نے چھ (6) برس دنیا میں رہ کر وفات پائی ہے۔
(عجائب القراٰن وغرائب القراٰن ،ص75)
(بخاری و مسلم) کی روایت
ہے کہ قرب قیامت کے وقت۔ حضرت (عیسی علیہ السّلام) زمین پر اتریں گے اور حضور(علیہ
الصلاۃ و السّلام) کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال، خنزیر کو قتل کریں گے اور
صلیب کو ٹوریں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ
منورہ میں گنبد خضراء میں مدفون ہونگے۔ ( تفسیر جمل علی الجلالین، 1/ 427 )
الله پاک سےدعا ہے حضرت عیسیٰ
(علیہ السّلام) کے صدقہ ہم سب کی پریشانیاں دور فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)
محمد اریب (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنز الایمان ، کراچی پاکستان)

آپ علیہ السّلام کا نام عیسیٰ
ہے اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السّلام سے جا ملتا ہے۔ آپ علیہ السّلام کی کنیت
ابن مریم جبکہ آپ کے القاب مسیح کلمۃُ اللہ اور روحُ الله ہیں۔ آپ علیہ السّلام
اللہ کے مقبول بندے ، برگزیدہ نبی اور اولو العزم والے رسول ہیں۔ آپ علیہ السّلام
کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔ آپ علیہ السّلام حضرت مریم سے بغیر
باپ کے پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ یہودیوں نے آپ کے
قتل کی سازش کی تو اللہ نے آپ کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قربِ قیامت میں
دوبارہ زمین میں تشریف لائیں گے، ہمارے نبی کی شریعت پر عمل کریں گے، صلیب کو توڑیں
گے ،خنزیر اور دجال کو قتل کریں گے ،40 سال تک زمین پر قیام فرمائیں گے پھر وصال
کے بعد مدینہ منورہ میں حضور کے حجرے میں مدفون ہوں گے۔ اللہ نے اپنے کلام میں ان
کی صفات کو ذکر کیا ہے جن کا بیان ذیل میں کیا جائے گا۔
(2،1)اللہ کے معزز اور مقرب
بندے: حضرت عیسی علیہ السّلام اللہ پاک کے معزز اور مقرب بندے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد
باری ہے : وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ
الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) ترجمۂ
کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن:45)
(3) چھوٹی عمر میں
کلام کرنے والا: حضرت عیسی علیہ السّلام
نے بڑی عمر کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر میں بھی کلام کیا۔ جس کے بارے میں ارشادِ الہی
ہے : وَ یُكَلِّمُ
النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر
میں بات کرے گا ۔(پ3،اٰل عمرٰن: 46)
(4) خاص بندے : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
اللہ کے خاص بندوں میں سے ہیں جس کا ذکر کلامُ اللہ میں اس طرح ہے : وَّ مِنَ
الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنزالعرفان: اور خاص بندوں میں
سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن: 46)
(6،5)نماز اور زکوٰۃ کے پابند: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ نے
نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا۔ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ
حَیًّاﳚ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں۔(پ16،مریم:31)
(7) ماں سے اچھا سلوک
کرنا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کا ایک وصف یہ ہے کہ وہ اپنی ماں سے اچھا سلوک کرتے تھے جو قراٰن میں اس طرح مذکور
ہے۔ وَّ بَرًّۢا
بِوَالِدَتِیْ٘ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا۔(پ16،مریم:32)
(8) تکبر اور شقاوت
سے محفوظ : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام مذموم
صفات سے محفوظ تھے۔ وَ لَمْ
یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مجھے زبردست بدبخت نہ
کیا۔(پ16 ، مریم:32)
(9) عاجزی اور انکساری: حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام محمود صفات کے پیکر تھے۔ اللہ پاک نے اس کے بارے میں بھی ارشاد
فرمایا: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ
الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: نہ تو مسیح اللہ
کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے۔ (پ6،النسآء : 172)
(10) صاحب انجیل : چار مشہور آسمانی
کتابوں میں سے ایک کتاب انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر نازل ہوئی۔ جس کا ذکر قراٰن
مجید میں یوں ہے : وَ
اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے انجیل عطا کی ۔ (پ 6 ، المآئدۃ : 46 )
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ خلفائے راشدین
راولپنڈی،پاکستان)

تمام انبیائے کرام علیہم السّلام
اعلٰی صفات کے جامع ہوتے جس سے لوگوں کو یہ سبق ملتا کہ نبی علیہ السّلام کی اعلی
صفات کو اپنا کر اپنی زندگی و معاشرے کو سنوارنے میں اعلٰی کردار ادا کریں۔ ہر نبی
کو طرح طرح کی صفات سے نوازا گیا، کسی کو تمام انسانوں کے والد ہونے کا شرف حاصل
تو کوئی آدمِ ثانی(یعنی دوسرے والد)، کسی سے خدا ہم کلام ہوا اور کسی کو جنت و
جہنم کی سیر کرائی، کسی کو آبِ حیات پلایا اور کوئی وہ جسے شیرنی نے دودھ پلایا،
کسی کی آواز دلنشین تو کسی کو حسین صورت سے نوازا گیا، الغرض طرح طرح کی صفات سے نوازا
گیا۔ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو بھی بہت سی
صفات سے نوازا۔ وہ صفاتِ عیسٰی علیہ السّلام جن کا ذکر قراٰن مجید میں ہوا مندرجہ
ذیل ہیں:
(1) حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام بندۂ خدا ہونے پر کوئی شرم و
عار فرمانے والے نہیں تھے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ
عَبْدًا لِّلّٰهِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: نہ
تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے۔ (پ6،النسآء : 172) تفسیر
صراط الجنان میں ہے : عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ کا بندہ کہنے کو عیسیٰ
علیہ السّلام پر عیب لگانا کہتے تھے تو اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ نیز اللہ
پاک کا بندہ ہونا باعثِ فخر ہے نہ کہ باعثِ شرم۔ (صراط الجنان،2/410 ، ملخصاً)
(2تا5) آپ علیہ السّلام کَلِمة اللہ، بغیر باپ کے حضرتِ مریم رضی اللہ
عنہا کے بیٹے، مسیح اور معزز و مقرب تھے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے : اِذْ قَالَتِ
الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ
الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ
مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے
کہا، اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح
،عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب
بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن:45) تفسیر صراط الجنان میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں
فرمایا کہ وہ اللہ پاک کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ
علیہ السّلام مَس کر کے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت
والے ہیں اور رب کریم کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت علیہ السّلام کی نسبت
باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بغیر
باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ علیہ السّلام کا کوئی باپ ہوتا
تو یہاں آپ علیہ السّلام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔(صراط
الجنان،1/546 )
(6تا8) آپ علیہ السّلام چھوٹی عمر میں اور بڑی عمر میں کلام
فرمانے والے تھے اور اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے تھے ، جیسا کہ کلامِ پاک میں
ذکر ہے: وَ یُكَلِّمُ
النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں اور
خاصوں میں ہوگا۔ (پ3 ،آل عمران:46) صراط الجنان میں ہے: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کی تین صفات یہاں بیان ہوئیں۔(1) بات کرنے کی عمر سے پہلے ہی کلام کریں گے۔(2) پکی عمر میں
لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور وہ یوں کہ آسمان سے اترنے کے بعد آپ علیہ السّلام
لوگوں سے کلام فرمائیں گے، اور دَجال کو قتل کریں گے۔ (3)اللہ پاک کے خاص بندوں
میں سے ہیں۔(صراط الجنان، 1/546،547،ملخصاً)
(9تا11) آپ علیہ السّلام مبارک تھے، نماز کے پابند اور زکوة
کی ادائیگی پر تاکید فرمانے والے تھے۔ جیسا کہ آپ کا قول قراٰن مجید میں ذکر : وَّ جَعَلَنِیْ
مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا
دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے مجھے
مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید
فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ (پ16، مریم:31)صراط الجنان میں ہے: حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ مجھے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے
مجھے لوگوں کے لئے نفع پہنچانے والا، خیر کی تعلیم دینے والا ، اللہ پاک کی طرف
بلانے والا اور اس کی توحید اور عبادت کی دعوت دینے والا بنایا ہے خواہ میں کہیں
بھی ہوں۔(صراط الجنان،6/95)
(13،12) آپ علیہ السّلام اپنی والدہ سے اچھا سلوک فرمانے والے
تھے اور متکبر و بدنصیب نہ تھے جیسا کہ خود آپ علیہ السّلام فرماتے ہیں : وَّ بَرًّۢا
بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور
مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32)
مذکورہ صفات میں سے چند
نبوت کے ساتھ خاص ہیں اور کچھ ایسی ہیں جنہیں ہر مسلمان کو اپنانا چاہیے، جیسا کہ
والدین کی فرمانبرداری،نماز و زکوٰة کی پابندی سے ادائیگی، متکبر نہ ہونا اور
عاجزی و انکساری اختیار کرنا وغیرہ۔ انبیائے کرام کی صفات کو پڑھنے کا ایک مقصد یہ
بھی ہے کہ ان کو سمجھیں اور جن پر امتی عمل کر سکتا ہو ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی
زندگی سنواریں۔
اللہ پاک ہمیں انبیائے
کرام کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین
محمد انس رضا بن عبد الانیس(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی ،پاکستان)

اللہ پاک قراٰن مجید
فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے : تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجمۂ کنزالایمان: یہ رسول ہیں کہ ہم
نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔ (پ3،البقرۃ:253)
قراٰن پاک میں اللہ رب
العزت نے اپنے رسولوں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولوں میں بعض کو بعض پر
فضیلت دی۔ نفسِ رسالت میں تمام مرسلین برابر ہیں مگر ان کے مراتب میں ان کو فضیلت
حاصل ہے اور ان فضیلت والے رسولوں میں سے بھی بعض کو اللہ رب العزت نے اولو العزم
کے لقب سے قراٰن مجید میں ذکر فرمایا اور انہی اولو العزم میں سے ایک رسول حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے بڑے مقام و مرتبے سے نوازا اور
آپ بھی اولو العزم رسولوں میں سے ایک ہیں ۔
قراٰن مجید میں بھی اللہ
رب العزت نے آپ کے بہت سے مقامات پر فضائل بیان فرمائے ان شاء اللہ ان ہی فضائل
میں سے چند کو یہاں قراٰن مجید کی روشنی میں ذکر کیا جائے گا۔
وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ
الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں
عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی۔(پ 3،البقرۃ : 253)
دوسرے مقام پر فرمایا: وَ رَسُوْلًا
اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ
ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ
فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ
الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا
تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ
لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) ترجمۂ کنز الایمان: بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ
میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے
پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہو جاتی
ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور
میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے
گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان
رکھتے ہو۔(پ3، آلِ عمرٰن :49)
پیارے اسلامی بھائیو! ان
آیاتِ بینات میں رب جل جلالہ نے بیان فرما دیا کہ اے بنی اسرائیل تمہاری طرف جو
نبی مبعوث فرمایا وہ عیسیٰ بن مریم ہیں اور وہ تمہاری طرح نہیں بلکہ وہ اللہ کے
رسول اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں اور پھر ان کی شان بیان فرمائی کہ
عیسیٰ علیہ السّلام وہ نبی ہیں کہ جنہیں ان کے رب نے بینات بھی عطا فرمائے اور ان
کی روح القدس کے ذریعے مدد بھی فرمائی۔ بینات سے مراد آپ کے معجزات، دلائل ہیں یا
تو تورات و انجیل ہے اور روح القدس سے مراد حضرت جبرئیل علیہ السّلام ہیں۔
اللہ پاک نے جو آپ کو
معجزات عطا فرمائے جن کو آپ کی نبوت پر دلیل بنایا اس کو بھی اللہ پاک نے قراٰن
مجید میں بیان فرمایا کہ یہ عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام ہیں جو کہ تمہاری ( بنی
اسرائیل کی ) طرف مبعوث کئے گئے اور ان کی شان یہ ہے کہ یہ مٹی سے ایک پرندے کے
ہیئت پر ایک پرندہ بناتے ہیں پھر اس میں پھونکتے ہیں تو اللہ رب العزت کے حکم سے
وہ ایک پرندہ بن جاتا ہے ۔ اور اللہ پاک نے ان کو یہ شان بھی عطا فرمائی ہے کہ یہ مادر زاد (پیدائشی)اندھے کو اور برص (کوڑھ) کے مریض کو شفا
دے دیتے ہیں اور یہ مُردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دیتے ہیں حتی کہ یہ تمہیں اس
کے بارے میں خبر دیتے ہیں جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں جمع کر کے
رکھتے ہو ۔
ان تمام معجزات و فضائل
کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے نبی و رسول
ہیں تم ان کی اطاعت کرو ان پر ایمان لاؤ اور جس کا یہ حکم دیں ان کو پورا کرو اور
اگر تم ان کی نبوت میں ان کی رسالت میں شک ہو تو ان کے معجزات میں ان کے کمالات
میں غور کرو کہ اللہ رب العزت جس کو اتنی شانیں عطا فرما رہا ہے وہ یقیناً ہماری
طرح نہیں اور یقیناً اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ضروری
ہے پھر فرمایا کہ اے بنی اسرائیلیوں اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان
رکھتے ہو تو۔
اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ
اپنے نبیوں کو معجزات بھی ان کے زمانے کے مطابق عطا فرماتا ہے جیسا کہ جب حضرت
موسیٰ علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا تو جب جادو کو عظیم سمجھنے کا دور تھا تو آپ
کو معجزات بھی اس کے مطابق عطا فرمائے اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو مبعوث
فرمایا تب اطباء اور علم طب کا دور تھا تو اللہ رب العزت نے آپ کو ایسے معجزات عطا
فرمائے کہ جس سے تمام اطباء کی عقلیں دنگ رہ جائیں اور وہ یہ دیکھے کہ جو ان لوگوں
کے لیے ناممکن تھا اور جس کو وہ کبھی نہ کر سکتے تھے اللہ پاک کا رسول وہ بھی کر سکتا
ہے۔ اللہ پاک نے اپنے رسول کو اس کی بھی شان عطا فرمائی ہے۔ جیسے مردوں کو زندہ
کرنا اور مادر زاد اندھوں کو بینا کرنا وغیرہ اور اسی طرح جب نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرمایا تب فصحاء و بلغاءِ عرب کا دور تھا اس لیے اللہ
رب العزت نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو قراٰن مجید جیسا عظیم معجزہ
عطا فرمایا کہ قیامت تک کفار کو چیلنج فرمادیا کہ اگر تم قراٰن مجید کے بارے میں
شک میں ہو تو اس جیسی ایک آیت لے آؤ لیکن صدیاں گزر چکیں آج تک کوئی اس جیسی ایک
آیت نہ لا پایا اور نہ قیامت تک لا پائے گا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر )
اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کے بارے میں افراط و تفریط کی گئی اس طرح کہ نصرانیوں نے حد سے زیادہ محبت میں آکر
آپ کو آپ کی شان سے بہت بڑا کردیا اور یہودیوں نے آپ سے شدید بغض کے وجہ سے آپ کی
اور آپ کی والدہ حضرت بی بی مریم رضی اللہ عنہا کی بہت گستاخیاں کی۔ اس کا اللہ رب
العزت نے قراٰن مجید میں ہی رد فرما دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی حقیقی شان
کو بھی بیان فرما دیا ۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ
رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ
مِّنْهُ٘-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ ۚ۫-وَ لَا تَقُوْلُوْا
ثَلٰثَةٌؕ-اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ-اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ
وَّاحِدٌؕ-سُبْحٰنَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌۘ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ
مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا۠(۱۷۱) ترجمۂ کنزالایمان: مسیح عیسیٰ
مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور اس
کے یہاں کی ایک روح تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین نہ کہو باز رہو
اپنے بھلے کو اللہ تو ایک ہی خدا ہے پاکی اُسے اس سے کہ اس کے کوئی بچہ ہو اُسی کا
مال ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ کافی کارساز(کام بنانے
والا) ہے۔(پ6 ،النسآء : 171)
پیارے پیارے اسلامی
بھائیو! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک نے اپنے انبیاء علیہم السّلام کو کس طرح شانیں
عطا فرماتا ہے کیونکہ وہ تمام لوگوں میں سب سے بہترین لوگ ہوتے ہیں اللہ پاک کے
قریب تر ہوتے ہیں اس لیے اللہ جل جلالہ ان کے مقامات کو بھی تمام لوگوں سے اعلی
رکھتا ہے اور جو ان سے بغض رکھے یا ان کی بے ادبی و گستاخی کرے اللہ پاک اس کو
نشان عبرت بنا دیتا ہے ۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے
تمام انبیاء علیہم السّلام کا ادب کرنے اور ان کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا
فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بخشش و مغفرت فرمائے۔