حضرات انبیائے کرام وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جن کو اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور ان کو بہت ساری صفات سے نوازا ۔آج ہم جس عظیم ہستی کا ذکر کریں گے ان کا نام حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ السّلام ہے۔ آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گے تھے۔ اللہ پاک نے آپ کو بہت ساری صفات سے نوازا آج ہم ان صفات کا ذکر کریں گے جن کا ذکر قراٰن مجید میں آیا ہے۔

پہلا وصف :کلمۃُ اللہ ہونا: سورہ اٰل عمران آیت نمبر42 میں اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ(۴۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، بیشک اللہ نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہیں خوب پاکیزہ کر دیا ہے اور تمہیں سارے جہان کی عورتوں پر منتخب کر لیا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہتے ہیں کہ آپ علیہ السّلام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ "کُن" سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔

دوسرا وصف: مسیح ہونا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا ایک اور وصف مسیح ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان: جس کا نام مسیح ،عیسیٰ بن مریم ہوگا ۔( پ۳،اٰل عمران: 45)تفسیر صراط الجنان میں اس کے تحت لکھا ہے کہ، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو مسیح اس لئے کہتے ہیں کہ آپ چھو(touch) کر شفا دیتے تھے۔

تیسرا وصف: بغیر باپ کے پیدا ہونا: سورہ اٰل عمرٰن‏ آیت نمبر 59میں اللہ پاک ارشاد فرما تا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی ہے۔ اسے مٹی سے پیدا کیا اور اسے فرمایا "ہو جا" تو ہو گیا۔اس آیت کی تفسیر میں صراط الجنا ن میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش نطفہ سے نہیں ہوئی ۔اللہ پاک نے آپ کو کلمہ 'کن' سے پیدا فرمایا۔

چوتھا وصف: تمام انسانوں کا آپ پر ایمان لے آنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا بیان سورۃ النسآء کی آیت نمبر 159 میں اس طرح ہے۔ ترجمہ کنز الایمان: کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے، اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہے۔ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں تفسیر بغوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی وفات سے پہلے ہر یہودی اور عیسائی اور ہر وہ شخص جو غیرِ خدا کی عبادت کرتے ہوں گے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لے آ ئیں گے۔

پانچواں وصف: بات کرنے کی عمر سے پہلے کلام کرنا ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے اس وصف کا ذکر سورہ اٰل عمران آیت نمبر 46 میں یوں ہے ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں کلام کرے گا اور خاص بندوں میں سے ہو گا۔سورہ مریم آیت نمبر 30 میں آپ کا کلام موجود ہے ۔ترجمہ کنز الایمان: بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا کیا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حافظ محمد فاروق اعظم ساقی (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ لاہور پاکستان)

اسلام بمقابلہ یہود و نصرانیت :سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے ‏کہ وہ اللہ پاک کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں، ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم رضی اللہ ‏عنہا پاک دامن اور نیک سیرت خاتون بلکہ سیدنا زکریا علیہ السّلام کی صحابیہ تھیں، جن سے اللہ ‏پاک نے اپنی قدرت سے بغیر باپ کے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کو پیدا کیا اور نبوت اور رسالت ‏سے نوازا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر تھے، انہیں چار بڑی آسمانی ‏کتابوں میں سے ایک کتاب انجیل دی گئی۔ یہودیوں نے دشمنی میں انہیں قتل کرنا چاہا مگر وہ اس ‏میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ اللہ پاک نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ انہیں ابھی تک موت ‏نہیں آئی اور نہ وہ سولی پر چڑھائے گئے بلکہ وہ اسی دنیوی حیات کے ساتھ آسمانوں پر موجود ہیں ‏اگرچہ بحیثیت نبی وہ اپنا وقت دنیا میں مکمل کر گئے ہیں لیکن قیامت سے پہلے دنیا میں اپنی نبوی حیثیت کیساتھ ہی بحیثیت ‏امتی دوبارہ تشریف لائیں گے، دجال اکبر کا مقابلہ کر کے اسے شکست دیں گے اور اسے اپنے ‏ہاتھوں سے قتل کریں گے۔ مسلمانوں کے اس وقت کے امیر حضرت امام مہدی کے ساتھ مل ‏کر دنیا میں پھر سے نظامِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حکمرانی، جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ‏ہے، قائم کریں گے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کچھ عرصہ حیات رہیں گے، ان کی شادی ہوگی، بچے ‏ہوں گے اور پھر وہ وفات پائیں گے جس کے بعد انہیں جناب نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ اطہر میں ‏سپرد خاک کر دیا جائے گا۔ آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ‏رضی اللہ عنہما کی تین قبروں کے ساتھ روضہ اطہر میں ایک قبر کی خالی جگہ موجود ہے جسے سیدنا ‏عیسیٰ علیہ السّلام کی قبر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔

قراٰن کریم میں مختلف مقامات پر حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ موجود ہے جن میں سے ‏چند درج ذیل ہیں: اہل ایمان کسی نبی کے درمیان(ایمان لانے کے اعتبار سے) فرق نہیں کرتے۔ لہذا فرمایا: ‏ یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے موسیٰ و عیسیٰ اور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے ہم ان میں کسی پر ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے حضور گردن رکھے ہیں ۔ (سورۃالبقرۃ: 136)‏

رسولوں میں سے بعض کو بعض پر درجے کے اعتبار سے فضیلت: رسولوں میں سے بعض کو ‏بعض پر درجے کے اعتبار سے فضیلت دی گئی ہے اور عیسٰی علیہ السّلام کا رسولوں میں ایک الگ ‏اور نمایاں مقام ہے چنانچہ فرمایا: یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا ‏ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا اور ہم نے مریم ‏کے بیٹے عیسیٰ(علیہ السّلام) کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔( البقرۃ: ‏‏253)‏

حضرت مریم رضی اللہ عنہا و عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت و پرورش کے متعلق سورہ اٰل ‏عمران کی آیات 35 تا 60 کا خلاصہ: ان آیات میں حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی ولادت و ‏پرورش اور پھر اس کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت و نبوت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا ‏خلاصہ یہ ہے: حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی والدہ محترمہ نے نذر مانی کے اے اللہ! میرے پیٹ میں جو بچہ ‏ہے میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں۔ مگر جب بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی ‏‏(مریم) تھی، ان کی والدہ نے اللہ پاک سے عرض کیا کہ یہ تو بچی ہے اور بچی کا معاملہ تو بچے سے ‏جدا ہے اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے تیری پناہ میں دیتی ہوں اور اس کی ‏اولاد کو بھی مردود شیطان کے شر سے۔ اللہ پاک نے یہ نذر قبول کر لی اور اسے اچھی پرورش ‏کے ساتھ بڑھایا جبکہ حضرت زکریا علیہ السّلام نے اس بچی کی کفالت کا۔

فرشتوں نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اللہ پاک نے تجھے چن لیا اور پاکیزگی بخشی ‏ہے اور تجھے جہانوں کی عورتوں میں سے چنا ہے اس لیے تم اللہ پاک کی بندگی کرو اور اس کے ‏لیے رکوع اور سجدہ کرو۔ پھر فرشتوں نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو خوشخبری دی کہ اللہ ‏پاک تجھے اپنے کلمہ کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام مسیح اور عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا و آخرت ‏میں باوقار ہوگا، اللہ پاک کے مقرب بندوں میں سے ہوگا، ماں کی گود میں اور پختہ عمر میں ‏یکساں کلام کرے گا اور نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے تو ‏ابھی تک کسی مرد نے چھوا تک نہیں، میرا بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ فرشتوں نے کہا کہ اسی کیفیت ‏میں ہوگا، اللہ پاک جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘(جیسا اس کی ‏شان کے لائق ہے)تو وہ ہو جاتا ہے، اور اللہ پاک اسے کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم ‏دے گا اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا۔

معجزات سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام : حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے ‏پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں، میں مٹی سے پرندے کا مجسمہ بناتا ‏ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ پاک کے حکم سے اڑنے لگتا ہے، میں مادر زاد اندھے ‏اور کوڑھی کو اللہ پاک کے حکم سے تندرست بنا دیتا ہوں، میں مردے کو اللہ پاک کے حکم سے ‏زندہ کرتا ہوں، جو کھانا تم کھاتے ہو اور جو گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو میں اس کی تمہیں خبر ‏دے سکتا ہوں، میں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں، بعض چیزیں جو تم پر ‏پہلے حرام کی گئی تھیں انہیں حلال کرنے آیا ہوں اور تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانی لایا ‏ہوں۔ اس لیے تم اللہ پاک سے ڈرو اور میری پیروی کرو، بے شک اللہ پاک ہی میرا اور تمہارا ‏رب ہے، بس اسی کی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

جب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم کی طرف سے جھٹلائے جانے کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ ‏اللہ کی راہ میں میرے مددگار کون ہیں؟ ان کے حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ پاک کے مددگار ہیں ‏ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے اللہ! ہم آپ کے اتارے ‏ہوئے احکام پر ایمان لاتے ہیں اور ہم نے آپ کے رسول (حضرت عیسیٰ علیہ السّلام) کی پیروی ‏اختیار کی ہے اس لیے ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرما۔ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام ‏کے منکروں نے ایک چال چلی اور اللہ پاک نے تدبیر کی(جیسا اس کی شان کے لائق ہے) اور ‏اللہ پاک سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔

پھر اللہ پاک نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام سے کہا کہ میں تجھے وصول کرنے والا ہوں اور اپنی طرف ‏اٹھا لینے والا ہوں اور تجھے کافروں سے نجات دینے والا ہوں اور تیرے(حقیقی) پیروکاروں کو ‏قیامت تک تیرے دشمنوں پر غلبہ دینے والا ہوں۔

سیدنا آدم و عیسیٰ علیہما السّلام میں تخلیق کے اعتبار سے مشابہت: بے شک حضرت عیسٰی علیہ ‏السّلام کی مثال آدم علیہ السّلام کی طرح ہے جنہیں اللہ پاک نے مٹی سے بنایا اور پھر فرمایا کہ ہو ‏جا تو وہ (ایک زندہ انسان) ہو گیا۔ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے، بس ہرگز تم شک ‏کرنے والوں میں نہ ہونا۔(اور اگر نصاریٰ کے بقول عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہونے کے سبب خدا ‏کے بیٹے ثابت ہوتے ہیں معاذ اللہ، تو پھر سیدنا آدم علیہ السّلام کے بارے میں کیا حکم لگائیں گے ‏جو نہ صرف بن باپ ہیں بلکہ بن ماں کے بھی ہیں ۔)‏

آیات مباہلہ: پھر اے محبوب! جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت(جھگڑا)کریں بعد اس کے ‏کہ تمہیں علم آ چکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور ‏تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں ، پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ‏ڈالیں۔

یہود کے دلوں پر مہر گستاخی نبوت کی وجہ سے ہے: سورۃ النسآء کی آیت 155 تا 159 میں اللہ ‏پاک نے یہود بنی اسرائیل کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دینے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک ‏سبب یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام‎ ‎کا انکار کر دیا اور حضرت مریم رضی اللہ ‏عنہا پر (حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی بغیر باپ ولادت کے حوالے سے) بہتان عظیم باندھ دیا اور ‏یہ کہا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ علیہ السّلام بن مریم رضی اللہ عنہا کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ نہ انہوں ‏نے اسے قتل کیا اور نہ سولی پر لٹکایا بلکہ وہ شبہہ میں ڈال دیے گئے اور جس بات میں وہ اختلاف ‏کرتے ہیں وہ شک کی بنیاد پر کرتے ہیں، ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ ‏صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کو ‏قتل نہیں کیا بلکہ اللہ پاک نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اللہ پاک زبردست اور حکمت والا ‏ہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی بھی نہیں ہے مگر وہ سب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام پر ان کی موت سے ‏پہلے ایمان لائیں گے۔

روح اللہ ہونے سے ابن اللہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ آدم علیہ السّلام بھی روح اللہ ہیں: ‏سورۃ النسآء آیت 171 میں فرمایا: اے کتاب والو! اپنے دین میں زیادتی نہ کرو اور اللہ پر نہ کہو مگر ‏سچ، مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور ‏اس کے یہاں کی ایک روح تو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور تین نہ کہو، باز رہو اپنے ‏بھلے کو، اللہ تو ایک ہی خدا ہے پاکی اسے اس سے کہ اس کے کوئی بچہ ہو اسی کا مال ہے جو کچھ ‏آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں اور اللہ کافی کارساز ۔

اور سورۃ الحجر آیت29 میں سیدنا آدم علیہ السّلام کے حوالے سے ارشاد ہے کہ " جب میں اس کو ‏‏(انسانی صورت) میں ڈھال لوں اور اس میں (اپنی پسندیدہ) روح پھونک دوں تو تم سب اس ‏کیلیے سجدہ میں گر جانا"۔

سورۃ النسآء کی آیت 172 میں ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے کبھی اس بات سے عار محسوس ‏نہیں کی کہ وہ اللہ پاک کے بندے ہیں اور جو بھی اللہ پاک کی بندگی سے عار محسوس کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ پاک ان ‏سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

یہود و نصاریٰ کافر و مشرک ہیں: سورۃالمائدہ کی آیت 17 میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ ان ‏لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح بن مریم علیہ السّلام و رضی اللہ عنہا ہی خدا ہیں۔ ‏آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر اللہ پاک حضرت عیسیٰ علیہ السّلام، ان کی والدہ اور روئے زمین کے ‏سب لوگوں کو موت دے دیں تو اللہ پاک کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے؟

سورۃ المائدہ کی آیت 46 میں ارشاد باری ہے کہ ہم نے موسی علیہ السّلام کے بعد ان کے ‏نقش قدم پر عیسیٰ علیہ السّلام بن مریم رضی اللہ عنہا کو بھیجا، وہ اس سے پہلے کی کتاب تورات کی ‏تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ تورات کی ‏تصدیق کرتی تھی اور متیقن کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

سورۃ المائدہ کی آیت 72 تا 75 میں ارشاد خداوندی ہے کہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں ‏نے کہا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام بن مریم رضی اللہ عنہا ہی خداوند ہیں۔ حالانکہ سیدنا عیسیٰ علیہ ‏السّلام نے فرمایا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ پاک کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اور ‏بے شک جس نے اس کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ پاک نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ‏ٹھکانہ آگ ہے۔ اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ پاک تین میں سے ایک ہے ‏کیونکہ اللہ پاک کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو انہیں دردناک ‏عذاب پہنچے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام صرف اللہ پاک کے رسول تھے ان سے پہلے کئی رسول ‏گزر چکے اور ان کی والدہ (حضرت مریم رضی اللہ عنہا) سچی خاتون تھیں اور وہ دونوں ماں بیٹا ‏کھانا کھایا کرتے تھے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کوتاہی کا انجام : سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 78 تا 80 میں ‏ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ان پر حضرت داؤد علیہ السّلام اور حضرت عیسیٰ ‏علیہ السّلام کی زبان پر (ان کے ذریعے) لعنت کی گئی اس لیے کہ وہ نافرمانی میں حد سے بڑھ گئے ‏تھے، وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے اور کافروں ‏کے ساتھ دوستی کیا کرتے تھے۔

تذکیر بآلاءاللہ: سورہ المائدہ کی آیت 109 تا 118 میں اللہ پاک سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کو اپنی ‏نعمتیں یاد دلائی ہیں کہ میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیں، جب ‏روح القدس (جبرائیل علیہ السّلام) کے ساتھ تمہاری مدد کی، جب تم ماں کی گود میں اور پختہ عمر ‏میں یکساں کلام کرتے تھے، جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی، ‏جب تم مٹی سے پرندوں کے مجسمے بنا کر ان میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے ‏لگتے تھے، تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے تندرست بنا دیا کرتے تھے، جب تم قبروں ‏سے مردوں کو زندہ اٹھا لیا کرتے تھے، جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہیں نقصان پہنچانے سے ‏روک دیا، جب تم ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے انہیں جھٹلاتے ‏ہوئے کہا تھا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، جب میں نے حواریوں سے کہا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ‏ایمان لاؤ تو وہ ایمان لے آئے، جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی علیہ السّلام بن مریم کیا آپ ‏کا رب اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (تیار کھانے کا) دستر خوان اتارے؟ ‏

انہوں نے کہا کہ اللہ پاک سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ حواریوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ‏ہم (آسمانی کھانا) کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم ‏سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں۔

نعمت خداوندی ملنے کے دن کو عید کا دن بنانا :سورة المائدة114میں فرمایا، عیسیٰ بن مریم ‏نے عرض کی ، اے اللہ ! اے رب ہمارے! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے ‏عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے ‏بہتر روزی دینے والا ہے ۔

‏(چنانچہ جس دن اللہ کی طرف سے نعمت عظمیٰ میسر آئی یعنی ولادت سرور کونین ہوئی اس دن کو ‏عید کہنا یا اسے عید کی طرح منانے میں کوئی حرج نہیں) ‏

‏ اللہ پاک نے فرمایا کہ میں تم پر دستر خوان اتارنے والا ہوں لیکن اس کے بعد جس نے کفر کیا ‏اسے ایسا عذاب دوں گا کہ سارے جہانوں میں ایسا عذاب کسی اور کو نہیں دوں گا۔

سورۃ المائدہ کی انہی آیات کے مطابق اللہ پاک سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام سے قیامت کے دن پوچھے ‏گا کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ پاک کے سوا خدا بنا لینا؟ سیدنا عیسیٰ ‏علیہ السّلام جواب دیں گے کہ اے اللہ تیری ذات ان باتوں سے پاک ہے، مجھے ایسی بات کہنے کا ‏کوئی حق ہی نہیں تھا اور اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، میں نے تو انہیں ‏وہی کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا کہ اللہ پاک کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔

علما و مشائخ سے دلیل طلب کرنا انکی توہین نہیں: سورۃ التوبہ آیت 29 و 30 میں اللہ پاک ‏ارشاد فرماتا ہے کہ یہود نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السّلام اللہ پاک کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے ‏کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی خود ساختہ باتیں ہیں اور وہ پہلے ‏کافروں کی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے پادریوں اور جوگیوں کو اللہ پاک کے سوا ‏رب بنا رکھا ہے(کہ انکی بے دلیل باتوں پر ایمان رکھتے ہیں) اور عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام و ‏رضی اللہ عنہا کو بھی خدا بنا لیا ہے۔ حالانکہ انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ پاک کی عبادت کریں جو ایک ہی خدا ہے، اللہ پاک کی ذات اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ‏ہیں۔

عیسیٰ علیہ السّلام کی بن باپ پیدائش پر سوال اٹھانا دراصل قدرتِ خداوندی پر شک ‏کرنا ہے: سورہ مریم آیت 16 تا 40 میں اللہ پاک نے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت کا تفصیل ‏کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: جب حضرت مریم رضی اللہ عنہا اپنے گھر والوں سے ‏مشرقی جگہ میں الگ ہو کر اوٹ میں ہو گئیں تو ہم نے روح القدس کو بھیجا جس نے ایک کامل ‏انسان کی شکل اختیار کر لی۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں تجھ سے ‏اللہ پاک کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا خوفی رکھنے والا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیرے رب کا بھیجا ‏ہوا ہوں تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میرا لڑکا ‏کہاں سے ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار عورت بھی نہیں ہوں۔ ‏فرشتے نے کہا کہ اسی کیفیت میں ہوگا، تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات میرے لیے آسان ہے ‏اور میں اس لڑکے کو اپنی قدرت کی نشانی بناؤں گا اور وہ رحمت ہوگا اور یہ بات تو طے ‏شدہ ہے۔ پس وہ حاملہ ہوئی اور اسے لے کر الگ دور جگہ میں چلی گئی، جب اسے درد زہ ایک ‏کھجور کے تنے کے پاس لے گیا تو اس نے (بدنامی کے خوف سے) کہا کہ اے کاش! میں اس سے ‏قبل مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی۔ فرشتے نے آواز دی کہ گھبراؤ نہیں تمہارے رب نے ‏تمہارے قدموں میں پانی کا چشمہ نکال دیا ہے اور کھجور کے تنے کو حرکت دو تم پر تروتازہ ‏کھجوریں گریں گی، پس کھاؤ ، پیو اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرو۔ اور اگر کسی انسان کو دیکھو تو اسے ‏بتاؤ(اشارے سے) کہ میں نے اللہ پاک کے لیے کلام نہ کرنے کا روزہ رکھا ہوا ہے اس لیے آج ‏کا دن میں کسی سے کلام نہیں کروں گی۔ پس وہ اپنے بچے کو لے کر قوم کے پاس آئی، وہ اسے ‏اٹھائے ہوئے تھی، لوگوں نے کہا کہ اے مریم رضی اللہ عنہا! تم تو یہ بہت بری چیز لے آئی ہو، ‏نہ تو تمہارا باپ برا شخص تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بدکار تھی۔

حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ گود ‏کے بچے سے ہم کیسے کلام کریں؟ اس پر سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام(ماں کی گود میں) بول پڑے ‏کہ بے شک میں اللہ پاک کا بندہ ہوں، مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے، مجھے ‏برکت والا بنایا ہے، میں جہاں بھی ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے، مجھے اپنی ماں کے لیے ‏فرمانبردار بنایا ہے اور تندخو اور بدنصیب نہیں بنایا، مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور ‏جس دن میں مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

یہ تفصیل بیان کر کے اللہ پاک ان آیات میں یہ فیصلہ سناتا ہے کہ عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام ‏و رضی اللہ عنہا یہی ہیں، یہی حق ہے جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‏اللہ پاک کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، اس کی ذات پاک ہے، وہ جب کسی کام کا فیصلہ ‏کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے (یعنی اس کو کسی مددگار/واسطے/وسیلے /ذریعے ‏اور اسباب پیدا کی محتاجی نہیں ہوتی)۔‏‎ ‎

سورۃ الزخرف آیت 60 میں فرمایا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں، ‏اس بات میں ہرگز شک میں نہ پڑنا اور میری پیروی کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

بدعت حسنہ کی اجازت لیکن مفاسد سے اجتناب ضروری: سورۃ الحدید آیت 27 میں ارشاد ‏ہے:پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا ‏اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیرووں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو ‏یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت ‏انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ‏ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا ، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں ۔یعنی رہبانیت بدعت حسنہ تھی انکی شریعت میں لیکن رہبانیت کو صفات خداوندی سے متصف ‏کر کے توحید باری سے منکر ہو بیٹھے نیز راہبوں کو خدا کا درجہ دینے لگے وغیرہ وغیرہ۔

دینِ خدا کے مددگار ہونے کا حکم اہل ایمان کو بھی ہے: چنانچہ سورۃ الصف آیت 6،14 میں ‏ہے کہ جب سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہاری طرف اللہ پاک کا رسول ‏ہوں، مجھ سے پہلے کتاب تورات ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد آنے والے ‏نبی کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہوگا۔

نیز فرمایا: اے ایمان والو دین خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ بن مریم(علیہ السّلام و رضی اللہ ‏عنہا ) نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کرے؟ حواری ‏بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر ‏کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہو گئے۔

یہ ایک خلاصہ ہے جو قراٰن کریم کے بیسیوں مقامات میں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السّلام اور حضرت ‏مریم رضی اللہ عنہا کے تذکروں میں سے پیش کیا گیا ہے امید واثق ہے کہ اللہ رب العالمین بہ ‏طفیل رحمۃ اللعالمین پڑھنے، سننے اور لکھنے لکھوانے والوں کے لیے ہدایت اور ثواب کا ذریعہ بنائے ‏گا ، ان شاء اللہ ۔