الله پاک نے انبیائے کرام میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ جیساکہ قراٰن پاک میں ارشادِ رب العباد ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجمۂ کنزالایمان: یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔(پ3،البقرۃ:253) بالخصوص 5 اولو العزم رسل(محمد مصطفی، ابراھیم، موسیٰ ،عیسیٰ اور نوح علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسّلام) کو سب پر فائق فرمایا، انہی میں سے حضرت عیسی علیہ السّلام کا ذکر قراٰنِ پاک سے پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

قراٰن پاک میں کثرت سے عیسیٰ علیہ السّلام کا ذکر موجود ہے۔ جو آپ کے بلند و بالا مقام کو مزید واضح کرتا ہے یہاں چند مقامات حصول برکت کیلئے ذکر کیے جاتے ہیں۔

(1)آمد سے قبل آمد کی خبر : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تشریف آوری سے قبل ہی فرشتوں نے آپ کی والدہ کو آمد کی خبر سنا دی تھی جس کو قراٰن پاک نے یوں حکایت کیا۔

وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ(۴۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم بیشک اللہ نے تجھے چن لیا اور خوب ستھرا کیا اور آج سارے جہاں کی عورتوں سے تجھے پسند کیا۔

(2)بغیر باپ کے پیدائش :قراٰن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو آدم علیہ السّلام سے تشبیہ دی گئی جس کی مفسرین نے یہ وجہ ارشاد فرمائی کہ جیسے آدم علیہ السّلام بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تھے اسی طرح عیسیٰ علیہ السّلام بغیر باپ کے پیدا کیے گئے۔ قراٰن پاک میں ارشاد ربانی ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) ترجمۂ کنزالایمان: عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا وہ فوراً ہو جاتا ہے۔(پ 3 ، آل عمران : 59)

(3)جھولے میں کلام: عیسیٰ علیہ السّلام کا ایک وصف اور شرف قراٰن نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ نے بات کرنے کی عمر سے قبل ہی کلام کیا۔ جس کو حکایتًا یوں بیان کیا گیا: وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔ (پ3 ،آل عمران:46)

(4)روحِ قدس کی تائید : قراٰنِ پاک میں ارشاد ربِّ لم یزل ہے: وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی۔(پ3،البقرۃ :253) تفسیر صراط الجنان میں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے آسمان پر اٹھائے جانے تک حضرت جبرئیل علیہ السّلام سفر و حضر میں کبھی آپ سے جدا نہ ہوئے اور حضرت جبرئیل امین علیہ السّلام کی تائید حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بہت بڑی فضیلت ہے۔(صراط الجنان)

(5)سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی خبر :حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے نام لیکر ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی خوشخبری سنائی۔ جس کو رب کریم نے خود قراٰن میں حکایت فرمایا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالایمان: اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے ۔(پ28،الصف:6)

(6) رب تعالیٰ کا اپنی جانب اٹھا لینا: آپ علیہ السّلام کو رب کریم نے اپنی طرف اٹھا لیا اور قرب قیامت میں آپ دوبارہ نزول فرمائیں گے اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دین ہی کی تبلیغ فرمائیں گے۔ آپ کا اٹھایا جانا قراٰنِ پاک میں ذکر ہوا چنانچہ ارشاد ہوا: بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۵۸) ترجمۂ کنزالایمان: بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ6،النسآء:158)

الله پاک قابل اعتقاد باتوں کا عقیدہ رکھنا، قابلِ حفظ باتوں کو یاد کرنے اور قابل عمل باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے اللہ پاک نے اپنے برگزیدہ انبیائے کرام و رسل عظام کو مبعوث فرمایا تاکہ یہ لوگ ہدایت پا کر ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کریں۔ اللہ پاک نے اپنے ان برگزیدہ انبیائے کرام علیہم السّلام و رسل عظام کو مختلف ادوار میں مختلف بستیوں اور مختلف قوموں کی طرف بھیجا۔ان انبیائے کرام علیہم السّلام میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی جیسا کہ اس کا بیان قراٰن پاک کے تیسرے پارے میں کے شروع میں ملتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں بعض ہستیاں انبیاء و رسل کے مقام پر فائز ہیں اور بعض صرف نبوت کے درجے پر فائز ہیں لیکن ان میں سے ادنیٰ کوئی نہیں سب اعلی اعلی درجوں پر فائز ہیں۔ اور ان میں پانچ انبیائے کرام علیہم السّلام ایسے ہیں کہ جو اولوالعزم انبیائے کرام علیہم السّلام کے درجے پر فائز ہیں۔

اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیّدالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السّلام کا ہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت نوح علیہ السّلام کا، اِن حضرات کو مرسلین اُولو العزم کہتے ہیں، اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مرسلین انس و مَلَک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔ جس طرح حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تمام رسولوں کے سردار اور سب سے افضل ہیں ، بلا تشبیہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے صدقہ میں حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل۔ بالخصوص یہاں پر حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے بارے میں گفتگو کرنی ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام اولوالعزم انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی شان والے نبی ہیں اللہ پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو مختلف اوصاف و معجزات سے نوازا ہے۔

قراٰن پاک میں جہاں جہاں اللہ کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات کے ذریعے سے آپ کے اوصاف ملاحظہ ہوں۔

آپ علیہ السّلام کا نامِ مبارک عیسی اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السّلام سے جا ملتا ہے۔

آپ علیہ السّلام کی کنیت ابن مریم اور اس کے علاوہ آپ کے تین القاب ہیں۔

( 1)مسیح : آپ علیہ السّلام چونکہ مریضوں کو چھو کر ٹھیک کر دیتے تھے اس لیے آپ علیہ السّلام کو مسیح کہا جاتا ہے۔

(2) کلمۃُ اللہ: آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ” کن“ سے ہوئی ماں اور باپ کے نطفہ سے نہ ہوئی اس لیے آپ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ کہا جاتا ہے۔ فرمان باری ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) ترجمۂ کنز العرفان :بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ’’ ہوجا ‘‘ تووہ فوراً ہو گیا۔(پ 3 ، آل عمران : 59)

(3)روح اللہ: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنی طرف سے ایک خاص روح عطا فرمایا اس بناء پر آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے روح اللہ فرمایا۔ فرمان باری ہے: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘ ترجمۂ کنز العرفان: بیشک مسیح ، مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔(پ6 ،النسآء : 171) اللہ کریم حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بے شمار اوصاف و کمالات سے نوازا ہے جن کا بیان قراٰن پاک میں موجود ہے۔

اوصاف: (1تا4) آپ علیہ السّلام اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دنیا و آخرت میں بڑے مقرب اور عزت والے ہیں۔ آپ علیہ السّلام نے بڑی عمر کے علاوہ بہت جھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلام فرمایا۔ اور آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن‏: 45، 46)

(5تا9)آپ علیہ السّلام نماز کی پابندی فرمانے والے اور امت کو زکوۃ ادا کرنے کی تاکید کرنے والے تھے۔ آپ کی ذات گرامی بڑی برکت والی تھی۔ آپ علیہ السّلام والدہ محترمہ سے بہت اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ آپ تکبر سے محفوظ اور شقاوت سے دور تھے۔ قراٰن پاک میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا :وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ (پ16، مریم:31) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32)

(10) آپ علیہ السّلام اللہ پاک کا بندہ بنے میں کسی قسم کی شرم و وار محسوس نہیں کرتے تھے۔ ارشاد باری ہے : لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: نہ تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ (پ6،النسآء : 172)


انبیائے علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو بصیرت روح کو روحانیت دلوں کو چین عقل کو ہدایت سوچ کو وسعت کردار کو حسن زندگی کو تعاون بندوں کو کامیابی اور قوموں کو عروج بخشتا ہےانبیا و مرسلین علیہم السّلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے قراٰن و حدیث میں انبیا و مرسلین علیہم السّلام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں ان انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بھی ہیں آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے مقبول بندے برگزیدہ نبی اور اولو العزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی قراٰنی صفات:۔(1) نبی: قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰)ترجمۂ کنز الایمان : بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا(نبی) کیا ۔(پ19، مریم، 30) حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آپ والدہ کے پیٹ ہی میں تھے کہ آپ کو توریت کا اِلہام فرما دیا گیا تھا اور جھولے میں تھے جب آپ علیہ السّلام کو نبوت عطا کردی گئی اور اس حالت میں آپ علیہ السّلام کا کلام فرمانا آپ کا معجزہ ہے۔ (صراط الجنان مریم تحت الآیۃ 30)

(2) روح: اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘ ترجمہ کنز العرفان: جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔(پ6 ،النسآء : 171) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام مردوں کو زندہ کرتے تھے اس لیے آپ کو روح کہا جاتا ہے۔ (مدارک النسآء تحت الآیۃ 171)

(3) کلمۃ اللہ: عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ ترجمہ کنز العرفان: مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے۔ (پ6،النسآء: 171) آپ علیہ السّلام کو کلمہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جس طرح کلام سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے اسی طرح آپ سے بھی ہدایت حاصل کی گئی۔ (مدارک ،النسآء تحت الآیۃ 171) اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’ کُن‘‘ سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔ (صراط الجنان، آل عمران تحت الآیۃ 45)

(4) مسیح: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ترجمہ کنز العرفان: مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے۔ آپ علیہ السّلام کا لقب مسیح ہے کیونکہ آپ علیہ السّلام مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے۔ (صراط الجنان آل عمران تحت الآیۃ 45)

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کا کلمہ ہیں ، نام عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ علیہ السّلام مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے ہیں اور رب کریم کے مقرب بندے ہیں اس کے علاوہ بھی کئی اوصاف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے قراٰن مجید میں مذکور ہیں۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ کر کے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔


حضرات انبیائے کرام وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کو اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور ان کو بہت ساری صفات سے نوازا ۔آج ہم جس عظیم ہستی کا ذکر کریں گے ان کا نام حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السّلام ہے۔ آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گے تھے۔ اللہ پاک نے آپ کو بہت ساری صفات سے نوازا آج ہم ان صفات کا ذکر کریں گے جن کا ذکر قراٰن مجید میں آیا ہے۔

پہلا وصف :کلمۃُ اللہ ہونا: سورہ اٰل عمران آیت نمبر42 میں اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ(۴۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، بیشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہیں خوب پاکیزہ کر دیا ہے اور تمہیں سارے جہان کی عورتوں پر منتخب کر لیا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ "کُن" سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔

دوسرا وصف: مسیح ہونا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا ایک اور وصف مسیح ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان: جس کا نام مسیح ،عیسیٰ بن مریم ہوگا ۔( پ۳،اٰل عمران: 45)تفسیر صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے کہ، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو مسیح اس لئے کہتے ہیں کہ آپ چھو(touch) کر شفا دیتے تھے۔

تیسرا وصف: بغیر باپ کے پیدا ہونا: سورہ اٰل عمرٰن‏ آیت نمبر 59میں اللہ پاک ارشاد فرما تا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی ہے۔ اسے مٹی سے پیدا کیا اور اسے فرمایا "ہو جا" تو ہو گیا۔اس آیت کی تفسیر میں صراط الجنا ن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش نطفہ سے نہیں ہوئی ۔اللہ پاک نے آپ کو کلمہ 'کن' سے پیدا فرمایا۔

چوتھا وصف: تمام انسانوں کا آپ پر ایمان لے آنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا بیان سورۃ النسآء کی آیت نمبر 159 میں اس طرح ہے۔ ترجمہ کنز الایمان: کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے، اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہے۔ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں تفسیر بغوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور ہر وہ شخص جو غیرِ خدا کی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لے آ ئیں گے۔

پانچواں وصف: بات کرنے کی عمر سے پہلے کلام کرنا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا ذکر سورہ اٰل عمران آیت نمبر 46 میں یوں ہے ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں کلام کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہو گا۔سورہ مریم آیت نمبر 30 میں آپ کا کلام موجود ہے ۔ترجمہ کنز الایمان: بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا کیا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حافظ محمد فاروق اعظم ساقی (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ لاہور پاکستان)

اسلام بمقابلہ یہود و نصرانیت :سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے ‏کہ وہ اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں، ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم رضی اللہ ‏عنہا پاک دامن اور نیک سیرت خاتون بلکہ سیدنا زکریا علیہ السّلام کی صحابیہ تھیں، جن سے اللہ ‏پاک نے اپنی قدرت سے بغیر باپ کے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کو پیدا کیا اور نبوت اور رسالت ‏سے نوازا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر تھے، انہیں چار بڑی آسمانی ‏کتابوں میں سے ایک کتاب انجیل دی گئی۔ یہودیوں نے دشمنی میں انہیں قتل کرنا چاہا مگر وہ اس ‏میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ اللہ پاک نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ انہیں ابھی تک موت ‏نہیں آئی اور نہ وہ سولی پر چڑھائے گئے بلکہ وہ اسی دنیوی حیات کے ساتھ آسمانوں پر موجود ہیں ‏اگرچہ بحیثیت نبی وہ اپنا وقت دنیا میں مکمل کر گئے ہیں لیکن قیامت سے پہلے دنیا میں اپنی نبوی حیثیت کیساتھ ہی بحیثیت ‏امتی دوبارہ تشریف لائیں گے، دجال اکبر کا مقابلہ کر کے اسے شکست دیں گے اور اسے اپنے ‏ہاتھوں سے قتل کریں گے۔ مسلمانوں کے اس وقت کے امیر حضرت امام مہدی کے ساتھ مل ‏کر دنیا میں پھر سے نظامِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکمرانی، جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ‏ہے، قائم کریں گے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کچھ عرصہ حیات رہیں گے، ان کی شادی ہوگی، بچے ‏ہوں گے اور پھر وہ وفات پائیں گے جس کے بعد انہیں جناب نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ اطہر میں ‏سپرد خاک کر دیا جائے گا۔ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ‏رضی اللہ عنہما کی تین قبروں کے ساتھ روضہ اطہر میں ایک قبر کی خالی جگہ موجود ہے جسے سیدنا ‏عیسیٰ علیہ السّلام کی قبر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔

قراٰن کریم میں مختلف مقامات پر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے جن میں سے ‏چند درج ذیل ہیں: اہل ایمان کسی نبی کے درمیان(ایمان لانے کے اعتبار سے) فرق نہیں کرتے۔ لہذا فرمایا: ‏ یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے موسیٰ و عیسیٰ اور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں ۔ (سورۃالبقرۃ: 136)‏

رسولوں میں سے بعض کو بعض پر درجے کے اعتبار سے فضیلت: رسولوں میں سے بعض کو ‏بعض پر درجے کے اعتبار سے فضیلت دی گئی ہے اور عیسٰی علیہ السّلام کا رسولوں میں ایک الگ ‏اور نمایاں مقام ہے چنانچہ فرمایا: یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ‏ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا اور ہم نے مریم ‏کے بیٹے عیسیٰ(علیہ السّلام) کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔( البقرۃ: ‏‏253)‏

حضرت مریم رضی اللہ عنہا و عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت و پرورش کے متعلق سورہ اٰل ‏عمران کی آیات 35 تا 60 کا خلاصہ: ان آیات میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی ولادت و ‏پرورش اور پھر اس کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت و نبوت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا ‏خلاصہ یہ ہے: حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی والدہ محترمہ نے نذر مانی کے اے اللہ! میرے پیٹ میں جو بچہ ‏ہے میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں۔ مگر جب بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی ‏‏(مریم) تھی، ان کی والدہ نے اللہ پاک سے عرض کیا کہ یہ تو بچی ہے اور بچی کا معاملہ تو بچے سے ‏جدا ہے اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے تیری پناہ میں دیتی ہوں اور اس کی ‏اولاد کو بھی مردود شیطان کے شر سے۔ اللہ پاک نے یہ نذر قبول کر لی اور اسے اچھی پرورش ‏کے ساتھ بڑھایا جبکہ حضرت زکریا علیہ السّلام نے اس بچی کی کفالت کا۔

فرشتوں نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ پاک نے تجھے چن لیا اور پاکیزگی بخشی ‏ہے اور تجھے جہانوں کی عورتوں میں سے چنا ہے اس لیے تم اللہ پاک کی بندگی کرو اور اس کے ‏لیے رکوع اور سجدہ کرو۔ پھر فرشتوں نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دی کہ اللہ ‏پاک تجھے اپنے کلمہ کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام مسیح اور عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا و آخرت ‏میں باوقار ہوگا، اللہ پاک کے مقرب بندوں میں سے ہوگا، ماں کی گود میں اور پختہ عمر میں ‏یکساں کلام کرے گا اور نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے تو ‏ابھی تک کسی مرد نے چھوا تک نہیں، میرا بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ فرشتوں نے کہا کہ اسی کیفیت ‏میں ہوگا، اللہ پاک جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘(جیسا اس کی ‏شان کے لائق ہے)تو وہ ہو جاتا ہے، اور اللہ پاک اسے کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم ‏دے گا اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا۔

معجزات سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے ‏پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں، میں مٹی سے پرندے کا مجسمہ بناتا ‏ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ پاک کے حکم سے اڑنے لگتا ہے، میں مادر زاد اندھے ‏اور کوڑھی کو اللہ پاک کے حکم سے تندرست بنا دیتا ہوں، میں مردے کو اللہ پاک کے حکم سے ‏زندہ کرتا ہوں، جو کھانا تم کھاتے ہو اور جو گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو میں اس کی تمہیں خبر ‏دے سکتا ہوں، میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں، بعض چیزیں جو تم پر ‏پہلے حرام کی گئی تھیں انہیں حلال کرنے آیا ہوں اور تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانی لایا ‏ہوں۔ اس لیے تم اللہ پاک سے ڈرو اور میری پیروی کرو، بے شک اللہ پاک ہی میرا اور تمہارا ‏رب ہے، بس اسی کی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

جب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم کی طرف سے جھٹلائے جانے کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ ‏اللہ کی راہ میں میرے مددگار کون ہیں؟ ان کے حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ پاک کے مددگار ہیں ‏ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے اللہ! ہم آپ کے اتارے ‏ہوئے احکام پر ایمان لاتے ہیں اور ہم نے آپ کے رسول (حضرت عیسیٰ علیہ السّلام) کی پیروی ‏اختیار کی ہے اس لیے ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرما۔ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام ‏کے منکروں نے ایک چال چلی اور اللہ پاک نے تدبیر کی(جیسا اس کی شان کے لائق ہے) اور ‏اللہ پاک سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

پھر اللہ پاک نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام سے کہا کہ میں تجھے وصول کرنے والا ہوں اور اپنی طرف ‏اٹھا لینے والا ہوں اور تجھے کافروں سے نجات دینے والا ہوں اور تیرے(حقیقی) پیروکاروں کو ‏قیامت تک تیرے دشمنوں پر غلبہ دینے والا ہوں۔

سیدنا آدم و عیسیٰ علیہما السّلام میں تخلیق کے اعتبار سے مشابہت: بے شک حضرت عیسٰی علیہ ‏السّلام کی مثال آدم علیہ السّلام کی طرح ہے جنہیں اللہ پاک نے مٹی سے بنایا اور پھر فرمایا کہ ہو ‏جا تو وہ (ایک زندہ انسان) ہو گیا۔ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے، بس ہرگز تم شک ‏کرنے والوں میں نہ ہونا۔(اور اگر نصاریٰ کے بقول عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہونے کے سبب خدا ‏کے بیٹے ثابت ہوتے ہیں معاذ اللہ، تو پھر سیدنا آدم علیہ السّلام کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے ‏جو نہ صرف بن باپ ہیں بلکہ بن ماں کے بھی ہیں ۔)‏

آیات مباہلہ: پھر اے محبوب! جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت(جھگڑا)کریں بعد اس کے ‏کہ تمہیں علم آ چکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور ‏تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں ، پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ‏ڈالیں۔

یہود کے دلوں پر مہر گستاخی نبوت کی وجہ سے ہے: سورۃ النسآء کی آیت 155 تا 159 میں اللہ ‏پاک نے یہود بنی اسرائیل کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دینے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک ‏سبب یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام‎ ‎کا انکار کر دیا اور حضرت مریم رضی اللہ ‏عنہا پر (حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بغیر باپ ولادت کے حوالے سے) بہتان عظیم باندھ دیا اور ‏یہ کہا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ علیہ السّلام بن مریم رضی اللہ عنہا کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ نہ انہوں ‏نے اسے قتل کیا اور نہ سولی پر لٹکایا بلکہ وہ شبہہ میں ڈال دیے گئے اور جس بات میں وہ اختلاف ‏کرتے ہیں وہ شک کی بنیاد پر کرتے ہیں، ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ ‏صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کو ‏قتل نہیں کیا بلکہ اللہ پاک نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اللہ پاک زبردست اور حکمت والا ‏ہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی بھی نہیں ہے مگر وہ سب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام پر ان کی موت سے ‏پہلے ایمان لائیں گے۔

روح اللہ ہونے سے ابن اللہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ آدم علیہ السّلام بھی روح اللہ ہیں: ‏سورۃ النسآء آیت 171 میں فرمایا: اے کتاب والو! اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ پر نہ کہو مگر ‏سچ، مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور ‏اس کے یہاں کی ایک روح تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین نہ کہو، باز رہو اپنے ‏بھلے کو، اللہ تو ایک ہی خدا ہے پاکی اسے اس سے کہ اس کے کوئی بچہ ہو اسی کا مال ہے جو کچھ ‏آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ کافی کارساز ۔

اور سورۃ الحجر آیت29 میں سیدنا آدم علیہ السّلام کے حوالے سے ارشاد ہے کہ " جب میں اس کو ‏‏(انسانی صورت) میں ڈھال لوں اور اس میں (اپنی پسندیدہ) روح پھونک دوں تو تم سب اس ‏کیلیے سجدہ میں گر جانا"۔

سورۃ النسآء کی آیت 172 میں ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے کبھی اس بات سے عار محسوس ‏نہیں کی کہ وہ اللہ پاک کے بندے ہیں اور جو بھی اللہ پاک کی بندگی سے عار محسوس کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ پاک ان ‏سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

یہود و نصاریٰ کافر و مشرک ہیں: سورۃالمائدہ کی آیت 17 میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ ان ‏لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح بن مریم علیہ السّلام و رضی اللہ عنہا ہی خدا ہیں۔ ‏آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر اللہ پاک حضرت عیسیٰ علیہ السّلام، ان کی والدہ اور روئے زمین کے ‏سب لوگوں کو موت دے دیں تو اللہ پاک کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے؟

سورۃ المائدہ کی آیت 46 میں ارشاد باری ہے کہ ہم نے موسی علیہ السّلام کے بعد ان کے ‏نقش قدم پر عیسیٰ علیہ السّلام بن مریم رضی اللہ عنہا کو بھیجا، وہ اس سے پہلے کی کتاب تورات کی ‏تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ تورات کی ‏تصدیق کرتی تھی اور متیقن کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

سورۃ المائدہ کی آیت 72 تا 75 میں ارشاد خداوندی ہے کہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں ‏نے کہا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام بن مریم رضی اللہ عنہا ہی خداوند ہیں۔ حالانکہ سیدنا عیسیٰ علیہ ‏السّلام نے فرمایا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ پاک کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اور ‏بے شک جس نے اس کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ پاک نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ‏ٹھکانہ آگ ہے۔ اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ پاک تین میں سے ایک ہے ‏کیونکہ اللہ پاک کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو انہیں دردناک ‏عذاب پہنچے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام صرف اللہ پاک کے رسول تھے ان سے پہلے کئی رسول ‏گزر چکے اور ان کی والدہ (حضرت مریم رضی اللہ عنہا) سچی خاتون تھیں اور وہ دونوں ماں بیٹا ‏کھانا کھایا کرتے تھے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کوتاہی کا انجام : سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 78 تا 80 میں ‏ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ان پر حضرت داؤد علیہ السّلام اور حضرت عیسیٰ ‏علیہ السّلام کی زبان پر (ان کے ذریعے) لعنت کی گئی اس لیے کہ وہ نافرمانی میں حد سے بڑھ گئے ‏تھے، وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے اور کافروں ‏کے ساتھ دوستی کیا کرتے تھے۔

تذکیر بآلاءاللہ: سورہ المائدہ کی آیت 109 تا 118 میں اللہ پاک سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کو اپنی ‏نعمتیں یاد دلائی ہیں کہ میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیں، جب ‏روح القدس (جبرائیل علیہ السّلام) کے ساتھ تمہاری مدد کی، جب تم ماں کی گود میں اور پختہ عمر ‏میں یکساں کلام کرتے تھے، جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی، ‏جب تم مٹی سے پرندوں کے مجسمے بنا کر ان میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے ‏لگتے تھے، تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے تندرست بنا دیا کرتے تھے، جب تم قبروں ‏سے مردوں کو زندہ اٹھا لیا کرتے تھے، جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہیں نقصان پہنچانے سے ‏روک دیا، جب تم ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے انہیں جھٹلاتے ‏ہوئے کہا تھا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، جب میں نے حواریوں سے کہا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ‏ایمان لاؤ تو وہ ایمان لے آئے، جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی علیہ السّلام بن مریم کیا آپ ‏کا رب اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (تیار کھانے کا) دستر خوان اتارے؟ ‏

انہوں نے کہا کہ اللہ پاک سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ حواریوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ‏ہم (آسمانی کھانا) کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم ‏سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں۔

نعمت خداوندی ملنے کے دن کو عید کا دن بنانا :سورة المائدة114میں فرمایا، عیسیٰ بن مریم ‏نے عرض کی ، اے اللہ ! اے رب ہمارے! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے ‏عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے ‏بہتر روزی دینے والا ہے ۔

‏(چنانچہ جس دن اللہ کی طرف سے نعمت عظمیٰ میسر آئی یعنی ولادت سرور کونین ہوئی اس دن کو ‏عید کہنا یا اسے عید کی طرح منانے میں کوئی حرج نہیں) ‏

‏ اللہ پاک نے فرمایا کہ میں تم پر دستر خوان اتارنے والا ہوں لیکن اس کے بعد جس نے کفر کیا ‏اسے ایسا عذاب دوں گا کہ سارے جہانوں میں ایسا عذاب کسی اور کو نہیں دوں گا۔

سورۃ المائدہ کی انہی آیات کے مطابق اللہ پاک سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام سے قیامت کے دن پوچھے ‏گا کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ پاک کے سوا خدا بنا لینا؟ سیدنا عیسیٰ ‏علیہ السّلام جواب دیں گے کہ اے اللہ تیری ذات ان باتوں سے پاک ہے، مجھے ایسی بات کہنے کا ‏کوئی حق ہی نہیں تھا اور اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، میں نے تو انہیں ‏وہی کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا کہ اللہ پاک کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔

علما و مشائخ سے دلیل طلب کرنا انکی توہین نہیں: سورۃ التوبہ آیت 29 و 30 میں اللہ پاک ‏ارشاد فرماتا ہے کہ یہود نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السّلام اللہ پاک کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے ‏کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی خود ساختہ باتیں ہیں اور وہ پہلے ‏کافروں کی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ پاک کے سوا ‏رب بنا رکھا ہے(کہ انکی بے دلیل باتوں پر ایمان رکھتے ہیں) اور عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام و ‏رضی اللہ عنہا کو بھی خدا بنا لیا ہے۔ حالانکہ انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ پاک کی عبادت کریں جو ایک ہی خدا ہے، اللہ پاک کی ذات اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ‏ہیں۔

عیسیٰ علیہ السّلام کی بن باپ پیدائش پر سوال اٹھانا دراصل قدرتِ خداوندی پر شک ‏کرنا ہے: سورہ مریم آیت 16 تا 40 میں اللہ پاک نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت کا تفصیل ‏کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا اپنے گھر والوں سے ‏مشرقی جگہ میں الگ ہو کر اوٹ میں ہو گئیں تو ہم نے روح القدس کو بھیجا جس نے ایک کامل ‏انسان کی شکل اختیار کر لی۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں تجھ سے ‏اللہ پاک کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا خوفی رکھنے والا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیرے رب کا بھیجا ‏ہوا ہوں تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میرا لڑکا ‏کہاں سے ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار عورت بھی نہیں ہوں۔ ‏فرشتے نے کہا کہ اسی کیفیت میں ہوگا، تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات میرے لیے آسان ہے ‏اور میں اس لڑکے کو اپنی قدرت کی نشانی بناؤں گا اور وہ رحمت ہوگا اور یہ بات تو طے ‏شدہ ہے۔ پس وہ حاملہ ہوئی اور اسے لے کر الگ دور جگہ میں چلی گئی، جب اسے درد زہ ایک ‏کھجور کے تنے کے پاس لے گیا تو اس نے (بدنامی کے خوف سے) کہا کہ اے کاش! میں اس سے ‏قبل مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی۔ فرشتے نے آواز دی کہ گھبراؤ نہیں تمہارے رب نے ‏تمہارے قدموں میں پانی کا چشمہ نکال دیا ہے اور کھجور کے تنے کو حرکت دو تم پر تروتازہ ‏کھجوریں گریں گی، پس کھاؤ ، پیو اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرو۔ اور اگر کسی انسان کو دیکھو تو اسے ‏بتاؤ(اشارے سے) کہ میں نے اللہ پاک کے لیے کلام نہ کرنے کا روزہ رکھا ہوا ہے اس لیے آج ‏کا دن میں کسی سے کلام نہیں کروں گی۔ پس وہ اپنے بچے کو لے کر قوم کے پاس آئی، وہ اسے ‏اٹھائے ہوئے تھی، لوگوں نے کہا کہ اے مریم رضی اللہ عنہا! تم تو یہ بہت بری چیز لے آئی ہو، ‏نہ تو تمہارا باپ برا شخص تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بدکار تھی۔

حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ گود ‏کے بچے سے ہم کیسے کلام کریں؟ اس پر سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام(ماں کی گود میں) بول پڑے ‏کہ بے شک میں اللہ پاک کا بندہ ہوں، مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے، مجھے ‏برکت والا بنایا ہے، میں جہاں بھی ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے، مجھے اپنی ماں کے لیے ‏فرمانبردار بنایا ہے اور تندخو اور بدنصیب نہیں بنایا، مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور ‏جس دن میں مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

یہ تفصیل بیان کر کے اللہ پاک ان آیات میں یہ فیصلہ سناتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام ‏و رضی اللہ عنہا یہی ہیں، یہی حق ہے جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‏اللہ پاک کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، اس کی ذات پاک ہے، وہ جب کسی کام کا فیصلہ ‏کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے (یعنی اس کو کسی مددگار/واسطے/وسیلے /ذریعے ‏اور اسباب پیدا کی محتاجی نہیں ہوتی)۔‏‎ ‎

سورۃ الزخرف آیت 60 میں فرمایا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں، ‏اس بات میں ہرگز شک میں نہ پڑنا اور میری پیروی کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

بدعت حسنہ کی اجازت لیکن مفاسد سے اجتناب ضروری: سورۃ الحدید آیت 27 میں ارشاد ‏ہے:پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا ‏اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیرووں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو ‏یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت ‏انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ‏ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا ، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں ۔یعنی رہبانیت بدعت حسنہ تھی انکی شریعت میں لیکن رہبانیت کو صفات خداوندی سے متصف ‏کر کے توحید باری سے منکر ہو بیٹھے نیز راہبوں کو خدا کا درجہ دینے لگے وغیرہ وغیرہ۔

دینِ خدا کے مددگار ہونے کا حکم اہل ایمان کو بھی ہے: چنانچہ سورۃ الصف آیت 6،14 میں ‏ہے کہ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہاری طرف اللہ پاک کا رسول ‏ہوں، مجھ سے پہلے کتاب تورات ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد آنے والے ‏نبی کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہوگا۔

نیز فرمایا: اے ایمان والو دین خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ بن مریم(علیہ السّلام و رضی اللہ ‏عنہا ) نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کرے؟ حواری ‏بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر ‏کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہو گئے۔

یہ ایک خلاصہ ہے جو قراٰن کریم کے بیسیوں مقامات میں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت ‏مریم رضی اللہ عنہا کے تذکروں میں سے پیش کیا گیا ہے امید واثق ہے کہ اللہ رب العالمین بہ ‏طفیل رحمۃ اللعالمین پڑھنے، سننے اور لکھنے لکھوانے والوں کے لیے ہدایت اور ثواب کا ذریعہ بنائے ‏گا ، ان شاء اللہ ۔


حضرات انبیائے کرام وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کو اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور ان کو بہت ساری صفات سے نوازا ۔آج ہم جس عظیم ہستی کا ذکر کریں گے ان کا نام حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السّلام ہے۔ آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گے تھے۔ اللہ پاک نے آپ کو بہت ساری صفات سے نوازا آج ہم ان صفات کا ذکر کریں گے جن کا ذکر قراٰن مجید میں آیا ہے۔

پہلا وصف :کلمۃُ اللہ ہونا: سورہ اٰل عمران آیت نمبر42 میں اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ(۴۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، بیشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہیں خوب پاکیزہ کر دیا ہے اور تمہیں سارے جہان کی عورتوں پر منتخب کر لیا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ "کُن" سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔

دوسرا وصف: مسیح ہونا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا ایک اور وصف مسیح ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان: جس کا نام مسیح ،عیسیٰ بن مریم ہوگا ۔( پ۳،اٰل عمران: 45)تفسیر صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے کہ، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو مسیح اس لئے کہتے ہیں کہ آپ چھو(touch) کر شفا دیتے تھے۔

تیسرا وصف: بغیر باپ کے پیدا ہونا: سورہ اٰل عمرٰن‏ آیت نمبر 59میں اللہ پاک ارشاد فرما تا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی ہے۔ اسے مٹی سے پیدا کیا اور اسے فرمایا "ہو جا" تو ہو گیا۔اس آیت کی تفسیر میں صراط الجنا ن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش نطفہ سے نہیں ہوئی ۔اللہ پاک نے آپ کو کلمہ 'کن' سے پیدا فرمایا۔

چوتھا وصف: تمام انسانوں کا آپ پر ایمان لے آنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا بیان سورۃ النسآء کی آیت نمبر 159 میں اس طرح ہے۔ ترجمہ کنز الایمان: کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے، اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہے۔ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں تفسیر بغوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور ہر وہ شخص جو غیرِ خدا کی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لے آ ئیں گے۔

پانچواں وصف: بات کرنے کی عمر سے پہلے کلام کرنا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا ذکر سورہ اٰل عمران آیت نمبر 46 میں یوں ہے ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں کلام کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہو گا۔سورہ مریم آیت نمبر 30 میں آپ کا کلام موجود ہے ۔ترجمہ کنز الایمان: بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا کیا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مختلف زمانوں میں متعدد انبیا ئے کرام بھیجے۔ یہ انبیائے کرام لوگوں کو ایمان و نیکی کی دعوت دیتے اور ان کی ہدایت و رہنمائی فرماتے۔ بہت سے انبیائے کرام دنیا میں تشریف لائے انہیں انبیائے کرام میں سے حضرت عیسی علیہ السّلام بھی ہیں ۔ آپ اللہ پاک کے نبی و رسول ہیں ۔ اللہ پاک نے آپ کو بہت کمال و خوبی سے نوازا تھا، انہیں میں پانچ صفات بیان کی جاتی ہیں۔

(1) آپ علیہ السّلام دنیا و آخرت میں بہت معزز اور مقرب بندے ہیں۔ آپ علیہ السّلام نے بڑی عمر کے علاوہ چھوٹی عمر میں بھی کلام فرمایا۔ آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے ہیں ۔ ارشاد باری ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن‏: 45، 46)

(2) اللہ پاک نے آپ کو مخلص حواری عطا فرمائے جو آپ کا حکم دل و جان سے تسلیم کرتے تھے۔ ارشاد باری ہے: وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْۚ-قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب میں نے حواریوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا :ہم ایمان لائے اور (اے عیسیٰ!) آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ (پ 7 ، المآ ئدة : 111)

(3) اللہ پاک نے آپ کو کتاب انجیل عطا فرمائی۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ۪-وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ فِیْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌۙ-وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَؕ(۴۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے ان نبیوں کے پیچھے ان کے نقشِ قدم پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اُس تورات کی تصدیق کرتے ہوئے جو اس سے پہلے موجود تھی اور ہم نے اسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ (انجیل) اس سے پہلے موجود تورات کی تصدیق فرمانے والی تھی اور پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت تھی۔ (پ 6 ، المآ ئدۃ : 46 )

(4) آپ علیہ السّلام کے جسم کی پیدائش کلمہ "کن" سے ہوئی باپ ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی اس لئے آپ کو کلمۃُ اللہ کہا جاتا ہے۔ فرمان باری ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ’’ ہوجا ‘‘ تووہ فوراً ہوگیا۔ ( پ 3 ، اٰل عمرٰن‏ : 59)

(5) روحُ الله : اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ایک خاص روح فرمایا۔ اس بنا پر آپ علیہ السّلام کو روحُ الله بھی کہا جاتا ہے۔ فرمان باری ہے: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘ ترجمۂ کنز العرفان: بیشک مسیح ، مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔(پ6 ،النسآء : 171)


حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے مقبول بندے اولوالعزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں، آپ علیہ السّلام حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے ، آپ علیہ السّلام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔ یہودیوں نے آپ علیہ السّلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ پاک نے آپ کو ان کے شر سے بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا ،قربِ قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے، اور آپ علیہ السّلام ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت پر عمل کریں گے، اور آپ علیہ السّلام وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔

انعامات الٰہی: الله پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو انجیل عطا فرمائی اور آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے بہت سے معجزات عطا فرمائے ان معجزات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام مٹی سے بنے پرندے کو پھونک مار کر حقیقی پرندہ بنا دیتے۔

اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بے شمار انعامات عطا فر مائے جن میں سے دو انعام یہ ہیں:

نمبر2،1:ولادت سے پہلے ہی آپ علیہ السّلام کی بشارت دی گئی اور نام و لقب دیا گیا، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح ،عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ (پ3، اٰلِ عمرٰن :45)


حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا مختصر تعارف : آپ علیہ السّلام کا نام نامی اسمِ گرامی عیسیٰ (علیہ السّلام) اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت مریم رضی اللہ عنہا ہے۔ آپ علیہ السّلام کی تاریخ پیدائش میں بہت اختلاف ہے۔ بہرحال آپ کی جائے پیدائش ( پیدائش کی جگہ) بیت اللحم ہے جو کوہ سرّہ میں واقع ہے اور کوه سره بیت المقدس سے 9 میل کی دوری پر ہے ۔

(1) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ایسے شخص ہیں جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور بچپن کی حالت میں ہی آپ سے معجزات کا ظہور ہونے لگا تھا۔ تفسیر صراط الجنان میں ہے :جب فرشتوں نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کو بیٹے کی بشارت دی تو انہوں نے حیرت سے عرض کیا: یا اللہ! ، میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ بھی نہیں لگایا اور دستور یہ ہے کہ بچہ عورت و مرد کے ملاپ سے ہوتا ہے تو مجھے بچہ کس طرح عطا ہوگا ، نکاح سے یا یوں ہی بغیر مرد کے؟ جواب ملا کہ اسی حالت میں یعنی تم کنواری ہی رہو گی اور فرزند پیدا ہو جائے گا، کیونکہ اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اس کی شان یہ ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرمالیتا ہے تو اسے صرف اتنا فرماتاہے ، ’’ ہوجا ‘‘تو وہ کام فوراً ہوجاتا ہے ۔ (صراط الجنان،1/478)حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے جلیل القدر نبی ہیں ۔ آپ علیہ السّلام پر اللہ پاک کی مقدس کتاب انجیل نازل ہوئی۔ آپ علیہ السّلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمائے گئے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے بڑے بڑے معجزات ظاہر ہوئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے اللہ پاک قراٰن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے : اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ ترجمۂ کنزالعرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی۔(پ3،اٰل عمرٰن‏:49) اس آیت کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے ایک معجزے کا ذکر ہے ۔

(1) مٹی کا چمکادڑ: آپ علیہ السّلام نے نبوت کا دعوی فرمایا تو لوگوں نے عرض کی کہ اگر آپ نبی ہیں تو الله کے حکم سے ایک چمکادڑ پیدا کریں تو آپ علیہ السّلام نے مٹی سے ایک چمکادڑ بنایا پھر اسے پھونک مار کر زندہ کر دیا تو فوراً وہ اڑنے لگا۔

چمگادڑ کی خصوصیت : چمگادڑ ایک عجیب پرندہ ہے اور قدرت پر دوسروں کے مقابل زیادہ دلالت کرتا ہے یہ پرندہ ہنستا ہے اور اس کی دانت بھی ہوتی ہے ۔ اور مادہ چمگادڑ کی چھاتی ہوتی ہے اور اس کو حیض بھی آتا ہے اور وہ بچہ بھی جنتی ہے ۔ جبکہ اڑنے والے پرندوں میں یہ خصوصیت نہیں ہوتی اور عجیب بات تو یہ ہے کہ اس کے پر نہیں ہے تب بھی یہ اڑتی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی صفات :ویسے تو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بہت سی خصوصیات ہیں ان کی ہر خوبی کو تو ذکر کرنا ممکن نہیں مگر ان میں چند صفات ذکر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔

"یا عیسی بن مریم "کے گیارہ حروف کی نسبت سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی گیارہ صفات:(1) کلمۃ الله ہونا(2) مہد میں کلام کرنا(3) مٹی کے پرندے کو پھونک مار کر زندہ کرنا (4) مسیح ہونا(5) مردوں کو زندہ کرنا(6) حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا بیٹا ہونا (7) مادر ذات اندھے کو شفا دینا (8) سفید داغ والے مریض کو شفا دینا(9) غیب کی خبریں دینا(10) اللہ پاک کی بارگاہ میں مقرب بندہ ہونا ( حوالہ صراط الجنان)(11) قرب قیامت دوبارہ دنیا میں تشریف لانا۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سچی پکی محبت عطا فرمائے اور ہمیں ان کی تعظیم بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نام : عیسیٰ (علیہ السّلام) ہے۔

نسب : آپ علیہ السّلام کا نسب حضرت داؤد علیہ السّلام سے ملتا ہے ۔

کنیت : آپ علیہ السّلام کی کنیت ابنِ مریم ہے۔

القابات : مسیح ، کلمۃ اللہ اور رُوح اللہ ہے ۔

(1) آپ علیہ السّلام چونکہ مس کر کے یعنی چھو کر بیماروں کو شفا دیتے تھے اس لیے آپ علیہ السّلام کو مسیح کہا جاتا ہے۔

(2)آپ علیہ السّلام کی پیدائش کلمہ کن سے ہوئی باپ اور ماں کے نطفے سے نہ ہوئی اس لئے آپ کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔(پ 3، اٰل عمرٰن: 59)

(3)اللہ نے آپ کو اپنی طرف سے ایک خاص روح فرمایا۔ اس بنا پر آپ کو رُوح اللہ بھی کہا جاتا ہے ۔(پ 6، النسآء، 112)

یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے قراٰن مجید سے کچھ اوصاف تحریر کرتا ہوں۔

(4)آپ علیہ السّلام دنیا و آخرت میں خدا کی بارگاہ میں بہت معزز و مقرب ہیں۔(پارہ 3،سورہ آل عمران،آیت 45)

(5) آپ علیہ السّلام نے چھوٹی عمر میں لوگوں سے کلام کرنے لگے تھے۔

(6) آپ علیہ السّلام جوانی میں بھی لوگوں سے کلام فرمائیں گے۔ (یعنی آسمان سے اترنے کے بعد)

(7) آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے ہے۔(پ 3، اٰل عمرٰن، 65)

(8) آپ علیہ السّلام نماز کے پابند تھے۔

(9) آپ علیہ السّلام امت کو ادائے زکوٰۃ کی تاکید کرنے والے تھے۔

(10) آپ علیہ السّلام کی ذات بہت بڑی برکت والی تھی۔(پ 16، مریم، 31)

(11) آپ علیہ السّلام والدہ سے اچھا سلوک کرنے والے تھے۔

(12) آپ علیہ السّلام تکبّر سے دور اور شقاوت سے محفوظ تھے ۔(پ 16، مریم، 32)

(13) آپ علیہ السّلام اللہ پاک کا بندہ بننے میں کسی طرح کا شرم و عار محسوس نہیں فرماتے تھے ۔(پ 6، النسآء، 172)

نوٹ: صراط الجنان، سیرتِ انبیاء علیہم السّلام ، سے اخذ کیا ہے ۔


اللہ پاک نے اس دنیا فانی میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار یا دو لاکھ چوبیسں ہزار انبیائے کرام و رسولِ عظام مبعوث فرمائے انہیں میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے بہت سی صفات کے ساتھ نبی اور رسول بنا کر اس دنیا میں بھیجا قراٰن کریم میں آپ علیہ السّلام کی بہت سی صفات بیان ہوئیں ہیں ان میں سے چند ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

(1) شیر خوار گی میں لوگوں سے کلام کرنا ۔ قراٰن کریم میں اس طرح بیان ہوا ہے: وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں اور پکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔ (پ3 ،آل عمران:46) قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاۙ(۳۰)ترجمۂ کنز الایمان : بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا(نبی) کیا ۔(پ19، مریم، 30)

(2) پکی عمر میں لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور وہ یوں کہ آسمان سے اترنے کے بعد آپ علیہ السّلام لوگوں سے کلام فرمائیں گے۔ جس طرح آپ علیہ السّلام کا بچپن میں لوگوں سے کلام کرنا معجزہ ہے ایسے ہی آپ علیہ السّلام کا آسمان سے اترنا بھی معجزه ہے۔

(3) آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے ہیں۔

(4) آپ علیہ السّلام کی یہ بہت ہی عظیم خصوصیت ہے کہ آپ کلمۃ اللہ ہیں ۔ یعنی آپ کا جسم اور روح سب لفظ ”کُن“ سے پیدا ہوئے ۔

(5) مسیح ہونا، حضرت مریم رضی اللہ عنہا کا بیٹا ہونا، آپ علیہ السّلام یہ بھی خصوصیت ہے کہ آپ کو ابن مریم کہا جاتا تھا وہ اس لئے کہ آپ علیہ السّلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔

(6) دنیا میں عزت والا ہونا کہ قراٰن کریم کے ذریعے سارے عالم میں آپ کے نام کی دھوم مچادی گئی۔

(7)آخرت میں خصوصی عزت والا ہونا بہت سے طریقوں سے ایک یہ بھی ہے کہ قیامت میں آپ علیہ السّلام کے ذریعے مخلوق کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک رہنمائی ملے گی، بارگاہ الہی میں بہت زیادہ قرب و منزلت رکھنے والا ہونا وغیرہ

(8)آپ علیہ السّلام کی ایک بھی خصوصیت ہے کہ جب قیامت قریب آئے گی تو آپ علیہ السّلام آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔

(9) آپ علیہ السّلام پر چار مشہور آسمانی کتابوں میں سے ایک آسمانی کتاب نازل ہوئی جس کا نام ”انجیل “ہے۔


اللہ پاک نے اپنے پیاروں کو بہت سی صفات و کمالات سے نوازا بالخصوص انبیا علیہم السّلام کو اس میں سے ایک نبی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بھی ہے۔ اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے صفات و کمالات عطا فرمائے۔ چنانچہ قراٰنِ کریم میں پارہ 3 آل عمران میں ہے: وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ(۴۸) وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ اسے سکھائے گا کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہو جاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔(پ3، آلِ عمرٰن :48،49)

تفسیر میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے پانچ صفت کا بیان ہے۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا، (2)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3)کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا، (4)مردوں کو زندہ کردینا، (5)غیب کی خبریں دینا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی صفات کی تفصیل:(1) پرندے پیدا کرنا: جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے نبوت کا دعویٰ کیا اور معجزات دکھائے تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپ علیہ السّلام ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ علیہ السّلام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔ (خازن، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 49، 1 / 251)

چمگادڑ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اڑنے والے جانوروں میں بہت عجیب ہے اور قدرت پر دلالت کرنے میں دوسروں سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے اور دانت رکھتی ہے اور ہنستی ہے اور اس کی مادہ کے چھاتی ہوتی ہے اور وہ بچہ جنتی ہے حالانکہ اُڑنے والے جانوروں میں یہ باتیں نہیں ہیں۔ (جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 418)

(2) کوڑھیوں کو شفایاب کرنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اس مریض کو بھی شفا دیتے جس کا برص بدن میں پھیل گیا ہو اور اَطِبّاء اس کے علاج سے عاجز ہوں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے زمانہ میں طب کا علم انتہائی عروج پر تھا اور طب کے ماہرین علاج کے معاملے میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اس لیے ان کو اسی قسم کے معجزے دکھائے گئے تاکہ معلوم ہو کہ طب کے طریقہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے اس کو تندرست کردینا یقیناً معجزہ اور نبی کی نبوت کی دلیل ہے ۔ حضرت وہب بن منبہ رضی اللہُ عنہ کا قول ہے کہ اکثر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے پاس ایک ایک دن میں پچاس پچاس ہزار مریضوں کا اجتماع ہو جاتا تھا ،ان میں جو چل سکتا تھا وہ حاضر خدمت ہوتا تھا اور جسے چلنے کی طاقت نہ ہوتی اس کے پاس خود حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تشریف لے جاتے اور دعا فرما کر اس کو تندرست کرتے اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی شرط کرلیتے ۔ (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 251)

(3) مردوں کو زندہ کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہمَا نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے چار شخصوں کو زندہ کیا ،ایک عازر جس کو آپ علیہ السّلام کے ساتھ مُخلصانہ محبت تھی، جب اس کی حالت نازک ہوئی تو اس کی بہن نے آپ علیہ السّلام کو اطلاع دی مگر وہ آپ علیہ السّلام سے تین روز کی مسافت کے فاصلہ پر تھا ۔جب آپ علیہ السّلام تین روز میں وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس کے انتقال کو تین روز ہو چکے ہیں۔ آپ علیہ السّلام نے اس کی بہن سے فرمایا، ہمیں اس کی قبر پر لے چل ۔وہ لے گئی ،آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک سے دعا فرمائی جس سے عازر حکمِ الٰہی سے زندہ ہو کر قبر سے باہر آگیا اور مدت تک زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد ہوئی ۔ دوسرا ایک بڑھیا کا لڑکا تھا جس کا جنازہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے سامنے جارہا تھا ، آپ علیہ السّلام نے اس کے لیے دعا فرمائی وہ زندہ ہو کر جنازہ اٹھانے والوں کے کندھوں سے اتر پڑا اور کپڑے پہنے، گھر آگیا ،پھر زندہ رہا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہوئی۔ تیسری ایک لڑکی تھی جو شام کے وقت مری اور اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے اس کو زندہ کیا۔ چوتھے سام بن نوح تھے جن کی وفات کو ہزاروں برس گزر چکے تھے ۔ لوگوں نے خواہش کی کہ آپ علیہ السّلام ان کو زندہ کریں۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام ان کی نشاندہی سے قبر پر پہنچے اور اللہ پاک سے دعا کی۔ سام نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے۔ ’’ اَجِبْ رُوْحَ اللہ‘‘ یعنی’’ حضرت عیسیٰ روحُ اللہ علیہ السّلام کی بات سن‘‘ یہ سنتے ہی وہ مرعوب اور خوف زدہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت قائم ہو گئی، اس کی دہشت سے ان کے سر کے آدھے بال سفید ہو گئے پھر وہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لائے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سَکراتِ موت کی تکلیف نہ ہو، اس کے بغیرانہیں واپس کیا جائے چنانچہ اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 2 / 74، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 420، ملتقطاً)

(4) غیب کی خبریں دینا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بیماروں کو اچھا کیا اور مردوں کو زندہ کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو جادو ہے اور کوئی معجزہ دکھائیے ،تو آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ جو تم کھاتے ہو اور جو جمع کر رکھتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دیتا ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے دستِ مبارک پر یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا آپ علیہ السّلام آدمی کو بتا دیتے تھے جو وہ کل کھا چکا اور جو آج کھائے گا اور جو اگلے وقت کے لیے تیار کر رکھا ہوتا۔ آپ علیہ السّلام کے پاس بہت سے بچے جمع ہو جاتے تھے، آپ علیہ السّلام انہیں بتاتے تھے کہ تمہارے گھر فلاں چیز تیار ہوئی ہے، تمہارے گھر والوں نے فلاں فلاں چیز کھائی ہے، فلاں چیز تمہارے لیے بچا کر رکھی ہے، بچے گھر جاتے اور گھر والوں سے وہ چیز مانگتے۔ گھر والے وہ چیز دیتے اور ان سے کہتے کہ تمہیں کس نے بتایا ؟بچے کہتے: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے ،تو لوگوں نے اپنے بچوں کو آپ علیہ السّلام کے پاس آنے سے روکا اور کہا کہ وہ جادو گر ہیں ، اُن کے پاس نہ بیٹھو اور ایک مکان میں سب بچوں کو جمع کر دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بچوں کو تلاش کرتے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا: وہ یہاں نہیں ہیں۔ آپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ پھر اس مکان میں کون ہے؟ انہوں نے کہا :سور ہیں۔ فرمایا: ایسا ہی ہوگا۔ اب جو دروازہ کھولا تو سب سور ہی سور تھے۔(تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 2 / 74، الجزء الرابع، جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 49، 1 / 420، ملتقطاً)


اللہ پاک نے انسان کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا تاکہ یہ حضرات لوگوں کو بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں جو بھی انبیائے کرام علیہم السّلام دنیا میں مبعوث ہوئے تمام نے اس عظیم منصب کو بحسنِ خوبی ادا کیا۔ اللہ پاک نے ان کو اوصافِ حمیدہ سے نوازا اور بد عقیدگی، بدعملی، بدخلقی اور سخت دلی سے معصوم رکھا تاکہ لوگ ان کے قریب آئیں اور زیادہ سے زیادہ ان کے فیضان سے مستفیض ہوں۔ ان انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام جن کو اللہ پاک نے رسول بنا کر مبعوث فرمایا۔جن کو آسمانی کتاب عطا کی جن کو اللہ پاک نے بےشمار اوصاف، کمالات اور خصائص عطا کئے جن میں سے کچھ کا ذکر قراٰنِ کریم میں بھی ہے، یہاں ان میں سے چند اوصاف کا ذکر کرتا ہوں:

(1)آپ اللہ کے رسول ہیں فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ترجَمۂ کنزُالایمان: مسیح عیسٰی مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے۔ (پ6، النسآء :171)

(2)آپ مقربین میں سے ہیں چنانچہ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن:45)

(3)آپ کلمۃُ اللہ ہیں اللہ کریم نے فرمایا: ﴿یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ ﴾ترجمۂ کنزالعرفان: اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی۔(پ3،اٰل عمرٰن:45) آپ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’ کُن‘‘ سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔(صراط الجنان،1/545)

(4)آپ نے حالتِ صِغر میں لوگوں سے کلام کیا چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَیُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَكَهْلًا﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا۔(پ3،اٰل عمرٰن:46)

(5، 6) واضح نشانیاں اور جبریل امین کی مدد آپ کو کھلی نشانیاں عطا کی گئیں، اور جبریل علیہ السّلام کے ذریعے مدد کی گئی۔ چنانچہ فرمان باری ہے: ﴿وَاٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔(پ3،البقرۃ :253) روشن نشانیاں عطا ہوئیں، جیسے مردے کو زندہ کرنا، بیماروں کو تندرست کرنا، مٹی سے پرندہ بنانا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ، نیز روحُ القُدُس یعنی حضرت جبریل علیہ السّلام کے ذریعے آپ علیہ السّلام کی تائید کی گئی جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ (صراط الجنان، 1/434) آپ کو مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ علیہ السّلام مَس کر کے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے۔(صراط الجنان، 1/546)

(7)بغیر باپ کے ولادت حضرت عیسیٰ علیہ السّلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ چنانچہ فرمان باری ہے: ﴿اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔(پ3،اٰل عمرٰن:59)

پیارے اسلامی بھائیو! مذکورہ صفات کے علاوہ بھی کئی اوصاف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے قراٰن مجید میں مذکور ہیں اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ کر کے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم