بنی نوع انسان کی اصلاح کے لیے اللہ پاک نے اپنے برگزیدہ انبیائے کرام و رسل عظام کو مبعوث فرمایا تاکہ یہ لوگ ہدایت پا کر ایک اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کریں۔ اللہ پاک نے اپنے ان برگزیدہ انبیائے کرام علیہم السّلام و رسل عظام کو مختلف ادوار میں مختلف بستیوں اور مختلف قوموں کی طرف بھیجا۔ان انبیائے کرام علیہم السّلام میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی جیسا کہ اس کا بیان قراٰن پاک کے تیسرے پارے میں کے شروع میں ملتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں بعض ہستیاں انبیاء و رسل کے مقام پر فائز ہیں اور بعض صرف نبوت کے درجے پر فائز ہیں لیکن ان میں سے ادنیٰ کوئی نہیں سب اعلی اعلی درجوں پر فائز ہیں۔ اور ان میں پانچ انبیائے کرام علیہم السّلام ایسے ہیں کہ جو اولوالعزم انبیائے کرام علیہم السّلام کے درجے پر فائز ہیں۔

اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سیّدالمرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السّلام کا ہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت نوح علیہ السّلام کا، اِن حضرات کو مرسلین اُولو العزم کہتے ہیں، اور یہ پانچوں حضرات باقی تمام انبیا و مرسلین انس و مَلَک و جن و جمیع مخلوقاتِ الٰہی سے افضل ہیں ۔ جس طرح حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تمام رسولوں کے سردار اور سب سے افضل ہیں ، بلا تشبیہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے صدقہ میں حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی اُمت تمام اُمتوں سے افضل۔ بالخصوص یہاں پر حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے بارے میں گفتگو کرنی ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام اولوالعزم انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی شان والے نبی ہیں اللہ پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السّلام کو مختلف اوصاف و معجزات سے نوازا ہے۔

قراٰن پاک میں جہاں جہاں اللہ کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات کے ذریعے سے آپ کے اوصاف ملاحظہ ہوں۔

آپ علیہ السّلام کا نامِ مبارک عیسی اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السّلام سے جا ملتا ہے۔

آپ علیہ السّلام کی کنیت ابن مریم اور اس کے علاوہ آپ کے تین القاب ہیں۔

( 1)مسیح : آپ علیہ السّلام چونکہ مریضوں کو چھو کر ٹھیک کر دیتے تھے اس لیے آپ علیہ السّلام کو مسیح کہا جاتا ہے۔

(2) کلمۃُ اللہ: آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ” کن“ سے ہوئی ماں اور باپ کے نطفہ سے نہ ہوئی اس لیے آپ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ کہا جاتا ہے۔ فرمان باری ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) ترجمۂ کنز العرفان :بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے جسے اللہ نے مٹی سے بنایا پھر اسے فرمایا: ’’ ہوجا ‘‘ تووہ فوراً ہو گیا۔(پ 3 ، آل عمران : 59)

(3)روح اللہ: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنی طرف سے ایک خاص روح عطا فرمایا اس بناء پر آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے روح اللہ فرمایا۔ فرمان باری ہے: اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗۚ-اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ٘ ترجمۂ کنز العرفان: بیشک مسیح ، مریم کا بیٹا عیسیٰ صرف اللہ کا رسول اور اس کا ایک کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک خاص روح ہے۔(پ6 ،النسآء : 171) اللہ کریم حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو بے شمار اوصاف و کمالات سے نوازا ہے جن کا بیان قراٰن پاک میں موجود ہے۔

اوصاف: (1تا4) آپ علیہ السّلام اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں دنیا و آخرت میں بڑے مقرب اور عزت والے ہیں۔ آپ علیہ السّلام نے بڑی عمر کے علاوہ بہت جھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے کلام فرمایا۔ اور آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے خاص بندوں میں سے ہیں۔ ارشاد باری ہے: وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۴۶) ترجمۂ کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن‏: 45، 46)

(5تا9)آپ علیہ السّلام نماز کی پابندی فرمانے والے اور امت کو زکوۃ ادا کرنے کی تاکید کرنے والے تھے۔ آپ کی ذات گرامی بڑی برکت والی تھی۔ آپ علیہ السّلام والدہ محترمہ سے بہت اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ آپ تکبر سے محفوظ اور شقاوت سے دور تھے۔ قراٰن پاک میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا :وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاﳚ(۳۱) ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ (پ16، مریم:31) وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ٘-وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32)

(10) آپ علیہ السّلام اللہ پاک کا بندہ بنے میں کسی قسم کی شرم و وار محسوس نہیں کرتے تھے۔ ارشاد باری ہے : لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًا(۱۷۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: نہ تو مسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عار کرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ (پ6،النسآء : 172)