اللہ پاک پارہ 22 سورہ احزاب آیت 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کر دے۔( پ 22 ، الاحزاب : 33)

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیات تطہیر سے ظاہر ہے شان اہلِ بیت

(ذوق نعت ص 100)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جس طرح والدین کے حقوق بیٹے پر استاد کے حقوق شاگرد پر پیر صاحب کے حقوق مرید پر ہیں اسی طرح اہلِ بیت کے حقوق ہر مسلمان پر ہیں۔

آئیے ہم اسی کے متعلق سماعت کرتے ہیں کہ عاشق اکبر یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کيا فرماتے ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک موقع پر اہلِ بیت اطہار کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قرابت دار (یعنی رشتہ داروں) کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اپنے قرابت داروں سے صلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔(بخاری، 2/538، حدیث :3712)

ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اہلِ بیت کے بارے میں لحاظ رکھو۔(بخارى 2/538، حدیث :3713) مراد یہ ہے کہ ان کے حقوق اور مراتب کا لحاظ کرو۔

فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: میں تم میں دو عظیم (یعنی بڑی) چیز چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ پاک کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم) ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ پاک کی کتاب (یعنی قراٰنِ کریم) پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ ارشاد فرمایا میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ پاک کی یاد دلاتا ہوں۔(مسلم ،ص 1008، حدیث: 6225)

امام شرف الدین حسین بن محمد طیبى رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں معنیٰ یہ ہے کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے احوال سے اللہ پاک سے ڈراتا ہوں اور تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو ۔(شرح الطیبى، 11/296، تحت الحدیث: 6140)

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی محبت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے) کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت (پانے) کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔(ترمذى، 5/434، حدیث: 3814)

تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، 1/86، حدیث: 454)

جو شخص اولادِ عبدالمطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روزے قیامت مجھ سے ملے گا۔(تاریخ بغداد، 10/102)

ثابت ہے حدیثوں سے قراٰن کی دلیلوں سے اعلیٰ ہے بہت رتبہ زہرا تیرے بچوں کا

اے عاشق صحابہ و اہل بیت خود سے سوال کیجئے اور کہے کى کیا ہم اہلِ بیت سے محبت کرتے ہیں؟ کیا ان کی حقیقی معنوں میں تعظیم کرتے ہیں؟ کیا ان کے حقوق ادا کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے تو ہم کیسے عاشق صحابہ و اہل بیت ہیں؟ پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمیں چاہیے کہ ان کی تعظیم و حقوق ادا کرے کیونکہ محبت کے قرینوں میں قرینہ یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہو اس کا ادب و احترام کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق بھی ادا کیے جائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے یا اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں عاشقِ صحابہ و اہل بیت بنائے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اہل بیت اطہار علیہم الرضوان کی محبت تمام مسلمانوں پر فرض ہے آیاتِ قراٰنیہ اور احادیثِ مبارکہ میں ان کی محبت و مودت کی ترغیب اور حکم دیا گیا ہے دورِ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے لیکر آج تک مسلمان اسی پر عمل پیرا ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ عظیم ہستیاں نبیِّ آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا مقام و مرتبہ بہت ہی بلند و بالا ہے۔

اہل بیت میں کون شامل: لفظ اہل کے لغوی معنی ہیں "والا" جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل علم یعنی (علم والا) اہل معرفت یعنی (معرفت والا) وغیرہ ۔تو اہلِ بیت کا معنی ہوا گھر والے ۔اور اہل بیت نبی کے معنی ہوئے ۔"نبی کے گھر والے۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی (رحمۃُ اللہ علیہ) نے تحریر فرمایا کہ حق یہ ہے کہ حضور (علیہ السّلام) کی تمام اولاد صاحبزادے صاحبزادیاں اور تمام ازواج حضور کے اہل بیت ہیں۔ (امیر معاویہ پر ایک نظر ،ص 34)

قراٰنِ کریم میں اہل بیت کرام کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔ (پ25،الشوریٰ:23) لہذا اہل بیت اطہار علیہم الرضوان کا ادب و احترام تعظیم و توقیر ہم پر فرض ہے۔ ذیل میں اہل بیت کرام کے چند حقوق لکھے جاتے ہیں پڑھیے اور علم میں اضافہ کیجیے۔

(1) محبت : اہلِ بیت کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، جب بھی ان کا ذکر ہو تو خیر ہی کے ساتھ کریں۔ امام ترمذی اور حاکم حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت رکھو کیونکہ وہ تمہیں بطور غذا نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کی بنا پر مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بنا پر میرے اہلِ بیت سے محبت رکھو۔(العقائد والمسائل ، مکتبہ اہلسنت، ص50)اور ایک روایت میں ہے اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم دو :(1)تمہارے نبی کی محبت(2) میرے اہلِ بیت کی محبت اور (1) تلاوتِ قراٰن کی(العقائد والمسائل ، مکتبہ اہلسنت، ص50)

(2)تذکرۂ اہل بیت : حضرت سیدنا سفیان بن عیینہ رحمۃُ اللہ علیہ کا فرمان ہے: عِنْدَ ذِکْرِالصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ یعنی نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے اہلِ بیت کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ اہل بیت اطہار کے مقام و مرتبہ اور جو آیاتِ قراٰنیہ و احادیثِ مبارکہ ان کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس کو لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں محبت بیٹھے۔

(3) اطاعت : اہل بیت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں جس چیز سے منع کریں اس سے رک جائیں۔ (4) اتباع : یعنی اہل بیت کی سیرتِ مبارکہ کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے کہ آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہوگیا۔ اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی جیسے طوفان نوح کے وقت ذریعہ نجات صرف کشتی نوح علیہ السّلام تھی ایسے ہی تا قیامت ذریعہ نجات صرف محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت ان کی اتباع ہے، بغیر اطاعت و اتباع دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے، گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔(مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 8 الفصل الثالث، ص 446)

(5) اَعداءِ اہل بیت سے لاتعلقی : اہل بیت کرام کے بغض و عداوت کے بارے میں بہت وعیدیں وارد ہوئی ہے۔ حدیث میں یہاں تک کہ فرمایا گیا کہ جو شخص اہل بیت کے بغض کی حالت میں فوت ہو گیا وہ آگ میں داخل ہوگا۔ (العقائد والمسائل، ص52) لہذا ہمیں چاہیے کہ ایسی مجلس میں بیٹھنے سے پرہیز کریں جس میں دشمن اہل بیت ہو، نہ ان کے ساتھ کھائے نہ پئے ، کسی طرح کا بھی تعلق ان سے نہ ہو ، بلکہ ہمیشہ ایسے لوگوں سے دور رہکر مُحبِّ اہل بیت سے تعلق قائم کرنا چاہیے۔

باغ جنت کے بہر مدح خوان اہل بیت تم کو مژدہ نار کا اے دشمنان اہلیبیت

اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے اہل بیت کرام علیہم الرضوان کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا ایمان پر خاتمہ با الخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے اس جہاں کو پیدا فرمایا اور ہمارے آقا سیّدِ ابرار و اخیار نورِ اعظم اللہ کے محبوب جنابِ احمد مصطفیٰ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس جہاں پر رحمت بنا کر بھیجا اور ہم مؤمن مسلمان اپنے آقا سے بے انتہاں محبّت و عشق کرتے ہیں اور ساتھ اہلِ بیت اطہار سے بھی بے انتہاں محبّت کرتے ہیں تو آئیے آج ہم اہلِ بیت اطہار کے چار حقوق احادیثِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراٰنِ مجید و فرقانِ حمید کے روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں :

حدیث(1) مسلم شریف میں ہے صحابی رسول حضر بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکۂ معظمّہ اور مدینہ منورہ کے درمیان(مقام جحفہ )میں غریر خم کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا تو پہلے اللہ پاک کی حمدو ثنا بیان کی پھر آپ نے ہم لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمائی بھائی اس کے بعد ارشاد فرمایا: اے ! لوگوں میں انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ یعنی ملک الموت میرے پاس آ جائے تو میں خدائے پاک کے حکم کو قبول کروں گا اور فرمایا (وَاَنَا تَارِکٌ ف‍ِیْکُمُ الثَّقَلَیْنَ)اور میں تم میں دو نفسیں اور گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے پہلی چیز اللہ پاک کی کتاب یعنی قراٰن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تو خدائے پاک کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو اور دوسری چیز میرے گھر والے ۔

راوی حدیث حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن کے بارے میں لوگوں کو ابھارا اور رغبت دلائی اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا۔ (وَاہل بَیْتِیْ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فِیْ اہل بَیْتِیْ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہ فِیْ اہل بَیْتِیْ) میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک کو یاد دلاتا ہوں اور اس سے ڈراتا ہوں اور اس جملے کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ کہ میں تاکید کے ساتھ تم لوگوں کو وصیت کرتا ہوں کہ میرے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو ان کی حقوق کی ادائیگی میں ہرگز کوتاہی نہ کرو۔

حدیث(2) امام احمد روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں کو پکڑ کر فرمایا :جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے اور ان کے والد سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے درجے میں ہوگا۔ یعنی حسنین کریمین سے محبت رکھنے والا بصورت خود مختار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درجے میں دکھا ئی دے گا یہ مطلب نہیں کہ وہ بھی وہیں ہوگا جو حضور کا مقام ہے۔

اب آئیے ان کے حقوق کی طرف بڑھتے ہیں:۔ان کا یعنی اہلِ بیت اطہار کا پہلا حق ہے کہ ہم ان سے محبت کرے جیسا کہ قراٰن مجید فرقانِ حمید کی سورہ میں: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔(پ25،الشوریٰ:23)

میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اپنے اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ۔(1) حضور کی محبت سکھاؤ۔(2) میرے اہلِ بیت کی محبت سکھاؤ اور۔(3) اور قراٰن کی محبت سکھاؤ یہ جامع صغیر کی روایت ہے ۔

اہلِ بیت اطہار کا دوسرا حق یہ ہے کہ اپنے دلوں کو ان کے بغض سے پاک رکھا جائے۔

چنانچہ امام حاکم نے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور روزے بھی رکھے مگر وہ شخص اللہ پاک سے اس حال میں ملے کہ اس کے دل میں حضور کے اہلِ بیت کے لئے بغض ہو تو وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا بلکہ جہنم میں جائے گا ۔

اہلِ بیت اطہار کا تیسرا حق یہ ہے کہ ہم ان کی اتباع کریں ان کی سیرت اور ان کے کردار کو اپنائیں۔

پیارے اسلامی بھائیو ! آج اس دور میں حسینی کردار کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے ۔حضور نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا کہ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ تم اگر اس کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب یعنی قراٰن مجید اور دوسرا میرے اہلِ بیت۔

اہلِ بیت اطہار کا چوتھا حق یہ ہے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کی آل پر درود و سلام پڑھیں جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر 33 میں اللہ پاک نے فرمایا: اے مؤمنوں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھو۔ 


وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ15، بنی اسرائیل:32)

زنا کبیرہ گناہ ہے قراٰن و حدیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ زنا حرامِ قطعی ہے اگر کوئی شخص اس کو حلال سمجھ کر کرے گا تو کا فر ہو جائے گا کیونکہ یہ قا عدہ ہے کہ جس نے کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام مان لیا ہو تو وہ کافر ہوجائے گا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ وہ حرام لذاتہ ہو اس کی حرمت دلیلِ قطعی سے ثابت ہو اور وہ ضرورتِ دین کی حد تک ہو۔ (فتاوی رضویہ، 4 / 147 )

(1)حدیث: زانی جس وقت زنا کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا اور چور جس وقت چوری کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا اور شرابی جس وقت شراب پیتا ہے مؤمن نہیں ہوتا۔ (مسلم شریف)

(2) حدیث: بلا جب بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ سائبان کی طرح ہوتا ہے اور جب بندہ فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ابوداؤد)

(3) حدیث: جو شخص زنا کرتا ہے یا شراب پیتا ہے تو اللہ اس سے ایمان یوں نکالتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیض اتارے۔ (مستدرک حاکم)

(4) حدیث: تین شخصوں سے اللہ پاک نہ کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور اُن کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ (1) بوڑھا زانی۔ (2) متکبر فقیر (3) جھوٹا بادشاہ ۔ (مسلم شریف)

(5) حدیث : چار طرح کے لوگوں کو الله پاک مبغوض رکھتا ہے۔ (1) بکثرت قسمیں کھانے اور (2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی (4) ظالم حکمران۔ یہاں کثرت سے قسمیں کھانے والا تاجر مراد ہے جو اکثر لین دین میں لوگوں کو دھوکا دے کر جھوٹی قسمیں کھاتا ہے۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ)

(6)حدیث : آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوال کیا گیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو کسی کو اللہ کا ہمسر قرار دے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ عرض کی گئی: پھر کون سا؟فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دینا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ عرض کی گئی: پھر کون سا؟ فرمایا: تیرا اپنے پر وسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ (مسلم شریف)

(7) حدیث: جو شخص محرم سے بدکاری کرے اس کو قتل کردو ۔ ( ترمذی) سب سے بدترین زنا اپنی ماں،بہن،باپ کی بیوی اور محارم کے ساتھ کرنا ہے۔

(8) حدیث: جب مرد مرد سے حرام کاری کرے تو دونوں زانی ہیں۔ اور جب عورت عورت سے حرام کاری کرے تو دونوں زانی ہیں۔ (السنن الکبریٰ)

(9) حدیث : معراج کی رات آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تَنُّور جیسے ایک سُوراخ کے پاس پہنچے تو اس کے اندر جھانک کر دیکھا ،تو اس میں کچھ ننگے مرد اور عورتیں تھیں اچانک ان کے نیچے سے آگ کا شعلہ اٹھتا تو مرد اور عورتیں دھاڑیں مارتے اور ہائے ہائے کرتے۔ سرکارِ عالم مدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِستفسار پر سیِّدُنا جبرئیلِ اَمین علیہ السلام نے عرض کی: یہ زانی مرد اور زانیہ عورَتیں ہیں۔ (مسند امام احمد بن حَنبل، 7/249،حدیث:20115 )

(10)حدیث: زنا کبیرہ گناہوں میں سے بڑا گناہ ہے اور زانی پر قیامت تک اللہ پاک ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت برستی رہے گی اور اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرمالے گا۔ (نسائی) (11)حدیث : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن کی علامت یہ ہے کہ الله پاک، نماز اور روزے میں اس کا دل لگا رہے اور منافق کی علامت یہ ہے کہ اللہ پاک اس کے پیٹ اور شرم گاہ کی تسکین کو اس کی خواہش بنادے ۔ ( بحر الدموع)

(12)حدیث: زنا تنگدستی پیدا کرتا ہے اور چہرے کا نور ختم کر دیتا ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے: میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں زانی کو تنگدست کروں گا اگرچہ کچھ عرصہ بعد سہی۔(کنز العمال، كتاب الحدود )

(13) حدیث: جہنم میں جلنے کا سبب: آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: زنا سے بچتے رہو کیونکہ یہ جسم کی تازگی کو ختم کرتا ہے اور طویل محتاجی کا سبب ہے اور آخرت میں اللہ پاک کی نارا ضگی ، حساب کی سختی اور ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلنے کا سبب ہے ۔(شعب الایمان)

(14) حدیث : جب بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اس کا کوئی گناہ بدکاری سے بڑھ کر نہ ہوگا اور قِیامَت کے دن بدکاری کرنے والے کی شرمگاہ سے ایسی پیپ نکلے گی کہ اگر اس کا ایک قطرہ سَطْحِ زمین پرڈال دیا جائے تو اسکی بو کی وجہ سے ساری دنیا والوں کا جینا دُوبھر ہوجائے۔( کنز العمال ،کتاب الحدود)

(15) حدیث : جنت میں داخلے سے محروم : اللہ پاک نے جب جنت کو پیدا فرمایا تو اس سے فرمایا : کلام کر۔ تو وہ بولی : جو مجھ میں داخل ہوگا وہ سعادت مند ہے ۔ تو اللہ پاک نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! تجھ میں اٹھ قسم کے لوگ داخل نہ ہوں گے: شراب کا عادی، زنا پر اصرار کرنے والا ،چغل خور، دیوث،(ظالم)سپاہی، ہیجڑا اور رشتہ داری توڑنے والا اور وہ شخص جو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ فلاں کام ضرور کرو ں گا پھر وہ کام نہیں کرتا۔ ( بحر الدموع، ص 230 )

(16) حدیث : عورت کے محاسن کی طرف نظر کرنا ابلیس کے زہر میں بجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جو شخص اپنی آنکھوں کی حفاظت کرے گا۔ اللہ پاک اسے ایسا ایمان عطا فرمائے گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔(المعجم الکبیر)

(17)جہنم سے آزاد ہونے والی آنکھیں: اللہ نے حضرت سیدنا موسی علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی : اے موسیٰ! میں نے تین قسم کی آنکھوں کو جہنم پر حرام فرما دیا ہے ، ایک وہ آنکھ جو راہِ خدا عزوجل میں پہرہ دیتی ہے ، دوسری وہ آنکھ جو اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں سے رُک جاتی ہے اور تیسری وہ آنکھ جو میرے خوف سے روتی ہے، اور آنسو کے علاوہ ہر شئے کی ایک جزا ہے اور آنسو کی جزا رحمت، مغفرت اور جنت میں داخلے کے علاوہ کچھ نہیں۔

(18)زنا میں چھ مصیبتیں ہیں : بعض صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے مروی ہے: زِنا سے بچو! اس میں چھ مصیبتیں ہیں جن میں سے تین کا تعلق دنیا سے ہے اور تین کا آخرت سے۔ دنیا میں رزق کم ہو جاتا ہے، زندگی مختصر ہوجاتی ہے اور چہرہ مسخ ہوجاتا ہے، آخرت میں خدا کی ناراضگی، سخت پرسش اور جہنم میں داخل ہونا ہے۔ روایت ہے کہ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام نے زانی کی سزا کے بارے میں پوچھا تو رب کریم نے فرمایا: میں اسے آگ کی زرہ پہناؤں گا۔ وہ ایسی وزنی ہے کہ اگر بہت بڑے پہاڑ پر رکھ دی جائے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجائے۔ کہتے ہیں : ابلیس کو ہزار بدکار مردوں سے ایک بدکار عورت زیادہ پسند ہوتی ہے۔ ’’ مصابیح ‘‘ میں ارشادِ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جب بندہ زِنا کرتا ہے تو اس کا ایمان نکل کر اس کے سر پر چھتری کی طرح معلق رہتا ہے اور جب وہ اس گناہ سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کا ایمان پھر لوٹ آتا ہے۔ کتاب اقناع میں فرمانِ حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اللہ پاک کے نزدیک نطفہ کو حرام کاری میں صرف کرنے سے بڑا کوئی گناہ نہیں ہے اور لواطت زنا سے بھی بدتر ہے، جیساکہ حضرتِ انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کے سفر کی دوری سے آئے گی مگر لوطی اس سے محروم رہے گا۔(مکاشفۃ القلوب،ص158)

(19)زانی کا انجام: جس نے اپنی آنکھوں کو حرام سے پُر کیا اللہ پاک اُس کی آنکھوں کو جہنم کے انگاروں سے بھر دے گا اور جس نے حرام کردہ عورت سے زنا کیا اللہ پاک اس کو قبر سے پیاسا ،روتا، غمگین ،سیاہ چہرہ اور تاریکی کی حالت میں اٹھائے گا اس کی گردن میں آگ کا طوق اور جسم پر پگھلے ہوئے تانبے کا لباس ہوگا، اللہ پاک نہ تو اس سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کریگا اور اس کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ (قرۃ العیون،ص388)(20)زنا بہت بڑی خرابی : حضرت قاضی امام رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے: میں نے بعض مشائخ سے سنا ہے کہ عورت کے ساتھ ایک شیطان اور حسین لڑ کے کے ساتھ اَٹھارہ شیطان ہوتے ہیں ۔ روایت ہے کہ جس نے شہوت کے ساتھ لڑ کے کو بوسہ دیا وہ پانچ سو سال جہنم میں جلے گا اور جس نے کسی عورت کا بوسہ لیا اس نے گویا ستر باکرہ خواتین کے ساتھ زنا کیا اور جس نے کسی باکرہ عورت سے زنا کیا اس نے گویا ستر ہزار شادی شدہ عورتوں سے زنا کیا۔ (مکاشفۃ القلوب،ص159)


اس دور میں تیزی سے پھیلنے والے گناہوں میں سے ایک گناہ بد کاری ( زنا) بھی ہے ۔ دین اسلام نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے جیسے : والدین کے ساتھ حسن سلوک ، بیوی اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنا ، تجارت کرنے کے اصول وغیرہ ۔ اسی طرح دین اسلام نے ہمیں بری باتوں اور کاموں سے منع بھی فرمایا ہے جیسے جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، وعدہ خلافی وغیرہ ۔ انہی منع کردہ چیزوں میں سے ایک زنا بھی ہے جس میں بہت سےلوگ ملوث ہوتے جارہے ہیں ۔ اس سے بچنے کے لئے اس کی مذمت اور نقصانات کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ اس قبیح ( برے ) فعل سے بچا جاسکے ۔

فرمانِ باری ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ15، بنی اسرآءیل:32) ا س کے علاوہ کئی آیات مبارکہ میں اللہ پاک نے زنا سے منع فرمایا ہے اور اس کی مذمت بیان فرمائی ہے ۔

زنا کا حکم اور سزا: بد کاری ( زنا) کبیرہ گناہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ قراٰن پا ک میں غیر محصنین( غیر شادہ شدہ / کنواروں ) کے لئےجو حد ( سزا) مقرر فرمائی ہے وہ اسی (80) کوڑے ہیں ۔ اور محصنین کی سزا( شادی شادہ کی حد ) رجم ( سنگسار) کرنا ہے یعنی پتھر مارکر سزا دینا ( ہلاک کرنا)۔

نوٹ : بد کاری کرنے والوں ( مرد و عورت ) کو مندرجہ بالا سزا ہر کوئی نہیں دے سکتا بلکہ یہ اختیار صرف مسلمان حکمرانوں کو ہے اور نیز مسلم حکمرانوں کو شرعی سزائیں نافذ کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! احادیث مبارکہ میں بھی زنا کی بڑی سخت مذمت و برائی بیان کی گئی ہے چنانچہ چھ احادیث ملاحظہ ہوں ۔ (1)ایمان نکل جاتا ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ نے سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے ۔ ( ترمذی کتا ب الایمان ، باب ماجاء لایزن الزانی و ھو مومن ،4/283، حدیث: 2634)

(2)قحط میں گرفتار ہوگی : حضرت عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں مبتلا ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہو ر ہوگا وہ رعب میں گرفتار ہوگی ۔ ( مشکوۃ المصابیح ، کتا ب الحدود ، فصل ثالث ، 2/656، حدیث: 3582)

(3) بھلائی پر رہے گی : حضرت میمونہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا: میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہوجائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہوجائیں گے تو اللہ پاک انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا ۔

(4) مؤمن نہیں ہوتا: زانی جس وقت زنا کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا اور چور جس وقت چوری کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا اور شرابی جس وقت شراب پیتا ہے تو مؤمن نہیں ہوتا ۔( مسلم کتاب الایمان باب نقصانہ الایمان۔۔ ص 59 ح86) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ان تمام مقامات میں یا تو کمالِ ایمان مراد ہے یا نورِ ایمان یعنی مارا جائے گا تو کافر نہ مرے گا۔ ( مراٰۃ المناجیح)

(5) چار طرح کے لوگ: فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اللہ پاک چار طرح کے لوگوں کو مبغوض ( ناپسند ) رکھتا ہے (1) بکثرت قسمیں کھانے والا (2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی (4)ظالم حکمران۔ (نسائی کتاب الزکوۃ باب الفقیر المختال ص 423، ح 2573)(6) عذاب کو حلال کر لیا : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہےکہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو انہوں نے اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔( مستدرک ، کتاب البیوع ، اذا ظہر ۔۔۔۔۔ الربا فی قریتہ فقد اھلو ۔۔2/339، حدیث: 3208)

زنا کی عادت سے بچنے کے آسان نسخے : اس بری عادت سے محفوظ رہنے اور نجات پانے کے آسان نسخے سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمائے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اے جوانوں تم جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت ( طاقت/ قدرت ) نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے ۔( بخاری ،کتاب النکاح ، باب من لم یستطع ۔۔۔۔ 3/422، حدیث: 5066)

ایک اور حدیث ِمبارکہ ملاحظہ کیجئے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بے شک عورت اجنبی(شیطان) کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جس نے کسی حسن و جمال والی صورت کو دیکھا اور وہ اسے پسند آگئی پھر اس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر اپنی نگاہوں کو اس سے پھیر لیا تو اللہ پاک اسے ایسی عبادت کی توفیق عطا فرمائے گا جس کی لذت اسے حاصل ہوگی ۔ ( جمع الجوامع ، قسم الاقوال حرف الہمزہ ،3/46، حدیث:7201)

زنا کے حرام ہونے کی حکمت : زنا کے حرام ہونے کی درج ذیل حکمتیں ہیں:(1) اسلامی معاشرہ کی پاکیزگی کی حفاظت کرنا،(2) ہر مسلمان کی عزت، نفس اور روح کی طہارت باقی رکھنا ہے ،(3) اچھے نسب کے لوگو ں کو ملاوٹ کی غلاظت سے محفوظ کرنا وغیرہ ۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہر مسلمان کو زنا جیسے بد ترین ، گندے اور انتہائی مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

خدائے قہار ہے غضب پر کھلے ہیں بد کاریوں کے دفتر

بچا لو آکر شفیع محشر تمہارا بندہ عذاب میں ہے ۔


دینِ اسلام کامل و اکمل پاک و منزہ اور سچا دین ہے۔ دینِ اسلام صرف عبادات و عشق و مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک ہی محدود نہیں بلکہ جس طرح یہ عبادات، محبت الہی و عشق مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا درس دیتا ہے اسی طرح معاشرے سے ہر طرح کی براتی ختم کرنے کا بھی درس دیتا ہے۔ معاشرے میں پھیلی ہوئی ایک برائی بدکاری بھی ہے۔ یاد رہے بد کاری (زنا) نا جائز و حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس کی مذمت بیان فرمائی۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ15، بنی اسرآءیل:32)تفسیر صراط الجنان میں ہے: تمام آسمانی مذاہب میں زنا(بدکاری) کو بد ترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے ۔ ( صراط الجنان)

اسی طرح کثیر احادیث میں بھی بدکاری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے جن میں سے 5 ملاحظہ ہوں۔

(1)ایمان نکل جاتا ہے : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ ، 4 / 293، حدیث: 469)(2)الله پاک کی نظرِ رحمت سے محرومی: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ (1) بوڑھا زانی ، (2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ ، (3)تکبر کرنے والا فقیر ۔( مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان غلط تحریم اسباب الازار والمن‌ بالعطیۃ ، ص 68 ، حدیث: 172)

(3)اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لئے اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، 2/ 339، حدیث: 2308)(4)قحط سالی کا سبب: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث،1/656 ،حدیث: 3582 )

(5) جنت میں داخل نہ فرمائے گا : حضور نبی اکرم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشا فر مایا : جو عورت کسی قوم میں اس کو داخل کر دے جو اس قوم سے نہ ہو ( یعنی بد کاری کروائے اور اس سے اولاد) تو اسے اللہ پاک کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا ۔ اور اسے جنت میں داخل نہ فرمائے گا۔( ابو داؤد، کتاب الطلاق، 2/406، حدیث: 2263)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! زرا غور کیجئے اس بدکاری کا کیا فائدہ محض لذتِ نفس جبکہ اس کے نتیجے میں اللہ اور رسول کی ناراضگی، نورِ ایمان کا نکل جانا، میدانِ محشر میں ذلت و رسوائی ، اللہ پاک کی نظرِ رحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جنہم ٹھکا نہ بننے کا سبب۔ بدکاری نے نہ کسی کی بلندی میں اضافہ کیا اور نہ ہی کسی کو عزت و شائستگی بخشی بلکہ دنیاو آخرت میں رسوائی ہی کا سبب۔

بدکاری سے بچنے کا طریقہ: بد کاری سے بچنے اور اس سے نفرت پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ قراٰن و احادیث میں جو اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اس کا مطالعہ کرے کہ بد کاری سے اللہ اور رسول ناراض ہوتے ہیں اور یہ دنیا و آخرت میں رسوا ہوتا ہیں۔ بروزِ قیامت بد کار اللہ پاک کی نظرِ رحمت سے محروم رہے گا اور عذابِ الہی کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس طرح سو چنے سے بدکاری سے بچنے کا ذہن بنے گا۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں بدکاری سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


زنا بہت بڑا گناہ ہے قراٰن و حدیث میں زنا کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اور زنا کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں نازل ہوئی ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت ہماری فطرت کے تقاضوں کو خوب جاننے والا ہے نبی کریم نے بھی زنا سے بچنے اور نکاح کرنے کا ارشاد فرمایا ۔ قراٰنِ پاک میں بھی اللہ پاک نے زنا سے بچتے رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے کہ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔(پ15، بنی اسرآءیل:32)قراٰن مجید کے علاوہ احادیثِ مبارکہ میں بھی زنا کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے اور اس برے عمل سے دور رہنے کے ارشاد فرمایا گیا ہے ان احادیث میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

(1)الله کلام نہ فرمائے گا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تین شخصوں سے اللہ نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا:(1) بوڑھا زانی ،(2) جھوٹ بولنے والا بادشاہ ،(3) تکبر کرنے والا فقیر ۔( مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان غلط تحریم اسباب الازار والمن‌ بالعطیۃ ، ص 68 ، حدیث: 172)

(2) جب مرد زنا کرتا ہے تو : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ ، 4 / 293، حدیث: 4690)

اس حدیث میں بھی زنا سے بچنے کا فرمایا جا رہا ہے کہ زنا نہ کرو۔ اگر کسی کو کوئی عورت پسند آ جاتی ہے تو اس سے اسلام کے مطابق نکاح کرو تا کہ وہ تمہارے لئے حلال ہو جائے۔ احادیث سے بھی یہی درس ملتا ہے کہ زنا نہ کرو بلکہ نکاح کرو اور نکاح کو ہی فروغ دو۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اے جوانو ! تم میں جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔( بخاری ، کتاب النکاح ، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم ، 3/ 422 ، حدیث: 5066 )

(3)زنا کے چھ نقصانات: اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ زناسے بچو کیونکہ اس میں چھ نقصانات ہیں ،تین دنیامیں اور تین آخرت میں ۔ دنیا کے تین نقصانات یہ ہیں:(1)زنا،زانی کے چہرے کی خوبصورتی ختم کر دیتا ہے (2)اسے محتاج وفقیر بنادیتاہے اور(3)اس کی عمر گھٹا دیتا ہے ۔ آخرت کے تین نقصانات یہ ہیں: (1)زنا،اللہ پاک کی ناراضگی(2) کڑے وبُرے حساب اور(3)جہنم میں مدّتوں رہنے کا سبب ہے ۔( نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں،ص34)

(4) بندہ مؤمن نہیں رہتا: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: زنا کرنے والا جس وقت زنا کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا اور چور جس وقت چوری کرتا ہے مؤمن نہیں ہوتا اور شرابی جس وقت شراب پیتا ہے مؤمن نہیں ہوتا۔ (سنن نسائی،حدیث:4876) (5)قحط میں گرفتاری: حضرت امام احمد عمرو بن عاص سے روایت ہے، کہتے ہیں میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس قوم میں زنا ظاہر ہو گا وہ قحط میں گرفتار ہو گی۔ (المسند امام احمد بن جنبل، 6/245)

زنا کی اس قدر وعیدیں بیان کی گئی، اس بری عادت سے محفوظ رہنے یا نجات پانے کے لئے حضور علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔ جیسے ہی ایک نو جوان کی شادی کی عمر ہو اور وہ نکاح کی استطاعت بھی رکھتا ہو، تو فوراً سے پیشتر اس کا نکاح کروا دیا جائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس بری بیماری سے ہمیشہ دور رکھے اور حضور علیہ السّلام کے فرامین کے مطابق ہی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آج اس دور میں جو برائیاں بہت جلد پھیل رہی ہیں۔ ان میں سے ایک عظیم اور گناہِ کبیرہ " زنا" ہے ۔ یہ غیر فطری عمل ہے۔ زنا آج کل بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ قراٰنِ پاک میں زنا سے بچنے والے کو مؤمن قرار دیا گیا ہے۔ جیسے مؤمنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ کا فرمان ہے : وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔(پ18،المؤمنون:5)

قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں زنا کی حرمت (حرام ہونے) پر بہت زور دیا گیا ہے۔ زنا سے متعلق کچھ وعیدیں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔(1) زنا کے وقت ایمان کا نکل جانا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، 4 / 293، حدیث: 460)

(2)زنا کی وجہ سے عذاب کا حلال ہونا: حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لئے اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، 2/ 339، حدیث: 2308)

(3) زانی لعنت کا مستحق: حضرت بریدہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم والوں کو ایذا دے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحدود والدیات، باب ذم الزنا ، 6 / 369، حدیث: 10541)

ہائے نافرمانیاں بدکاریاں بے باکیاں آہ! نامے میں گناہوں کی بڑی بھرمار ہے

(4) زانی اللہ کی نظرِ رحمت سے محروم: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تین شخصوں سے اللہ نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا : (1) بوڑھا زانی ،(2) جھوٹ بولنے والا بادشاہ ، (3)تکبر کرنے والا فقیر ۔( مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان غلط تحریم اسباب الازار والمن‌ بالعطیۃ ، ص 68 ، حدیث: 182)

(5) زانی کو شہر بدر کرنے کا حکم: حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ : جو شخص زنا کرے اور محصن نہ ہو اسے سو (100) کوڑے مارے جائیں اور ایک برس کے لئے شہر بدر کر دیا جائے ۔ ( بخاری ،4/347،حدیث:6831)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ زنا کرنے والا ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور اللہ کا غضب کیا ہو سکتا ہے ۔

(6) سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ اُس میں آگ جل رہی ہے اور اُس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں ۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ تھے ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، 1 / 467، حدیث: 1386)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں برے کام سے بچنے اور بچانے کی توفیق عطا فرمائے اور برے لوگوں کی محبت سے محفوظ رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نہ کیجئے نظر اس کی بدکاریوں پر کرم کیجئے جو شعار آپ کا ہے


دینِ اسلام کامل و اکمل اور سچا دین ہے۔ اسلام جس طرح عبادات اور عشقِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا درس دیتا سے اسی طرح معاشرے کو پُر امن بنانے اور بد عملی کو ختم کرنے کا بھی درس دیتا ہیں۔ معاشرے میں بد عملی پھیلانے والا ایک عمل بد کاری بھی ہے۔

یاد رہے کہ بد کاری (زنا) ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں متعدد مقامات پر اس کی مذمت بیان فرمائی۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ15، بنی اسرآءیل:32)

تفسیر صراط الجنان میں ہیں کہ اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں بدکاری کو بد ترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ (صراط الجنان، ج 5)

اسی طرح کثیر احادیث میں بھی بدکاری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں سے 5 ملاحظہ ہوں ۔

(1)ایمان نکل جاتا ہے : حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، 4 / 293، حدیث: 469)(2)الله پاک کی نظرِ رحمت سے محرومی: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔ (1) بوڑھا زانی ، (2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ ، (3)تکبر کرنے والا فقیر ۔( مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان غلط تحریم اسباب الازار والمن‌ بالعطیۃ ، ص 68 ، حدیث: 172)

(3)اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لئے اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، 2/ 339، حدیث: 2308) (4)قحط سالی کا سبب: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب الحدود، الفصل الثالث،1/656 ،حدیث: 3582 )

(5) جنت میں داخل نہ فرمائے گا : حضور نبی اکرم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشا فر مایا : جو عورت کسی قوم میں اس کو داخل کر دے جو اس قوم سے نہ ہو ( یعنی بد کاری کروائے اور اس سے اولاد) تو اسے اللہ پاک کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا ۔ اور اسے جنت میں داخل نہ فرمائے گا۔( ابو داؤد، کتاب الطلاق، 2/406، حدیث: 2263)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! زرا غور کیجئے اس بدکاری کا کیا فائدہ محض لذتِ نفس جبکہ اس کے نتیجے میں اللہ اور رسول کی ناراضگی، نورِ ایمان کا نکل جانا، میدانِ محشر میں ذلت و رسوائی ، اللہ پاک کی نظرِ رحمت اور انعاماتِ جنت سے محرومی اور جنہم ٹھکا نہ بننے کا سبب۔ بدکاری نے نہ کسی کی بلندی میں اضافہ کیا اور نہ ہی کسی کو عزت و شائستگی بخشی بلکہ دنیاو آخرت میں رسوائی ہی کا سبب۔

بدکاری سے بچنے کا طریقہ:بد کاری سے بچنے اور اس سے نفرت پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بندہ قراٰن و احادیث میں جو اس کی مذمت بیان کی گئی ہے اس کا مطالعہ کرے کہ بد کاری سے اللہ اور رسول ناراض ہوتے ہیں اور یہ دنیا و آخرت میں رسوا ہوتا ہیں۔ بروزِ قیامت بد کار اللہ پاک کی نظرِ رحمت سے محروم رہے گا اور عذابِ الہی کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس طرح سو چنے سے بدکاری سے بچنے کا ذہن بنے گا۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں بدکاری سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دین اسلام جس طرح اچھے اعمال کی تعلیمات دیتا ہے اسی طرح برے اعمال سے بچنے کی بھی اس تعلیمات دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو برائیاں بڑی تیزی سے ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک بدکاری بھی ہے۔ اسلام بلکہ تمام بھی آسمانی مذاہب میں بدکاری کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مذمت احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ پانچ احادیث آپ بھی پڑھیے :(1)الله پاک کلام نہ فرمائے گا : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تین شخصوں سے اللہ نہ کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا پہلا بوڑھا زانی ، جھوٹ بولنے والا بادشاہ ، تکبر کرنے والا فقیر۔ ( مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان غلط تحریم اسباب الازار والمن‌ بالعطیۃ ، ص 68 ، حدیث: 172)

(2)الله پاک عذاب میں فرمائے گا : حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ پاک انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث میمونۃ بنت الحارث الہلالیّۃ زوج النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 10 / 246، الحدیث: 26894)

(3) ایمان نکل جاتا ہے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، 4 / 293، حدیث: 4690)

(4) آگ کا شعلہ : حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ اُس میں آگ جل رہی ہے اور اُس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں ۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ تھے ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں ۔( بخاری، کتاب الجنائز، 1 / 467، حدیث: 1386)

(5) زنا حرام ہے : حضرت مقداد بن اسود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہمْ سے ارشاد فرمایا :زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، بقیۃ حدیث المقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ، 9 / 226، حدیث: 23915)

اللہ پاک ہمیں بد کاری جیسے برے کاموں میں سے محفوظ فرمائے ور ہمیں اپنے اعضاء کو اپنی اطاعت والے کا موں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ رب العزت قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ15، بنی اسرآءیل:32)بدکاری کی مذمت میں احادث مبارکہ : (1) اللہ کے محبوب دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص زنا کرتا ہے یا شراب پیتا ہے تو اللہ پاک اس سے ایمان یوں نکالتا ہے۔ جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارے۔ (اس حدیث پاک کی سند جید ہے)۔ (مستدرک حاکم کتاب ايمان ، حديث: 64)

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔(ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، 4 / 293، حدیث: 4290)

(3) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ پاک انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث میمونۃ بنت الحارث الہلالیّۃ زوج النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 10 / 246، الحدیث: 26894)

(4) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لئے اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع، اذا ظہر الزنا والربا فی قریۃ۔۔۔ الخ، 2/ 339، حدیث: 2308)

بدکاری کا حکم : حضرت مقداد بن اسود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے ارشاد فرمایا :زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔(مسند امام احمد، مسند الانصار، بقیۃ حدیث المقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ، 9 / 226، حدیث: 23915)

بدکاری سے بچنے کا طریقہ : چنانچہ حضرت ابوامامہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ’’ ایک نوجوان بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہوا اورا س نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ یہ سن کر صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اسے مارنے کے لئے آگے بڑھے اور کہنے لگے، ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’اسے میرے قریب کر دو۔ وہ نوجوان حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب پہنچ کر بیٹھ گیا۔ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری ماں کے ساتھ کوئی ایسا فعل کرے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، خدا کی قسم! میں ہر گز یہ پسند نہیں کرتا۔ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی ماں کے ساتھ ایسی بری حرکت کرے۔ پھر ارشاد فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری بیٹی کے ساتھ کوئی یہ کام کرے۔ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اللہ کی قسم! میں ہر گز یہ پسند نہیں کرتا۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی بیٹی کے ساتھ ایساقبیح فعل کرے۔ پھر ارشاد فرمایا ’’کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری بہن کے ساتھ کوئی یہ حرکت کرے۔ اس نے عرض کی:یا رسولَ اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، خدا کی قسم! میں ہر گز اسے پسند نہیں کرتا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگ بھی یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کی بہن کے ساتھ ایسے گندے کام میں مشغول ہو۔ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھوپھی اور خالہ کا بھی اسی طرح ذکر کیا اور اس نوجوان نے یونہی جواب دیا۔ اس کے بعد حضور نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے سینے پر اپنا دستِ مبارک رکھ کر دعا فرمائی ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَہٗ وَطَہِّرْ قَلْبَہٗ وَحَصِّنْ فَرْجَہٗ‘‘ اے اللہ !اس کے گناہ بخش دے، اس کے دل کو پاک فرما دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ فرما دے۔ اس دعا کے بعد وہ نوجوان کبھی زنا کی طرف مائل نہ ہوا۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، 8 / 285، حدیث: 22274)

اللہ پاک ہمیں بدکاری کی بیماری سے شفا عطا فرمائے، اے اللہ پاک ہم اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ ہم بدکاری (زنا) میں مبتلا ہوں ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں انسان کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اور اسلام نے مسلمانوں کو اچھی عادات اپنانے اور برائیوں بد کاریوں سے بچنے کا خوبصورت انداز میں درس دیا ہے اور بیشک انسان کو اللہ پاک نے دینِ اسلام کی فطرت پر پیدا کیا ہے اور اللہ پاک خوب بہتر جانتا ہے کہ ہماری فطرت کے کیا تقاضے ہیں اس لئے انسان کو چاہیے کہ اپنے نفس اور غیر فطری اور بری عادتوں اور خصلتوں پر سختی سے کنٹرول کرتے ہوئے دینِ اسلام نے جو قوانین قراٰن و حدیث کی روشنی میں بیان فرمائے ہیں ان پر سختی سے عمل کرتا رہے اسی میں اس کی کامیابی ہے۔

آج اس پُر فتن دور میں طرح طرح کی برائیاں جنم لے چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان تھوڑے ہی ٹائم میں بربادیوں اور ہلاکت خیزوں کی گہرائیوں میں یوں گر جاتا ہے کہ پھر اس پر عذاب اور لعنت مسلط کر دی جاتی ہے اور اس کے وجود کو کوئی نہیں جانتا۔ انہیں میں سے ایک عظیم گناہ زنا (بدکاری) ہے جو آج کل بہت عام ہے۔ اس کے تعلق سے کچھ وعیدیں اور عذابات ذکر کر رہا ہوں تاکہ اسے پڑھ یا سن کر ہمارے مسلمان بھائیو کی آنکھیں کھل جائیں اور اس برے ،بے حیائی، بدکاری والے کام سے باز آجائیں اور آخرت کی فکر میں مصروف ہو جائیں۔

الله پاک قراٰن مجید میں اس بد کاری سے بچنے کے متعلق فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔(پ15، بنی اسرآءیل:32)صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے: ،’’زنا‘‘ اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے ۔ یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں ، جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ گویا دنیا میں عذاب ِ الہٰی کی ایک صورت ہے۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے گا۔ (پ19،الفرقان : 68)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۲۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ29،المعارج:29)

یقیناً زنا ( بدکاری) بہت بڑا گناہ اور یہ بہت بری عادت وبلا ہے جو کہ انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ اب موضوع کی مناسبت سے پانچ احادیثِ طیبہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

(1) شرک کے بعد بڑا گناہ: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شرک کے بعد اللہ پاک کے نزدیک اس گناہ سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ ایک شخص کسی عورت سے صحبت کرے جو اس کی بیوی نہ ہو۔ (کنز العمال، حدیث: 12994 )(2) ایمان نکل جاتا ہے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب مرد زنا (بد کاری) کرتا ہے تو ایمان ان کے سینہ سے نکل جاتا ہے اور سر پر سایہ کی طرح ہو جاتا ہے اور جب بندہ اس عمل سے فارغ ہو جاتا ہے ایمان اس کی طرف واپس لوٹ آتا ہے۔( مراۃ المناجیح شرح مشكاة المصا بيح، ج1،حدیث:60)

(3) قحط میں مبتلا ہونا : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا، وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا، وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔ (مشکاۃ المصابیح، الفصل الثالث،2/252 ،حدیث: 3582 )(4) اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لئے اللہ پاک کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، کتاب البیوع ، 2/ 339، حدیث: 3308)

(5) اللہ پاک نظر رحمت نہ فرمائے گا : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا(بدکاری) کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک ا س کی طرف نظر ِرحمت نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔(مسند الفردوس، باب الزای، 2 / 301،حدیث: 3371)اتنا ہی نہیں بلکہ بد کاری کئی وباؤں مصیبتوں نقصانوں کا مجموعہ ہے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں (1) زندگی کم ہو جاتی ہے (2) رزق کم ہو جاتا ہے (3) چہرے سے رونق کم ہو جاتی ہے (4) آخرت میں خدا کی ناراضگی (5) آخرت میں سخت سوال و جواب (6) جہنم میں جانا اور عذاب کا ہونا۔

قراٰنِ کریم و حدیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ زنا ( بد کاری) بہت بڑا گنا ہے لہذا عافیت و فائدہ اسی میں ہے کہ قراٰن و حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور ان احکام سے درسِ عبرت حاصل کرتے ہوئے زندگی گزاریں تو دنیا و آخرت میں کامیابی مل جائے گی۔ ان شاء الله الکریم

الله پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہمارے تمام گنا ہوں کو معاف فرمائے اور بے حساب مغفرت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم