الحمدللہ اسلام کا نور شروع سے ہی حسنِ اخلاق سے پھیلا ہے اور دیگر مذاہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے میں سب سے زیادہ اثر حسنِ اخلاق کا رہا اور آج بھی جو اپنے باطل مذہب کو چھوڑ کر کسی کے ہاتھ پر مذہب حق کو قبول کرتا ہے تو اس کے حسنِ اخلاق کے سبب اور کردار کی وجہ سے۔ اگر ہمارے اخلاق قراٰن و حدیث کے مطابق ہو جائیں تو ان شاء اللہ پھر شجرِ اسلام لہلہاتا ہوا نظر آ ئے گا ۔

وعن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم يقول اللهم كما احسنت فأحسن خلقي ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! جس طرح تو نے میری ظاہری تخلیق خوبصورت کی ہے اسی طرح میرے اخلاق کو بھی اچھے رکھنا۔ (الترغیب والترہیب ، 3 / 13)

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے ہر کام سے توبہ ہو سکتی ہے البتہ برے اخلاق والے شخص کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ وہ کسی گناہ سے توبہ کرے گا تو اس سے زیادہ برے گناہ کا دوبارہ ارتکاب کرے گا ۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ، 3 / 130)

اصبہانی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہے میمون بن مہران بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں برے اخلاق سے زیادہ بڑا گناہ اور کوئی نہیں ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو کرنے والا شخص جب کسی ایک گناہ سے نکلتا ہے تو اور ایک گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ ، 3 صفحہ 130 )

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا کیا کرتے تھے:اے اللہ میں بد نصیبی منافقت اور برے اخلاق سے تری پناہ مانگتا ہوں (الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 صفحہ 130)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے : یہ اخلاق اللہ تعالی کی طرف سے ہیں جس شخص کے بارے میں اللہ پاک بھلائی کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے اچھے اخلاق عطا کردیتا ہے اور جس شخص کے بارے میں برائی کا ارادہ کرلیتا ہے تو اسے بد اخلاق کر دیتا ہے۔(الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 128)

حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے :تم میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور آخرت میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق سب سے زیادہ عمدہ ہوں گے اور میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور آخرت میں مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جن کے اخلاق بد ہوں گے اور وہ لوگ جو تکلف کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور بنا سنوار کر منہ ٹیڑھا کر کے بات کرتے ہیں۔(الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 128)

حضرت رافع بن مکیث رضی اللہُ عنہ (جنہیں صلح حدیبیہ میں شرکت کا شرف حاصل ہے) وہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق بہتری اور برے اخلاق نحوست ہیں نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے، اور صدقہ بری موت کو ٹال دیتا ہے۔

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ روایت منقول ہے وہ بیان کرتے ہیں: عرض کی گئی یا رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)! نحوست کیا ہے ؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بد اخلاق ۔(الترغیب والترہیب کتاب الادب وغیرہ ، 3 / 129)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ بد اخلاق ایک ایسا قبیح عمل ہے جو سوسائٹی اور اسلامی ماحول کوپراگندہ کرنے میں کافی حد تک اثر ڈالتا ہے اور بد اخلاق ایسا شر ہے جس سے خود نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پناہ مانگتے تھے تو اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں کتنا زیادہ بد اخلاقی سے بچنا چاہیے اور کتنا زیادہ اخلاق میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولا کریم ہم تمام مسلمانوں کو حسنِ اخلاق کی لازوال نعمت عطا فرمائے اور بد کرداری و بداخلاقی سے محفوظ فرمائے ۔ اپنی رضا والے کام کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین