جس طرح اللہ پاک نے دنیا
میں تمام چیزوں کو کوئی نہ کوئی صفت عطا فرمائی ہے۔ جیسے ، پانی کی یہ صفت ہے کہ وہ
آگ کو بجھا دیتا ہے ، آگ کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی بھی چیز کو راکھ کر دیتی ہے تو
اسی طرح انسان جس کو اشرف المخلوقات (تمام مخلوقوں میں افضل) قرار دیا گیا اس کو
اللہ پاک نے کیوں صفات عطا نہیں کی ہوگی، اور جو تمام انسانوں میں افضل انبیائے
کرام علیہم السّلام۔ ان کو بھی یقیناً کئیں صفات عطا فرمائی ہیں۔ دنیا میں کم و
بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام تشریف لائے۔ جن میں سے ایک
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ہیں، آپ کا نام عیسیٰ ہے۔ آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا
کر بھیجے گئے ، آپ پر انجیل نازل فرمائی، آپ کی وفات کے (569) برس کے بعد حضور
علیہ الصلوۃ و السّلام تشریف لائے، اور اس عرصہ دراز تک درمیان میں کوئی نبی نہیں آیا۔
اللہ پاک نے قراٰن مجید میں پچیس مقامات پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا نام نامی
اسم گرامی ارشاد فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے قراٰن مجید میں بہت سے مقامات پر
آپ علیہ السّلام کی صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جن میں سے چند اوصاف ذکر کئے جاتے ہیں۔
اللہ پاک قراٰن مجید میں آپ علیہ السّلام کے اوصاف ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ترجمۂ
کنزالعرفان: وہ دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے
ہوگا۔ اور وہ لوگوں سے جھولے میں اور بڑی عمر میں بات کرے گا اور خاص بندوں میں سے
ہوگا۔(پ3،اٰل عمرٰن: 45، 46)
یہاں اللہ نے حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے 3 اوصاف ذکر کئے ہیں۔ (1)دنیا و آخرت میں بڑی عزت والا ہونا۔ (2)اللہ
کا مقرب بندہ ہونا (3) جھولے میں لوگوں سے کلام کرنا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اللہ پاک کے کتنے مقرب
بندے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا
لیا گیا ، اور آپ بروز قیامت جامع مسجد دمشق کے مینار پر نزول فرمائیں گے ۔ پھر
دجال و خنزیر کو قتل کرینگے، صلیب توریں گے، یہ صفات صرف حضرت عیسیٰ علیہ السّلام
کے ساتھ خاص ہیں۔ اب اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ معاذ اللہ باقی تمام انبیائے کرام
علیہم السّلام اللہ پاک کے مقرب بندے نہیں بلکہ تمام کے تمام اپنے اپنے درجے کے
مطابق اللہ کے مقرب ہیں۔ (واللہ اعلم)
رب تعالٰی ایک اور مقام
پر ارشاد فرماتا ہے، ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا،
اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک خاص کلمے کی بشارت دیتا ہے ۔ (پ3، آلِ عمرٰن :45)
یہاں اللہ پاک نے یہ صفات
ذکر فرمائی :(1) اپنا بندہ کہاں(2) اپنا کلمہ کہاں(3) مسیح کہا (4) عیسی بن مریم
کہا۔ آپ کو کلمہ اس لئے کہا گیا کیونکہ آپ کلمہ" کن" سے پیدا ہوئے۔ آپ
کو مسیح اس لئے کہا گیا کہ آپ کوڑ کے مریض کو چھو کر ٹھیک کردیا کرتے تھے۔ آپ کو
یہ لقب نبوت کے بعد ملا۔ آپ کو عیسیٰ بن مریم کہا (یعنی آپ کی والدہ کی طرف نسبت
کری) کیونکہ اگر آپ والد کے بغیر پیدا نہ ہوتے تو آپ کے والد کی طرف نسبت کری جاتی
جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزالعرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی
نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔ (پ 21، الاحزاب :5) ایک
اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بچے نے فرمایا: بیشک میں اللہ
کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔(پ16،مریم:30)یہاں عیسیٰ علیہ السّلام کا یہ وصف بیان کیا
کہ آپ نے جھولے میں ہی لوگوں سے کلام کیا اور ان کو بتا دیا کہ میں الله کا بندہ
ہوں، اس کانبی ہوں اس نے مجھے کتاب دی اس آیت سے یہودیوں کا یہ عقیدہ غلط ثابت ہوا
کہ معاذاللہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام خدا ہیں۔ آپ نے خود ہی فرمایا: میں اللہ کا
بندہ ہوں۔ کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ پیدا نہیں ہوتا اور جو پیدا ہوتا ہے وہ خدا
نہیں ہوتا۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے۔ ترجمۂ کنز العرفان : اور اس نے
مجھے مبارک بنایا ہے خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید
فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں ۔ اور (مجھے) اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا (بنایا)
اور مجھے متکبر، بدنصیب نہ بنایا۔ (پ16، مریم:32،31)
اس آیت میں حضرت عیسیٰ
علیہ السّلام نے اپنا مبارک ہونا خود فرمایا ہے مگر میرے حضور علیہ السّلام کا برکت
والا ہونا خود رب کریم نے قراٰن میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ اور نہیں
بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیآء:107)
ذیشان نبی ہیں سب لیکن
میرے سرکار کے جیسا کوئی نہیں
الله پاک سے دعا ہے کہ وہ
ہمیں شریعت پر عمل پیرا ہونے ، انبیائے کرام کی معصومیت کو ماننے اور اپنی ماں کے
ساتھ حسن سلوک کرنے اور انبیا کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے والا بنائے۔ اٰمین
بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم