مسلمان کا کسی کو ناحق قتل کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اب دور حاضر میں بھی ناحق قتل ہو رہے ہیں اب سگے بھائی ایک دوسرے کو زمین کے بدلے قتل کر رہے ہیں۔ناحق قتل کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں:

(1)ظلماقتل کس کے حصے میں: حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس سے بھی ظلم قتل کیا جاتا ہے تو حضرت ادم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کے حصے میں اس کا خون ہوتا ہے کیونکہ اس نے سب سے پہلے قتل کو ایجاد کیا۔ (بخاری, کتاب الاعصام, ج 4,ص 513, حدیث 7321)

(2)دین کی وسعت اور کشادگی میں رکاوٹ قتل ناحق: حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ نہ حق قتل نہ کرے۔ (بخاری, کتاب الدیات ,ج 4 ,ص 356, حدیث 6862)

(3)قیامت کے دن قاتل کو ہزار مرتبہ قتل: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں بروز قیامت قاتل کو ہزار مرتبہ قتل کیا جائے گا عاصم بن ابی النجنود رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے ابو زرعہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جس سے اس نے قتل کیا اس کی ہزار ضربیں.(کتاب الفتن, ج 8 ,ص 644, حدیث 330)

(4)مومن کا قتل دنیا کے زوال سے برھ کر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ کر ہے. (ترمذی, کتاب الدیات,ج 3, ص98, حدیث 1400)

(5)قاتل و مقتول دونوں اگ میں:حضرت سیدنا ابوبکر ندی بن حارث ثقفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کے ایک دوسرے پر حملہ اور ہوں تو قاتل مقتول دونوں اگ میں ہیں راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعال علیہ وسلم قاتل تو واقعی حقدار ہیں مگر مقتول کا کیا قصور ہے تو فرمایا وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنا چاہتا تھا.(بخاری,کتاب العلم, ج 1, ص 23, حدیث 31)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بات بات پر قتل کرنا عام ہو چکا ہے اللہ عزوجل ہمیں اس مذموم گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ عزوجل قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو زندہ رکھا اس نے سب انسانوں کو زندہ رکھا (پارہ 6،سورہ مائدہ، ایت 32) پیارے پیارے اسلامی بھائیو قتل ناحق کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے. شریعت مطہرہ میں بھی انسانی جان کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل کے نزدیک دنیا کا ظاہر ہو جانا ایک مسلمان کے قتل سے اسان ہے۔ (ترمذی, الحدیث 1400)

ظلما قتل بہت سے گناہوں کا باعث ہے اس قتل کی وجہ سے قابیل نبی زادہ ہونے کے باوجود ہلاک ہوا اور بنی اسرائیل اولاد انبیاء ہونے کے باوجود تباہ ہوئے حسد کینہ قتل ہزار جرموں کی جڑ ہے اسی طرح کسی مرتے ہوئے کی جان بچانا بھی بہت بڑی نیکی ہے حدیث شریف میں ہے کہ ایک بدکار عورت نے ایک پیاس سے مرتے ہوئے کتے کو پانی پلا کر اس کی جان بچا لی تو وہ بخشی گئی جب کتے کی جان بچانے کا یہ ثواب ہے تو مرتے ہوئے ادمی کی جان بچانے کا کتنا ثواب ہوگا اسی کے برعکس ایک مسلمان کو ناحق قتل کرنے پر کتنا عذاب ہوگا ائیے قتل ناحق کی مذمت پر کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1) مرد مومن کا خون: حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ اگر اسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اللہ تعالی جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔ (ترمذی،الحدیث 1403،ج 3،ص 100)

(2) جنت کی خوشبو نہ سونگھنے پائے:حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے کسی معاہد (زمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو 40 برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔ (صحیح البخاری،حدیث 3166،ج 2،ص 365)

(3) قیامت کے دن سب سے پہلا فیصلہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (صحیح البخاری،حدیث 6864،ج 4،ص 357)

(4) دین کے سبب کشادگی: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان اپنے دین کے سبب کشادگی میں رہتا ہے جب تک کوئی حرام خون نہ کرے۔ (صحیح البخاری،حدیث 6862،ج 4،ص 356)

(5)قتل ناحق نیک عمل میں رکاوٹ: حضرت ابوالدردء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مومن تیز رو (یعنی نیکی میں جلدی کرنے والا) اور صالح رہتا ہےجب تک قتل ناحق نہ کرے اور جب حرام خون کر لیتا ہے تو اب وہ تھک جاتا ہے.(یعنی قتل ناحق کی نحوست سے انسان توفیق خیر سے محروم رہ جاتا ہے اسی کو تھک جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔) (سنن ابی داؤد،حدیث 427،ج 4،ص 139)

اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے محفوظ فرمائے اور مسلمانوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے. شریعت میں قتل عمد کی سزا دنیا میں فقط قصاص یعنی قتل کا بدلہ قتل ہے قتل ناحق ہمارے معاشرے میں بہت سے اسباب کی وجہ سے پایا جاتا ہے جن میں سے مال کی حرص،حسد، جائیداد کے جھگڑے، تکبر، گھریلو ناچاکی اور،غصہ بہت عام ہے اسی طرح قتل ناحق سے بچنے کے لیے گھر میں مدنی ماحول بنانا چاہیے تاکہ گھریلو ناچاقی اور جھگڑے ختم ہو سکیں دل سے دنیا کی محبت نکال دیں اسی طرح قران مجید میں ناحق قتل کی پرزور مذمت کی گئی ہے چنانچہ قران پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.(پارہ 5، سورۃ النساء، ایت 93)

ترجمہ کنز الایمان:اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے ائیے قتل ناحق کی مذمت پر چند احادیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

(1) حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ ناحق قتل نہ کرے۔ (ریاض الصالحین،ج 3،ص 221)

(2) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ جس نے مومن کے قتل پر ایک لفظ کے ذریعے بھی مدد کی تو وہ اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں انکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے نا امید ہے۔ (ریاض الصالحین،ج 3،ص221)

(3) حدیث پاک میں ہے کہ مومن ہمیشہ نیکی میں جلدی کرتا یعنی جب تک مومن ناحق خون نہ بھائی اس وقت تک اسے نیک اعمال میں جلدی کرنے کی توفیق ملتی رہتی ہے اور جب وہ ناحق خون بہائے تو اس کے گناہ کی نحوست کی وجہ سے وہ اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ (ریاض الصالحین،ج 3،ص221,222)

(4)حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا کسی شخص کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔ (سنن النسائی،حدیث 4016)

(5) حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی زمی کو ناحق قتل کرے اللہ تعالی اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ (سنن النسائی،حدیث 4751)

اللہ عزوجل ہمیں قتل ناحق کے گناہ سے محفوظ فرمائے اور مسلمانوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے۔ اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہے ۔

(1) کسی جان کو قتل کرنا: حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھہرانا۔ والدین کی نافرمانی کرنا اور کسی جان کو قتل کرنا بخاری کتاب ادب، حدیث 5977 ص (506)

(2) کبیر گناه:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کبیرہ گنا ہوں میں سے سب سے بڑے گناہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا کسی کو کو ناحق قتل کرنا اور سود کھانا ہے (مجمع الزوائد حدیث 12382 ص291)

(3) 7 کبیرہ گنا ہوں سے بچو :حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "7 کبیرہ گنا ہوں سے بچو پھر ان میں سے چند بیان فرمائے اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھرانا، کسی جان کو قتل کرنا اور جنگ سے بھاگ جانا۔ مراةالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 1 حدیث 49)

(4) ہلاک کرنے والے امور : حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے ۔ والےان امور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (المرجع السابق حدیث (6863)

(5) ساری دنیا کا مٹ جانا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے اللہ عزوجل کے نزدیک ساری دنیا کامٹ جانا کسی مسلمان کے (ناحق قتل سے زیادہ آسان ہے۔ (الترمذی حدیث 1395 ص 1793)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا ، غنڈہ گردی ، دہشت گردی . ڈکیتی، خاندانی لڑائی ، تعصب والی لڑائیاں عام ہیں ۔ مسلمانوں کا خون پانی ب کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوتے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے۔اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)قیامت میں سب سے پہلے خون کا حساب: کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔(صحیح البخاری 6533: صحیح مسلم 1678)

(2) مقتول قاتل کو عرش تک لے جائے گا: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا روز قیامت مقتول قاتل کو لے کر ائے گا اس قاتل کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ کہے گا اے میرے رب اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا۔ (صحیح البخاری 3029)

(3)انسانی خون کی حرمت: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے۔ ( صحیح البخاری6484)

(4)ناحق خون ریزی کے سنگین نتائج: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں ہلاک کرنے والے وہ امور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا ان میں سے ایک ناحق حرمت والا خون بہانا بھی ہے۔ (بخاری،کتاب الدیات،6470)

(5)دین و دنیا کو تنگ کر دینے والا عمل: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اس کے لیے اعمال صالحہ کرنا اسان اور توبہ قبول ہوتی رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کریں (جہاں ناحق خون کیا تو اعمال صالحہ اور مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے)۔ (صحیح بخاری: 6862 باب قول اللہ تعالٰی ومن یقتل مومنا متعمدا)

اللہ عزوجل ہمیں گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج کل بدامنی،بے راہ روی اور قتل و غارت گری میں پاکستان تو ایک طرف پورا عالم اسلام ہی بدنام ہے۔ ہر طرف زبوں حالی،بے چارگی اور بے بسی کا عالم ہے۔دل کی دنیا میں زلزلے کی سی کیفیت ہے۔

ہر جانب آگ و بارود کی بارش ہورہی ہے۔فائرنگ صبح و شام ہو رہی ہے۔انسانی خون ،ندی نالوں کی طرح بہہ رہا ہے۔بستیاں روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہی ہیں۔ روزانہ ہزاروں انسان چشم زدن میں موت کے منھ میں چلے جارہے ہیں۔عمارتیں زمین بوس ہورہی ہیں۔بچے اپنی کاپیوں اور کتابوں کے ساتھ اسکولوں اور مدرسوں میں دفن ہور ہے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہورہے ہیں۔بچوں اور نوجوانوں کی نسل مٹ رہی ہے۔کوئی کسی کوپرسادینے والا نہیں ہے۔کوئی کسی کے گلے میں بانہیں ڈال کر رونے والا نہیں ہے، روتی بہنوں اور بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے۔

ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ہر کسی کو اپنی اور اپنوں کی فکر ہے۔ہر ایک کو اپنے زخموں کے لیے مرہم کی تلاش ہے۔جہاں بھی بم دھماکہ ہوتا ہے،کٹے ہوئے اعضا بکھرے نظر آتے ہیں۔بہتاہوا انسانی خون دکھائی دیتا ہے، ملبے کے نیچے سے نیم جاں مدد کے لیے پکار رہے ہوتے ہیں۔ بچے لاوارث ہورہے ہیں۔بوڑھے ماں باپ اپنا سہارا کھو رہے ہیں۔مائیں اپنے معصوم بچوں پر آہ وبکا کر رہی ہیں۔نوجوان لڑکیاں اپنوں کی تلاش میں سر گرداں ہیں۔ بہنیں اپنے بھائیوں کی راہ تک رہی ہیں۔

سائرن سے فضائیں گونج رہی ہیں

گولیاں زندگی کو ڈھونڈ رہی ہیں

روشنی جیسے بڑھتی جا رہی ہے

فائرنگ تیز ہوتی جا رہی ہے

اڑ رہی ہے خون کی خوش بو

راج کر رہی ہے پھر دہکتی لو

بین کر رہی ہیں بہنیں کہیں

بوڑھی بیمار مائیں کہیں سکتے میں ہیں

حال تو یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر قتل کر ڈالنا عام ہوگیا ہے، حقیر سی بات پر باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو،بھائی بھائی کو اور بھائی بہن کو،شوہر بیوی کو اور ہر شخص قریبی رشتے دار کو مار ڈالنے پر تیار ہوتا ہے۔انسان کی جان تو مچھر اور مکھی سے بھی کم تر ہوگئی ہے۔آئے روز بوری بند لاشیں ملتی ہیں۔روزانہ درجنوں قتل معمولی بات بن گئی ہے۔کسی کو احساس زیاں تک نہیں ہورہا۔

۔اللہ تعالیٰ نے تو قتل ناحق کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(93) اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ جہنم ہے عرصہ دراز تک اس میں رہے گا اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے

ناحق قتل کرنے پر کئی احادیث وارد ہوئی ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

موجودہ دور اہل ایمان کے لیے آزمائشوں، ابتلاآت اور امتحانات کا دور ہے۔ ہر طلوع ہونے والی صبح اپنے ساتھ نئے نئے فتنے لے کر آتی ہے اور ہر رات اپنے پیچھے لاتعداد فتنوں کے اثرات و نقوش چھوڑ جاتی ہے۔

یہ پر آشوب ماحول اور پر فتن ساعتیں صاحبان ایمان کے لیے کچھ نامانوس اور اوپری ہر گز نہیں، کیوں کہ آج سے چودہ سو برس پیش تر ہی ہمارے پیارے نبی، جناب نبی کریم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان باتوں کی خبر دے دی تھی ۔ حضرات علمائے کرام فرماتے ہیں کہ قرب قیامت کی چھوٹی چھوٹی علامات پوری ہوچکی ہیں۔ اب صرف بڑی نشانیاں باقی ہیں۔

احادیث مبارکہ میں جناب نبی کریم، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”آخری زمانے“ کی جو متعدد نشانیاں بتائی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ قتل و قتال بہت عام ہوجائے گا۔ آج ہم کھلی آنکھوں اس امر کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ معاشرے سے امن و امان عنقا ہے۔ کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں۔ہر شخص غیر محفوظ ہے۔امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا نوکر،خواص ہوں یا عوام، حد یہ کہ عالم ہو یا عامی، کسی کو جان کی امان حاصل نہیں ہے۔ ہر طرف عدم تحفظ کی فضا عام ہے۔ ہر کوئی اس خوف کاشکار ہے کہ کوئی اندھی گولی اس کی زندگی کا چراغ گل نہ کردے۔ انسانی جان پانی سے زیادہ سستی ہوچکی ہے۔ ذاتی و نفسانی مفادات کے لیے دوسرے انسان کی جان لے لینا سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ حالاں کہ قرآن و حدیث کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک انسان کی جان بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جو اس معاملے میں اللہ کی بتائی گئی حد کو پامال کرتا ہے، اس کے لیے عنداللہ ذلت و رسوائی کا طوق تیار ہے۔

5 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن بیت اللہ کو دیکھا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”اے کعبہ! تم بہت عظمت والے ہو اور تمہاری حرمت بھی بہت بڑی ہے۔ (لیکن) ایک مومن و مسلمان (کی جان) اللہ رب العالمین کے ہاں تم سے زیادہ محترم و مکرم ہے۔“ (نضرة النعیم: 5298/11)

کسی کو بلاجواز قتل کرنے والا پورے سماج اورمعاشرے پر ظلم وزیادتی کرتا ہے۔ اس جرم عظیم کے باعث قاتل کی دنیوی اور اخروی زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس سے سکون و چین چھین لیا جاتا ہے۔ پھر سب سے بڑی حقیقت یہ کہ کل اس قاتل نے خود موت کا پیالہ پینا ہے اور اپنے اعمال کا مکمل جواب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائیں۔آمین !

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام انسانوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا کافر ، سب کو حقوق فراہم کرتا ہے ، سب کی جان کی حفاظت کرتا ہےیہاں تک کہ اللہ رب العزت نے سورۃ المائدۃ آیت 32 میں ارشاد فرمایا کہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ-وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ

ترجمہ کنز العرفان: جس نے کسی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے بدلے کے بغیر کسی شخص کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک جان کو (قتل سے بچا کر) زندہ رکھا اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا.

مذکورہ آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف ناحق مسلمان کو قتل کرنا بہت برا ہے بلکہ کسی کافر کو بھی بغیر کسی وجہ سے قتل کرنا بہت برا کام ہے کیوں کہ آیت مبارکہ میں لفظ نفس کا بولا گیا ہے جو کہ مسلمان و کافر معاہد مراد ہے دونوں کے لیے برابر ہے۔

قتل ناحق سے مراد ایسا قتل کرنا ہے جس کا حکم شریعت کی طرف سے نہ ہو۔ اسی طرح قتل نا حق کی مذمت میں بے شمار احادیث طیبہ وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

حدیث 1: صحیحین میں عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ''قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔'' (''صحیح البخاري''،کتاب الدیات،باب قول اللہ تعالٰی(ومن یقتل مؤمنا متعمداً...إلخ )، ،الحدیث:6864، ج4، ص357)

حدیث2: امام بخاری اپنی صحیح میں عبداﷲ بن عَمْرْورضی اﷲ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ''جس نے کسی معاہد (ذمی)کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے۔'' (''صحیح البخاري''،کتاب الجزیۃوالموادعۃ،باب إثم من قتل معاھدا بغیرجرم،الحدیث: 3166،ج2،ص365)

حدیث 3: امام ترمذی اور نسائی عبداﷲبن عَمْرْورضی اﷲتعالٰی عنہما سے اور ابن ماجہ براء بن عازب رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اﷲصلَّی اﷲتعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ''بے شک دنیا کا زوال اﷲ(عزوجل)پر آسان ہے۔ ایک مرد مسلم کے قتل سے ''۔ (''جامع الترمذي''،کتاب الدیات،باب ماجاء في تشدید قتل المؤمن ، الحدیث:1400،ج3،ص99)

حدیث 4: امام ترمذی ابو سعید اور ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو اﷲتعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔ (''جامع الترمذي''،کتاب الدیات،باب الحکم في الدماء،الحدیث: 1403،ج3،ص100)

حديث ٥: حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (''مشکاۃ المصابیح'' ، کتاب القصاص ، الفصل الاول ،الحدیث : 3447 ، ج2 ، ص 1027)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ناحق کتنا سنگین جرم اور اللہ رب العزت کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس سمیت تمام گناہوں سے بچا کر رکھےاور گزشتہ گناہ معاف فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید ترین کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں ا س کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے، ان میں سے 4احادیث درج ذیل ہیں:

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358، الحدیث: 6871)

(2)…کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہو گا۔ حضرت ابو بکرہ  رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ، 1 / 23، الحدیث: 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانو ں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔ ا

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ قتل ناحق کی سزا جہنم ہے‘‘، دوسری جگہ فرمان ربانی ہے ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘(سورۃالنسا ء :93)۔

قتل کن صورتوں میں جائز: شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے، (1) قتل کے بدلے قتل یعنیٰ قصاص، (2) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا، (3) ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔

حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا‘‘(صحیح البخاری 6878)۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔

روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا (صحیح البخاری: 6533، صحیح مسلم: 1678)

انسانی خون کی حرمت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے‘‘(صحیح البخاری : 6484)۔

ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : اے کعبہ تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘ (صحیح الترغیب 2339)مقتول قاتل کوعرش تک لے جائے گا

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا(صحیح الترمذی 3029)۔

قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں: حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد: 4270)

مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں: حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو‘‘(سنن ابی دائود)۔

اسلحے سے اشارہ کرنے سے ممانعت

فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتل ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے (صحیح البخاری: 7072)۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔

اسلحے کی نمائش کی ممانعت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا، حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)

جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔حجۃ الوداع کا پیغام

حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک:حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

ایک مومن کے مقابلے میں ساری دنیا معمولی چیز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے، یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے، یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)

ناحق خون میں شامل سب لوگ جہنم میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

قارئین کرام !قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ تعالیٰ نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ایک مومن کا قتلِ ناحق کبیرہ گناہ ہے : اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا ہے۔‘‘ ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، رقم: 1395

حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘ نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 3988-3990

قتل ناحق ایسا قَبِیْح (بُرا) فعل ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کا دین وایمان بھی برباد ہو سکتا ہے۔ قابیل بھی اس گناہ کی وجہ سے کفر کی دلدل میں پھنس کر دائمی عذاب کا مستحق ہوا۔ چنانچہ، منقول ہے کہ

آگ کاسب سے پہلا پجاری حضرتِ سَیِّدُنا ہابیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قتل کے بعد حضرتِ سَیِّدُنا آدم عَلَیْہِ السَّلَام نے شدید غضب ناک ہو کرقابیل کو اپنے دربار سے نکال دیا،تو وہ بدنصیب اِقْلِیْمَا کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین ’’عدن‘‘ میں چلا گیا۔ وہاں ابلیس لعین اس کے پاس آیااور کہاکہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھالیا کہ وہ آگ کی پوجا کیا کرتا تھا، لہٰذا تو بھی ایک مَندَر بناکر آگ کی پوجاشروع کردے ۔ چنانچہ،اس نے ایسا ہی کیا اوریہی وہ شخص ہے جس نے آگ کی سب سے پہلے پوجاشروع کی۔ ( روح البیان، پ6، المائدۃ تحت الایۃ:27۔30، 2/382)

سب سے پہلے جہنم میں ڈالا جائے گا:روئے زمین پر سب سے پہلے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی قابیل ہی نے کی کہ سب سے پہلے زمین پر قتلِ ناحق کیا اور یہی و ہ پہلا مجرم ہے جسے سب سے پہلے جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ روئے زمین پر قیامت تک جو بھی قتلِ ناحق ہو گا قابیل اس میں حصہ دار ہو گا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا۔(بخاری کتاب احادیث الانبیائ، باب خلق آدم وذریتہ، 2/413، حدیث:3335) قابیل نے حسد وبغض کی وجہ سے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی‘‘(سورۃ المائدہ: 32)

یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ قتل ناحق کی سزا جہنم ہے‘‘، دوسری جگہ فرمان ربانی ہے ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘(سورۃالنسا ء :93)۔

قتل کن صورتوں میں جائز: شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے، (1) قتل کے بدلے قتل یعنیٰ قصاص، (2) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا، (3) ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا‘‘(صحیح البخاری 6878)۔ ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں آئے گا۔

روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا (صحیح البخاری: 6533، صحیح مسلم: 1678)

انسانی خون کی حرمت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے‘‘(صحیح البخاری : 6484)۔

ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : اے کعبہ تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘ (صحیح الترغیب 2339)مقتول قاتل کوعرش تک لے جائے گا

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا(صحیح الترمذی 3029)۔

قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں: حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی داؤد: 4270)

مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں: حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو‘‘(سنن ابی دائود)۔

اسلحے سے اشارہ کرنے سے ممانعت: فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتل ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے (صحیح البخاری: 7072)۔

حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔

اسلحے کی نمائش کی ممانعت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا، حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)

جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔حجۃ الوداع کا پیغام

حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے (صحیح البخاری : 1739)۔

مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی ہولناک: حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔

ایک مومن کے مقابلے میں ساری دنیا معمولی چیز: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے، یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے، یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)

ناحق خون میں شامل سب لوگ جہنم میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)

قارئین کرام !قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، اللہ تعالیٰ نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


قرآن و حدیث میں قتل ناحق کی مذمت بار بار آئی ھے۔کسی کام کے منع کرنے کا بار بار ذکر ہونا اس چیز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ھے کہ اس چیز کو نا کرنے کی کتنی زیادہ تاکید ھے جیسے کہ ماقبل میں قتل ناحق کی مذمت کا ذکر ہوا۔

یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ قرآن و حدیث میں قتل نا حق کی کتنی زیادہ مذمت آئی ھے اور کتنی تاکید کیساتھ منع کیا گیا ھے کہ قتل نا حق سے بچتے رہنا چاہیے لیکن جو ہمارا آج کا عنوان ھے وہ ھے قتل نا حق کی مذمت احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع کردے چاہے وہ احکامات قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا وہ احکامات احادیث مبارکہ میں بیان ہوئے ۔

بحیثیت مسلمان ہم سب کو چاہیے کہ ہم مسلمانوں بھائیوں کے تمام حقوق کا خیال رکھیں بالخصوص مسلمان کی جان کے معاملے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں خدانخواستہ انجانے میں ہم کسی بھی مسلمان کے خون بہانے میں ملوث نا ہوجایے ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ھیں

اس دنیا میں سب سے پہلے قتل کی ابتداء انسان نے کی کہ جب قابیل نے حضرت ہابیل علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے والد محترم حضرت آدم علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے قتل کیا اور یہ بدبختی قابیل کے کھاتے میں آئی کہ حدیث مبارکہ میں یہ بات بیان کی گئی ھے کہ جس کا مفہوم یہ ھے کہ قیامت تک جو شخص کسی دوسرے شخص کو نا حق قتل کرے گا تو اس کے قتل کا گناہ بھی قابیل کے نامعہ اعمال میں لکھا جائے گا کہ اس نے سب سے پہلے انسان کے قتل کی ابتداء کی ۔

حدیث پاک ھے کہ آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان بزبان حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "جس شخص نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے سے بھی اعانت کی وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی میں لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ھے ''( بحوالہ سنن ابن ماجہ جلد نمبر 2 ص 874 باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلما )

دیکھا آپ نے حدیث پاک میں!حدیث پاک میں قتل نا حق کی مذمت کس طرح بیان کی گئی کہ آدھے کلمے سے بھی جس نے قتل کے معاملے میں مدد کی اللہ تعالیٰ اس کی پیشانی میں لکھے گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ھے

ایک تو اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دھتکار دیا جائے گا دوسرا اس کو سب کے سامنے سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور غضب الٰہی کی یہ صورت رسوائی ہی رسوائی ھوگی ہم۔اللہ تعالیٰ کی اس کے غصب سے پناہ مانگتے ہیں۔

کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا بروز قیامت بڑے خسارے کا شکار ہوگا فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم بزبان سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ "زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل ہونے پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا"(بحوالہ معجم الصغیر جلد اول ص 205)

مسلمانوں کے آپس میں قتل ناحق کرنے کے بارے میں وعیدیں ہمیں قرآن و حدیث میں کثیر مقامات پر ملتی ھیں کہ مزکورہ حدیث میں یہ بات گزری ھے کہ اگر سارے بندے بھی ایک مسلمان کے قتل کرنے پر جمع ہو جائیں تو اس کے عوض اللہ تعالیٰ تمام بندوں کو جہنم میں داخل فرمادے تو بھی اللہ تعالی کو کوئی پرواہ نھیں

اس سے ہمیں قتل ناحق کے مذموم ہونے کے بارے میں بات معلوم ہوئی کہ قتل نا حق اللہ تعالیٰ انتہائی ناپسند ھے۔ سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ھے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ھے ''کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے'' راوی فرماتے ھیں کہ میں نے عرض کی ” مقتول جہنم میں کیوں جائے گا فرمایا اس لیے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پر مصر تھا (بحوالہ بخاری شریف کتاب الایمان جلد اول ص نمبر 23 حدیث 31)

پیارے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے کئی فرمان مروی ھیں

چنانچہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ و سلم کا فرمان عالیشان ھے کہ جس نے غیر مسلم شہری یعنی معاھد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک محسوس ہوتی ھے بحوالہ۔بخاری شریف کتاب الجزیہ

ایک اور جگہ فرمان مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ھے کہ ''جس کسی معاہد کو قتل نا حق کیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرمادے گا''( بحوالہ سنن نسائی کتاب القسامۃ حدیث نمبر 474)

دین اسلام کا یہ حسن ھے کہ اس نے مسلمانوں اور غیر مسلم کو عدل و انصاف کیساتھ حقوق مہیا کیے ہیں اور عملی طور پر انھیں اس پر عمل کرکے بھی سمجھادیا ھے

اللہ تعالیٰ ہمیں قتل ناحق سے بچائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔