پیارے اسلامی بھائیو! بد اخلاقی کے متعلق کچھ معلومات پڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ حسنِ اخلاق اور بداَخلاقی کی تعریف سمجھ لی جائے۔

حسنِ اخلاق اور بداَخلاقی کی تعریف: بداخلاقی کی مذمت بیان کرنے سے پہلے اَخْلاق کی تعریف ذہن نشین کرلیں ۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر نفس میں موجود ایسی کیفیت ہو کہ اس کے باعث اچھے افعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ ہوں تو اسے حسنِ اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس سے بُرے اَفعال اس طرح ادا ہوں کہ وہ عقلی اور شرعی طور پر نا پسندیدہ ہوں تو اسے بد اخلاقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(احیاء العلوم،3/165،مکتبۃ المدینہ) پیارے اسلامی بھائیو! آیئے اب بد اخلاقی کی مذمت ہم حدیث نبوی سے سمجھتے ہیں۔

(1) عَنْ جَابِرْ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاۃَ کَبَّرَ ثُمَّ قَالَ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)، لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۶۳)اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَعْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَحْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَخْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز شروع کرتے تو پہلے تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے (اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱۶۲)، لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ-وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (۱۶۳)اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ)میری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت سب کچھ پروردگار عالم ہی کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ اے اللہ! نیک اعمال اور حسنِ اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی کر سکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال و بد اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ (مشکوةالمصابيح، حدیث : 784)

اور ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بد اخلاقی کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔ قَالَتْ عَائِشَةُ قَالَ رسول اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّؤْمُ سُوءُ الْخُلُقِ ترجمہ: حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا نحوست بد اخلاقی کا نام ہے۔ (مسند احمد، حدیث : 23452)

بداَخْلاقی نحوست ہے: بداَخْلاقی خُود بھی بدعملی ہے اور بہت سی بدعملیوں کا ذریعہ ہے۔جُھوٹ،خیانت،وعدہ خلافی سب بداَخْلاقی کی شاخیں ہیں۔ بد اَخْلاقی آپس کے اختلاف کا باعث ہے۔ بد اَخْلاقی آپس میں بغض و حسد اور جدائی پیدا کرتی ہے ، بداَخْلاقی سے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پناہ طلب فرمائی بد اَخْلاقی و بدزبانی سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے۔ بداَخْلاقی اگر انسانی شکل میں ہوتی تو وہ بہت بُرا آدمی ہوتا۔ اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑی بُرائی بد اَخْلاقی ہے ۔ بےشک بے حیائی اور بد اَخْلاقی کا اسلام کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہیں۔ بد اَخْلاقی تبلیغِ دین کی راہ میں بہت بڑی رُکاوٹ ہے۔ بد اَخْلاقی سے بسا اوقات میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ بداَخْلاقی کی نحوست سے گھر کا سُکون برباد ہوجاتا ہے۔ بداَخْلاق شخص کو بارہا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

الغرض بداَخْلاقی کثیر برائیوں کا مجموعہ اور دُنیا و آخرت میں ہلاکت و بربادی کا سبب ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نہ صرف خود اس آفت سے بچیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی اِس سے بچتے رہنے کی ترغیب دلائیں۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کو اچھے اَخْلاق کی لازوال دولت نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علیہ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ

بھاگتے ہیں سُن لے بد اَخْلاق انساں سے سبھی

مسکرا کر سب سے ملنا دل سے کرنا عاجزی

(وسائل بخشش مرمم،ص698)