سلمان
علی ( درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اسلام ایک
ایسا دین ہے جو انسانوں کے باہمی تعلقات اور سماجی معاملات کو بہترین انداز میں
منظم کرتا ہے۔ راستے کے حقوق کا خیال رکھنا انہی اہم امور میں سے ہے۔ راستے کی
صفائی، دوسروں کو اذیت سے بچانا، اور راستے میں قضائے حاجت سے اجتناب ان حقوق میں
شامل ہیں۔ ان اصولوں پر عمل ایک پرامن اور مہذب معاشرے کی بنیاد ہے۔ راستے کے حقوق
کے متعلق احادیث نبویہ میں بھی اِس کی تربیت فرمائی گئی ہے جیسا کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
(1)راستے
سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ایمان ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ
شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا
إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایمان کے ستر یا ساٹھ سے زیادہ شعبے
ہیں، سب سے افضل ”لا
الہ الا اللہ“ کہنا ہے اور سب سے
ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح
مسلم، کتاب الایمان، باب شعب الایمان، ج1، ص63، حدیث: 35)
(2)راستے
میں بیٹھنے سے اجتناب اور حقوق: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِيَّاكُمْ
وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ.
فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا
نَتَحَدَّثُ فِيهَا فَقَالَ: إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا
الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: غَضُّ
الْبَصَرِ، وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ،
وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راستوں میں
بیٹھنے سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مجبور ہیں، یہ ہماری مجلسیں
ہیں جہاں ہم گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہیں بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا
حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی
سے روکنا۔(صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب الجلوس فی الطریق، ج2، ص882، حدیث: 2465)
(3)راستے
یا سایے میں قضائے حاجت سے اجتناب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ
قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دو لعنت والے کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ کون
سے کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستے یا ان کے سائے میں قضائے حاجت کرنا۔ (صحیح
مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطرق، ج1، ص223، حدیث: 269)
(4)راستے
کی صفائی کا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے صحن اور راستے کو صاف رکھو اور یہودیوں کے ساتھ
مشابہت نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب فی افنیۃ البیوت، ج1، ص330،
حدیث: 728)
راستے کے حقوق
اسلام کی جامع اور عملی تعلیمات کا حصہ ہیں جو فرد اور معاشرے کی بھلائی کے لیے
ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے راستے کی صفائی، تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے، اور نیکی کے فروغ پر
زور دے کر ان حقوق کی اہمیت واضح کی۔ ان اصولوں پر عمل سے نہ صرف سماجی ہم آہنگی
پیدا ہوتی ہے بلکہ اللہ کی رضا اور اجر بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ ہر مسلمان کی ذمہ
داری ہے کہ ان حقوق کو اپنائے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔
علی
حسنین ارشد (درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادہوکی لاہور ، پاکستان)

اسلام نے
انسانی زندگی کے ہر پہلو کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے اور راستے کے حقوق کو ایک خاص
اہمیت دی ہے۔ ان حقوق کی وضاحت نبی کریم ﷺ کی مبارک احادیث میں موجود ہے۔ ذیل میں
راستے کے حقوق پر چند اہم احادیث کو عربی متن، اردو ترجمہ اور حوالہ کے ساتھ پیش
کیا جا رہا ہے:
(1)
راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ایمان کا حصہ ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ
أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ
اللَّهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ
مِنَ الإِيمَانِ ترجمہ: حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کے ستر یا ساٹھ
سے زیادہ شعبے ہیں، سب سے افضل 'لا الہ الا اللہ' کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ راستے
سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے، اور حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب
الإیمان، باب شعب الإیمان، ج1، ص63، حدیث: 35)
(2)
راستے کے حقوق کی وضاحت: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،
قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ. فَقَالُوا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا،
فَقَالَ: إِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ.
قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ،
وَكَفُّ الْأَذَى، وَرَدُّ السَّلَامِ، وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ
عَنِ الْمُنْكَرِ ترجمہ: حضرت ابو
سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: راستوں میں بیٹھنے
سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم مجبور ہیں، یہ ہماری مجلسیں ہیں جہاں
ہم گفتگو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر بیٹھنا ہی ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ
نے عرض کیا: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نگاہ نیچی رکھنا، تکلیف نہ دینا،
سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (صحیح بخاری، کتاب
المظالم، باب الجلوس فی الطریق، ج2، ص882، حدیث: 2465)
(3)
راستے میں قضائے حاجت سے اجتناب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ
قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان دو لعنت والے کاموں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: وہ
کون سے کام ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے راستے یا ان کے سائے میں قضائے حاجت
کرنا۔ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن التخلی فی الطرق، ج1، ص223، حدیث: 269)
(4)
راستے کی صفائی کا حکم: حضرت جابر
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنے صحن اور راستے کو صاف
رکھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب فی
افنیۃ البیوت، ج1، ص330، حدیث: 728)
ان احادیث
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راستے کے حقوق ادا کرنا ایمان کا حصہ ہے اور یہ اللہ
کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ راستے کو صاف رکھنا، دوسروں کو تکلیف سے بچانا،
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ سب وہ اعمال ہیں جن سے ایک پرامن اور
مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
علی
شان عثمان (درجہ ثانیہ مرکزی جامعۃالمدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور ، پاکستان)

اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اسلام نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ لوگوں کے حقوق بیان کیے ہیں
یہاں تک کہ راستے کے بھی حقوق بیان کیے ہیں کہ راستے میں کون سے کام کرنے چاہئیں
اور کن کاموں سے بچنا چاہیے تاکہ مسلمان ان کاموں کو کر کے پریشانی سے بچ سکیں۔
ذیل میں راستے
کے چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں ۔
(1)
راستے کے حقوق: راستے سے تکلیف دہ
چیزیں ہٹانے، اس پر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے اور بد نظری سے بچنے کے لیے نگاہیں
نیچی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ
الْخُدْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ بِالطُّرُقَاتِ» . فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ مَا
لَنَا مِنْ مَجَالِسِنَا بُدٌّ نَتَحَدَّثُ فِيهَا. قَالَ: «فَإِذَا أَبَيْتُمْ
إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهٗ» . قَالُوا: وَمَا حَقُّ
الطَّرِيقِ يَا رَسُولَ اللّٰهِ قَالَ: «غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذٰى وَرَدُّ
السَّلَامِ، والأَمرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ
روایت ہے حضرت
ابوسعید خدری سے وہ نبی صلی الله علیہ وسلم سے راوی فرمایا: راستوں پر بیٹھنے سے
بچو ۔لوگوں نے عرض کیا یارسول الله ہم کو وہاں بیٹھنے کے سوا چارہ نہیں ہم وہاں
بات چیت کرتے ہیں۔ فرمایا: اگر بغیر بیٹھے نہ مانو تو راستہ کو اس کا حق دو، انہوں
نے عرض کیا کہ راستہ کا کیا حق ہے یارسول الله ، فرمایا نگاہ نیچے رکھنا،تکلیف دہ
چیز ہٹانا اور سلام کا جواب دینا اور اچھائیوں کا حکم دینا،برائیوں سے روکنا
(بخاری۔كتاب المظالم.بَاب: أَفْنِيَةِ الدُّورِ وَالْجُلُوسِ فِيهَا وَالْجُلُوسِ
عَلَى الصُّعُدَاتِ.ج2.ص870.حديث2333.(دار ابن كثير،دار اليمامۃدمشق)
(2)
قضائے حاجت نہ کرنا : راستے میں
گندگی سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اس لیے راستے میں قضائے حاجت کرنے سے منع کیا گیا
ہے ۔ وَعَنْ
مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوْا
الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ،
وَالظِّلِّ روایت ہے حضرت معاذ سے
فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لعنتی چیزوں سے
بچو،گھاٹوں،درمیانی راستہ اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے۔ (ابو داؤد ۔کتاب
الطہارت۔باب المواضع التی نهى النبی صلى الله علیہ وسلم عن البول
فيها۔جلد1۔ص7۔حدیث 26۔المکتبۃ العسریۃ صيدا بيروت)
(3)
راستے سے موذی چیزیں ہٹانا: لوگوں
کو راحت پہنچانا ثواب کا باعث ہے راستے سے تکلیف دہ چیزیں ہٹانا بھی اسی میں داخل
ہے ۔ وَعَنْ
أَبِي بَرْزَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللّٰهِ! عَلِّمْنِي شَيْئًا
أَنْتَفِعْ بِهِ، قَالَ: اعْزِلِ الأَذَى عَنْ طَرِيقِ الْمُسْلِمِينَ روایت ہے حضرت ابو برزہ سے فرماتے ہیں میں نے
عرض کیا یا نبی ﷲ مجھے وہ بات سکھائیے جس سے نفع اٹھاؤں فرمایا مسلمانوں کے راستہ
سے موذی چیز ہٹا دو ۔ (مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل ازالۃ الاذى عن
الطريق، ج4، ص2021، حديث2618 مطبعۃ عيسی البابی الحبلی و شركاه.القاهره)
(4)
راستے سے پتھر اور کانٹے ہٹانا: راستے
سے پتھر اور کانٹے ہٹانا باعثِ ثواب ہے ۔ وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ
صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خُلِقَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ
عَلَى سِتِّينَ وَثَلَاثِ مِئَةِ مَفْصِلٍ، فَمَنْ كَبَّرَ اللَّه، وَحَمِدَ
اللّٰهَ، وَهَلَّلَ اللّٰهَ، وَسَبَّحَ اللّٰهَ ، وَاسْتَغْفَرَ اللّٰهَ ،
وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْكَةً، أَوْ عَظْمًا،أَوْ أَمَرَ
بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهٰى عَنْ مُنْكَرٍ عَدَدَ تِلْكَ السِّتِّينَ وَالثَّلَاثِ
مِئَةِ، فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں فرمایا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اولاد آدم میں ہر انسان تین سو ساٹھ جوڑوں پر پیدا
کیا گیا تو جو اللّٰہ کی تکبیر کہے،اس کی حمد کرے، تہلیل کرے،تسبیح پڑھے، اللہ سے
معافی چاہے،لوگوں کے راستہ سے پتھریا کانٹا یا ہڈی ہٹا دے یا اچھی بات کا حکم دے
یا برائی سے منع کرے ان تین سو ساٹھ کی گنتی کے برابر تو وہ اس دن چلے گا اس حال
میں کہ اپنی جان کو آگ سے دور کیا ہوگا۔ (مسلم، كتاب الزكوة.باب بيان ان اسم
الصدقۃ يقع على كل نوع من المعروف .ج2.ص298.حديث1007.مطبعۃ عيسی البابی الحبلی و
شركاه القاهره)
راشد
علی عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ مشتاق، شاہ عالم مارکیٹ لاہور ،
پاکستان)

دینِ اسلام نے
جہاں زندگی کے دیگر شعبہ جات میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے وہاں راستوں کے حقوق کے
متعلق بھی ہمیں کافی درس دیاہے۔ یہاں راستے سے مسلمانوں کا راستہ مراد ہے یعنی
جس راستے سے مسلمان گزرتے ہوں وہاں سے تکلیف دہ چیز دُور کر دینا ثواب ہے۔
آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا: راستوں میں بیٹھنے سے بچو! صحابہ نے عرض
کی: (بسااوقات) ہمیں وہاں بات چیت کرنے کے لئے بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اگر بیٹھنا ہی ہے تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ عرض کی: یارسولَ اللہ! راستے کا
حق کیا ہے؟ فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، سلام کا جواب دینا،
نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے منع کرنا۔(بخاری، 4/165، حدیث: 6229)
آئیے!راستے کے
بعض حقوق کا مطالعہ کر کے عمل کیجئے اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کیجئے۔
(1)تکلیف
دہ چیز کو ہٹانا: اگر راستے میں
کوئی ایسی چیز ہو جو گزرنے والوں کو تکلیف دے تو اس کو ہٹا دینا چاہئے جیسا کہ
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا
صدقہ ہے۔(بخاری، 2/306،حدیث:2989)
(2)راستے
تنگ نہ کرنا: گھر کے آگے چبوترہ یا
گٹر بنا کر گلی تنگ کر دینا،گاڑی غلط پارکنگ کر کے لوگوں کو پریشان کرنا یہ مسلمان
کی شایانِ شان نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: حضرت سہل بن معاذ رضی اللہُ عنہ کا
بیان ہے، میرے والدِ گرامی فرماتے ہیں کہ ہم آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ساتھ جہاد میں گئے تو لوگوں نے منزلیں تنگ کر دیں اور راستہ روک لیا۔
اس پر حضور علیہ السّلام نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ یہ اعلان کرے: بے شک جو
منزلیں تنگ کرے یا راستہ روکے تو اس کا کچھ جہاد نہیں۔(ابوداؤد، 3/58، حدیث:2629)
(3)راستے
میں قضائے حاجت سے پرہیز کرنا: ایسا
راستہ جہاں سے عموماً مسلمان گزرتے ہوں یا سایہ جہاں آرام کے لئے بیٹھتے ہوں وہاں
پر قضائے حاجت سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔جیسا
کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہماری تربیت کرتے ہوئے فرمایا: تین
چیزیں جو سببِ لعنت ہیں،ان سے بچو: گھاٹ پر، بیچ راستہ پر اور درخت کے سایہ میں پیشاب
کرنا۔(ابو داؤد، 1/43،حدیث:26)
(4)عام
راستے کی طرف بیتُ الخلاء یا پرنالہ نکالنا: عام راستے کی طرف بیتُ الخلاء یا پرنالہ یا برج یا شہتیر
یا دکان وغیرہ نکالنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے عوام کو کوئی ضرر نہ ہو اور گزرنے
والوں میں سے کوئی مانع نہ ہو اور اگر کسی کو کوئی تکلیف ہو یا کوئی معترض ہو تو
ناجائز ہے۔(بہار شریعت، 3/871)
(5)راستے
پر خریدوفروخت کرنا: جو شخص راستے
پر خرید و فروخت کرتا ہے اگر راستہ کشادہ ہے کہ اس کے بیٹھنے پر لوگوں کو تنگی نہیں
ہوتی تو حرج نہیں اور اگر گزرنے والوں کو اس کی وجہ سے تکلیف ہو جائے تو اس سے
سودا نہیں خریدنا چاہئے کہ گناہ پر مدد دینا ہے کیونکہ جب کوئی خریدے گا نہیں تو
وہ بیٹھے گا کیوں۔(دیکھئے:فتاویٰ ہندیہ،3/210)
رضوان
عطاری (درجۂ رابعہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)

اللہ کریم
لاریب کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمۂ
کنز الایمان: بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔
ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بیشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے اَعمال اور
اَحوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور
دنیا میں ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں ،
نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کربھیجا ہے۔( خازن، الفتح، تحت
الآیۃ: ۸، ۴ / ۱۴۶)
حضور صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنی امت کی قول و فعل کے اعتبار سے ہر طرح تربیت فرمائی اور ایسی
طرح نیک اعمال کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے تربیت فرمائی
(1)
کوئی کام سپرد کرتے وقت بشارت کا حکم دینا : عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ کَانَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ
أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ قَالَ بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَيَسِّرُوا
وَلَا تُعَسِّرُوا ترجمہ: حضرت
ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے صحابہ رضی
اللہ عنھم میں سے کسی کو کسی کام کے لئے بھیجتے تو آپ ﷺ فرماتے کہ لوگوں کو بشارت
سناؤ اور متنفر نہ کرو اور لوگوں سے آسانی والا معاملہ کرو اور تنگی والا معاملہ
نہ کرو۔ (صحیح مسلم ، جہاد کا بیان، باب: آسانی والا معاملہ اختیار کرنے اور نفرت
والا معاملہ ترک کرنے کے بیان میں صفحہ:141 ، جلد: 5 ، حدیث نمبر : 1732 ، طبع
ترکیہ )
(2) اندھیرے میں مسجد میں آنے پر بشارت: عَنْ بُرَيْدَةَ
الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَشِّرِ
الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا
الْوَجْهِ، مَرْفُوعٌ هُوَ صَحِيحٌ مُسْنَدٌ، وَمَوْقُوفٌ إِلَى
أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُسْنَدْ
إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ترجمہ: بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور (بھرپور
اجالے) کی بشارت دے دو ۔ (جامع ترمذی، کتاب: نماز کا بیان، باب: عشاء اور فجر کی
نماز با جماعت پڑھنے کی فضلیت، صفحہ:276، جلد:1 ، حدیث نمبر: 221، طبع الرسالہ )
(3)
اچھے طریقے سے عبادت پر بشارت دینا: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ :
قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ - ا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) - أُنَاسٌ مِنْ
أَہْلِ الْبَدْوِ فَقَالُوا یَا رَسُولَ اللَّہِ قَدِمَ عَلَیْنَا أُنَاسٌ مِنْ
قَرَابَاتِنَا فَزَعَمُوا أَنَّہُ لاَ یَنْفَعُ عَمَلٌ دُونَ الْہِجْرَۃِ
وَالْجِہَادِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ- (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) -: حَیْثُ مَا
کُنْتُمْ فَأَحْسِنُوا عِبَادَۃَ اللَّہِ وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ ۔ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ دیہات میں سے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے
پاس ہمارے کچھ قریبی لوگ آئے اور انھوں نے آ کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہجرت اور جہاد
کے بغیر کوئی عمل فائدہ مند نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جہاں کہیں بھی رہو، تم اللہ
کی عبادت اچھے طریقے سے کرو اور اس پر جنت کی بشارت بھی حاصل کرلو۔ (سنن کبریٰ
للبیہقی، کتاب: سیر کا بیان، باب: مشرکین کی بستی میں اس آدمی کو ٹھہرنے کی اجازت
جس پر فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، صفحہ :29، جلد:9، حدیث نمبر:17775، طبع
العلمیہ )
(4)
اللہ کی رحمت کے بارے میں بشارت دینا: عن عائشة أَنَّهَا کَانَتْ تَقُولُ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا
فَإِنَّهُ لَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ قَالُوا وَلَا أَنْتَ يَا
رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللَّهُ مِنْهُ
بِرَحْمَةٍ وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَی اللَّهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ
قَلَّ ترجمہ:
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سیدھی راہ پر گامزن رہو اور میانہ روی اختیار کرو اور
خوشخبری دو کیونکہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہ کرائیں گے، صحابہ نے عرض کیا
اے اللہ کے رسول آپ ﷺ کو بھی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا اور مجھے بھی نہیں سوائے اس کے
کہ اللہ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے گا اور جان لو اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ
عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ کم ہو (صحيح مسلم، کتاب: منافقین کی صفات اور
ان کے احکام کا بیان، باب: کوئی بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اللہ
تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہونے کے بیان میں، صفحہ:141، جلد:8، حدیث نمبر:
2818، طبع ترکیہ )
اللہ کریم سے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائے اور
ان کی تربیت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
محمد
ابو بکر نقشبندی عطّاری (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی
لاہور ، پاکستان)

اللہ ربُّ
العزت نے اپنے حبیبِ مکرّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دوجہاں کا مالک و
مختار بنایا۔ اور نبیِّ کریم علیہ السّلام نے اپنے اس اختیار کو اپنی آل و اصحاب
اور امتیوں پر شفقت کرتے ہوئے استعمال فرمایا چنانچہ ہمیں کتبِ احادیث میں متعدد
مقامات پر ”اَبشِر/اَبشِرُوا“ وغیرہ جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جن کے ذریعے حضور علیہ
السّلام نے اپنے امتیوں کو خوشخبریاں سنائی ہیں، چنانچہ ذیل میں ایسی ہی چند احادیث
نقل کی گئی ہیں آپ بھی پڑھئے:
(1)جنت
میں داخلہ اللہ پاک کا فضل ہے : نبیِّ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سَدِّدُوا وَقَارِبُوا
وَاَبْشِرُوا فَاِنَّهُ لا يُدْخِلُ اَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ یعنی سیدھے راستے پر چلو، قربِ الٰہی حاصل کرو
اور خوشخبری لو کیونکہ کوئی بھی شخص اپنے عمل کے سبب جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(بخاری،
4/238، حدیث: 6467)
(2)دو
نوروں کی بشارت: حضرت سیدنا جبرائیل علیہ السّلام سرکارِ دو عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آسمان کے ایک
خاص دروازے سے ایک خاص فرشتہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ
میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اَبْشِرْ بِنُورَيْنِ اُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا
نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ
تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا اِلَّا اُعْطِيتَهُ یعنی یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ
کو دو نوروں کی خوشخبری ہو، آپ سے پہلے کسی نبی علیہ السّلام کو یہ دو نور عطا نہیں
کئے گئے، ان میں سے ایک نور سورۂ فاتحہ ہے اور دوسرا سورۂ بقرہ کی آخری آیات ہیں،
جو شخص ان (سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات) کی تلاوت کرے، اسے ہر ہر حرف
پر خصوصی ثواب عطا کیا جائے گا۔(مسلم، ص314، حدیث: 806)
(3)فقرا،
مالداروں سے بہتر ہیں: اللہ پاک کے
آخری نبی رسولِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اصحابِ صفہ کے پاس تشریف لائے
(ان میں سے ایک جماعت فقرا مہاجرین میں سے تھی) اور فرمایا: اَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ
صَعَالِيكِ الْمُهَاجِرِينَ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَدْخُلُونَ
الْجَنَّةَ قَبْلَ اَغْنِيَاءِ النَّاسِ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَذَاكَ خَمْسُ مِائَةِ
سَنَةٍ یعنی اے فقرا مہاجرین کی
جماعت! تمہیں قیامت کے دن کے مکمل نور کی خوشخبری ہوکہ تم جنت میں مالداروں سے
آدھا دن پہلے جاؤ گےاور یہ آدھا دن پانچ سو سال کی مدت ہے۔(ابو داؤد،3/452، حدیث:
3666)
اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ رب ذوالجلال ہمیں بھی ان بشارتوں کا مستحق بننے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبدالحنان
(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ گلزارِ حبیب سبزہ زار لاہور ، پاکستان)

قرآن کریم
ایسی کتاب ہے کہ جو انسان کے اعمال، رویوں اور دیگر معاملات کو بہت ہی جامع و
حکیمانہ مثالوں سے وضاحت کرتا ہے ان مثالوں کا مقصد انسان کی اخلاقی و روحانی
تربیت کرنا اور اس کے عقائد و نظریات کو درست کرنا ہے ایک دانا شخص ان آیات بیّنہ میں
غور و فکر کر کے اپنی دُنیاوی و اُخروی زندگی کو کامیاب بناتا ہے۔ قرآن مجید و
فرقان حمید میں مختلف مقام پر مختلف انداز میں منافقین کے اعمال کا تذکرہ کیا اور
ان کے کردار، رویوں اور ان کے انجام کو مثال دے کر بیان کیا۔
قارئین کرام!
آئیے منافقین کے اعمال کی چندقرآنی مثال کا مطالعہ کرتے ہیں۔
(1)
کان، آنکھ، زبان، سب بیکار: مَثَلُهُمْ
كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ
اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ
بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) ترجمہ کنزالعرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ
روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور لے گیا اور
انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے، گونگے، اندھے ہیں
پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (پارہ1، البقرۃ17،18)
تفسیر: اس میں
وہ منافق داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی
روشنی کو ضائع کردیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہوگئے اور وہ بھی جنہیں
فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے
فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق کو سننے ، ماننے، کہنے اور دیکھنے
سے محروم ہوگئے تو کان، زبان، آنکھ سب بیکار ہیں۔ (صراط الجنان، ج1، ص82)
(2)
تاریکیوں میں بھٹکے متحیر شخص کی طرح: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ
بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ
الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) ترجمہ کنزالعرفان: یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے والی
بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے
موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے
ہوئے ہے۔ (پارہ1، البقرہ19)
(3)
دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیوں کی طرح:وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ
اِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ
فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۴) ترجمہ کنزالعرفان: اور جب
تم انہیں دیکھتے ہو توان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم ان
کی بات غور سے سنو گے( حقیقتاً وہ ایسے ہیں ) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی
لکڑیاں ہیں ،وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ لیتے ہیں، وہی دشمن
ہیں تو ان سے محتاط رہو، اللہ انہیں مارے،یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟ (پارہ28، المنٰفقون4)
تفسیر: اے
مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللّٰہ بن اُبی وغیرہ کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم
تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات غور سے سنو گے حالانکہ
حقیقت میں وہ ایسے ہیں جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں جن میں بے جان
تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے۔ (صراط الجنان، ج10،
ص163)
قارئین کرام!
قرآن کریم میں بیان کردہ منافقین کی مثالیں انتہائی گہری اور نصیحت آموز ہیں جو
منافقین کے کردار و رویوں کو واضح کرتی ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان آیات میں
غور و فکر کرے اور اپنے اعمال کو اخلاص اور عمل کے ساتھ مضبوط بنائے۔
اللہ پاک ہمیں
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے قرآن مجید کو صحیح معنوں میں پڑھنے
اور اس کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ آمین
احمدحسن
صدیق ( درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

اللہ تبارک
وتعالی نے بندوں کی ہدایت کیلیے کم وبیش ایک لاکھ 24 ہزار انبیا کرام علیہم الصلوۃ
والسلام کو بھیجا جنہوں نے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی اور برائی سے منع کیا اسی طرح
اللہ تعالی نے آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائیں جو کہ بندہ کی راہنمائی کا ذریعہ ہیں
ان میں سے قران پاک جو اللہ پاک کی طرف سے محفوظ کلام ہے اس میں لوگوں کے لیے بے
شمار ہدایات اور نصیحتیں موجود ہیں جو کہ صراط مستقیم کا سبب بنتی ہیں زندگی کے
مختلف پہلوؤں میں قرآن پاک ہماری جا بجا راہنمائی کرتا رہتا ہے مختلف انداز میں
ہماری تربیت کرتا رہتا ہے کبھی واضح طور پر تو کبھی کنایہ الفاظ میں تو کبھی
مثالوں کے ذریعے اسی طرح قرآن پاک میں جہاں مثالوں کے ذریعے مختلف چیزوں کو
سمجھایا گیا ہے ان میں سے ایک منافقین بھی ہیں کہ جن کی نفاق اور ان کی عادت و
اطوار کو مثالوں کے ذریعے سمجھایا گیا ہے قران پاک میں مختلف جگہوں پر یہ مثالیں بیان کی گئی ہیں یہاں چند درج ذیل
ہیں:
(1)
ہدایت کے بعد اس کو ضائع کرنے والے : مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ
مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان:ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے
آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ
کچھ نہیں سوجھتا ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر: 17)
وضاحت : یہ ان
لوگوں کی مثال ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اُس پر قدرت بخشی پھر
انہوں نے اسے ضائع کردیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ،ان کا انجام حسرت و افسوس
اور حیرت و خوف ہے اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل
میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کردیا ۔ (تفسیر صراط الجنان)
(2)
ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والے : اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ
مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹)ترجمہ کنزالایمان:یا جیسے آسمان سے اترتا پانی
کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں
کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر
19)
وضاحت :ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ
مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ
کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و
بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب
اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی
اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو
کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے
اور بیگانے، مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔
(3)
خوب باتیں بنانے والے:وَ اِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْؕ-وَ اِنْ یَّقُوْلُوْا
تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ
صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى
یُؤْفَكُوْنَ(۴)
اور جب تو انہیں دیکھے ان کے جسم تجھے بھلے
معلوم ہوں اور اگر بات کریں تو تو ان کی بات غور سے سنے گویا وہ کڑیاں ہیں دیوار سے ٹکائی ہوئی ہر بلند آواز
اپنے ہی اوپر لے جاتے ہیں وہ دشمن ہیں تو ان سے بچتے رہو اللہ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ (پ28،
المنٰفقون:4)
وضاحت:عبد
اللہ بن ابی صحت مند، خوبْرُو اورخوش بیان آدمی تھا اور اس کے ساتھ والے منافقین
قریب قریب ویسے ہی تھے،جب یہ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو خوب باتیں بناتے
جو سننے والے کو اچھی معلوم ہوتی تھیں ،چنانچہ اس آیت میں مسلمانوں کو ان کی
حقیقت بتائی گئی کہ اے مسلمانو! جب تم منافقین جیسے عبد اللہ بن اُبی وغیرہ
کودیکھتے ہو توان کے جسم تمہیں اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی بات
غور سے سنو گے حالانکہ حقیقت میں وہ ایسے ہیں جیسے دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی
لکڑیاں جن میں بے جان تصویر کی طرح نہ ایمان کی روح، نہ انجام سوچنے والی عقل ہے۔

قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے منافقین کی حالت اور ان کے کردار کو سمجھانے کے لیے مختلف مثالیں
بیان فرمائی ہیں۔اس
مضمون میں ان مثالوں کے ساتھ ان کا ترجمہ
کنزالایمان اور تفسیر صراط الجنان سےمختصر وضاحت پیش کی گئی ہے۔
(1)
آگ جلانے والے کی مثال: مَثَلُهُمْ
كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ
اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) ترجمہ کنزالایمان: ان کی کہاوت اس کی سی ہے جس
نے آگ جلائی، پھر جب اس نے اس کے گرد روشن کیا، اللہ ان کے نور کو لے گیا اور
انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں دیکھتے۔ (سورۃ البقرہ: 17)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال منافقین کی حالت بیان کرتی ہے جو بظاہر ایمان
لاتے ہیں لیکن ان کے دل کفر کی تاریکی میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ ان کے اعمال وقتی روشنی کی طرح ہوتے ہیں جو جلد ہی ختم ہو جاتی ہے۔
(2)
بارش کے وقت خوف زدہ لوگوں کی مثال: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ ترجمہ کنزالایمان: یا جیسے آسمان سے برسی ہوئی
بارش جس میں اندھیریاں
اور گرج اور چمک ہو۔ (سورۃ البقرہ: 19)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال
منافقین کے دل کی بے یقینی کو بیان کرتی ہے، جو ایمان اور کفر کے درمیان الجھن کا شکار
رہتے ہیں۔ وہ ہر وقت خوف اور شک میں مبتلا رہتے ہیں۔
(3)
پتھر پر مٹی کی مثال: فَمَثَلُهٗ
كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ترجمہ کنزالایمان: تو اس کی کہاوت ایسی ہے جیسے
ایک صاف پتھر کہ اس پر مٹی ہو، پھر اس پر زور کا مینہ پڑا تو اسے نرا پتھر کر
چھوڑا۔ (سورۃ البقرہ: 264)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال
ان لوگوں کے لیے ہے جو دکھاوے کے لیے نیک اعمال کرتے ہیں۔ ان کے اعمال کی بنیاد
مضبوط نہیں ہوتی، لہٰذا یہ کسی فائدے کے بغیر ختم ہو جاتے ہیں۔
(4)
گدھے کی مثال: مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا
التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ترجمہ کنزالایمان: جنہیں توریت اٹھوائی گئی پھر انہوں نے نہ اٹھائی، ان
کی کہاوت گدھے کی سی ہے جو کتابیں لادے ہوئے ہو۔ (سورۃ الجمعہ: 5)
خلاصہ
از تفسیر(صراط الجنان): یہ منافقین
اور ان لوگوں کی حالت بیان کرتی ہے جو علم رکھتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے، ان
کا علم بے فائدہ رہتا ہے۔
(5)
شیطان کے بہکانے کی مثال:
كَمَثَلِ
الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ترجمہ کنزالایمان: ان کی کہاوت شیطان کی سی ہے جب اس نے
آدمی سے کہا کہ کافر ہو جا۔ (سورۃ الحشر: 16)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال
منافقین کی دھوکہ دہی کو بیان کرتی ہے جو دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور خود کو بری
الذمہ قرار دیتے ہیں۔
(6) اندھے اور بینا کی مثال:مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى
وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِؕ-هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًاؕ-اَفَلَا
تَذَكَّرُوْنَ۠(۲۴) ترجمہ کنزالایمان: دونوں فریق کا حال ایسا ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا اور
دوسرا دیکھتا اور سنتا کیا ان دونو ں کا حال ایک سا ہے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے ۔(سورہ ھود: 24)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان): یہ مثال مومن اور منافق کے فرق کو ظاہر کرتی ہے۔ مومن بصیرت رکھتا ہے جبکہ منافق گمراہی میں اندھا ہے۔
(7)
لکڑیوں کی مثال: كَاَنَّهُمْ
خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌؕ- ترجمہ
کنزالایمان: گویا وہ تکیہ لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں۔ (سورۃ المنافقون: 4)
خلاصہ
از تفسیر (صراط الجنان):یہ منافقین
کی بے عملی اور بے فائدہ زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں
لیکن اندرونی طور پر کھوکھلے ہیں۔
محمد
عمر فاروق عطّاری (درجہ ثالثہ، جامعۃُ المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)

الله پاک کے
سب سے آخری نبی ، محمد عَرَبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله تعالیٰ کی طرف سے
پیغامِ حق لائے اور مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ لوگ اسلام کی حقانیت سے
متعارف ہوئے اور جن کے نصیب میں اسلام کی دولت سے مستفید ہونا تھا انھوں نے اسلام
قبول کیا لیکن بعض لوگوں نے بظاہر تو کلمہ پڑھا لیکن دل سے ایمان نہیں لائے ، یہ
وہ ازلی بدبخت منافقین تھے جو مسلمانوں کے حلیے میں ملبوس تھے ، زبان سے کہتے تھے
کہ ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے لیکن درحقیقت ان کے دل میں موجود نفاق کے سبب وہ ایمان نہیں لائے تھے ، منافقین کے
اس عمل کو اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں یوں ذکر فرماتا ہے :
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ
اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ(۸) یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ
مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ
مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)
ترجمہ کنز
العرفان: اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے
ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں۔ یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا
چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں۔ان کے
دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان
کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔ (پ1، البقرۃ: 8تا 10)
منافقوں کے دل
کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے
عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح
اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز
نہ ہو سکے۔ ( تفسیر صراط الجنان البقرہ آیت نمبر : 10)
منافقین کی
چند مزید قرآنی مثالیں ملاحظہ ہوں:
(1)
منافقین اور اصلاح: اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذَا
قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ
مُصْلِحُوْنَ(۱۱) اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۱۲) ترجمہ کنز العرفان: اور
جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے
ہیں ۔ سن لو:بیشک یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں (اس کا)شعور نہیں۔(سورہ
بقرہ آیت نمبر 11 اور 12)
منافقوں کے
طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں
اور اسے اصلاح کا نام دیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے
نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ (
تفسیر صراط الجنان ،البقرہ آیت نمبر 11-12 )
(2)
منافقین کی مثال آگ جلانے کی سی ہے: مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ
مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا
یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) ترجمہ کنز العرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے
جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور
لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔بہرے،
گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر 17-18 )
(3)
منافقین کی مثال بارش کی سی ہے: اللہ
تعالیٰ قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ
بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ
الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) ترجمہ کنز العرفان: یا (منافقین کی مثال) آسمان سے اترنے
والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ
سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو
گھیرے ہوئے ہے۔ ( سورہ بقرہ آیت نمبر 19)
اللہ تعالیٰ
ہمیں ان آیات سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم الانبیاء
و المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فخر
ایوب (درجۂ ثالثہ ضیاء العلوم جامعہ شمسیہ رضویہ سلانوالی ضلع سرگودھا ،
پاکستان)

قراٰنِ مجید
تمام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس کا
ہر حکم حق اور علم و حکمت کا انمول موتی ہے۔ قراٰنِ کریم ایسی جامع کتاب ہے جو
زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی کرتی ہے۔ہر وہ شخص جس کے دل میں ہدایت کی طلب ہو
اپنے فہم کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ قراٰنِ مجید نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر23سال کی مدت میں حالات و واقعات اور ضروریات کے پیش نظر
نازل ہوا۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ علیہ السّلام کا سامنا منافقین سے ہوا جو اسلام
کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرتے تھے، اللہ پاک نے مختلف مقامات پر
منافقین کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ آیئے! قراٰنِ کریم سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ
اللہ پاک نے منافقین کی منافقت، ان کے اعمال اور ان کے کردار کو کس طرح بیان فرمایا
ہے:
(1)منافقین
کی مثال آگ روشن کرنے والے کی مثل ہے: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی
اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ
وَتَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّایُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ
لَایَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)﴾ ترجَمۂ کنز
العرفان: ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس
پاس کو روشن کر دیا تو اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،
انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں
گے۔(پ1، البقرۃ: 17، 18)
یہ مثال ان
منافقین کی ہے جنہوں نے ایمان کا اظہار کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی
کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی کہ جنہیں
فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق واضح کر دیا مگر انہوں نے فائدہ
نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب وہ حق سننے، ماننے، کہنے اور راہِ حق دیکھنے
سے محروم ہوئے تو کان آنکھ زبان سب بیکار ہیں۔(دیکھئے: خزائن العرفان، ص7)
(2)منافق
آسمانی بجلی کی چمک میں حیران مسافر کی مثل ہیں: ﴿اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ
ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ
مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَاللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) یَكَادُ
الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَاِذَاۤ
اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْؕ-
اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)﴾ ترجمہ ٔ کنزالعرفان: یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے
والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ
سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو
گھیرے ہوئے ہے۔ بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک کرلے جائے گی۔ (حالت
یہ کہ) جب کچھ روشنی ہوئی تو اس میں چلنے لگے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو
کھڑے رہ گئے اور اگراللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلَب کر لیتا۔ بیشک اللہ
ہر شے پر قادر ہے۔(پ1،البقرۃ: 19، 20)
یہ دوسری مثال
بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے
میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش
کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا
ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام
کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی
تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے،مخلص
اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔ منافقوں کی اسی طرح کی حالت سورۂ نور آیت نمبر48
اور 49میں بھی بیان کی گئی ہے۔(صراط الجنان،1/83، 84)
(3)منافقین
خشک اور بےکار لکڑی کی مثل ہیں: اللہ
تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿وَاِذَا رَاَیْتَهُمْ تُعْجِبُكَ
اَجْسَامُهُمْؕ-وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْؕ-كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌؕ-یَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَیْحَةٍ عَلَیْهِمْؕ-هُمُ الْعَدُوُّ
فَاحْذَرْهُمْؕ-قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ٘-اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ(۴)﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: اور
جب تم انہیں دیکھتے ہو تو ان کے جسم تجھے اچھے لگتے ہیں اور اگر وہ بات کریں توتم
ان کی بات غور سے سنو گے(حقیقتاً وہ ایسے ہیں) جیسے وہ دیوار کے سہارے کھڑی کی
ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ ہر بلند ہونے والی آواز کو اپنے خلاف ہی سمجھ لیتے ہیں، وہی
دشمن ہیں تو ان سے محتاط رہو، اللہ انہیں مارے، یہ کہاں اوندھے جاتے ہیں؟(پ28،المنٰفقون:4)
قراٰنِ کریم
نے منافقین کو”خُشُبٌ
مُّسَنَّدَةٌ“ سے تشبیہ دے کر ان کی
لغویت کو عیاں کر دیا خشب کا معنی لکڑی ہے جبکہ مسندہ کا معنی جسے دیوار کے ساتھ
کھڑا کر دیا گیا ہو جب تک لکڑی کار آمد ہوتی ہے اس سے شہتیر کڑی یا کواڑ وغیرہ
بنائے جاتے ہیں صرف بےکار لکڑی کو دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ہے زیادہ سے زیادہ
آگ جلانے کے کام آسکتی ہیں۔
مذکورہ بالا آیات
میں اللہ پاک نے منافقین کی حقیقت کو عیاں فرمایا ہے مختلف مثالوں سے اور ان کے
اعمال بھی کفار کے اعمال کی طرح بے وقعت ہیں کیونکہ جب کوئی منافق مرتا ہے تو اس
کے ساتھ کافر والا معاملہ ہی پیش آتا ہے۔
سری لنکا اور انڈونیشیا کی سب کانٹیننٹ نگران اسلامی
بہنوں کا مدنی مشورہ

29 مارچ 2025ء کو دنیا بھر میں نیکی کی دعوت
عام کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت سری لنکا اور
انڈونیشیا کی سب کانٹیننٹ نگران اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ منعقد ہوا۔
اسلامی بہنوں کی تربیت کے لئے دعوتِ اسلامی کی
نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے بیان کیا۔