ابتدائے دنیا سے لے کر انتہاء دنیا تک اللہ پاک نے مختلف قوموں کے لیے مختلف انبیا و رسولوں کو بھیجا جو اللہ پاک کی طرف بلاتے اور نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے تھے یہ سلسلہ حضرت آدم (علیہ الصلاة والسّلام) سے شروع ہوا اور ہمارے پیارے آقا ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تک ختم ہوا۔ تمام انبیا و رسولوں کے الگ الگ مراتب و مناقب ہیں۔ ان میں سے جو بِن باپ کے پیدا ہوئے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ الصلاۃ والسّلام)۔ ان کی بھی قراٰنِ پاک میں کثیر صفات و معجزات ذکر کیئے گئے ہیں ۔

حضرت عیسیٰ (علیہ الصلاة والسّلام آسمان پر :

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) نے یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو چونکہ یہودی تورات میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) ان کے دین کو منسوخ کردیں گے۔ اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے ۔یہاں تک کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) نے یہ محسوس فرما لیا کہ یہودی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور وہ مجھے قتل کردیں گے۔ تو ایک دن آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا : مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف۔(پ3، آلِ عمرٰن:52) حواریوں نے یہ کہا: نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ-اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ-وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ(۵۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔(پ3، آلِ عمرٰن:52)

باقی تمام یہودی اپنے کفر پر جمے رہے یہاں تک کہ جوشِ عداوت (دشمنی) میں ان یہودیوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنا لیا اور ایک شخص کو یہودیوں نے جس کا نام "ططیانوس" تھا آپ کے گھر میں آپ کو قتل کر دینے کے لیے بھیجا۔ اتنے میں اچانک الله پاک نے حضرت جبرئیل (علیہ السّلام) کو ایک بدلی کے ساتھ بھیجا اور اس بدلی نے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا آپ کی والدہ جوش محبت میں آپ کے ساتھ چمٹ گئیں تو آپ نے فرمایا: اماں جان! اب قیامت کے دن ہماری اور آپ کی ملاقات ہوگی اور بدلی نے آپ کو آسمان پر پہنچا دیا اور یہ واقعہ بیت المقدس میں شب قدر کی مبارک رات میں وقوع پذیر ہوا۔

اس وقت آپ کی عمر شریف بقول علامہ جلالدین سیوطی (رحمۃُ اللہ علیہ) (33) برس کی تھی ۔ بقول علامہ زرقانی شارح مواہب (رحمۃُ اللہ علیہ) اس وقت آپ کی عمر شریف (120) برس کی تھی۔

جب "ططیانوس" بہت دیر مکان سے باہر نہیں آیا تو یہودیوں نے مکان میں گھس کر دیکھا تو اللہ پاک نے "ططیانوس " کو حضرت عیسی (علیہ السّلام) کی شکل بنا دیا اور یہودیوں نے "ططیانوس " کو حضرت عیسی سمجھ کر قتل کر دیا۔ اس کے بعد جب "ططیانوس " کے گھر والوں نے ۔ غور سے دیکھا تو صرف چہرہ حضرت عیسی (علیہ الصلاة والسّلام) کا تھا باقی سارا بدن " ططیانوس " ہی کا تھا تو اس کے اہل خاندان نے کہا کہ اگر یہ مقتول عیسی (علیہ السّلام) ہے تو ہمارا آدمی ططیانوس کہاں ہیں؟ اور اگر یہ ططیانوس ہے تو حضرت عیسی (علیہ السّلام) کہاں ہیں ؟ اس پر خود یہودیوں میں جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور بہت سے یہودی قتل ہو گئے۔ قراٰن پاک میں اللہ پاک نے اس واقعہ کو بیان فرمایا ۔ ( عجائب القراٰن و غرائب القراٰن ،ص 75،74)

وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠(۵۴) اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰۤى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَ(۵۵) ترجمہ کنز الایمان : اور کافروں نے مکر کیا ا ور اللہ نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔ یاد کرو جب اللہ نے فرمایا اے عیسٰی میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا۔اور تجھے اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے پیروؤں کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤگے تو میں تم میں فیصلہ فرمادوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔(پ3، آلِ عمرٰن:55،54)

آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم (رضی اللہ عنہا) نے چھ (6) برس دنیا میں رہ کر وفات پائی ہے۔ (عجائب القراٰن وغرائب القراٰن ،ص75)

(بخاری و مسلم) کی روایت ہے کہ قرب قیامت کے وقت۔ حضرت (عیسی علیہ السّلام) زمین پر اتریں گے اور حضور(علیہ الصلاۃ و السّلام) کی شریعت پر عمل کریں گے اور دجال، خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو ٹوریں گے اور سات برس تک دنیا میں عدل فرما کر وفات پائیں گے اور مدینہ منورہ میں گنبد خضراء میں مدفون ہونگے۔ ( تفسیر جمل علی الجلالین، 1/ 427 )

الله پاک سےدعا ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السّلام) کے صدقہ ہم سب کی پریشانیاں دور فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)