محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ خلفائے راشدین
راولپنڈی،پاکستان)
تمام انبیائے کرام علیہم السّلام
اعلٰی صفات کے جامع ہوتے جس سے لوگوں کو یہ سبق ملتا کہ نبی علیہ السّلام کی اعلی
صفات کو اپنا کر اپنی زندگی و معاشرے کو سنوارنے میں اعلٰی کردار ادا کریں۔ ہر نبی
کو طرح طرح کی صفات سے نوازا گیا، کسی کو تمام انسانوں کے والد ہونے کا شرف حاصل
تو کوئی آدمِ ثانی(یعنی دوسرے والد)، کسی سے خدا ہم کلام ہوا اور کسی کو جنت و
جہنم کی سیر کرائی، کسی کو آبِ حیات پلایا اور کوئی وہ جسے شیرنی نے دودھ پلایا،
کسی کی آواز دلنشین تو کسی کو حسین صورت سے نوازا گیا، الغرض طرح طرح کی صفات سے نوازا
گیا۔ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو بھی بہت سی
صفات سے نوازا۔ وہ صفاتِ عیسٰی علیہ السّلام جن کا ذکر قراٰن مجید میں ہوا مندرجہ
ذیل ہیں:
(1) حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام بندۂ خدا ہونے پر کوئی شرم و
عار فرمانے والے نہیں تھے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ
عَبْدًا لِّلّٰهِ ترجمۂ کنزُالعِرفان: نہ
تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے۔ (پ6،النسآء : 172) تفسیر
صراط الجنان میں ہے : عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ کا بندہ کہنے کو عیسیٰ
علیہ السّلام پر عیب لگانا کہتے تھے تو اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ نیز اللہ
پاک کا بندہ ہونا باعثِ فخر ہے نہ کہ باعثِ شرم۔ (صراط الجنان،2/410 ، ملخصاً)
(2تا5) آپ علیہ السّلام کَلِمة اللہ، بغیر باپ کے حضرتِ مریم رضی اللہ
عنہا کے بیٹے، مسیح اور معزز و مقرب تھے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے : اِذْ قَالَتِ
الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ
الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ
مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے
کہا، اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح
،عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب
بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن:45) تفسیر صراط الجنان میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں
فرمایا کہ وہ اللہ پاک کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ
علیہ السّلام مَس کر کے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت
والے ہیں اور رب کریم کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت علیہ السّلام کی نسبت
باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بغیر
باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ علیہ السّلام کا کوئی باپ ہوتا
تو یہاں آپ علیہ السّلام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔(صراط
الجنان،1/546 )
(6تا8) آپ علیہ السّلام چھوٹی عمر میں اور بڑی عمر میں کلام
فرمانے والے تھے اور اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے تھے ، جیسا کہ کلامِ پاک میں
ذکر ہے: وَ یُكَلِّمُ
النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں اور
خاصوں میں ہوگا۔ (پ3 ،آل عمران:46) صراط الجنان میں ہے: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کی تین صفات یہاں بیان ہوئیں۔(1) بات کرنے کی عمر سے پہلے ہی کلام کریں گے۔(2) پکی عمر میں
لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور وہ یوں کہ آسمان سے اترنے کے بعد آپ علیہ السّلام
لوگوں سے کلام فرمائیں گے، اور دَجال کو قتل کریں گے۔ (3)اللہ پاک کے خاص بندوں
میں سے ہیں۔(صراط الجنان، 1/546،547،ملخصاً)
(9تا11) آپ علیہ السّلام مبارک تھے، نماز کے پابند اور زکوة
کی ادائیگی پر تاکید فرمانے والے تھے۔ جیسا کہ آپ کا قول قراٰن مجید میں ذکر : وَّ جَعَلَنِیْ
مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا
دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے مجھے
مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید
فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ (پ16، مریم:31)صراط الجنان میں ہے: حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ مجھے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پاک نے
مجھے لوگوں کے لئے نفع پہنچانے والا، خیر کی تعلیم دینے والا ، اللہ پاک کی طرف
بلانے والا اور اس کی توحید اور عبادت کی دعوت دینے والا بنایا ہے خواہ میں کہیں
بھی ہوں۔(صراط الجنان،6/95)
(13،12) آپ علیہ السّلام اپنی والدہ سے اچھا سلوک فرمانے والے
تھے اور متکبر و بدنصیب نہ تھے جیسا کہ خود آپ علیہ السّلام فرماتے ہیں : وَّ بَرًّۢا
بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور
مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32)
مذکورہ صفات میں سے چند
نبوت کے ساتھ خاص ہیں اور کچھ ایسی ہیں جنہیں ہر مسلمان کو اپنانا چاہیے، جیسا کہ
والدین کی فرمانبرداری،نماز و زکوٰة کی پابندی سے ادائیگی، متکبر نہ ہونا اور
عاجزی و انکساری اختیار کرنا وغیرہ۔ انبیائے کرام کی صفات کو پڑھنے کا ایک مقصد یہ
بھی ہے کہ ان کو سمجھیں اور جن پر امتی عمل کر سکتا ہو ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی
زندگی سنواریں۔
اللہ پاک ہمیں انبیائے
کرام کے نقشِ قدم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین